اسکین دستیاب نورتن

مقدس

لائبریرین
صفحہ 53

حمد و سپاس کے نہایت اور ثنائے بے قیاس و بے غایت اس جناب احدیت اور شان الوهیت کو کہ جس کا ظہور پر نور ہر جا جلوہ گر ہے۔ فی الحقیقت بقول میر درد:

جگ میں آ کر ادهر ادهر دیکها
نظر آیا وہی جدھر دیکھا

اور امجد علی خان یوں کہتے ہیں:

از بس کہ چها رہا ہے عالم میں نور اس کا
ہر برگ و ہر شجر میں دیکهو ظہور اس کا

اور یہ اشعار آب دار بیر حسن مرحوم کے بھیم مشہورہیں۔

نہ گوہر میں ہے اور نہ ہی سنگ میں
وہ لیکن چمکتا ہے ہر رنگ میں
تامل سے گر کیجیے غور کچھ
تو سب ہے وہی اور نہیں اور کچھ

اور چشم حقیقت اور دیدۂ معرفت سے بہ غور جو دیکھیے تو وصالی مرد متقی نے سچ کہا ہے:

صفحہ 54

کہ بہ چشمان دل میں جز دوست
ہر چہ بینی بداں کہ مظہر اوست

لیکن اے یارو! اے مہر بانو!:

رباعی

اک عیش و طرب کا مبتلا ہے جگ میں
گلزار پہ جی سے اک فدا ہے جگ میں
میں اس پہ فدا ہوں جان و دل سے مہجور
جس کا جلوہ یہ ہو رہا ہے جگ میں

مناجات

تری درگاہ میں اسے ذات باری!
بہ دل میری یہی ہے خواست گاری

کہ اس قالب میں جب تک دم میں دم ہو
ہر اک دم یاد سے تیری بہم ہو

کوئی دم یاد سے غافل نہ ہوں میں
سدا اس یاد سے شاداں رہوں میں

جہاں کی یاد کر دل سے فراموش
کر اپنے عشق میں دن رات مدہوش

اگرچہ واقعی تو وہ خدا ہے
کہ بندے سے نہیں اک دم جدا ہے

ولے چشم حقیقت میں ہیں ہم کور
بظاہر گرچہ ہیں کہنے کو منہ زور

ہر اک یہ جانتا اور بوجھتا ہے
و لے مطلق نہیں کچھ سوجھتا ہے

صفحہ 55

خدا وندا! مرے جرم و خطا کو
بہ دامان عطا تو ڈهانپ ليجو

بہ حق احمد مختار و حیدر
بہ حق حضرت زهرا و شیر

بہ حق حضرت شبیر یا رب
بہ حق عابد دل گیر یا رب

تری درگاہ میں از پہر حاجات
مری مقبول ہووے یہ مناجات

نعت سید المرسلین، خاتم النبيين ، محبوب رب العالمين شفیع المذنبین صلی اللہ عليہ و آلہ واصحابہ وسلم

اور درود اس سرور کائنات، پاک ذات، عالى درجات، نیکو صفات کو سزا وار ہے کہ جس کو اللہ تعالی نے اپنے نور سے خلق کیا، چنانچہ قول شیخ سعدی اظہر من الشمس ہے:

کلیمی کہ چرخ فلک طور اوست
شمہ نور ہا پرتوی نور اوست

اور محمد قائم بھی سچ کہتے ہیں:

نہ ہوتا وہ اگر زینت دہ خاک
تصدق خاک پر ہوتے نہ افلاک
غرض جو کچھ کہ آس کا مرتبا ہے
وہ خود ہے عالم اس کا یا خدا ہے

اور اپنے نزدیک تو یوں ہے:

صفحہ 56

رباعی

کیا اس کی صفت کرے زبان ادراک
خود حق نے کہا ہو جس کے حق میں لولاک
ظاہر میں تو یوں ہے پر یہ باطن دیکھو
ظاہر کيا نور اس نے اپنا از خاک

فی الواقعی اس میں کچھ دروغ نہیں، چنانچہ اس کے مطابق یہ کبت ہے: کبت

جادن نور نبی کو ہتو تادن ہتو نہیں لوح نہ کلم
کیتے اکاس پتال گئے اور کیتے رہے جگ میں متكلم
اک لاکھ کی ہزار پیمبر کا ہو کو دین رہو نہ مسلم
آخر نور ظہور رچے یہی صلى اللہ عليہ وسلم

منقبت حضرت امیر المؤمنین حامی دین اسد اللہ سرور غالب علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنه اور درود و سلام اس امام عالی مقام، نائب خير الانام پر واجبات سے ہے کہ جس شکنندہ قلعہ خیبر، قاتل عمر و انتر کی شان میں باغ جناں میں ہر زمان حور و غلمان یوں کہتے ہیں: عربی

الا فتی الاعلى لاسیف الا ذوالفقار

شعر

بیان ہوں کس سے اس کے اور اوصاف
مثل ہے یہ کہ چهوٹا منہ بڑی بات

صفحہ 57

صفت آل و اصحاب فیض مآب رضی اللہ تعالى عنہم
اور ہزاروں ہزار تحائف کبار اور ہدایہ بے شمار اس کی آل و اصحاب فیض مآب پر نازل ہو جيو: ابیات

کہ ہے جن کے باعث قيام جہاں
کسی نے یہ پايا ہے رتبہ کہاں
انہیں کے سبب حشر تک بر زمیں
رہے گا شگفتہ یہ گلزار دیں

احوال خود

سخن دان عیسی نفس اور منشیان سخن اس پر مخفی اور پوشیدہ نہ رہے کہ یہ ہیچ مدان، دل پریشان، محند بخش نام، متخلص بہ مہجور، خلف حكيم خير اللہ مغفور، شاگرد میاں جرأت مرحوم ہمیشہ نقل ہائے عجیب و قصہ ہائے غریب سے ذوق و شوق رکھتا تھا۔ اگرچہ اس نالائق، رد خلائق نے سابق میں انشائے گلشن نوبہار، غیرت گلزار اور انشائے چار چمن، دل لگن، پر از قصص دل فریب، فسانہ ہائے عجیب بہ عبارت رنگین اور مضمون نو آئین زبان اردو میں تحریر و تسطیر کی ہیں مگر اس زمانہ تعطیل و زندگی قلیل میں بلبل فکر گلشن خیال میں یوں چہچہہ زن ہوا کہ اب اور سادہ عروس کاغذ کو حليہ نگارش افسانہ رنگین اور حکایات نگارین سے محلی کیجیے اور زلف معشوقہ سخن کو شانہ کاری زبان خامہ جادو طراز سے بہ صد آراستگی سنوار کر نام دلارام اس نیک انجام کا انشائے "نو رتن" رشک چمن، گلزار جہان میں سر سبز کرے اور اس کا گلدستہ نورستہ نو باب پر مرتب کیجیے، بقول میر حسن:

صفحہ 58

رہے گا جہاں میں میرا اس سے نام
کہ ہے یادگار جہاں یہ کلام

اور مولوی جامی علیہ الرحمتہ بھی سچ کہتے ہیں، بیت:

نوشتہ بماند سپہ سفید
نویسندہ را نیست فردا امید

پہلا باب : عاشقوں اور معشوقوں کے افسانے میں۔
دوسرا باب : عورتوں کے چر تروں میں۔
تیسرا باب : داد خواکوں کے عدل میں۔
چوتھا باب : بادشاہوں اور فقیروں کے مصرع کہنے میں اور شاعروں کے فی البدیہ مطلع کرنے اور بادشاہوں کے چھمجھا کہنے اور کبیشر وں کے گیت کہنے میں۔
پانچواں باب : ظریفوں کے لطائف میں۔
چھٹا باب : عاقلوں کی نقلوں میں۔
ساتواں باب : احمقوں کی نقلوں میں۔
آٹھواں باب : افیونیوں کی نقلوں میں۔
نواں باب : بخیلوں اور منحوسوں کی نقلوں میں۔

لیکن جو ہریان سخن سنج اور مقیان نے رنج کی خدمت فيض درجت میں ملتمس ہے کہ فکر رسا اور طبع تیز پا لیے دریائے سخن میں غوطہ زن ہو کر اس انشائے نورتن، رشک چمن بے بہا کو جواہر عبارت سے آراستہ و پیراستہ کیا ہے۔ جس مسلسل بیانی و تسلسل معانی میں کوئی گوہر لفظ بے جلا نظر آئے تو اس کو دست یاری، صنعت کاری سے چرخ اصلاح پر چڑها کر جلا کریں، کس واسطے کہ:

خورشید نظر جو کرد بر سنگ
تحقیق کہ لعل سے بہا شد

مگر اے مہجور بے شعور! جب تک اس کتاب نایاب کی دستار رشک بہار پر حضور پر نور کی توصیف کا طرہ نہ ہو

صفحہ 59

تب تک اس عبارت پر فصاحت کی بندش اور لپیٹ آگے سے پیچھے تک کسی پیچ سے نہ کھلے گی۔ تو اب لازم ہے کہ قصیدے کے طور پر الفاظ رنگین اور مضامین نگارین بہم پہنچا کر اس رنگ کا بند نو باندھ کے جس کے صلے میں ایسی دستار سر بستہ خلعت پر زر حضور لامع النور سے عنایت ہو کہ جس سے افلاس بے قیاس تیرے سر سے لتی کر جائے: اشعار

بھید یہ تجھ کو بتانا تھا ضرور
اس لیے کہتا ہوں سن اے بے شعور!
شاخ نرگس سے کوئی لے کر قلم
یہ قصيدہ برگ گل پر کر رقم

قصيدہ نواب وزير الممالك، رفعت الدولہ، رفيع الملك غازی الدین حیدر خان بہادر شہامت جنگ کی مدح میں

مدح تیری کیا کروں اسے زینت¹ ہندوستاں
کشور تقریر میں گویا نہیں میری زباں
جود و بخشش میں ترا ثانی نہیں آیا نظر
روم سے لے شام تک اور شام سے تا اصفہان
برسے اے بحر کرم² جس جا ترا ابر عطا
در مکنوں کیا عجب ہے جو کہ ہوں پیدا وہاں
بار احسان سے ترے اے مہر بخشش آج تک
ہے زمیں زر ريز ساری اور دو تا ہے آسماں
چار سو تیری شجاعت کا ہے شہرہ آج کل
ہیں گداے در ترے وہ جو ہیں زر دار جہاں

1- نسخہ مطبع محمدی بمبئی 1311ء میں "خسرو" ہے۔
2- نسخہ مطبع محمدی بمبئی 1311ء میں "ابر کرم" ہے۔


صفحہ 60

قطعہ

جس طرح تیری بدولت آج کل تیرے رفیق
زر سے پر رکهتے ہیں اپنی جیب کو اب ہر زماں
اس طرح گر¹ دیکھیے تو چرخ پر انجم کی جمع
اپنے کیسے میں نہ رکهتی ہو گی ہر گز کہکشاں
جس پہ تو نے کی سخاوت کی نظر اس نے کبھی
اپنے جیتے جی نہ دیکھا پھر کسی کا آستاں
ہر تونگر سے جہاں کے ڈیوڑھی دولت رکھتے ہیں
تیری دولت سے در دولت کے سارے پاسباں
تیری ہمت ایسی عالی ہے کہ ادنی سا نفر
بخش دے اصطبل سے کتنوں کو گھوڑے گھوڑیاں

تعریف شجاعت

میں شجاعت کے تری اوصاف کیونکر لکھ سکوں
میرے خامہ اور زبان میں اتنی طاقت ہے کہاں
زور وہ حق نے دیا ہے تجھ کو اب اس دور میں
گیو اور رسم سے گر پر زور ہوں دو پہلواں
شک نہیں اس میں کہ ان دونوں کو دو انگشت سے
اس طرح ٹکرائے تو جیسے ہوں طفل بے زباں
اور اگر دست مبارک دے ذرا ان کو فشار
دونوں آپس میں بہم ہو جائیں اک قالب دو جاں
اور زمین پر دے پٹکنے کا جو عزم طبع ہو
تو نہ پھر ڈھونڈنے ملے ان کا کہیں نام و نشاں

1- نسخہ مطبع محمدی بمبئی 1311ء "پر دیکھیے" ہے۔

صفحہ 61

تعریف شمشير

وصف کس منہ سے کروں تیری حسام تیز کا
جوہر معنی اگر پیدا کرے میری زباں
لیکن اتنا جانتا ہوں تو اگر ضربت لگائے
کاہ سے بد تر نظر آنے لگے کوہ گراں
شک نہیں اس میں کہ اس کو کاٹ کر مثل خیار
یک قلم کر دے قلم گاو زمین کے استخوان

تعریف اسپ

تیرے گلگوں کی صفت میں کیا کروں اے شہسوار
فرش گل پر تو گلستاں میں جو ہو گرم عناں
یوں پھرے نرمی سے اس پر جس طرح باد سحر
چلتی ہے آہستہ آہستہ میان بوستاں
اور اس گگوں کی جلدی کا بیان میں کیا کروں
گر اسے پھینکے ڈپٹ کر منہ سے اتنا کہہ کے ہاں
اس طرح غائب ہو "ہاں" کے ساتھ وہ اس طور سے
دیکھ کر معشوق کو اڑ جائے رنگ عاشقاں

تعريف فيل

آسمان جاہ و حشمت ہے سواری کا جو فیل
کیا کہوں اس کی بلندی اور اس کی خوبیاں
وصف میں دانتوں کے اس کے ایسے دو مصرعے کہوں
روز و شب روشن دلوں کے جو رہیں ورد زبان

صفحہ 62

مطلع

دیکھ کر دانتوں کو اس کے یوں کہیں اہل جہاں
یہ شب تاریک میں روشن ہيں دو شمعیں یہاں
عقد پرویں کہیے اس کے پاؤں کی زنجیر کو
کہکشان کا بان ہے اور مہر و مہ کی چرخیاں
ماہ نے پیچک کو اپنی کھول کر اس کے لیے
چرخ کی گردش میں راتوں کو بٹی ہے ریسماں
اس کے ہودج میں جو نکلے بیٹھ کر تو رشک مہر
دیکھ کر تجھ کو عجب سے یوں کہیں اہل جہان
عمر بهر دیکها نہ تھا خورشید تاباں رات کو
سیر یہ دیکھی زمیں پر آج زیر آسماں

