صفحہ 251
یہ گفتگوئے زرگری ٹکسال ماہر بادشاه گوش زد کر کے یوں گرم سخن ہوا کہ "اے جہان کے نیارے! اگر اس درخت کی بیخ و بنیاد سے تو واقف ہے تو اس بے گناہ کی اشرفیاں حوالے کر دے، نہیں تو ضرب پاپوش سے تیرے سر کی چاندی گداز ہو جائے گی اور سکہ دزدی سے ٹھونکا جائے گا۔" المدعا خوف زد و کوب سے اس مفت بر نے وہ اشرفیاں پنہاں لا کر حاضر کیں، لیکن:
ابیات
سبھی شاہوں کو اے مہجور اس دارالخلافت میں
یہی جائز ہے ایوان طريقت اور شریعت میں
کہ منصف ہو تو ایسا ہو، جو عادل ہو تو ایسا ہو
جو عاقل ہو تو ایسا ہو، جو عامل ہو تو ایسا ہو
8 حکایت
ایک شخص اپنا مالی خوشبو ساز کے پاس رکھ کر
سفر کو گیا؛ چند روز کے بعد سفر سے آ کر
اپنا مال طلب کیا؛ وہ منکر
ہوا، نہ دیا۔ حسب استغاثہ مدعی
حاكم شہر نے فراست
سے دلوا دیا
راویان معطر مشام اور حاکیان معنبر کلام یہ حکایت پر نگہت صفحہ صندلی پر کلک عود خام اور سیاہی مشک فام
صفحہ 252
سے یوں رقم کرتے ہیں کہ ایک شخص نیک بخت، فرشته طینت نے ایک خوشبو ساز دغا باز کو صاحب دیانت بے خیانت جان کر اپنا مال بے زوال سپرد کیا اور برائے سیر کسی شہر کو راہی ہوا۔ بعد انقضائے چند ایام اس نیک انجام نے سفر سے آ کر جو اپنا مال بے زوال طلب کیا تو وہ دغا باز ناساز مال مردم خور، منہ زور کہنے لگا کہ اے عزیز بے تمیز! کچھ وحشی خبطی ہو گیا ہے؟ جا قصد لے، ان باتوں میں خون کی بو آتی ہے۔ مجھ سے کلام پر اتہام نہ کر. کوئی تیری سند کا گواه و شاہد بھی ہے جو ناحق بہتان بے نشان تو کرتا ہے؟" یہ ماجرا حیرت افزا اس کے قرب جوار اور یار غار سن کر کہنے لگے کہ "اے عزیز بے تمیز! تیرا اتہام اس نیک انجام پر کفایت نہ کرے گا" کیوں کہ یہ شخص:
مثنوی
دیانت متانت میں مشہور ہے
یہ خود مال دنیا سے معمور ہے
تو چاهے کرے روشنی اس کی ماند
چھپا ہے کہیں خاک ڈالے سے چاند
جو تو اس سے نا حق کو لڑ جائے گا
تو اپنے کیے کی سزا پائے گا
یہ گفتگو عربده جو اس کے ہمسائے کی سن کر وہ
عزیز با تمیز خاموش ہو گیا؛ دو روز کے بعد حاکم شہر کی ڈیوڑھی پر جا کے مستغاثی ہوا۔ اس حاکم عادل زماں نے پوچھا کہ "اے عزیز با تمیز! کچھ اس کی سند اسناد اور نوشت و خواند بھی رکھتا ہے یا نہیں؟" وہ خود گم کرده جواب ده ہوا کہ "اے حا کم جہاں و اے عادل زماں! سوائے ذات خدا
صفحہ 253
کوئی اس امر کا گواه حسب دل خواه نہیں ہے، مگر اس قول پر شاکر یعں، بقول شخصے" : شعر
کہ بینم کہ تاکردگار جہاں
دریں آشكارا چہ دارد نہاں
اس کا یہ کلام صدق نظام استماع کر کے حاکم وقت نے کہا، "اے عزیز صاحب تمیز! تو بے دل تین روز کامل اس کی دکان پر جا بیٹھ مگر منہ سے کچھ نہ بولنا؛ بعد روز سوم، اے پر غم! میری سواری بہ صد تیاری ادھر کو وارد ہو گی، میں تجھ کو سلام مسنون الاسلام کروں گا، تو وعلیکم السلام کہہ کر چپ ہو رہنا، پھر میں جو تجھ کو کہوں گا تو جواب ده نہ ہونا، مگر ذرا اپنے سر کو بے خطر ہلا دينا؛ کچھ اس میں سر اسر سر با اثر ہے اور میرے رخصت ہونے کے بعد تو اس سے سوال کرنا، پھر وہ جو جواب دے تو تو میرے پاس آ کر اظہار کیجیو، یہ تدبیر پر تاثیر وہ عادل زمان اور حاکم جہاں اس کو سمجھا کے کاروبار ملکی و مالی میں سرگرم ہوا اور یہ عزیز صاحب تمیز بہ صورت وحشیانہ گم کرده آشيانہ اس کی دکان پر بہتان میں آ بیٹھا، لیکن کچھ سوال مال درمیان نہ لايا۔ تين شبانہ روز کامل کے بعد ایک باری حاکم شہر پر قہر کی سواری نمود ہوئی۔