تعريف محفل

بزم کا تیری یہ نقشہ ہے اگر دیکھے کوئی
عمر بھر ششدر رہے گھر جا کے وہ آئینہ ساں
دیکھیے تو ہم نشیں پہنے ہوئے زریں لباس
گرد بیٹھے ہیں ترے سب یوں بچھائے کرسیاں
جس طرح تارے چھٹکتے¹ ہيں قمر کے آس پاس
تیرا کمرا² صاف دکھلاتا ہے رنگ آسماں
ہولی کے موسم میں تیری بزم کا دیکھا جو رنگ
غٹ کے غٹ باندهے ہوئے دامن حسينان جہاں

1- نسخہ مطبع محمی بمبئی 1311ء میں "چمکتے ہیں" ہے لیکن میور پریس والے نسخے میں "چھٹکتے ہیں" ہے۔

2- نسخہ مطبع محمدی بمبئی 1311ء میں "مکھڑا" ہے لیکن میور پریس دہلی 1872ء کے نسخے میں "کمرا" ہے۔

صفحہ 63

پھرتے ہیں رنگ شفق میں شکل مہ ڈوبے ہوئے
ہاتھ میں مثل ثريا لے کے سب پچکاریاں
آنکھ اٹھا کر جس طرف دیکھا تو باندھے اپنا غول
ہر طرف کو پھرتی ہیں اس روپ سے سب رنڈیاں
دست رنگیں میں ہے دف اور گیند گل صد برگ کے
چھاتیوں پر بھی دوپٹے کی بندشی ہیں گاتیاں
اور کہیں آپس میں ہولی کھیلتی ہیں وہ جو سب
آن پری رویوں کا نقشہ کیا کروں میں اب بیاں
کوئی ملتی ہے عبیر اور کوئی ملتی هے گلال
اور کوئی پیچھے کسی کے دے رہی ہے تالیاں
اور کوئی منہ سے گلابی دو لگائے اینڈتی¹
پھرتی ہے ہر سمت کو کھولے نشے میں چھاتیاں
کوئی ہاتھ اپنا دو گانا کے گلے میں ڈال کر
اس کے ہونٹوں کی لب جو پر ہے لیتی مچھیاں
کوئی پہنے لال کپڑے اور ملے منہ پر گلال
جلوہ گر یوں ہے شفق میں جیسے مہر آسماں
اور کوئی ساده رو منہ پر ملے ہے یوں عبير
دیکھ کر جس کو یہی کہتے ہیں دانائے جہاں
غور سے دیکھا تو یہ جانا کہ ہلکے ابر میں
چاند اترا ہے زمیں پر جھپ کے زیر آسمان
اور کسی نے جو کسی کے منہ پہ پھینکا ہے عبير
تو وہ خم گردن کیے ملتی ہے اپنی انکھڑیاں

1- میور پر یس 1872ء میں "اینڈتی" ہے لیکن نسخہ مطبع مہدی بمبئی میں "اینٹھتی" ہے۔

صفحہ 64

اور کسی نے جو کسی کے¹ زور سے مارا ہے گیند
تو وہ جھنجھلاتی ہے بیٹھی اپنی پکڑے چھاتیاں
اور کسی کو جو کسی نے تر کیا یے رنگ میں
تو کھڑی وہ کانپتی ہے بید سی تھر تھر وہاں

قطعہ

اور کوئی دست حنائی میں چھپائے قمقمہ
یوں کھڑی ہے آن پری رویوں کے غٹ کے درمیاں
دیکھ کر جس کو یہ کہتے ہیں عجب سی جوہری
پنجہ مرجاں میں کوئی لعل ہے گويا نہاں
اور کہیں آپس میں سب وہ با دف و چنگ و رباب
یہ غزل مہجور کی پھرتی ہیں ہر سو گاتیاں

غزل

کیا ہمیں سیر چمن سے کام ہے اے مہر باں!
خار آنکھوں میں نظر آتا ہے اس بن بوستاں
آپ ہم ڈویے ہوئے ہیں اپنے غم کے رنگ میں
کس سے کھیلیں پھاگ کس کے ساتھ گائیں ہولیاں
چنگ کی آواز تیر آه ہے دل کے لیے
ہے صدائے نوحہ سے بد تر سرود مطرباں
تب سے چلاتے ہیں بیٹھے گوشہ زندان میں ہم
جیسے باہر اپنے قبضے سے ہے وہ ابر و کماں
دشت الفت میں حجاب عشق کا ہو کیوں نہ لطف
ليلى محمل نشیں کا قيس ہو جب سارباں

1- مطبع محمدی پریس 1311ء میں "کسی کو" ہے لیکن میور پریس 1872ء والے نسخے میں "کسی کے" ہے۔


صفحہ 65

الغرض ان ماہ رویوں کی زبان سے یہ غزل
محفل عشرت میں سن اور دیکھ ہولی کا سماں
یوں جناب احدیت میں کی دعا مہجور نے
یا الٰہی جب تلک قائم رہے سارا جہاں
يوں ہی با عیش و طرب دنیا میں دائم خوش رہے
غازی الدیں حیدر نواب فخر خسرواں
اور جو دشمن باطنی ہوں دوست ہو ان کی اجل
خواہ اس میں طفل ہوں، یا پیر ہوں، یا نوجواں


صفحہ 66

پہلا باب

عاشقوں اور معشوقوں کے افسانے میں

داستان ایک عورت کے طلب کرنے میں ایک مرد
نویسنده کو خط لکھنے کے واسطے اور اس کا
عاشق ہونا اس عورت پر اور اس کا ڈوبنا¹
تالاب میں اس عورت کے شوہر کے فریب سے
اور آب اجل کا گزرنا سر معشوق سے اسی
تالاب میں آٹھ روز کے بعد


منشیان نامہ حقیقت اور حاکیان ملاطفہ محبت بہ حکایت پر غم نوک قلم سے یوں رقم کرتے ہیں کہ قلمر و ہندوستان دلستاں میں ایک شخص نجیب الطرفین، صحیح النسب، جواهر رقم، صاحب دست و قلم قدیم الایام سے سکونت رکھتا تھا۔ قضائے کار فلک کج رفتار بے مدار نے اس کا دفتر یک قلم ایسا ابتر کیا کہ وه جگر خراش برائے تلاش معاش

1 - مطبع محمدی 1311ء میں "ساتھ جانا ہے" لیکن میور پریس 1872ء والے نسخے میں "ڈوبنا" ہے.

صفحہ 67

اپنی بود و باش چھوڑ کر جلا وطن ہوا۔
بعد انقضائے چند ایام اس ماه تمام کی عورت مہر طلعت نے خط نویسی کے لیے ایک نویسنده شکستہ احوال، وابستہ ملال کو بلوا کر ڈیوڑھی میں بٹھایا اور یوں حرف زن ہوئى کہ اے راقم صحيفہ مودت! او اے ناظم دفتر محبت! اس دور افتاده غم آماده کی طرف سے شوہر رشک قمر کو صفحۂ حرير پر یوں تحریر کر کہ اے آداب مکتوب الفت! و اے القاب منسوب مودت! اس بات کا خدا شاہد حال ہے کہ جس دن سے اس دل پر حسرت کے جگر میں خار ہجران چھوڑ کر ادهر روانہ ہوئے ہو، اس دن سے میں پر ملال اپنی بے قراری اور آہ و زاری¹ کا حال کیا لکھوں، دلہن بیگم صاحبہ کے بقول: شعر

دن کٹا فریاد سے اور رات زاری سے کٹی
عمر کٹنے کو کٹی پر کیا ہی خواری سے کٹی

اور سچ ہے بقول شخصے: دوہرا

اپنے پیتم لال سے مل بچھڑے جن کوئے
بچھڑت دکھ جانے وہی کہ جو کوئی بچهڑا ہوئے

فی الحقیقت: شعر

جدا کسی سے کسی کا کبھی حبیب نہ ہو
یہ درد وه ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو

لیکن دیکھیے کہ بہ حجاب شب تنہائی اور پرده روز جدائی ہوائے وصال سے جامع المتفرقين کس دن اٹھائے گا اور ہم تم باہم اس باغ جہاں میں بے تامل مثل بلبل


1- نسخہ مطبع محمدی دہلی 1311ء میں "و زاری" نہیں ہے۔

صفحہ 68

چہچہہ زن کس دم ہوں گے اور دل جو افسرده مثل گل پژمرده ہے، شکل گل خنداں صبائے امید سے دیکھیے کب شگفتہ ہو گا اور طاؤس آرزوئے وصال کو باغبان قضا و قدر فصيل امید پر کب جلوه گر کرے گا اور عندلیب عشرت شاخ تمنا پر گلشن مستی میں دیکھیے کس وقت کریال کرتی ہے اور اگر¹ خدانخواستہ یہ صحرائے مفارقت ہمارے اور تمہارے درمیان اسی روش پر حائل رہا تو یہ چشم اشک بار مثل آبشار دریا بہا بہا کر طوفان برپا کرے گی اور یہ يقين ہے کہ چمن ساز جنون کشت دماغ میں وحشت کی چمن بندی کر کے حرمان کی پٹری² جماوے گا تو بقول سراج³ اکبر آبادی کے یہ حالت ہو گی: شعر

چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

اب آگے اشتیاق مواصلت اور اتحاد موانست کہاں تک تحریر اور تسطیر⁴ کیجیے، بقول دوہرے کے: دوہرا

پر پیتم پتیاں تو لکھوں کہ جو کچھ انتر ہوئے
ہم تم جیورا ایک ہیں پر دیکھت کے ہیں دوئے

فی الحقیقت اس شعر کے مواف : شعر

جس کی محبت میں آہ! آٹھ پہر جی جیے
اس کو جدا جان، خط کیوں کہ لکھا کیجیے

1- مطبع محمدی دہلی والے نسخے میں "اگر" نہیں ہے۔
2- نسخ مطبع محمدی دہلی میں "پرے" ہے۔
3- مصنف کو غلط فہمی ہے، یہ سراج اورنگ آبادی ہے۔
4- نسخہ مطبع محمدی 1311ء میں "اور تسطير" نہیں ہے۔

صفحہ 69

لیکن رسم زمانہ قدیم الایام سے نامہ و پیغام کی ہے، اس سبب سے اس دور افتاده غم آماده نے اپنے حال كثير الاختلال کا عريضہ ارسال کیا ہے، پر اس دل طپیده، غم کشیده کی یہ امید ہے کہ اس خط پر فرقت کے پہنچتے ہی وہاں سے آپ بھی نامہ محبت شمامہ اس طرف کو روانہ کیجیے تا کہ مہجور باديہ غربت، پر صعوبت کی تشفی خاطر فاتر ہو، چنانچہ مشہور و معروف ہے "المكتوب نصف الملاقات۔"
غرض وہ نازنین، ماه جبين، با دل اندوه گین ادهر اس نویسنده کے رو برو ایک پردے کی اوٹ میں بیٹھی یہ حال پر ملال کہہ رہی تھی اور ادهر عشق کا فراش پردے پردے میں اس نویسنده آفت رسیده کا پردہ فاش کرنے کے درپے ہوا اور حاکم عشق کا افواج غم کو يه شقہ پہنچا کہ صبر و شکیبائی کا خیمہ اس کے ملک دل سے باہر نکالو اور درد و من کا اسپک وسعت سینہ پر چوب آہ سے استادہ کر دو اور تمگیره چشم کے آگے حیرت کی قنات روک کر بے خودی کے سرائچے کھینج کر اس ہرزه گرد، پر درد کو وحشت کے سلامت کوچے میں چھوڑ دو تب تو بقول سراج:

شہ بے خودی نے عطا کیا اسے جب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رهی نہ جنوں کی پرده دری رہی

حاصل کلام، اس ماه تمام سے یہ دل فگار، نامساعد روز گار جو ایک بار دو چار ہو گیا، یک بیک مثل آئینه ششدر و حیران ہو کر چپ ہو رہا۔ ایک لحظے کے بعد بہ صفائی دل کہنے لگا کک اے آئینک رو! اگر تیرے دل میں غبار کدورت نہ بیٹھے اور عار سی نہ آئے تو ذرا اس حال پرملال کو زبان مبارک سے پھر دوباره ارشاد کر، کس واسطے کہ میری عقل ناقص

صفحہ 70

میں ذرا نہیں آیا۔ اس میں اس پری رخسار، رشک گلزار نے پھر دوباره وه حقیقت محبت آمیز، وحشت انگیز اس مبہوت عشق کے رو برو زبان جادو بیان سے بیان کی۔
غرض اس بخت سیاه، جانکاہ کے دھن سے پهر یہی سخن نکلا کہ اے طوطی، خوش الحان و اے سحر البیان! پھر کہو، پھر کہو۔
المدعا اس رشک ماه منیر، صاحب تقریر نے اس کشتۂ الفت، خستہ محبت کے سامنے مکرر سہ كرر حقیقت ہجرت زبان سحر البیان سے اظہار کی مگر اس نویسنده جفا کشیده، دل طپیده کی زبان سے پھر یہی سرزد ہوا کہ اے نازنین ماه جبين! پھر کہو، پھر کہو۔ الغرض اس ماه طلعت، مہر برج عفت کو صاف دریافت ہوا کہ یہ عزیز بے تمیز کچھ سڑی، سودائی سا نظر آتا ہے۔
یہ خیال کثیر الاختلال وه ماه تمثال دل میں کر کے اپنے محل بےبدل، برج آسا میں رونق بخش ہوئی اور آه! یہ بخت سیاه شکل خامہ چاک جگر سر نگوں ہو کر صحرا کی طرف یہ کہتا ہوا چلا "اے بلبل گل نودمیده شاخسار! پھر کہو، و اے صلصل سر و جوئبار! پهر کہو، غرض اس بنده خدا، عاشق بت جانفزا نے یہی کلام صبح و شام ورد کیا اور اپنی ملت سے دست بردار ہو کر مذہب عشق اختیار کیا اور امیر خسرو کا یہ شعر زبان پر لایا: شعر