الحمدعا جس وقت وہ حاکم جمال عادل زماں وہاں اس بے نصیب کے قریب آیا، ایک بار اسپ باد رفتار کو استاده فرما کر رسوم سلام مسنون الاسلام بجا لایا۔ اس عزیز صاحب تمیز نے وعلیکم السلام کہہ کر حسب فرمودک حاکم زماں مہر خاموشی سے اپنے لب کو آشنا کیا اور حاکم جہاں اور عادل زماں يوں حرف زن ہوا کہ "اے بے ریائے زماں و اے
صفحہ 254
نا آشنائے جہاں! تو میرے پاس بلا وسواس گاہے گاہے بھی نہیں آتا اور نہ کچھ اپنا احوال پر ملال مجھ پر افشا کرتا ہے، اس کا کیا موجب اور کیا سبب ہے؟" یہ سخن پر فن حاکم سے سن کر وہ عزیز جواب ده نہ ہوا مگر ذرا سر کو جنبش دے کر چپ ہو رہا۔ خیر وہ حاکم زماں تو برائے سیر شہر غدار و باغ رشک بہار کی طرف کو تشریف فرما ہو گیا اور اس عزیز با تمیز نے ایک دو گھڑی کے بعد پھر اس خوشبو ساز دغا باز سے يہ کہا "کیوں بھائی ہمارا مال نہ دو گے؟" تمہاری ہی مرضی ہے تو خیر اچھا مگر اس کا نتیجہ برا ہے، مثل مشہور ہے": مثل
جو ستائے گا کسی کو وہ ستایا جائے گا
یہ گفتگو وہ بد خو سن کر دل میں کہنے لگا کہ "یہ
حاکم عالی مقدار کا یار غار ہے، اگر اس سے اپنا ذکر کرے گا تو ناحق حرمت میں بٹ آجائے گا اور زر کا زر دینا پڑے گا تو وہ مثل اصل ہو گی": مثل
"ملاحی کی ملاحی دی اور بانس کے بانس کھائے"
اس سے تو بہتر ہے، بہ قول شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ: شرع
چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
یہ تدبير وه پر تذویر سوچ کر کہنے لگا کہ "اے عزیز با تمیز! تو نے جس وقت مجھ کو اپنا مال سپرد کیا تھا، کوئی شخص اور بھی اس وقت میرے قریب تھا یا میرے ہی تیرے یہ معاملہ در پیش ہوا تھا؟ مجھ کو ٹھیک ٹھیک بتا دے، شاید کہ فراموش ہو گیا ہو، کیوں کہ: مثل
صفحہ 255
"الانسان مر کب من الخطاء والنسیان"
غرض اس عزیز نے جب تمام و کمال پتا دیا تو وہ دغا باز ناساز یوں گویا ہوا کہ "ہاں راست كہتا ہے، مجھ کو بھی یاد آیا، تیرا مال بے زوال حاضر ہے، لے جا"
ابیات
غرض اس نے جلدی سے لا کر تمام
دیا مال اس شخص کو دام دام
نہ ہوں ایسے عادل جو اے مہر باں
تو معلوم ہو بود و باش جہاں
جو حاکم عدالت سے غفلت کرے
تو سارا جہاں اس پہ لعنت کرے
جع عادل ہیں ان کو تو مہجور سب
دعائیں یہ دل دیتے ہیں روز و شب
9 حکایت
ایک ساہوکار کی امانت لے کر قاضی منکر ہو گیا
اور مدعی علی مردان خان وزیر ہندوستان
داد خواه ہوا؛ نواب موصوف نے
حکمت عملی سے امانت قاضی
سے دلوا کر راضی کیا
قاضیان شرع متین اور مفتیان پیشوائے دین صفحه انصاف پر کلک جگر شفاف سے یوں تحریر و تسطیر کرنے ہیں کہ
صفحہ 256
ہندوستان جنت نشان میں ایک ساہوکار مال دار اس قدر زر وافر رکھتا تھا کہ شاید سپہر بھی صندوقچہ کہکشاں میں اتنے انجم نہ رکھتا ہو گا۔ ایک روز یہ آه جگر سوز اس کی عورت نیک خصلت نے مشوره عاقبت اندیشی سے کہا کہ "اے کان دولت و اے معدن حشمت! اس دولت نا پائدار مستعار کا کچھ بھروسا نہ رکھ، بقول میر حسن: شعر
یہ دولت کسی پاس رہتی نہیں
سدا ناؤ کاغذ کی بہتی نہیں
اس سے بہتر یہ ہے کہ کچھ اشرفیاں خفيہ کسی صاحب دیانت اور مرد بے خیانت کو سپرد کر دے، کس واسطے کہ زمانے کی پستی و بلندی ہر بشر کے لیے در پیش ہے؛ اگر خدا نخواستہ اس روزگار ناپائدار کا دوالا نکل جائے گا تو پھر اوقات بسری میری اور تیری کہاں سے ہو گی؟ اس واسطے کہتی ہوں کہ اگر کچھ کہیں رکیا ہو گا تو وہاں سے زر نقد تھوڑا تھوڑا لینا اور اخراجات لا يدی میں صرف کرنا۔ بھلا قوت لایموت سے تو سير رہیں گے، کیوں کہ بقول میر حسن: شعر
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
وه مشوره نیک وه ساہوکار عالی وقار پسند خاطر کر کے لاکھ روپے کی اشرفیاں اکبر شاہی رات کو قاضی شہر کے قریب لے گیا اور یوں گویا ہوا کہ "اے قاضی شرع متین و اے رہبر دین! تجھ کو صاحب دیانت اور مرد بے خیانت جان کر یہ مبلغ خطیر تیری خدمت فیض درجت میں لایا ہوں؛ اس امانت کو اپنے صندوق دیانت میں رکھ چوڑ۔ جس وقت مجھ کو
صفحہ 257
برائے کار در کار ہو گا، لے جاؤں گا۔" یہ کلام وہ قاضی نافرجام سن کر کہنے لگا: شعر
"رواق منظر چشم من آشیانہ تست
کرم نما و فرود آ کہ خانہ خانہ تست
غرض وہ ساہوکار عالی مقدار وہ اشرفیاں پنہاں قاضی صاحب کو سپرد کر کے گھر میں آ بیٹھا۔ بعد انقضائے چند سال اس نیک اعمال کا وہ سب مال دست گردش گردون دوں اور پیش پائے افلاس بے قیاس سے پامال ہو گیا؛ حتی کہ نان شبینہ تک وہ دل افروز محتاج رہنے لگا۔ آخر کار زوجہ ساہوكار با دل زار یوں کہنے لگی کہ "اے گرفتار الم و اے پامال جور و ستم! وه اشرفیاں پنہاں قاضی کو سپرد کی تھیں، وہ کس دن کے واسطے رکھی ہیں، جا کر تھوڑی سی لے آ اور کاروبار ضروری میں صرف کر۔ یہ گفتگو اپنی جورو نیک خو کی سن کر ساہوكار قاضی شہر کے پاس گیا اور نقد سخن کو درجک دہن سے نکال کر محک امتحان قاضی پر کس کر کہنے لگا کہ "اے قاضی مرد حقانی! اس امانت معلومہ سے ایک سو اشرفی میرے دست تہی میں دے تا کہ کچھ اجرائے کار دنیوی سے فراغت پاؤں۔" یہ کلام وہ قاضی بد انجام استماع کر کے کہنے لگا "اے ساہوكار! تجھ کو خیر تو ہے، کیسی اشرفیاں اور کیا بکتا ہے؟ یہ باتیں کھوٹی مار کھانے کی نشانی ہیں۔" یہ سخن دل شکن قاضی پاجی سے سن کر وه ساہوكار دل فگار با دیدۂ گریاں اور سینہ بریاں گھر میں آ بیٹھا۔
ایک روز کے بعد اس احوال پر اختلال کی عرضی نواب علی مردان خان کو گزرانی۔ نواب موصوف نے اس کا احوال کماحقہ دریافت کر کے یوں اس ساکوکار کے گوش میں
صفحہ 258
گوش زد کیا کہ "اس بات کو ہر گز کسی کے گوش گزار نہ کرنا کیوں کہ دیوار ہم گوش دارد، ان شاء الله تعالی چند روز کے بعد تیری اشرفیاں یک مشت تیرے ہاتھ آئیں گی۔ اس کلام فرحت انجام سے ساہوکار کو یہ صد بشاشت رخصت کیا اور نواب موصوف نے دو چار روز کے بعد قاضی کو بی صد اشتیاق برائے ملاقات اپنے گھر میں بلوایا۔ چند کلام فرحت انجام کے بعد نواب موصوف نے خلوت کر کے قاضی سے کہا کہ "اے زینت مسند دین و اے حاکم شرع متین! تیری خدمت فيض درجت میں یہ عرض ہے کہ کم لوگ ہمیشہ عتاب شاہی میں گرفتار رہتے ہیں، خدا نخواستہ ہم سے کوئی تقصير صغیر و کبیر سرزد ہو جائے اور بادشاہ جم جاہ اس کے مواخذے میں ہمارا گھر بار ضبط کرے تو پھر ہماری زیست خدا جانے کیونکر بسر ہو اور ہمارے بعد نہیں معلوم بال بچوں کا کیا حال ہو جاوے؛ اس واسطے یہ مصلحت دل پزیر خیال میں گزری ہے کہ میری دو لاکھ روپے کی اشرفیاں اپنے پاس بلا وسواس رکھ چھوڑ اور اپنی مہر خاص سے یہ نوشتہ کر دے کہ یہ مال بے زوال علی مردان خان کے عیال و اطفال کا ہے، جس وقت وہ چاکیں لے جائیں": شعر