كافر عشقم مسلمانی مرا در کار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست

اور بتوں کی پرستش سے ایک بار بیزار ہو کر بت خانۂ دل میں اس صنم حور لقا، بے وفا کو تصور کر کے سنگاسی پر بٹھا کے پوجا کرنے لگا اور کسی دل فگار کا یه شعر آبدار با ديده اشكبار زبان پر لایا: شعر


صفحہ 71

فدا گنگ و جمن بر کر دو چشم اشک بار من
نمی آئی چرا از بہر اشنان در کنار من

اور بجائے زنار وه عاشق زار تسلسل اشک کی سیلی گلے میں ڈال کے بستر خاک کی آسی پر بیٹھ کر آہ و فغاں کا ناقوس پھونکنے لگا اور بجائے اشنان وه خستہ جان سر پر خاک دهول اڑانے میں مصروف ہوا اور رام رام کے نام جپنے سے اس بے آرام کو مطلق آرام نہ تھا، مگر اس دلارام خوش خرام کے تعشق میں یہ شعر ورد زبان تھا: شعر

تبھی دل کو مرے آرام ہو گا
مرا وحشی جو مجھ سے رام ہو گا

اور کبھی وہ نو گرفتار دیوانہ وار کو بکو "پھر کہو، پھر کہو" کہتا پھرتا تھا اور کبھی وہ صحرا نورد پر درد صحرا میں بگولے سے ہمسری کرتا اور میر ضیا کا یہ مطلع پر درد پڑهتا:

کبھی صدمہ بگولے کا کبھی صر صر کی زحمت ہے
ہماری خاک یوں اڑتی پھرے اے ابر رحمت ہے

اور کبھی وہ غریق ورطہ محبت، شفیق بادیہ غربت، لب دریا بیٹھ کر اشک کا دریا بہاتا اور سلیمان شکوه کا یہ مطلع پڑهتا:

بيت

دل اب تو عشق کے دریا میں ڈالا
توكلت على الله تعالى

اور کبھی زیر کوہسار بادیده اشک بار اپنی بے کسی، بے بسی پر سر کو پتھر سے ٹکراتا اور یہ شعر پڑهتا: شعر

کوه کن کوه میں اور قیس ہوا صحرا میں
سر پٹکنے کو رہا كوئی نہ ہمسر اپنا

رفتہ رفتہ اس قصہ پر آشوب نے یہاں تک سر بلند کیا کہ


صفحہ 72


اس ماہ برج عفت اور مہر آسمان عصمت کا شوہر رشک قمر سفر سے گھر میں جو آیا تو اس کے بھی گوش ہوش تک یہ احوال پر ملال پہنچا۔ اس واردات واہيات کو سنتے ہی وه نیک ذات دریائے غیرت میں مستغرق ہو گیا۔ آخرکار لجہء فکر میں غوطہ زن ہو کر اس شناور بحر الم نے دل ہی دل میں بقول میر تقی:

اشعار

مشورت کی کہ مار ہی ڈالیں
دفعتہً اس بلا کو ہم ٹالیں
پھر یہ سوچا کہ ہوں گے ہم بدنام
سن کے آخر کہیں گے خاص و عام
کیا گنہ تھا کہ یہ جوان مارا
کس نے مارا اسے کہاں مارا
فتنہ خفتہ يہ جو ہو بيدار
کھینچی ہوں گی ذلتیں بسیار
کیجیے ایک ڈھب سے اس کو تنگ
تا نہ عائد ہو اپنی جانب ننگ

یہ تدبیر اس بے پیر نے ٹھہرا کر ایک شخص غیر سے کہا کہ اے بھائی! اس مرد سودائی مجبور نا شکیبائی سے کہہ دو کہ اے عزیز با تمیز! جس ماه رو و مہر جبین پر تو ذره وار بے قرار ہے، وہ دریکتائے بحر خوبی اور لعل بے بہائے كان محبوبی كل ہمدمان دل سوز کے ساتھ بیرون شہر تالاب پر آب میں غسل کے واسطے تشریف لے گئی تھی، سو قضا و قدر سے اس تالاب آفت مآب میں وہ رشک مہتاب، مثل گوکر نایاب ہو گئی۔

صفحہ 73

قطعہ

لیکن افسوس بحر دنیا میں
زندگانی سے تو ہے کیوں سیراب
منصب عشق چاکتا ہے پھر
تو بھی جا کر وہیں ہو غرق شتاب

ورنہ اے ننگ محبت! و اے بے عزت و بے مودت۔

مثنوی

تیری اس زندگی پہ لعنت ہے
سخت تو مرد بے حمیت ہے
یعنی جس سے کمال الفت ہو
وه بہ دریا غریق رحمت ہو
بحر ہستی میں اور تو دن رات
اس طرح سے رہے بقید حیات
بس اسی میں ہے آبرو تیری
اور عزت ہے کو بکو تیری
جس طرح ڈوب کر موئی وه نگار
تو بھی اس طرح جان دے اے یار
ورنہ اس عاشقی کا اے ناکام
پھر نہ لانا زباں پر اپنی نام

یہ سب گفتگو وہ بدخو اس شخص کو سکھا کر آپ تو اپنے گھر آ بیٹھا اور اس خانہ خراب بے حجاب نے اس غريق بحر الفت اور رفیق رنج و محنت کے سامنے با ديده اشكبار یہ اظہار کيا کہ اے شناور بحر الم! و اے ہم کنار لجہ غم! كل بلائے ناگہانی سے تیری مایہ زندگانی فلانے تالاب آفت مآب ميں

صفحہ 74

ڈوب کر مر گئی۔ یہ احوال پر ملال وه نوحہ گر دل مضطر سن کر پہلے تو ایک دو گھڑی گرداب الم میں غوطہ زن رہا۔ آخرالامر جی میں یہ لہر آئی کہ اس بحر ہستی سے کنارا کیجیے اور دریائے فنا سے بادیده اشکبار ہم کنار ہو جیے اور امواج اجل کی زنجیروں سے پائے زیست کو سلاسل کیجیے، کیوں کہ بقول جرأت: شعر

بہ دریائے محبت موج آسا غم کے مارے ہم
کبھی ہیں اس کنارے اور کبھی ہیں اس کنارے ہم

آخر کار وہ غریق ورطہ محبت اور رفیق لجہ محنت اس تالاب پر آب میں جا کر رخ و زحمت سے غریق رحمت ہوا۔ القصہ چند ایام کے بعد اس ماه خوش خرام کو معبران صادق اور مخبران فائق سے جو یہ خبر وحشت اثر تحقیق معلوم و مفہوم ہوئی کہ وه نويسنده دل طپیده اس واردات سے ہیہات فلانے تالاب میں ڈوب کر مر گیا، اس قصۂ جاں گداز اور ماجرائے غم انباز کو سن کر اشک حسرت پی کر چپ ہو گئی پر دل میں یہ کہنے لگی:

قطعہ

ہائے یہ اس نے کیا کیا افسوس
کس مصیبت سے جی دیا افسوس
میں نے اس بےگنہ کاخوں سر پر
بیٹھے بٹھلائے کیوں لیا افسوس

غرض وہ روز اس شمع شب افروز، جگر سوز کو روتے روتے کٹا لیکن دل میں عشق کا چور رشتہ محبت کو آتش غم سے بھڑکانے لگا، اور دل مثل پروانہ اس کے شعلہ شوق وصال میں

صفحہ 75

جلنے کی پروا نہ رکھتا تھا، اور آنکھوں میں تیرگی غم کی چربی سی چھانے لگی، اور گلگیر اجل بھی اس شمع رو، شعلہ خو کے سر سے لگن لگا کر یہ کہنے: شعر

ٹک میرے جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا

المدعا جب کہ رات کا وقت ہیہات در پیش آیا تو بے اختیار بحر محبت نے یہ جوش مارا کہ اس کی کشتی عقل باد مخالف بے قراری سے پاره پاره ہوئی اور صبر و شکیبائی کا لنگر ٹوٹ گیا اور حواس خمسہ کا مستول جہاز دماغ سے گر پڑا۔ غرض نا خدائے عشق کے مشورے سے وه ماه مانند ماہی بے آب سب سے کنارہ کر کے اس تالاب پر آب کے کنارے پہنچ کر یہ کہنے لگی:

اشعار

پاس تیرے اب اے تمنائی
جان دینے کو میں بھی ہوں آئی
تیرے مرنے سے عاشق مضطر
زندگی اب وبال ہے مجھ پر
جان اپنی کرے تو مجھ پہ تباه
اور میں جیتی رہوں جہاں میں آہ
یه نہیں چاہتی ہے غیرت عشق
طعنک زن مجھ پہ ہے حمیت عشق

یہ شعر جاں گداز وہ مایہ ناز آواز حزیں سے زبان پر لا کے اس تالاب میں کود پڑی لیکن بقول میر تقی:

صفحہ 76

ابیات

موج ہر اک کمند شوق تھی آه
لپٹی اس کو بر نگ مار سیاه
دام گسترده عشق تها تسہ آب
جس کے حلقے تمام تھے گرداب
حسن موجوں میں یوں نظر آئے
نور مہتاب جیسے لہرائے
تھیں جو اس کی حنائی انگشتاں
غیرت افزائے پنجہ مرجاں
سر پہ جب اس کے آب ہو کے بہا
سطح پانی کا آئینہ سا رہا
کشش عشق آخر اس مہ کو
لے گئی کھینچتی ہوئی تہہ کو
کہتے ہیں ڈوبتے اچھلتے ہیں
ایسے ڈوبے کہیں نکلتے ہیں
یوں جو ڈوبے ککیں وه جا نکلے
غرق دریائے عشق کیا نکلے

مگر وہ عاشق زار پر اضطراب، تہ آب میر معصوم کا یہ مطلع زبان پر لایا: مطلع

پس از مردن مرا آں سرو قامت بر مزار آمد
قیامت آمد اما بعد چندیں انتظار آمد

الحاصل یہ مہ پاره جذبہ عشق سے اپنے غرقہ سے ہم کنار ہوئی اور یہ واقعہ حیرت افزا، رقت انتما اس شمع رو، نیک خو کے شوہر خستہ جگر کو وقت سحر جو دریافت ہوا تو آه! بحال تباه

صفحہ 77

گریاں، با دل بریاں لب تالاب حیرت ماب پر آ کر کیا دیکھتا ہے کہ ہر طرف مرد و زن کا ہجوم، با دل مغموم بصد شور و شیون میر تقی کا یہ شعر پڑھ رہا ہے:

محبت نے کام اپنا پورا کیا
که ان دونوں لعلوں کو¹ چورا کیا

اس روداد کو یہ خانماں برباد ملاحظہ کر کے مثل ماہی بے آب بیتاب ہو کر یہ کہنے لگا:

ابيات

عشق نے گھر ڈبو دیا میرا
در نایاب کھو دیا میرا
ہم نگاہوں میں کو بکو میری
ڈوبی عزت اور آبرو میری

ہائے اے قاضی الحاجات، و اے مجیب الدعوات! یہ حرف روسیاہی یک قلم مجھ جگر شگاف کے بزرگوں پر کس شکل سے آیا کہ ایک نویسنده دامن دريده، شکستہ احوال، وابستہ ملال کے ہمراه میرے دل خواه نے عشق کی فیلسوفی سے اپنی جان دی۔ یہ بھی قسمت کا لکھا در پیش آیا جو میرا خانماں يوں یک قلم زیر و زبر ہو گیا، بقول سودا:

اس زیست سے بہتر ہے اب موت پہ دل دهریے
جل بھنیے کہیں جا کر یا ڈوب کہیں مریے
کس طرح کٹیں راتیں کس طرح سے دن بھر یے
کچھ بن نہیں آتا ہے حیران ہوں کیا کریے
کیا کام کیا دل نے دیوان کو کیا کہیے
اے سامعان قصہ محبت!
و اے شاعران ترجمہ الفت! وه

1 - مطبع محمدی 1311ء والے نسخے میں "لعلوں کا" ہے۔

صفحہ 78

طپیده غم رسیده، مائل رقت و حیرت تھا مگر اس کے خویش و اقربا نے اس تالاب پر عذاب میں جال فی الحال جو ڈلوائے تو وہ دونوں غريق بحر الفت باہم دست و بغل بقول میر تقی اس شکل سے نکلے:

ایک کا ہاتھ ایک کی بالین
ایک کے لب سے ایک کو تسکین
جو نظر ان کو آن کرتے تھے
ایک قالب گمان کرتے تھے

غرض ہر چند با دل دردمند لوگوں نے چاها کہ ان دونوں کو جدا کر کے تجہیز و تکفین کیجیے لیکن ممکن عقل تھا کہ جنہوں نے اس شکل کی مصیبت سے جان دی ہو وہ سہج¹ میں جدا ہوں، بقول میر تقی:

بیت

کیوں نه دشوار ہووے ان کا فصل
جان دے کر ہوا ہو جن کا وصل

آخر چار ناچار ان دونوں جان داده کو ایک ہی قبر میں باديده پر خون مدفون کیا۔
اب آگے اس کے شوہر خستہ جگر کی بے قراری اور اشک باری کی حالت کیا لکھوں بقول جرأت: شعر

قلم کو بھی نہیں طاقت رقم کی
کہ آب چهاتی ہی پھٹتی ہے قلم کی

زباں کو تھام لے اب تو بھی مہجور
نہایت طول رکھتا کے یہ مذکور

1- نسخہ مطبع محمدی 1311ء میں "سہل" ہے۔

صفحہ 79

یہ ادنیٰ اس میں ہے تاثير مخلوق
نہ عاشق اس سے بچتا ہے نہ معشوق

داستان 2


بیگما کے عشق میں عظیم بیگ کا جان دینا اور کوئے
محبوب میں تابوت عاشق کا بھاری ہونا اور اس
اعجوبہ تماشے کے بعد اس محبوبک کا آپ کو
ظاہر کرنا اور جنازه معشوقہ کے ہمراه
تابوت¹ عاشق کا سبک بار ہونا