کہ اس گلشن جاں گزا کی بہار
میں اک و تیر ے پہ ليل ونہار
یہ کلام وه قاضی نافرجام سن کر کہنے لگا "کیا مضائقہ! میرا مکان دل ستان حاضر ہے، جس طرح سے آپ فرمائیے بجا لاؤں۔" نواب موصوف نے فرمایا کہ "بالفعل تو تہہ خانے بنوانے کی تجویز کیجیے، اس کے بعد وہ زرخطیر بہ تدبیر حاضر ہو گا۔" غرض قاضی بے وقوف نواب موصوف کے فقرے میں آ کر
صفحہ 259
درمیان مکان تہہ خانہ بے نشان کی تیاری کرنے لگا۔ الحاصل بعد تیاری مکان مذکور قاضی بے شعور نے نواب موصوف کو یہ رقعہ لكھا کہ "بہ موجب ارشاد عالى مكان امانت اور ایوان دولت تیار ہے، اب بے خوف و خطر اس مصلحت معلومہ کو عمل میں لائیے۔" نواب موصوف نے اس کے جواب میں یہ کلام نیک انجام رقم فرمایا کہ "ان شاء الله تعالی ایک دو روز بعد ساعت سعید میں زنانی سواریوں کے حیلے سے وہ اشرفیاں خدمت شریف میں پنہاں حاضر ہوتی ہیں، لیکن اے بندہ نواز! یہ راز کسی پر افشا نہ ہو۔" ادھر تو نواب موصوف نے یہ رقعہ فريب آماده اس حقیقت کو لکھ کر بھیجا اور ادھر ساہوکار داد خواہ کو طلب فرما کے یوں ارشاد کیا کہ "تو کل اپنا مال اس بد اعمال سے طلب کرنا اور یہ کہنا کہ اگر تو میرا مال اس حال نہ دے گا تو میں تیری نالش کی عرضی علی مردان خان کی وساطت سے بادشاه عالی جاء کو گزرا لوں گا۔ اس کلام نیک انجام سے وہ بدگمان¹ تیری اشرفیاں مقرر دے دے گا، اس میں مطلق فرق نہیں۔"
غرض وہ ساہوكار دل فگار حسب ارشاد نواب علی مردان خان اشرفیاں لینے کو اس قاضی پاجی کے قریب جا کر وہی کلام غيرت التیام درمیان لایا۔ قاضی اپنے دل میں سوچ کر کہنے لگا "اگر اس کی ایک لاکھ روپے کی اشرفیاں آج کل کے درمیان نہ دوں گا تو نو لاکھ روپے کی اشرفیاں علی مردان خان کی یک مشت میرے ہاتھ سے مفت جائیں گی؛ آخر کو غیر از افسوس کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔" یہ دل میں سوچ کر قاضی نے ساہوكار دل فگار کو وہ سب اشرفیاں حوالے کیں اور کہا برائے خدا یہ راز مخفی کسی پر افشا نہ ہو کیوں کہ میرے پاس قضایت کی خدمت
1- یہاں ایک لفظ پر بنائے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔
صفحہ 260
نازک ہے۔" اس کے بعد وه قافی پاجی نواب موصوف کی اشرفیوں کا منتظر رہا، آخر کار وہ مثل ہوئی: مثل
دبدها میں دوؤ گئے، مایا ملی نہ رام
بقول شخصے کہ "ہاتھ کی بھی بر خو کھوئی"
ابیات
غرض سچ ہے مہجور حق دار کا
خدا حق دلاتا ہے یوں بارہا
کسی کا کوئی گر کرے حق تلف
مقرر وہ دنیا میں ہے ناخلف
10 حکایت
دو شخصوں نے اپنا مال ایک پیر زن کو سپرد کیا اور
چلے گئے۔ چند روز کے بعد ان میں سے ایک نے آ کر اپنے شریک کو مرده ظاہر کيا اور وہ مال اس
پیر زن سے لے گیا۔ چند روز کے بعد دوسرے
شریک نے آکر اس پیرزن سے مال طلب
کیا، قاضی نے اس شخص کو معقول کیا
روایان فطرت اساس اور حاکیان تہمت شناس یہ حکایت پر ندرت بہ نوک قلم بول رقم کرتے ہیں کہ دو شخص کچھ زر نقاد ایک پیر زال نیک خصال کو سپرد کر کے یہ کہنے لگے کہ "جس وقت اے نیک بخت! ہم دونوں بہم تیرے پاس بلا وسواس آئیں تو اپنا مال کے زوال لے جائیں": شعر
صفحہ 261
یہ ایں عہد و پیمان وہ دونوں جواں
ہوئے پاس سے پیر زن کے رواں