اے سامعان تشریح محبت! و اے سخن نیوشان تلویح بلاغت! سابق میں جلاد عشق نے کیسے کیسے جوان پر ارمان اپنے قبضے میں لا کر تیغ الم سے بے آب جو ہر کیے ہیں کہ تمام اصیل و نجیب پناہ مانگتے ہیں؛ چنانچہ مشہور و معروف ہے، بقول میر تقی:

گیا قيس ناشاد اس عشق میں
گئی جان فرهاد اس عشق میں
ہوئی اس سے شیریں کی حالت تباه
کیا اس نے لیلی کا خیمہ سیاه
سنا ہو گا وامق پہ جو کچھ ہوا
نل اس عشق میں کس طرح سے ہوا

1- نسخہ مطبع محمدی 1311ء میں یہ لفظ نہیں ہے۔

صفحہ 80

جو عذرا پہ گزرا سو مشہور ہے
دمن کا بھی احوال مذکور ہے
کوئی شہر ایسا نہ دیکها کہ واں
نہ ہو اس سے آشوب محشر عیاں
کب اس عشق نے تازه کاری نہ کی
کہاں خون سے غازه کاری نہ کی
زمانے میں ایسا نہیں تازه کار
غرض ہے یہ اعجوبہ روز گار

اور حال میں ایک پیر زال، نیک خصال، صدق مقال
باشندۂ لکھنؤ کی زبانی ہے کہ ایک میری ہم جولی منہ بولی بہن رشک چمن بیگما نامی جو مجھ سے نہایت موانست رکھتی تھی لیکن وہ ماہ لقا رشک بدرالدجی بارہا فرماتی تھی کہ بہنا! یہ اتحاد نیک نہاد عالم کتخدائی اور خانہ آبادی میں موقوف نہ کرنا کیوں کہ بقول شاعر: شعر

غنیمت شمر صحبت دوستاں
کہ گل پنج روز ست در بوستاں

الحاصل وہ آئینہ رو نیک خو محلہ سنگین محل میں ایک مغل، اہل دول سے کتخدا¹ ہوئی، اور وہ جو زنگ بد رنگ کدورت و حسرت اس کے آئینۂ دل پر رہتا تھا، سو سو صفائی کے ساتھ صیقل خوشی سے دور ہو گیا اور نہال امید شبنم فرحت سے گلشن دل میں سر سبز ہوا اور غنچہ آرزوئے عشرت نسيم نشاط سے روز بروز شگفتہ ہونے لگا اور بلبل عنفوان شباب شاخ مراد پر پھول پھول کر بیٹھنے لگا۔
غرض وہ غنچہ حديقہ محبوبی اور وہ گل گلستان خوبی

1- نسخہ مطبوعہ مطبع مصطفائی 1265ء میں اور نسخه مطبع مبور پریس دہلی 1872ء میں "کد خدائی" ہے۔

صفحہ 81

اپنے مکان دلستان، رشک بوستان میں لیل و نہار مثل جوش بہار رہنے سہنے لگی۔
قضائے کار اس دور افتاده، غم آماده کے گھر میں رت جگے کی رسم در پیش ہوئی۔ عورات قبيلہ اور زنان ہمسایہ شگفتگی خاطر سے میرے مکان میں رونق افزائے محفل ہوئیں اور وہ غیرت گلزار، رشک بہار بھی تجمل نو عروسی اور لباس سندروسی سے ایک محافہ زرنگار، اعجوبہ كار پر سوار مثل جوش بہار بصد نمود، در مقصود پر موجود ہوئی۔
غرض وہ ماه رخسار، خوش نگار، دست حنائی، رشک
پنجہ مرجان سے محافے کا پردہ الٹ کر مكان شادی میں داخل ہوئی اور ایک جوان پر ارمان مرزا عظیم بیگ نامی نورستہ باغ جوانی، گلدستہ حديقہ كامرانی بلائے ناگکانی سے غافل، محافہ دل فریب کے قریب کھڑا تھا کہ یکایک اس بندۂ خدا کو بقول مصحفی:

شعر

پہلے تو فقط شرم کی صورت نظر آئی
پرده جو گیا کھل تو قیامت نظر آئی

غرض یہ دل طبیده، گریبان دریده، عالم حیرت میں مثل تصویر، دل گیر اس نقشے سے بے خود تھا، بقول مصحفی:

نظم

حیرت زده وہ نگہ ٹھہری
آ کر کے لبوں پہ آه ٹهہری
سودے نے کیا مقام سر میں
اٹھنے لگی سول سی جگر میں
مژگاں ہوئیں اشک خوں سے تزئیں
پلکیں بنیں رشک عقد پروین


صفحہ 82

وہ ساده بہ عالم جوانی
آیا بہ بلائے ناگہانی
الفت میں زبسکہ تو ہوس تھا
خود وہ بمقام شعلہ خس تھا

الغرض دو گھڑی کے بعد ہوش نے اس سے خود کو
بے خودی سے آفاقہ دے کر بستر توانائی پر مسند نشین کیا اور حواس خمسہ سے کہا کہ اس دل داده غم آماده کی اس وقت رفاقت نہ چھوڑنا کیوں کہ بقول شاه قدرت: شعر

صبر و طاقت تو کبھی کے کوچ یاں سے کر گئے
اب وداع ننگ ہے اور رخصت ناموس ہے

اس عرصے میں جس وقت پیر زال شب نے مہتاب کے چہرے کو چاندنی کی اوڑهی اڑها کر عقد پرویں کا ہار ڈالا اور زہره و مشتری کا رحم بنا کے سپېر کی کڑاہی میں انجم کے گلگلے تلنے شروع کیے، اس وقت مکان شادی میں رت جگا عشرت فزا کے سامان میں ہر ماه رو، نیک خو مصروف و مالوف ہوئی مگر یہ تیر خورده عشق، گوشہ نشین حجلۂ محبت ہدف ناوک الفت اس ابرو کان کے تعشق میں چلا چلا کر مرزا قتیل کا یہ مطلع پڑهنے لگا: مطلع

در ره عشق دلم شد ہدف تیر کسے
زخم من بہ شدنی نیست ز تدبیر کسے

لیکن اس مبتلانے الم اور کشتہ ستم کو میری نند دل بند سے اخلاص خاص تھا۔ اس کی وساطت سے اس گل رو پر آرزو نے کچھ پھولوں کے گہنے اور ہار رشک بہار اس واسطے اندرون خانہ روانہ کیے کہ بوئے الفت سے اس غنچہ دہن
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 83


رشک چمن کا مشام دلارام معطر ہو تا کہ میرے دل کی بےکلی کسی روش سے دور ہو جاوے دور ہو جاوے اور خار ہجراں ہر زمان دل میں نہ کھٹکے، اور کبھی وہ رشک يوسف مصری شیرینی کے دونے مہمان خانے میں اس واسطے بھیجتا تا کہ وه شیریں دہن بھی اس میں سے کچھ نوش جان فرمائے تو میری زندگی دار فانی میں تلخ نہ ہو، اور کبھی وہ نیک ذات کچھ تحفہ جات نادرات ہاتھوں ہاتھ اس وسیلے سے وہاں پہنچاتا کہ شاید مجھ ناچیز کی چیز اس باتمیز کے ہاتھ میں پہنچے تو یہ بے قراری مجھ سے پہلوتہی کرے اور دست بردار ہو، اور کبھی وہ دل بیتاب، مثل سیماب ہر بار بے قرار ہو کر کہتا کہ دیکھیے اس شب کی سحر پر غضب کیا قیامت برپا کرے گی، کیوں کہ یہ مکان شادی ہے، کل وقت سحر ہر ماه پیکر اپنے اپنے گھر کو رخصت ہو جائے گی تو بقول مصحفی:

شعر

میں غم زده آه کیا کروں گا
بے آئے اجل ہی مر رہوں گا

بیان سحر: اس خیال پر ملال میں عروس ماه مع سیارگان حجلہ مغرب میں روپوش ہوئی اور مسافر آفتاب جہاں تاب گریبان سحر چاک کر کے اور شعاعوں کے اشک منہ پر بہا کے سمت مشرق سے نمود ہوا، اس وقت اس تیره روز، جگر سوز کا احوال پر ملال کچھ نہ پوچھو، بقول مصحفى: شعر

تھی شب وصل کھل گئی جو آنکھ
رنگ فق ہو گیا سحر کو دیکھ
الحاصل سحر کو سب نازنینان ماه تمثال، خوش جمال

صفحہ 84
اپنی اپنی ہم جولیوں سے بصد بشاشت رخصت ہو کر گھروں کو سدھاریں مگر جس پری رخسار، گل عذار سے اس کی لاگ لگی تھی، جب اس کا محافہ اس بے نصیب کے قریب آیا، اس دم اس نے دم، تفتہ جگر، سوختہ دل کی یہ حالت ہوئی گویا باروت کے تودے میں آگ لگا دی۔
غرض وہ مخافہ زرنگار، رشک بہار، کہاران باد رفتار کی چالاکی سے برق وار چمک کر جونہیں اس کی نظروں سے غائب ہو گیا، وونہیں اس تیره بخت، دل دو لخت کو ابر غم نے گھیر لیا اور آہ و فغاں اور شور و بکا کی آواز رعد کی گرج کو صم و بکم کرنے لگی اور دل بیتاب کی تڑپ نے بجلی کی کڑک کو مثل برد سرد کر دیا اور آه سرد پر درد نے ہوا کے جھونکوں کو گرد کر دیا اور چشم گوہر بار بھی مثل ابر نو بہار زار زار رو رو کر ساون کی جھڑی پر چشمک زن ہو کر بقول مرزا سودا یوں کہنے لگی: شعر

ساون کے بادلوں کی طرح جل بھرے ہوئے
یہ نین وه ہيں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے

غرض اور حقیقت پر از رقت اس آفت رسیده، محنت کشیده ، دل طپیده، جان رمیده کی کیا کہوں! کبھی تو اس مہ کی آرزوئے وصال میں پہروں روتا اور بقول جرأت یوں کہتا: شعر

وصل بننے کا کچھ بناؤ نہیں
واں لگا دل جہاں لگاؤ نہیں

اور کبھی وہ وابستہ ملال، خستہ احوال منہ ڈهانپ کر

صفحہ 85
پرده دل سے پوشیده پوشیده لبوں پر استاد کا یہ شعر لاتا: شعر

کیا کہیے جو کچھ غم ہے دل و جان حزیں پر
سچ ہے کہ نہ عاشق ہو کوئی پردہ نشیں پر

اور کبھی وہ تیره روز، جگر سوز چار پہر دن اپنے ہم سن، ہم نشين، دوست دار، غم خوار، جان نثاروں میں کاٹتا اور جب شب پر تعب ہوتی تو اس ماه لقا، رشک بدرالدجی کی فرقت میں داغ دل کو آہ جاں سوز سے چمکا کر یوں حرف زن ہوتا، بقول استاد: شعر

کیوں ہجر کی شب آئی بستر پہ لٹانے کو
پہلوئے تہی کم تھا کچھ یاد دلانے کو؟

اور کبھی وہ سودائی، گرفتار بلائے ناگہانی اس کی زات مشکین کے تصور میں پریشان خاطر ہو کر تنہا¹ کا یہ مطلع پڑهتا: شعر
ہےجی میں اس کے کا کل پر خم تو دیکھیے
اس آرزو کو دیکھیے، اور ہم کو دیکھیے

اور جو ہم نشین اس اندوہ گین و حزین کو کہتا کہ
اے غریق ورطہ محبت! و اے رفيق لجہ الفت! ذرا دل کو ڈھارس دے اور آپ کو سنبهال، نامردی کو کام نہ فرما؛ تو وہ شناور بحر الم اور ہم کنار لجہ غم یوں کہتا تھا کہ اے یارو! میری وہ حالت ہے، بقول مرزا صاحب: شعر

چوں مورچہ ضعیف کہ افتد در آب تند
در اختیار خويش مرا اختیار نیست

اور جو کوئی کہتا کہ اے مبتلائے الم! و اے
............
1- یہ ایک شاعر کا تخلص ہے۔

صفحہ 86

آشنائے جور و ستم! کچھ اپنی روداد ناشاد سے ہم کو بھی تو آشنا کر، تو وہ بیتاب یہ جواب باصواب ديتا، بقول میرزا ببر على قاصر:
بیت

بیان کس سے کروں اے ہم نشیں اس جان¹ پر غم کا
کہ سننے سے پراگندہ ہو جس کے ہوش عالم کا

لیکن میرے احوال پر ملال کے مطابق یہ کسی عاشق کا کبت ہے: کبت

مورت دن موہن کی مورے نین پر ان پر چتر گیسو سوارنت ٹھارو ہی رہت ہے
آگ کیسو کیڑ اجرون نت پریم کی اگن مون نائے دی مارو كام مو نہیں کو ڈہت ہے
تن تو حبینہناجارے اور ہو پپیہا پیارے پیو بن، مبرو هيوا تیو دکھت سہت ہے
ان تو اتے پیرن میں چھاڑ کے سدھ ہو نہ لینی تا پے ملچھ پر ان وا ہو کو چہت ہے

القصہ وه عاشق بو گرفتار، دل فگار، با درد و محسن بعریانی تن، باین قیل و قال ایک سال پسر لے گیا لیکن اسی پیر زال، صادق مقال کی زبانی ہے کہ جب اس جگر کباب خانہ خراب کی یہ حالت پر از رقت دیکھی تو ایک شب بصد ادب میں نے چرب زبانی سے اس تیره بخت کے رشتۂ الفت اور سوز محبت کو اس شمع رو پر روشن کر کے کہا کہ اے چراغ عصمت والے دودمان شبستان عفت! سچ ہے بقول گنا بیگم: شعر

شمع کی طرح کون رو جانے
جس کے دل کو لگی ہو سو جانے

لیکن قائم کی زبانی: شعر
............
1- نسخہ مطبوعہ مطبع محمدی 1311ء میں "حال" ہے.

صفحہ 87

درد دل کچھ کہا نہیں جاتا
آه چپ بھی رہا ميں جاتا

آخر کار امید قول و قرار اس سے کہا کہ اے بہن رشک چمن! ایک عاشق نو زاد، ہمسر مجنون و فرہاد نے شادی کے روز تجھے رشک لیلی و غیرت شیریں کو محافے سے اترتے دیکھا تھا، اس دن سے اس رشک باغ، پر داغ کا احوال پر ملال کیا بیان کروں! سر پر تو بال وبال جان، بسان سنبل پریشان پریشان ہیں اور اس گل کا گریبان مانند گل تا بدامان چاک ہے اور تیری نرگس چشم کے خیال میں وہ روز و شب آنکھوں سے آبجو جاری رکھتا ہے اور تیری مژگان رشک سنان کے تصور میں شام و سحر، خار ہجران اس کے دل میں کھٹکتا ہے اور تیرے لعل لب خنداں کے دھیان میں غنچے کی طرح آٹھ پہر گردن جھکائے چپ بیٹھا رہتا ہے، اور کبھی تیرے دست حنائی، رشک پنجہ مرجان کی یاد میں رنگ اورنگ قطره خون دیدۂ خوں بار سے ہر دم ٹپکاتا ہے، اور اس کے دل کی بے کلی کا یہ عالم ہے کہ کسی روش نہیں جاتی، اور تیرے فراق پر اشتیاق میں روز و شب بحال پر تعب مانند بلبل دور از چمن، نعره زن ہے، اور رنگ رخسار جو اس گل عذار کا مثل گل ورد سرخ تھا، سو کاھش غم سے مثل صد برگ زرد ہو گیا اور ہر بار وہ دل فگار بجناب پروردگار مثل چنار ہاتھ اٹھا کے مرزا سودا کی طرح یہ دعا مانگتا ہے:

یا درد دل کا دور ہو یا دل کو تاب ہو
قسمت میں جو لکھا ہو الہی شتاب ہو
اس کشمکش کے دام سے کیا کام تھا ہمیں
اے الفت چمن! ترا خانہ خراب ہو

صفحہ 88
غرض اس غیرت گل نے بصد تامل یہ فسانہ دل سوز و قصہ غم اندوز سن کر جواب نہ دیا لیکن دل میں یوں کہنے لگی کہ ہائے میں نے یہ کیا ستم کیا کہ وہاں جا کر ایک سرو رعنا کو پامال الم کیا۔ اور ظاہراً وه دل ربائے باوفا اس فسانۂ جگر سوز، غم غم اندوز کو ٹال کر اور ہی گفتگو در میان لائی۔
الحاصل اس تغافل شعار سلیقہ دار نے بقول مصحفی:

ابیات
دل بستہ عیش و ناز رکھا
رسوائی سے خود کو باز رکھا
مقدور تلک رہی وه خنداں
گھر اس کا رہا بہہ از گلستاں

اور ادهر اس دشت پیمائے ہجراں، بے سر و سامان کی حالت پر صعوبت کیا بیان کروں! رفتہ رفتہ جب اس از خود رفتہ کو بے خودی نے بستر ضعف پر بے خود کیا، اور توانائی بھی اس لاغر دل مضطر کا ہاتھ ہیہات ناتوانی کے ہاتھ میں دے کر پہلو تہی کر گئی، اور آزار عشق نے اس مريض الفت کو صبح و مسا رنج و محن کی دوا پلانی شروع کی، اور مادہ خون کو خاطر صفرا سے زائل کر کے مرض یرقان سے اس کو عاشقوں کے رو برو، زرد رو کیا، اور گرمی فرقت آه جان سوز سے تپ درونی کو تیز تر کرنے لگی، اور امراض مہجوری اور مجبوری نے التہاب جگر سے تپش دل کو مختلط کر کے سر سام پیدا کیا۔
الحاصل وہ گرفتہ دل، نیم بسمل اس حال پر ملال سے

صفحہ 89
ایک سال اور بسر لے گیا لیکن اس عرصے میں وہ عورت نیک خصلت کہتی ہے کہ میں بارہا اس مہ دل فریب کے پاس آئی گئی مگر اس نے غرور کبریائی و بے پروائی سے بندۂ خدا کو کبھی نہ پوچھا کہ اس رنجور مذکور کا حال پر اختلال کیا ہے، مگر دوسرے سال کے بعد بقول مصحفی: اشعار

با وصف غرور کبریائی
اس کی بھی طبیعت اس پر آئی
گھر والوں سے اپنے بیٹھ کر دور
سننے لگے جی سے اس کا مذکور

اور گاہے بحالت بے قراری اور اشک باری وہ گرفتہ دل، نیم بسمل بقول مسرور:

کرتی تھی آہستہ آه جان گداز
تا نہ کھل جاوے کہیں چاہت کا راز
نے کسی سے گفتگو نے بات تھی
رات دن رونے کی بس اوقات تھی

اس پری زاد ناشاد کی یہ حالت پر از رقت دیکھ کر میں یوں گویا ہوئی کہ اے ماہ رو، نیک خو! تیری تو چند روز جاں سوز میں یہ حالت پر ملالت بہم پہنچی کہ تیرا جی ہی جانتا ہو گا، اور وائے بجان اس کے کہ جس کو دو برس كامل يونہیں درد و محن میں گزر گزر گئے! پر اب اے غنچہ لب! بقول قاصر: مطلع

دل سیر مسیحا سے ہے بیمار تمہارا
وارستہ عالم ہے گنہگار تمہارا

کیوں کہ بقول مسرور:

صفحہ 90
ابیات

صبر کی اب تو نہیں طاقت اسے
ایک دم دشوار ہے فرقت اسے
زندگی اس کی ترے ہی ہاتھ ہے
تجھ کو مردے کو جلانا بات ہے

نہیں تو بقول میر حسن: شعر

وگرنہ وه رک رک کے مر جائے گا
اسی طرح جی سے گزر جائے گا

یہ سخن دل شکن وه ماه پیکر سن کر آو پر درد کھینچ کر کہنے لگی، بقول جرأت

ملیں کیوں کر اگرچہ غلبہ الفت کی شدت ہے
انہیں ہے پاس رسوائی ہمیں لوگوں کی دہشت ہے

لیکن اے بہن دل لگن! میری اور اس کی ملاقات بے آفات کی اس صورت کے سوا کوئی شکل نہیں ٹھہرتی کہ اس مہینے میں کچھ تقریب شادی در پیش ہے؛ سب عورات قبیلہ و زنان ہمسایہ باہم آئیں گی۔ اگر تو اس کو بھی لباس زنان میں آراستہ و پیراستہ کر کے اپنے ہمراه لے آئے تو مضائقہ نہیں۔
الغرض اس طور پر اس مہجور رنجور کا مدار وصل ٹھہرا کہ وه روز دل افروز بھی شب ہجر کو کوتاه کر کے درپیش آیا۔ اس نازنین مہ جبین نے پوشاک زنانی برنگ زعفرانی مع زیور جواہر نگار، اعجوبہ کر ایک کشتی دریا نزاد میں لگا کر میرے گھر میں پہنچا دی۔
الغرض اس رشک حور و غلماں اور غیرت مہر درخشاں کو بنا سنوار کر لباس عروسانہ سے ایک محافہ زرنگار میں سوار کر کے رونق بخش محفل شادی ہوئی لیکن اس دانائے دہر،
 

سیما علی

لائبریرین
ریختہ۔صفحہ 181

الغرض اس جوان مستان کو به ہزار سماجت اور به صد منت ہاتھ پاؤں پڑ کر رخصت کیا اور اس پیر زن پُرفن کو کچھ اور زر نقد دے کر راضی کیا ، لیکن وه حلوائی یہ رسوائی دیکھ کر کمال متعجب هوا ، پر دل میں کہنے لگا ’’یہ شعبدہ بھی نه دیکھا تھا جو آج دیکھنے میں آیا ، مگر یه اسرار اے یار خالی از علت نهیں هے اور یه ساده لوح اس رسوائی اور بےعزتی کو جورو کے اچھے ہونے کی خوشی میں مطلق خیال میں نه لایا لیکن وہ بے حیا یہ نه سمجھا جو اس نے کہا تھا سوکر دکھایا،مگر کسی نے سچ که بڑے بول کا سرنیچا هے ۔

مثنوی
۔
گر چه عورت کی ذات کے بد ذات
مرد کو چاہیے ولے یہ بات
که سدا ان سےالأمان مانگے
ان سے محفوظ ہی خدا رکھے
ہے اگر تجھ کو کچھ بھی عقل و شعور
قول سعدی په کر عمل مهجُور
زن بد در سرائے مرد نکو
هم دريس عالم ست دوزخ او

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
ریختہ ۔صفحہ 182.
چر تر

ایک زن مکاره کا اپنے آشنا کو اس کے شاگرد
سمیت شوہر کے سامنے گھر سے باہر نکال دینا
اور اس ساده لوح کا کچھ
دریافت
نه کرنا
تحررانِ عبارت رنگین اور منشیان حقیقت نگارین کاغذ
بوقلمون پر کلک گلگوں سے به خط گلزار یوں لکھتے هیں کہ ایک رنگ ریز، رنگین وضع ، تماشا بين طبع ایک عورت ماه طلعت کے رنگ تعشق میں نہایت شرابور تھا لیکن اس غیرت گلزار ،رشک بهار کو وه رنگ ریز عشق نو انگیز انواع انواع کے رنگ کے دو پٹے اڑها کر جمال خوش رنگ کی بهاریں لوٹتا اوربرائے وصلت وہ بد خصلت :
نظم

کبھی پوشیدہ اس تک آپ جاتا
کبھی فطرت سے اس کو گھر بلاتا
غرض وہ ہجر میں ہو تا نه دل تنگ
موصل تھا یہ ہرصورت به ہر رنگ​

قضائے کار اس بدکار ناہنجار کو ایک روز اس شمع شب افروز
کی محفل تک جانے کی دکان داری سے فرصت ایک ساعت
کی نه ہوئی اور آتش عشق نے قرمز اشتیاق کو دیگ محبت میں
جوش کرنا شروع کیا تو وہ رنگریز غم انگیز آپ کورنگ ریز بریش خود درمانده سمجه کر ایک شاگرد امرد سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ۔183
کہنے لگا "اے فرزند دل پسند! اس دم بقولهمدم :شعر
نه قاصدے، نه صبا، نه مرغ نامه میرے
کسے زیے کسی ما نمی برد خبرے

از برائے خدا و بحق مصطفیٰ شكل صبا تیز پا جا کر میرےمحبوب دل مرغوب کو بلا لا تا که بقول میرحسن :شعر
ہووے نصیب جلد کیں وصل یار کا
احوال نے طرح ہے دل بے قرار کا

الحاصل وہ شاگرد یگانه ، استاد زمانه اس فاسقه فاجره کے بلانے کو روانه هوا اور در مقصد پر پہنچتے ہی استاد نا فرجام کاپیغام بد انجام زن مکاره کے گوش گزار کیا، لیکن وہ اُستانی اغوائے شیطانی سے شاگرد امرد کو نعم البدل سمجھ کر اس کوگوشے میں لے گئی اور دونوں ہاتھوں سے بلائیں لے کر یوں گویا هوئي که یہ زرد رو تیرے اس چنپئی رنگ بادامی چشم پر قربان هو گئی ، اور اس سرمئ انکھڑیوں پر مجھ تیره بخت کی آنکھیں هزار هزار بار نثار ہو جائیں ۔ اے رشک گل معصفر !
اس وقت عشرت کے شهاب سے میرے اشتیاق کو سرخ رو کرتو دل کی جان کاہی سے چمن حلاوت میں سرسبز و شاداب ہو جاؤں “الغرض وہ رو سیاه أس بعصفر خوش رو کی صحبت اپنے دامن کو گل مدعا بھر کر لالوں لال ہو گئی اور اس طفل گلابی رخسار کی وہ حالت ہو گئی کھار سے ایک بار رنگ کاٹ لیتا هے اور بقول میر حسن : شعر
جهان تو یه عالم تھا اور طور یه
اب اس پر مزا تم سنو اور په
که وه رنگ ریز دل آویز شاگرد امرد کو ادھر بھیج کر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ 184

آه ! چشم براہ تھا اور یه شعر عمادة الملك كا زبان زد تھا : شعر
دل تڑپے ہے اور دیده تکے راه کسی کی
ایسی نه لگانا مرے الله کسی کی
آخر کار اس بدکار نے قرار کو صبر نه آیا تو ایک بار
تیغه باره دار ہاتھ میں لے کر اٹھ کھڑا هوا اور غصے سے نیلا پیلا هو کر آنکھیں شنگرفی سی نکال کے یہ کہنے لگا که معلوم اور مفهوم نهیں هوتا که کس سبب
سے وہ مرد ک تک نہیں آیا بقول جر أت : شعر
یا گھر ہی کو وہ بھولا یا راه پھیر کی ھے
یارب تو خیر کیجو قاصد نے دیر کی هے
القصه وه رنگ ریز محبت انگیز دروازه مطلب پر جو آیا
تو اس فاحشه فاسقه نے جلدی سے اس شاگرد یگانه ، استاد زمانه کو ایک مکان پوشیده میں چھپا رکھا اور اس رنگ ریز دل آویزسے کہنے لگی که اے یار وفا دار و اے غم خوار جاں نثار !:
نظم
خیر تو ہے مزاج سے کیسا آج تیرا جو حال ھے ایسا
تیری آئی لگے بلا مجھ کو نت سلامت رکھے خداتجھکو
به واردات واہیات آج کیا در پیش ہے جو اس طرح
تیغ بكف ، بحال عجیب مجھ سے نصیب کے قریب آیا؟ یه بات وہ بد ذات سن کر کہنے لگا که ’’اے غفلت شعار ، لعنت بكار ! ایک
ہر کامل ہوا هے که وه شاگرد بوالعجب تیری طلب کو آیا ؛نه تو جواب با صواب لے گیا اور نه تو بلا وسواس میرے پاس آئی ، اس کا کیا سبب ہے موجب ھے ؟» به گفتگو عربده جو رنگ ریز وحشت انگیز کی وه فاجره فاسقه سن کر کہنے لگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ 185