بعد انقضائے چند روز ایک عزیز نا چیز ان میں سے پیر زن کم سخن کے پاس آ کر یوں گویا ہوا کہ "اے پیر زن لاغر تن! قسم ہے وحده لا شریک کی کہ میرا شریک مال فی الحال نقاد جان لے کر برائے خريد جنس عذاب ملک عدم کو روانہ ہو گیا، وہ مال کے زوال دست بہ دست مجھ کو عنایت کر۔"
چار و ناچار اس پیر زال نیک خصال نے وہ مال تمام و کمال اس کے حوالے کیا۔ کئی روز کے بعد وہ دوسرا شخص پیر زن کم سخن کے قریب آ کر کہنے لگا کہ "اے پیر زن خجستہ پیکر! وه ہماری امانت کم کو دے تا کہ اپنے کاروبار دنیوی میں مصروف و مالوف ہوں، یہ سخن حیرت فگن اس عزیز بے تمیز کا سن کر پیر زال پر ملال کہنے لگی کہ "اے بیٹا! تیرا دوسرا بھائی تیری وفات پر آفات ظاہر کر کے وہ اسباب سب کا سب لے گیا": شعر
یہ بھی قسمت کی کھوٹ تھی میری
یوں جو مقروض اب ہوئی تیری
غرض وہ عزیز بے تمیز اس پیر زن کم سخن کے سخن کا ہر گز شنوا نہ ہوا؛ یہ سیاست کمال قاضی فرخنده فال کے قریب لے گیا اور انصاف طلب ہوا۔ قاضی نے وہ احوال پر اختلال گوش زد کر کے دل میں کہا "ظاہر بعلوم ہوتا ہے کہ یہ پیر زن کم سخن بے تقصیر و بے قصور ہے۔" یہ خیال خیر سگال دل میں کر کے اس ملعون ذوفنون سے قاضی گویا ہوا کہ "اے عزیز بے تمیز! تو اول شرط کیا کر گیا تھا کہ جس وقت ہم دونوں
صفحہ 262
شر یک تیرے پاس بلا وسواس آئیں تو اپنا مال بے زوال لے جائیں، اب اپنے شریک مال بد خصال کو ہمراه لے آ اور اپنا مال تمام و کمال لے جا، لیکن تجھ کو تنہا ایک خر مہره اس بڑهیا سے نہ ملے گا یہ سخن دل شکن قاضی کی زبان سحر بیان سے سن کر وہ عزیز بے تمیز لا جواب ہوا:
مثنوی
سچ کے جس کا سخن دروغ ہوا
اس کو محفل میں کب فروغ ہوا
فی المثل بات ہے يہ لاثانی
'دودھ کا دودھ پانی کا پانی'
لیک مہجور ایسے قاضی پر
آفریں کہیے روز شام و سحر
جس نے دانائی اور فراست سے
پیر زن کو بچایا تہمت سے
11 حکایت
ایک شخص ہزار رویے صراف کو سپرد کر گیا؛
جب سفر سے پھرا، اپنے رویے طلب کیے۔
صراف منکر ہوا، قاضی نے فراست و
دانائی سے اس کے رویے دلوا کے
رخصت کیا
صرافان بازار دل کش معانی اور نقادان عیار خوش زبانی
صفحہ 263
اس حکایت زر ریز کو امتحان کی کسوٹی پر یوں کستے ہیں کہ ایک شخص نے ہزار روپے سکہ حال رائج الوقت ایک صراف حراف کو با دیانت اور بے خیانت سمجھ کر سپرد کیے اور آپ برائے کار ضروری بہ مہجوری اور کسی شہر میںنو چہر کو سفر کر گیا۔ بعد چند مدت مدید اور عرصہ بعيد وه عزیز با تمیز سفر سے آ کر اس صراف حراف سے اپنے زر کا طالب ہوا تو وہ دغا باز، بد چلن پر فن یہ سخن زبان پر لایا کہ "اے رکابی مذہب! ایسی کھوٹی باتوں سے تو میری دیانت میں بٹا لگایا چاہتا ہے، چل دور ہو میرے آگے سے، نہیں تو ایسا ٹھوکوں گا کہ تیری جان تن سے نکل جائے گی اور ضرب پاپوش سے تیرے سر کی چاندی گداز کر دوں گا؛ تجھ سے نیارے اور بہروپیے کرارے میں نے اس سکہ صرافی میں بہت پرکھ ڈالے ہیں؛ پس تیری جھوٹی آنت سانٹ کچھ سود نہ کرے گی۔"
یہ گفتگو اس عربده جو کی سن کر وہ عزیز با تمیز نہایت جل بھن کر دست افسوس ملتا قاضی شہر کے آگے گیا اور یوں داد خواه ہوا کہ "اے قاضی شرع متین و اے حاکم اوامر دین! تیری عدالت کی ٹکسال میں میری محنت اور ریاضت کی درشنی
ہنڈوی نہیں سکرتی": شعر
جو انصاف اس کا نہ ہم پائیں گے
تو جھوٹوں سے سجے نہ بر آئیں گے