ابے تو بھی نرا کاٹھ کا الو ھے ! کوئی بھی زن پرده نشین مه جبین کے قرین مرد اجنبی کو پیغام و سلام کے واسطے بھیجتاھے ! وہ کم بخت ، زبان سخت دروازے پر آیا تھا ، دور سےایک ڈھیلا سا مار کر بھاگ گیا ۔ مجھ کو نداست کمال ہوئی اورہم چشموں میں آنکھ چرانی پڑی کیوں که لوگوں کو دریافت ہوا ہوگا که به عورت نیک خصلت بھی کسی بات چیت رکھتی هوگی ۔ اے عزیز بے تمیز ! عورت کے بلانے کو عورت بھیجتے هیں ،کس واسطے که موقع اور بے موقع سمجھ کرسلام و پیغام کرتی ھے ۔ مثل مشهورهے ہرکارے و ہر مردے،
اور قول نخشبی کا یہی ہے: شعر
نخشبی کار ہر کسے پسند طيبت عود از خسے ناید
مرد باید که کار مرد کند کار ہر کس ز ہرکسے ناید

یہ گفتگو دو بدو ان دونوں میں ہو رہی تھی که یکا یک
اس زن پر فن کا شوهر بے خبر سامنے سے ایک بار نمودار هوا -
آس رنگ ریز وحشت انگیز کا طائر رنگ گلشن رخسار سے پروازکر گیا اور بے حواس ہوکر کہنے لگا که اے كان فطرت و اسے معدنِ فراست ! بڑا غضب پر تعب هوا که اب میں جان به لب کیا کروں ؟،، اس کے جواب میں وہ زن پر فن کہنے لگی اے
وحشی خود غلطیده اس تلوار بازه دار کو ننگا کر کے بشكل سودائی ادهر ادهر دوت دبک کرتا هوا یہاں سے کافور ہو جا ،
آگے میں سمجھ لوں گی، غرض اس رنگ ریز طبع تیز نے یہی کیا که جهت تلوار کو میان سے ایک بار کھینچ کر ہی
دو دست کھیلتا دروازے سے باہر نکل گیا ۔
به ماجرائے عجیب اور واردات غريب صاحب خانه

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

محمد عمر

لائبریرین
136

ان سے دست بردار ہوا اور یہ اشعار آب دار رنگین کے زبان پر لایا:

مثنوی

ظلم اے رنگیں بہت معیوب ہے

عاجزوں پر رحم کرنا خوب ہے

کر لے نیکی تجھ سے جتنی ہو سکے

تخم پہ اچھا ہے بو، گر ہو سکے

نیک و بد کی کیا تجھے اٹکل نہیں

راہ سے بے راہ ہر گز چل نہیں

اور فی الحقیقت ہے، بقول نخشبی :

نخشبی رسم ظلم بد باشد

زہر کے کار ہاے قند کند

عاقبت در زمانہ ظالم را

داد مظلوم درد مند کند

القصہ اُس بادشاہِ جم جاہ نے وہ شیشی زہر پُر قہر کی ایک خدمت گار امانت دار کو دے کر اشارہ فرمایا کہ اس شیشی کو سنگ حوادث سے بچا کر محافظت سے محل بے بدل کی ڈیوڑھی پر لے جا اور شیریں خواص خاص داروغۂ دارالشفا کو سپرد کر کے رسید لے آ۔

بہ موجب حکم بادشاہی وہ خدمت گار دل فگار شیشی زہر پُر قہر کی لے کر چلا لیکن اثنائے راہ میں وہ نیک خصال یہ خیال دل میں لایا کہ ایسی چیز شاذ و نادر کہاں میسر ہوتی ہے۔ برائے داشتہ آید بكار، اس امانت میں خیانت کیجیے بقول ظہور : شعر

چراؤں میں تو کوئی کیا کہے گا

کبھی کچھ کام میرے آ رہے گا

137

المادعا وہ عزیز با تمیز اس میں سے چہارم حصّہ لیے خوف و غم لے کر آگے بڑھا۔

قضائے کار ایک بار قضا بصورت انسان بن کر نمودار و آشکار ہوئی اور یہ شعر ظہور کا زبان پر لائی: شعر

پھنسا ہے ہاتھ میں گو تو قضا کے

قضا کو لے چلا ہے پر چرا کے

یہ بات واہیات اس کی سن کر اس کے دل کو کمال زہر معلوم ہوئی :

اشعار

میں کس کا چور ہوں چوری ہے کیسی

نہ کہنا پھر کسی کو بات ایسی

جو زہر آلودہ کہتا ہے کوئی بات

قسم ہے سخت ہوتا ہے وہ بد ذات

یہ گفتگو دُو بدُو قضا سے کر کے حضور پُر نور کی ڈیوڑھی پر حاضر ہوا اور فرہاد خواجہ سرا کو محل کے اندر برائے طلب شیریں خواص، غنچہ لب بھیجا لیکن بقول ظہور: شعر

خبر سن کر خواص خاص آئی

اُٹھا پردے کو شكل اپنی دکھائی

خواص خاص کیا خاصی بلا تھی

تھی انسان پر وہ پردے میں قضا تھی

اب آگے اُس کے سراپا کی سراپا صفت کیا کروں! حقیقت میں وہ سراپا قیامت تھی: شعر

اگرچہ نام کو شیریں تھی وہ ماہ

و لیکن زہر کی تھی گانٹھ واللہ

138

غرض اس خدمت گار، دل فگار، سیہ بخت، ہمسر فرہاد ناشاد کو پہلے تو اس شیریں کے بال رشک سنبل نے سم الفار عشق کھلایا، اور زلف افعی مثال نے قضا کے سانپ آنکھوں میں لہرانے شروع کیے، اور پیشانئ لاثانی کو دیکھ کر آئینہ وار ششدر و حیران ہوا، اور ابروؤں نے ایک بار تیغ آب دار ھلالہ دو دستی سے سر دست گھائل کر دیا، اور تیر مژہ نے ہدف سینہ کو مانند خاک تودہ چھلنی کیا، اور خنجر نگاہ نے اس کے دل نحیف کو دیکھتے دیکھتے نیم بسمل کر دیا، اور عارض رشک گل کو ملاحظہ کر کے بوستان حیرت میں مثل نرگس حیران ہو گیا، اور بینی کو دیکھ کر جان غم ناک، ناک میں آ رہی، اور لب لعل فام کو دیکھ کر جان بہ لب ہو گیا، اور تنگئ دھن اُس غنچہ دھن کی دیکھ کر درجک گویائی پر قفل خاموشی لگ گیا، اور دانتوں کی آب داری دیکھ کر چشم گُہر بار، تار مژہ میں موتی پرونے لگی۔ چاہ ذقن کو دیکھتے ہی عشق نے چاہ الم جھنکا کر دل کو ڈانواں ڈول کر دیا اور اس مہ رو کی صفائی گلو اس ذرۂ بے مقدار کا دست غم گلا گھوٹنے لگی، اور گردن صراحی دار نے گردن پکڑ کر جلاد عشق کے حوالے کر دیا، اور شانہ دیکھ کر تیر قضا کا نشانہ ہو گیا، اور بازوؤں کے عالم نے نقد جان دست برد کر لیا، اور ساعد سیمیں نے گریبان وحشت پھاڑ کر دامن گیر جنوں کر دیا، اور کلائی کی نزاکت کا صدمہ جگر تک پہنچا، اور دست حنائی بصد خوں خواری دل نیم بسمل سے ہم پنجہ ہوئے، اور انگلیوں کے عالم نے عشق کی ناخن بندی کر کے عاشقوں میں انگشت نما کیا، اور چھاتیوں کو دیکھ کر کچھ چوٹ سی سینے میں لگ گئی، اور پیٹ کی صفائی ملاحظہ کر کے عشق کی لپیٹ میں آ گیا

139

اور ناف پر اُوصاف نے گرداب غم میں غوطہ زن کیا، اور سُربن کی گلاہٹ دیکھ کر دل بر میں پہلو تہی کرنے لگا، اور ران کی صفائی کے مثل آئینہ حیران کر دیا، اور ساق سیمیں نے اس غم گیں کو ہم زانوئے اجل کیا، اور پائے نگاریں کو دیکھ کر بے قراری اور اشک باری نے پاؤں پھیلائے۔ غرض بہ ہر صورت وہ کشتۂ وحشت، پامال غم و الم ہوا۔ قصہ مختصر اس تفتہ جگر نے اس عشوہ گر سے دو چار ہو کر وہ شیشی زہر پُر قہر کی آگے لے جا کے بقول ظہور : شعر

کہا لیجے امانت شہ کی جانی !

ہوئی زہر آب ہمیں یہ زندگانی

غرض وہ خواص خاص اس کشتۂ یاس، بے حواس کے ہاتھ سے ہیہات وہ شیشی زہر پُر قہر کی لے کر اور زہر عشق پالا کر محل کے اندر چلی؛ وہ مسموم رنج و الم اور کشتۂ تیغ ستم یہ دوہرا کسی کا زبان پر لایا :

دوہرا

بانہہ چھوڑائے جات ہونبل جان کے موئے

ہر دے میں سے جاؤ گے تو مرد بدوں گی توئے

المدعا وہ حور لقا اپنے مکانِ جنت نشاں میں جا کر زینت بخش ہوئی اور یہ تپیدہ ، جفا کشیدہ، بصد ملال یہ خیال پُر اختلال دل میں لایا کہ اس آرامِ جان عاشقان کا وصال محال ہے۔ بقول جرأت: شعر

وصل بننے کا کچھ بناؤ نہیں

واں لگا دل جہاں لاؤ نہیں

اور یہ بے قراری اور آہ و زاری دل سے دور ہوتی نہایت اشكال ہے۔ پس اس سے تو بہتر ہے کہ اس جان شیریں کو شیریں

140

کے اشتیاق میں فرہاد آسا تیشۂ زہر ہلاہل سے ہلاک کیجیے بقول میر سوز: مصرع

فرہاد ہم نہیں جو مریں سر پٹک پٹک

غرض وہ دل گیر پُر تشویر یہ تدبیر دل میں کر کے اس زہر کے پینے پر مستعد ہوا، پھر یہ دل میں خیال پُر اختلال آیا کہ اگر اس زہر پر قہر کے پینے سے جان شیریں شیشۂ قالب سے فرار ہو گئی تو موجب بد نامی شہنشاہ عالم پناہ ہے، کس واسطے کہ جمع صغیر و کبیر، برنا و پیر کہیں گے کہ یہ عزیز بے تمیز بادشاہ عالی جاہ کی خواص خاص پر مفتون و شیدا ہو کر مر گیا۔ اس بات سے تو یوں بہتر ہے کہ یہ زہر پُر قہر یہاں پی کر گھر میں چلیے اور وہاں جا کر چپکے سے مر رہیے۔ یہ مشورۂ غم افزا اس مسموم عشق نے دل سے کر کے اس زہر پُر قہر کو لے لیا اور یہ اشعار آب دار ظہور کے پڑھنے لگا:

اشعار

خوشی رہ تو، چلے ہم اپنے گھر کو

وصیت کرنے میں تجھ بے خبر کو

نہ تو آئے گی میرے پاس جب تک

نہ نکلے گی مری جان تن سے تب تک

تغافل کی قسم تو جلد آنا

عدم کو تا میں ہوں جلدی روانہ

نہ دکھلانا عذاب نزع مجھ کو

قسم ہے کشتۂ الفت کی تجھ کو

چلا یہ کہہ کے پھر با جان نا شاد

چلے ہم اپنے گھر کو خانہ آباد

141

القصہ وہ زہر پُر قہر اس مسموم عشق نے شیشۂ حلق میں پُر کر کے اپنے خانہ ویران اور کاشانۂ پریشان کی راہ لی، اور بادشاہ جم جاہ بعد فراغ سیر و شکار محل خاص میں در آمد ہو کر بہ زبانِ شیریں یوں گویا ہوئے کہ وہ شیشی زہر پُر قہر کی فالانا خواص، جو شیریں خواص کو دے گیا تھا وہ کہاں ہے؟

یہ کلام شاہ عالی مقام کا شیریں سن کر معِ امانت خدمت سے شہنشاہ میں حاضر ہوئی لیکن بقول ظہور :

اشعار

جونہی دیکھی وہ شیشی شہ نے خالی

یکایک آ گئی چہرے پہ لالی

یہ فرمایا کہ ہے یہ جائے حیرت

امانت میں ہماری ہو خیانت

یہ کس کی زندگانی دار فانی میں تلخ ہوئی ہے جو اس نے زہر ھلاہل کو چرا لیا۔ یہ گفتگو بادشاہ تند خو کی سن کر سب خواصیں دست بستہ عرض کرنے لگی کہ اے شاہ بحر و بر والا گہر! ہم پرستاروں، جاں نثاروں کا کیا زہرہ ہے جو حضرت کی امانت میں خیانت کریں۔ اس حالت پر غضب میں وہ شاہ عالم پناہ محل سرا سے بر آمد ہوا اور امین خاص کو طلب فرما کے یوں ارشاد کیا، ”اے عزیز بے تمیز! تجھ کو میں نے زہر پُر قہر کی شیشی کیا اسی قدر دی تھی؟ چس بتا نہیں تو واللہ باللہ اس کی تعزیر ایسی دوں گا کہ تیری زیست تلخ ہو جائے گی۔“ اس کے جواب میں اس مسموم عشق نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ اے شاہ گیتی پناہ، فی الحقیقت بقول ظہور: شعر