الحاصل بعد در بافت احوال کثیر الاختلال قاضی نے اس داد خواه سے کہا کہ "اے عزیز با تمیز! اس احوال صادق مقال کو اب کسی سے ہر گز نہ کہنا؛ دو چار روز کے بعد تیرے روپے اس کی بے دیانتی کی تھیلی سے نکل آئیں گے۔" غرض
صفحہ 264
قاضی نے اسے تشفی اور تسلی سے رخصت کیا اور اس صراف حراف کو قاضی نے خلوت میں بلوا کر کہا کہ "اے افسر دیانت داران و اے تاج سر ساہوكاران! تیری نجابت اور شرافت مردان راست گو اور منشیاں نیک خو سے کماحقہ ہم پر ثابت ہوئی، اس واسطے تکلیف ده ہوا ہوں کہ میں بالفعل آور خدمت سے یہ عنایت حضور پر نور سر افراز و ممتاز ہوا چاہتا ہوں، کوئی ایسا رفیق و شفیق شر یک حال نہیں ہے جو اسے اپنی نیابت کا خلعت دوں، سو میں نے تجھ کو نہایت صاحب دیانت اور ذی لیاقت سمجھ کر نائب صاحب تجویز کیا ہے۔" یہ کلام فرحت انجام وہ ناکام نافرجام خر بے دم سن کر مارے خوشی کے اپنے پیرہن میں گدھے کی صورت ہھولا نہ سمایا، مگر وہ احمق مطلق یہ نہ سمجھا، بقول شخصے: ع
آدمیاں گم شدند ملک خدا خر گرفت
ایک بار بے اختیار ہنس کر کہنے لگا "بہت خوب! دیکھیے کیسا سر انجام کار سرکار بہ اہتمام تمام کرتا ہوں۔" قاضی نے متبسم ہو کے کہا "دریں چہ شک ست۔"
الغرض قاضی نے اس ساده لوح کو باغ سبز کی بہار دکھلا کر رخصت کیا اور اس داد خواہ کو بلوا کر کہا کہ "اس صراف حراف کے پاس بلا وسواس جا کر کہہ کہ اے بد کردار ناہنجار! اگر میرے روپے نہیں دیتا ہے تو چل میرا اور تیرا انصاف صاف صاف قاضی کے رو برو دو بدو انفصال پا جائے گا۔ اس گفتگو عربدہ جو سے وہ دغا باز ناساز تیرے روپے بلا تکرار حاضر کرے گا۔" آخر وہ دل فگار جو اس صراف حراف مار کے پاس جا کر یہ گفتگوئے فریب آماده در میان لایا تو وہ بے ایمان
صفحہ 265
......شیطان دل میں کہنے لگا کہ اگر اس سے اب گفتگو دو بدو کروں گا یا قاضی کے قریب جاؤں گا تو عدالت کی نیابت مفت ہاتھ سے جائے گی، اس بات سے یوں بہتر ہے کہ اس کے رویے اس روپ سے دیجیے کہ کوئی کانوں کان نہ جانے؛ یہ بندش دل میں باندھ کر وہ ساده لوح کہنے لگا کہ "اے عزیز با تمیز! اپنی خاطر فاتر جمع رکھ، تیرے رویے کل مجھ کو بھی کھاتہ دیکھنے سے یاد آئے؛ وہ رویے بلا قصور حاضر ہیں، لے جا، مگر مجھ سے یہ قول و قسم کر کہ یہ راز کسی پر افشا نہ کروں گا، تو ایک ہزار کیا میں دو ہزار روپے دوں گا۔" یہ عزیز با تمیز اپنے ہزار روپے کو رو بیٹھا تھا نہ کہ دو ہزار ملتے ہیں، بقول شخصے: مثل
چپڑی اور دو دو
غرض جس طرح اس بد طینت نے اس کو کہا، وہی بجا لایا بقول شخصے: ع
زمانه با تو نہ سازد تو با زمانہ بہ ساز
اپنی غرض کو گدھے کو باپ بناتے ہیں
الحاصل وہ عزیز با تمیز اس سے روپے لے کر قاضی کے جان اور مال کو دعائیں دیتا اپنے گھر سدهارا اور یہ لعین بے دین دوسرے روز بہ لیاقت تمام قاضی نیک نام کے پاس یہ طمع نیابت قضایت گیا۔ قاضی نے بہ صد تشفی و تسلی کہا کہ "بالفعل تو ابھی میرے کام میں کچھ تامل اور تساہل ہے، وقت رو بکاری سواری بھیج کر تمھیں بلوا لوں گا۔" یہ کلام قاضی نیک انجام کا سن کر نہايت ملول وه نا معقول اپنے گھر میں آیا اور دل میں سخت نادم ہو کر یوں کہنے لگا کہ "ہائے نیابت کی طمع میں
صفحہ 266
دو ہزار رویے مفت ہاتھ سے گئے، بقول شیخ سعدی شیرازی عليہ الرحمہ:
ابیات
"بخت و دولت بہ کار دانی نیست
جز یہ تائید آسمانی نیست"
لیکن اے مہجور! گر ہے عقل مند
گوش کر تو یہ فرید الدین کی پند
"بر تو باید اے عزیز نام ور!
گز چنیں مکاره باشی پر حذر"
12 حکایت
دو برادر سر کو روانہ ہوئے اور اثنائے راہ میں کیسہ پر زر
مع دو لعل احمر پایا، اس کے باہم دو حصے کیے
بڑے بھائی نے اپنا حصہ چھوٹے بھائی کو دے کر
رخصت کیا اور کہا کہ "میرا حصہ گھر جا کر
میری زوجہ کو دینا" اور آپ سفر کو گیا.
چھوٹے بھائی نے زر نقد بڑے بھائی کی
زوجہ کو دیا اور پارۂ لعل اڑا لیا اور
بھائی سے کہا "میں نے تیری زوجہ
کو حوالے کیا" یہ قصہ بادشاه
نے فیصل فرما دیا
جواہر شناسان كامل فن اور گوہر فروشان تازه سخن یہ
صفحہ 267
حکایت لعل بے بہا صفحہ طلا پر یوں رقم کرتے ہیں کہ دو برادر یہ جان برابر بہ حال مضطر سفر کو راہی ہوئے . الحاصل پہلی منزل میں وہ اپنی منزل مقصود کو پہنچے، یعنی اثنائے راه میں ایک کیسہ پر زر مع دو لعل خوش تر ان کے صدف دست میں آیا۔ اس دولت غیر مترقب کو پا کر چھوٹے بھائی نے کہا "اے برادر عالى قدر! حاصل سفر تو بر آیا، اب آگے جانے سے کیا فائدہ، اب اپنے غریب خانے میں چل کر بہ فراغت تمام بہ صد آرام اوقات بسر کیجیے: شعر
کیوں کہ ایسی رقم لگی ہے ہات
جس سے اپنی کٹے گی خوش اوقات"
برادر کلاں نے کہا "اے بھائی! فی الحقیقت ہے، مگر مجھ کو سیر جہاں و کوه و بیاباں کی رغبت نہایت ہے، کس واسطے، بقول شخصے: مثل
ان نینوں کا یہی بسیکھ
یہ بھی دیکھا وہ بھی دیکھ
اے برادر عزيز القدر! تو گھر میں چل، میں بھی چند روز کے بعد آرہوں گا، الغرض اس مال بے زوال کے بڑے بھائی نے برابر دو حصے کر کے کہا 'اے بھائی دل شیدائی! یہ میرا حصہ مع لعل بے بہا میری جورو نیک خو کو سپرد کر دینا، باقی تو اپنے حصے کا مالک و مختار ہے۔" یہ گفتگو وہ نیک خو چھوٹے بھائی سے کر کے آپ برائے سیر شہر و دیار و گزار روانہ ہوا، لیکن اس عزيز نا چیز نے بڑے بھائی کا حصہ اپنی بھاوج کو دیا، مگر لعل بے بہا اپنی جیب دغا میں چھپا رکھا۔ بعد انقضائے چند ایام وہ نیک انجام سفر سے جو گھر میں آیا تو وہ پارۂ لعل بے بہا نہ پایا تو اپنی جورو نیک خو سے یوں ہم کلام ہوا کہ
صفحہ 268
"اے یاقوت لب و اے عالی نسب! سچ کہہ، وہ پاره لعل بیش قمیت میں نے جو بھیجا تھا، کیا کیا؟" یہ سخن حیرت فگن وه زن سن کر یوں کہنے لگی:
ابیات
"میں نہیں آگاه تیرے لال سے
ہاں مگر واقف ہوں نقدی مال سے
سو وہ سب موجود میرے پاس ہے
لال کیا ہے چیز کیا اجناس ہے؟"
القصہ بڑے بھائی نے جو چھوٹے بھائی سے پوچھا کہ "اے صدف گوہر دغا! وہ لعل بے بہا تو نے کیا کیا؟" اس کے جواب میں اس نے کہا "تیرا لعل بے بہا تیری جورو نیک خو کو میں نے حوالے کر دیا: شعر
ہے عجب طرح کی یہ تیری بوجھ
مجھ سے کیا پوچھتا ہے اس سے پوچھ"
یہ کلام وحشت التيام وہ مضطر سن کر کہنے لگا کہ "وہ تو کہتی ہے کہ میں سینہ شق مطلق نہیں واقف ہوں۔" چھوٹے نے کہا "دروغ کہتی ہے۔ حاصل کلام بہ ایں قیل و قال آپس میں جنگ و جدل ہونے لگی۔ بڑے بھائی کی جورو نے اس قصے کی قاضی سے داد فریاد کی۔ قاضی نے ان دونوں کو طلب کر کےپوچھا کہ "اے عزیز بے تمیز! تو نے جس وقت اس زن کو پاره لعل بے ںہا دیا تھا، اس وقت کا کوئی بھی گواه حسب دل خواه رکھتا ہے یا نہیں؟" اس عزیز ناچیز نے کہا "اس امر کے شاهد عادل اور واقف کامل دو اشخاص خاص موجود ہیں۔" قاضی نے حکم دیا کہ ان گواہوں کو حاضر کر۔ غرض یہ ملعون ذوفنون
صفحہ 269
دو شخصوں کو کچھ زر نقد دے کر گواه قلب و شاهد تغلب سچے لعل کو جھوٹا کرنے کو قاضی کے آگے لے گیا اور وہ دونوں لعین بے دین قاضی سے قسمیہ کہنے لگے کہ واقعی اس نے پارۂ لعل جیب سے نکال کر میرے سامنے اس کی جورو کے ہاتھ میں دیا تھا، قاضی کم عقل نے اس مدعی سے کہا "اے عزیز با تمیز! اپنا لعل بے بہا اپنی جورو سے لے اور اس سے دست بردار ہو۔" یہ سخن دل شکن قاضی کی زبان سے سن کر وہ زن بادیدہ گربیان اور پہ مژگان خوں چکان بادشاه عالم پناه سے داد خواه ہوئی۔ بادشاه عالی جاہ نے کہا "اے زن دل شکن! اس کا انصاف قاضی شہر سے کیوں نہیں چاہتی ہے؟" اس زن کم سخن نے کہا "اے بادشاه جم جاہ! قاضی شہر نے میرا انصاف صاف صاف نہ کیا۔" بادشاه عادل زبان اور حا کم جہاں نے دونوں بھائی اور دونوں گواہوں کو طلب فرما کے قدرے قدرے موم کافوری ہر ایک شخص کو جدا جدا ديا اور بہ نرمی یوں فرمایا کہ "اس موم سے ہر ایک لعل کی صورت جدا جدا جا کر بنا لاؤ۔"غرض ان دونوں بھائیوں نے جیسا کہ وہ لعل بےبہا تھا، ویسی ہی صورت بے کدورت بنائی مگر دونوں گواہوں روسياہوں نے کبھی لعل کی شکل نہیں دیکھی تھی، صورت مختلف بنا کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ شہنشاہ عادل زماں نے اس زن کم سخن کو بھی فرمایا کہ تو بھی کہ تو بھی ایک لعل کی شکل تیار کر لا۔ اس زن کم سخن نے تو کبھی لعل کی صورت نہ دیکھی تھی مگر عقليہ اس نے کہا کہ لعل بے بہا نہایت قیمت رکھتا ہے، اس کی شکل بڑی ہو گی، یہ ایں دانائی ایک چیز واہی تباہی بنا کر بادشاه عالی جاہ کے قریب لے گئی۔ بادشاہ عالم پناه اس لعل بے بہا کو ملاحظہ فرما کے دل میں کہنے لگے کہ فی الحقیقت یہ زن لبے تقصیر
صفحہ 270
ہے، اس نے لعل کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن جب گواہوں کے لعل تغلبی بنانے پر بادشاہ جم جاہ نے مارے طمانچوں کے منه لال کروائے تو وہی روسیاه پر گناہ کہنے لگے کہ "اے بادشاہ عالی جاه! ہم نے طمع زر نقد سے جھوٹی گواہی دی تھی: شعر
واجب القتل ہیں خنجر کے سزا وار ہیں ہم
ہاں میاں سچ ہے کہ ایسے ہی گنہ گار ہیں ہم
غرض بادشاه عالم پناه نے فراست و دانائی و عقل آرائی سے اس کے چھوٹے بھائی سے وہ پاره لعل بے بہا دلوا دیا۔
مثنوی
یہ انصاف مہجور جیسا ہوا
جیاں میں کسی سے کم ایسا ہوا
حکومت میں حاكم ہو اس طرح غرق
تو لعل و خذف ميں نہ کیوں کر ہو فرق
جو حاکم کو اپنا بھی سوجھے پلاؤ
تو جو اور گندم بکیں ایک بھاؤ
غرض حاکموں کو بہ قول حسن
سناتا نہیں کوئی اتنا سخن
کرو سلطنت لیک اعمال نیک
کہ تا دو جہاں میں رہے حال نیک