اُسے جب میں در شاہی پہ لایا

بہ ناکامی وہ میرے کام آیا

142

یہ احوال كثیر الاختلال بادشاہ سن کر مانندِ بلبل تصویر گلستان حیرت میں خاموش ہو گیا اور دل میں کہنے لگا کہ یا الہٰی! یہ عزیز ناچیز کیا کہتا ہے، یعنی ایسا زہر پُر قہر نوش کرے اور اب تک جیتا رہے! یہ بات حسب ظاہر کچھ عقل میں نہیں آتی۔ القصہ بادشاہ عالی جاہ نے وہیں حکیموں کو طلب فرما کے یوں ارشاد کیا کہ یہ مسموم مغموم کس سبب سے اب تک قید حیات میں ہے؟

الغرض حکیموں نے اس جان بہ لب، زہر خوردہ کی نبض دیکھ کر عرض کی کہ اے شاہ فالاطون طبیعت و اے ارسطو خصلت! یہ مسموم مغموم ظاہر میں زندہ ہے مگر اس کی نبض سے معلوم اور مفہوم ہوتا ہے کہ اس کو کسی کے افعئی زلف نے ڈسا ہے کہ تاثیر زہر کو فرو کر دیا۔ اگر اس مضطر خستہ جگر کو اس کا شربت دیدار ملے تو غالب ہے کہ یہ جان بہ لب دیکھتے ہی اپنے دلبر کو پانی کی طرح بہ جائے، بقول ظہور :

اشعار

کسی کی زلف پیچاں کا سیہ مار

پس اس کو ڈس گیا ہے ظاہر آثار

اگر وہ سانپ اس کے آگے لہرائے

یہ کھا کر لہر، پانی ہو کے بہہ جائے

یہ سخن حیرت افگن حکیموں سے سن کر بادشاہ کہنے لگا۔ ”یہ بات خلاف عقل ہے۔“

اس کے جواب میں حکیموں نے عرض کی کہ اگر اس بات میں مُو برابر فرق ہو تو ہم خانہ زادوں کو زہر عقوبت سے ہلاک کیجیے، اور حضرت کو اس میں کچھ تامل ہو تو ہمارے

143

نسخۂ تشخیص کو امتحان کر لیجیے۔

الغرض بادشاہ نے حکیموں سے ارشاد کیا ”اگر اس کا معشوق دریافت ہو تو اس کو بلا کر موصل کیجیے تا کہ بہ مسموم تلخئ ہجر کے عذاب سے مخلصی پائے یا جان شیریں کو دار فانی میں آسانی سے گنوائے۔

یہ کلام بادشاہ عالی مقام کا سن کر اطبائے حاذق اور حکمائے صادق بہم ہو کر عرض کرنے لگے کہ خداوند نعمت! سپہرِ کرامت! غالب ہے کہ جو رشک حور اس کے ہاتھ سے زہر کی شیشی لے گئی ہے، اسی نے اس دیوانے کو زہر عشق پلا دیا ہے۔

یہ سخن دل شکن حکیموں کا سن کر بادشاہ نے اس مسموم مخدوم سے پوچھا ”اے تفتہ جگر، دل مضطر! سچ بتا، تیرے ہاتھ سے زہر پُر قبر کی شیشی کون بس کی گانٹھ لے گئی تھی؟“

یہ گفتگو بادشاہ تند خو کی سن کر وہ عازم ملکِ عدم مسموم زہر غم یوں گویا ہوا : ”اے بادشاہ عالم پناہ! وہ جو شیریں، خواص خاص سرکار والا تبار کی ہے، اس کا افعئ زلف میرے دل حزیں کو ڈس گیا، لیکن اے شہنشاہِ گیتی پناہ! پھر بقول تنہا :

ہے جی میں اس کے کا کل پر خم دیکھیے

اس آرزو کو دیکھیے اور ہم کو دیکھیے

قصہ مختصر بادشاہ جم جاہ نے فرہاد خواجہ سرا، خوش زیبا کو ارشاد کیا کہ اس وقت خلوت کر کے شیریں خواصِ خاص کو بلا لا۔

الغرض جس وقت بادشاہ عالی جاہ کے قریب اطبائے خاص

144

کشتۂ یاس کے سوا کوئی نہ رہا، تو وہ فرہاد خواجہ سرا مہر لقا شیریں خواص کی طلب کے واسطے محل سرا میں گیا اور ادھر اس ناشاد رشک فرہاد کو جو دریافت ہوا کہ وہ شیریں دہن نام مجھ تلخ کام کو شربت دیدار پلانے کو آتی ہے، بقول میر حسن:

کچھ اک جی کو امید اور دل کو یاس

لبوں پر ہنسی لیکن چہرہ اداس

اور ہر بار وہ دل فگار دل کو تشفی دیتا تھا کہ اے دل! اب تیرا وصل نہایت متصل ہے، بقول ظہور: شعر

ملے گا بوسۂ لعل شکر خند

یہ زہرِ تلخ سب ہو جائے گا قند

اور کبھی وہ جگر فگار اس کے انتظار میں بہ صد بے قراری ہر باری شبنم کا یہ مطلع زبان پر لاتا: مطلع

دم نکل جائے کہیں یا مجھ نحیف و زار کا

یا کہیں جلدی میسر وصل ہو دل دار کا

اس حالت پُر ملالت میں وہ ماہ رخسار ایک بار نمودار ہوئی، غرض بقول ظہور :

نظم

قریب شاہ جب وہ آن پہنچی

تو اس مُردے میں گویا جان پہنچی

محبت کا جب آیا جوش پُر جوش

ہوئیں شرم و حیا دونوں فراموش

یکایک تمنائے ہم آغوشی میں اس سموم مغموم نے خوف بادشاہ کو گوشہ دل سے فراموش کر کے کمان صبر سے مثل تیر

145

پران ہو کر اپنے لب کو لب معشوق سے لب معشوق کیا اور اس کمان ابرو کو قبضۂ آغوش میں کھینچ کر یہ شعر کسی کا زبان پر لایا : شعر

کمان ابرو مرے گھر کیوں نہ آئے

کہ جس کے واسطے کھینچے ہیں چلّے

لیکن بقول مرزا سودا : شعر

فائدہ اب کیا کرے تریاق وصل

زہر غم ہجر اثر کر گیا

غرض وہ جگر فگار، عاشق زار ہدف سینہ پر تیر قضا کھائے مرنے پر لیس بیٹھا تھا پر پیکان(1) شادئ مرگ کی خواہش میں یکایک اس مہ کے گلے لگتے ہی زہر پر ُقہر نے ہجر کی تاثیر کو شربت وصل سے مبدل کر کے اپنا جو اثر بخشا تو وہ مسموم مغموم مثل موج دریا آب ہو کر بہہ گیا، لیکن حرارتِ عشق اور تاثیر زہر سے وہ پانی آفت کی نشانی اس قدر گرمی رکھتا تھا کہ جس زمین پر وہ آب رواں ہوا، حباب آسا اس مکان پر پھپھولے پڑ گئے لیکن بقول ظہور :

ابیات

بہ رنگ ابر پانی ہو بہا وہ

سحاب غم سے نکلی مہ لقا وہ

یہ چمکی برق جو ابر سیہ میں

ہوئی حیرت دل حیران شہ میں

القصہ وہ شاہ عالم پناہ اس مسموم مغموم کے مرنے سے نہایت ملول و اندوہ گیں ہوا اور وہ جو زہر پُر قہر کے گم ہونے

1) نسخہ مطبع محمدی ۱۳۱۱ھ میں ’مکان‘ ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 91
یکتائے عصر نے بہ دانائی بعید زیبائی ایک الگ مکان دلستان میں اس گل حیا آلودہ کو اتروایا اور ادھر ادھر پھر کے گاہے اپنے جمال ماہ تمثال سے اس تشنہ دیدار کو سیراب کر جاتی اور کاہے ایک
جھلک برق وار اس دل فگار کو دور سے دکھا کر غائب ہو جاتی لیکن اس کشتہ رنج و محن، خستہ تن کا یہ نقشہ تھا، بقول مصحفی:

ابيات

آنکھوں سے سرشک وصل جاری
دل پر وہی جوش بےقراری
اس عین خوشی میں ہجر کا غم
اجزائے نشاط وصل درہم

گاور اس مہمان خانے میں وہ جو عورات عمدہ اور زنان حور لقاء صاحب تمکین، صد تزئین رونق افزائے محفل تھیں، اس کے الگ بیٹھنے سے سب باہم منغص ہو کے کہتی تھیں "کیا معنی یہ عورت ماہ سیرت ایسے کون سے خاندان عالی شان سے ہے کہ جو ہم سب سے نفرت کر کے الگ بیٹھی ہے؟ على ہذالقياس نہ ہمارے پاس آنے کی تکلیفیں کرتی ہے اور نہ ہم کو خوشی سے کہتی ہے کہ اے بی بیو! بحضرت عباس تمہی میرے پاس بلا وسواس
تشریف لاؤ۔ صاف اس بات سے یہ معلوم و مفہوم ہوتا ہے کہ یہ حور اپنے حسن پر نہایت مغرور ہو" اور کوئی کہتی تھی کہ بی بيو! میں نے دریافت کیا، کچھ اس بدماغ کو خلل دماغ ہے جو یوں ہم لوگوں سے متنفر ہے، اور کوئی زرگری میں کہتی تھی کہ یہ سیم تن کم سخن اپنے زر و زیور کے گھمنڈ میں بالا بالا رتبہ جہاں گیری کو پہنچی ہے جو اس روپ سے اس کو

صفحہ 92
الگ سونا بیٹھنا پسند خاطر ہے، اور کوئی جامہ زیب، دل فریب ہاتھ مل مل کے کہتی تھی کہ یہ گل بدن، رشک چمن اپنے لباس فاخرہ بے بہا کی تمكنت میں ایسا گاڑھا دماغ رکھتی ہے کہ حجرے کے صحن تک بھی نہیں آتی۔
یہ رمز و کنایہ ان بی بيوں کا صاحب خانہ سن کر یوں حرف زن ہوئى کہ اے بی بیو! خوش جمال، نیک خصال! یہ کچھ اپنے لباس بے قیاس اور زیور جواہر نگار، اعجوبہ کار پر بد دماغ ہو کر الگ نہیں بیٹھی ہے؛ اس مہر پیکر، رشک قمر کو کچھ خلل دماغ اور خفقان بے پایاں ہے۔ اس سبب سے وہ نازنین رشک حور عين تم سب کے قریب نہیں آتی کہ کسی پری رو، نیک خو کی خدمت میں کچھ گستاخی نہ ہو جائے، بقول شخصے: ع

ہیج آفت نہ رسد گوشہ تنہائی را

اس گفتگو دل جو سے سب مہمانوں کی تشفی خاطر کر کے کہنے لگی کہ بی بيو! اگر ایک گھڑی کی اجازت بشاشت سے عنایت کیجیے تو ایک بازی چوسر کھیل کر اس پر حجاب رشک مہتاب کو شگفتہ خاطر کروں؟
یہ کلام فصاحت انجام سن کر ہر پری پیکر کہنے لگی "کیا مضائقہ: مصرع

خوشی اپنی بھی اس میں ہے
خوشی جس میں تمہاری ہے،،

المدعا وہ ماہ دل خواہ اس رشک آفتاب کے پہلو میں جلوہ گر ہو کر حجرہ برج آسا میں جلوۂ قران السعدین دکھانے لگی۔ اس وقت اس حجرے کا ان دونوں ماہ رویوں سے یہ عالم تھا گویا ایک ہالے میں دو ماہ، یا ایک صدف میں دو گوہر آبدار، یا ایک فانوس میں دو شمعیں کافوری روشن اور منور ہیں۔

صفحہ 93
اس کیفیت میں اور کیفیت سنو کہ جس وقت چوسر بچھا کے اس نازنین مہ جبین نے پہلے پانسا پھینکا تو چھ تین نو آئے، تو وہ نو گرفتار محبت، بيار الفت یوں بولی کہ اے دلدار غم گسار! فی الحقیقت ہے کہ تو نے اس محبت پر صعوبت کی بڑی مصیبت اٹھائی ہے لیکن میں ابھی ہنوز نو آموز عشق ہوں؛ بہر نوع تجھ کو میری غم گساری اور دلداری کرنی ضرور ہے تا کہ میرا حال پر ملال نوع دیگر نہ ہو۔
اس کے بعد اس دل تفتہ، جگر خستہ نے جو پانسا پھینکا تو پر بارہ پڑے۔ اس پانسے کو دیکھ کر یوں حرف زن ہوا کہ اے یار جانی والے مایہ زندگانی! بہ پو بارہ نہیں ہیں، یہ میرے حال صدق مقال ہے کہ مجھ کو دو برس یعنی ایک جگ اور مینا پورا ہوا ہے کہ تیرے عشق میں عقل کے چھکے چھوٹ گئے۔ حواس خمسہ کے پنجے بند ہيں۔ کوئی رہائی کی چال بے زوال نہیں سوجھتی۔ دوسرے یہ کہ ہوش و حواس کا بھی جگ ٹوٹ گیا اور خرد کی نرد کٹ گئی۔ آگے دیکھیے حضرت عشق اس بدرنگی میں کیا رنگ دکھاتے ہیں۔ اس غم میں جی پک گیا اور کوہ الم کی سل چھاتی کے متصل اڑی رہتی ہے، اور خیال خام نے دماغ میں خلل پیدا کیا، اور وحشت دل گھر بار چھڑاتی ہے۔ تاب و طاقت نے ست ہار دیا۔ کوئی داؤں ایسا نہیں آتا اس غم کے ہاتھوں سے چھوٹ کر لالوں لال ہو جاؤں یا
بساط جہان سے ملک عدم کو اڑ جاؤں، کیوں کہ بقول جرأت:

شعر
سخت تجھ بن قلق اس دل کا ستاتا ہے مجھے
کہ اٹھاتا ہے تو یہ کاہے بٹھاتا ہے مجھے

الحاصل وہ چوسر کی بازی دونوں دل دو نيم کی

صفحہ 94
میر بساط عشق نے دوئے میں لا کے اس واسطے ٹھکرا دی کہ دو مہینے کے بعد ان کی نرد جان پر امان کو مار ڈالے گا۔ اس گفتگو دو بدو میں شب وصال اس پائمال الم سے پہلو تہی کرنے لگی اور وداع سحر کا آثار اظہار ہونے لگا۔ اس پری، خجلت دہ کبک دری نے بہ دانائی، برائے رفع بدنامی اس نیم جان پر ارمان سے کہا کہ اے دلدار مونس غم گسار! جی تو نہیں چاہتا ہے کہ تجھ کو اس وقت رخصت کروں، لیکن کیا کیجیے :ع

زمیں سخت اور آسمان دور ہے

اور بقول شخصے: شعر

جدائی کا ہم تیری غم کیا کریں
فلک یوں ہی چاہے تو ہم کیا کریں

مگر تو اپنی خاطر فاتر جمع رکھ، ان شاء اللہ تعالی اسی شکل پر گاہے گاہے مواصلات کی صورت رہے گی۔ پر اس وقت صلاح وقت يہ ہے کہ ابھی روز روشن نہیں ہوا مبادا بوقت فردا تیری چال ڈھال سے کوئی پہچان جائے تو موجب ہتک جانبین ہے۔ آخر بصد اشک باری اور بے قراری اس مہر درخشاں کو اس ماہ سیما نے تاروں کے وقت چشم فتنہ میں خاک ڈال کر رخصت کیا؛ بعد ازاں زنان ہمسایہ کو باری باری وداع کر کے مسرور کی یہ غزل زبان پر لائی:

غزل
یوں نہ کوئی عشق کا بیمار ہو
ہائے دشمن کو نہ یہ آزار ہو

صفحہ 95
اے خوشا اوقات اس وارفتہ کی
رات دن جس کی بغل میں یار ہو
کس کو طوبی کی ہوس ہو دوستو
ہم ہوں اور وہ سایۂ دیوار ہو
شجر کی شب کیا کرے ضبط فغاں
دل کی بے تابی سے جو ناچار ہو
حضرت عیسی کی قسم سے کیا اسے
جو کسی کا کشتہ رفتار ہو
کیا بجھے شربت سے اس کی تشنگی
جار کا جو تشنہ دیدار ہو
زیست ایسے شخص کی مسرور کیا
یار جس کے پاس بے غم خوار ہو

ادھر تو اس کی یہ حالت پر آفت تھی، ادھر وہ نيم بسمل بے جان و بے دل جو گھر میں گیا تو بقول میر تقی یہ حالت ہوئی:

نہ جی کو تسلی نہ دل کو قرار
کف غم میں سر رشتہ اختیار
کبھو یاد کر اس کو نالاں رہے
کبھی ٹک جو بھولے تو حیراں رہے
نہ دم بھر کبھی دیدۂ تر لگے
نہ گھر میں لگے جی نہ باہر لگے
کبھی یاں کبھی واں بحال خراب
و ہی بے قراری وہی اضطراب

لیکن گاہے گاہے وہ پری رو، نیک خو برائے تشفی خاطر فاتر

صفحہ 96
اس کے پاس با دل پر یاس اصیل بھیج کر خبر وحشت اثر منگوایا کرتی تھی۔ اس عرصے میں آزار غم نے یہاں تک طول کھینچا کہ وہ غریب، قريب مرگ ہوا۔ آخر کار یہ دل فگار، خستہ و زار، دارفانی ملک بقا کو رحلت کر گیا۔
یہ واقعہ غم افزا، برملا اس کی مادر خستہ جگر دیکھ کر با دیدۂ گریاں و دل بر یاں یوں کہنے لگی:

مثنوی
اے نور نگاہ و ماہ ثانی
افسوس تری پہ نوجوانی
افلاک نے خاک میں ملائی
مجھ کو تری موت کیوں نہ آئی
اے کاش! تمھارے بدلے بیٹا
مر جاتی جو ماں تو خوب ہوتا
مجھے پیر کے آگے ہائے صدا¹ وائے
افسوس تو نوجوان مر جائے!

یہ بین نے چین کر کے اس کی مادر مضطر بستر خاک پر بے ہوش ہو گئی لیکن اس کے دوست و آشنا اور خویش و اقربا نے غسالوں سے غسل دلوا کے پارچہ نفیس سے تکفین کیا اور میت کو صندوق میں رکھ کر برائے تزئین ایسا ایک دوشالہ سبز اس پر ڈالا کہ جس سے وہ تابوت عاشقوں میں سر سبز ہو گیا اور اس پر پھولوں کی چادر لہلہہاتی ڈال کر حمال پر ملال جو لے چلے۔


1- نسخہ مطبوعہ مطبع محمدی1311ء میں "اے" ہے۔

صفحہ 97
تو اس تابوت پرالم کا یہ عالم تھا گویا تختہ چمن، پر از نسترن دوش صبا پر رواں ہے۔
رفتہ رفتہ اس کشتہ محبت و خستہ الفت کا تابوت جذبہ عشق سے اسی طرف کو روانہ ہوا جدھر اس کی معشوقہ جاں نثار و محبوبہ غم گسار کا مكان داستان تھا۔ آخرالامر وہ تابوت بنات النعش وار، بے اختیار سنگین محل میں سنگین ہو کر یوں اشارہ زن ہوا، مرزا گھسیٹا عشق کے بقول: شعر

تو ساتھ ہو حسرت دل محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ تو ذرا دھوم سے نکلے

اور بقول حکیم حیات اللہ قلاش: شعر

بعد کشتن رحم بر حالم نہ فرمائی چرا
ہمرہ تابوت تا گورم نمی آئی چرا؟

غرض جمالوں نے ہر چند چاہا کہ بی گراں بار محبت اور آثار قیامت کسی طرح سے چلے لیکن مطلق اس تابوت حیرت افزا کو جنبش نہ ہوئی۔
اس واردات عجائبات کو دیکھ کر ہجوم جز و کل میں بے تامل غل ہوا اور آپس میں یوں ہم سخن ہوئے کہ آیا دیکھیے اس وقت کیا قیامت برپا ہوتی ہے جو یہ تابوت گراں بار مثل کوہسار یہاں سے نہیں ہلتا ہے۔ اس واقعہ عجیب و غریب کے نظارے کو ہر ماہ تمام اپنے اپنے بام پر جلوہ گر ہوئی۔
القصہ یہ خبر وحشت اثر اس عشوہ گر خستہ جگر کو جو پہنچی، وہيں اس مضطر نے پنجہ ضبط سے دل کو تھام کر غسل کیا اور پوشاک سفید بہ جان نومید تن پر آراستہ کر کے اور پیش قبض

صفحہ 98
شوہر ہاتھ میں لے کر بہر طواف کشتہ خویش وہ جگر ریش بر لب بام باشتیاق تمام نظارہ کناں ہوئی، تو کیا دیکھتی ہے کہ وہ تابوت عاشق مبہوت بقول مصحفی:

چلتا نہیں جا سے اڑ رہا ہے
کہرام گلی میں پڑ رہا ہے
اس دیکھتے ہی اسے بھر اک آہ
مارا بشكم وہ دشنہ ناگاہ

لگتے ہی اس پیش قبض آبدار، خون خوار کے وہ لالہ رو خون میں غلطاں ہو کر جان بحق تسليم ہوئی اور تیغ عشق نے یہ جوہر دکھلائے کہ اس گل بدن، رشک چمن کے خون ناب کی دھار زیر بام آئی۔ یہ روداد بے داد دیکھ کر اس کا شوہر خستہ جگر کوٹھے پر جو آیا تو کیا دیکھتا ہے، بقول مصحفی:

ہے بام پہ غرق خون وہ گلفام
خورشيد ہو جیسے بر لب بام

آخر کار اس مبتلائے الم، پر غم سے اس دم کچھ نہ بن آیا، چار و ناچار اس کو با دل زار ہاتھوں ہاتھ تکفین کر کے وہ جنازہ غم آمادہ لے کر گھر سے باہر جو نکلا تو عجب طرح کا ایک شور محشر برپا ہوا، گویا قیامت آئی۔ کوئی تو زار زار مثل ابر نو بہار گریاں با دل بر یاں یوں حرف زن تھا: شعر

کبھی دیکھا نہ ہم نے یہ سنا ہے
جو اس دم اس گلی میں ماجرا ہے

اور کوئی خاک پر پچھاڑیں کھا کھا کے یہ کہتا تھا:

اس عشق نے کیا غضب دکھایا
اس مہ کو جو خاک میں ملایا

اور کوئی عالم حیرت میں انگشت زیر دنداں کاٹتا اور یہ سخن دل شکن کہتا کہ شاید ان دونوں میں پوشیدہ آگے سے محبت

صفحہ 99
ہوگی جو آج یوں ایک بار اظہار ہوئی۔
قصہ مختصر جب جنازہ غم آمادہ معشوقہ جاں نثار کا آگے ہوا تو پیچھے وہ تابوت بھی خود بخود چل نکلا لیکن بقول مصحفی:

ابیات
دونوں وہ جنازے جب رواں تھے
حیرت زدہ پیر اور جوان تھے
کہتے تھے یہ طرفہ ماجرا ہے
کیا مردے نے زندے کو ليا ہے

آخر کار ان دونوں خاکسار جاں نثاروں کو تکیے پر بہم زیر خاک تسلیم کیا، اس دم بقول الہی بخش: شعر

جب قبر میں ان دونوں کو اک بار اتارا
غل تھا یہی الفت نے انہیں مار اتارا

مثنوی
اب آگے کیا لکھوں ہیہات، ہيہات!
نہیں ہوتا کسی کا اس طرح سات
غرض یہ عشق تو وہ بد بلا ہے
کہ جس کی آگ میں ہر اک جلا ہے
کہاں مجنوں کہاں فرہاد بے دل!
کہاں شیریں کہاں لیلیٰ کا محمل!
کہاں عذرا کہاں وامق دل افگار!
کہاں نل اور دمن سی ماہ رخسار!
ہزاروں گھر لٹائے عشق نے آہ!
ہزاروں جی جلائے عشق نے آہ!

صفحہ 100
نئی اس کی حکایت ہر جگہ ہے
نئی اس کی شکایت ہر جگہ ہے
اس اے مہجور! اب آگے الم کی
نہیں خامے کو طاقت ہے رقم کی

اور بقول شخصے فی الحقیقت: شعر

یہ ہم نے کیا لکھا اور کیا پڑھا ہے
محبت کا ابھی قصہ بڑا ہے

داستان

یعنی ایک شہر کے مسافر خانے میں نقش صندلیں
دست نازنیں پر تجار کا عاشق ہونا اور اس کے فراق میں مرنا اور اس کی وصیت کے موافق اسی مکان میں مالک کا دفن کرنا اور دریافت حال کے بعد جذبہ عشق تجار سے معشوق کا جان دینا تجاران دل فروش و خریداران متاع جوش و خروش یہ قصہ غم اندوز و فسانہ جگر سوز کاغذ شفاف پر کلک جگر شگاف سے یوں رقم کرتے ہیں کہ ایک سوداگر، پری پیکر، نو رستہ گلشن جوانی و گلستہ باغ کامرانی، بلبل شاخ عنفوان شباب و صلصل سرو بوستان شاداب ایسا حسن و جمال رشک بدر کمال رکھتا تھا کہ اگر اس دور میں زليخا ہوتی تو اس یوسف ثانی کے رو برو کبھی یوسف مصری سے نہ بات کرتی اور
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
ریختہ صفحہ 186

دیکھ کر بحالت ششدر اپنی زن پر فن سے کہنے لگا کہ "اے بی بی ! یہ کون ننگی شمشیر دست بقیضہ ، تیز رفتار ، تند گفتار دوبدو گفتگو کر کے یوں ایک بر فرار ہو گیا ؟" وہ زن پُر فن اپنے شوہر بے خبر کے سر سے پاؤں تک بلائیں لے کر کہنے لگی " اے میاں ! کچھ نہ پوچھو : مصرع

رسیدہ بود بلائے و لے بہ خیر گزشت

خدا اور رسولﷺ نے تیری آج بڑی مدد کی ؛ اگر آج تیرے اوپر سے اپنی جان کو قربان کر ڈالوں یا گھر بار سب لٹا دوں تو بھی بجا ہے کیوں کہ اس مست بد سرشت کے ڈر سے ایک لڑکا کسی بھلے آدمی کا بھاگا ہوا میرے گھر میں آ کر کہنے لگا " اے بی بی ! مجھ نادان کی جان اس وقت ایک سڑی کے ہاتھ سے بچا لے ، اس کا اجر تُجھ کو خدا اور مصطفیٰﷺ دے گا ۔
اے میاں سنو ، اُس لڑکے کو میں نے کوٹھری میں چھپا رکھا ہے ۔ ہر چند مجھ سے اُس سڑی سودائی نے کہا کہ وہ لڑکا کہاں ہے ، مجھے بتا دے ، نہیں تو تُجھے اس تیغِ تیز سے دو ٹکڑے کر دوں گا ۔ یہ گفتگو عر بدہ جو مجھ سے دو بدو کر رہا تھا کہ اُس میں سے تو جو سامنے سے نمودار و آشکار ہوا ، نہیں معلوم اُس یوم کو کیا خوف و خطر تیرا آیا کہ جو وہ یہاں سے بکتا جھکتا دفع ہو گیا۔"
یہ واردات وہ آلو اُس کی زبانی سن کے کہنے لگا کہ اے بی بی ! وہ لڑکا خوف و خطر کا سہما کہاں ہے؟ وہ زن مکّار بدکار کہنے لگی " اے میاں ! اُس کھوپڑی کے درمیان پنہاں ہے ۔ " غرض وہ سادہ لوح اُس لڑکے کی جبین و ابرو کو بوسہ دے کے کہنے لگا " اے نازنین مہ جبین ! تُجھ کو خدا

ریختہ صفحہ 187

آج بڑی آفت سے نجات دی ۔ سچ تو یوں ہے کہ " جس کو خدا رکھے اُس کو کون چکھے " حاصل کلام اُس بد انجام نے اُس طفل کو آب و طعام سے سیر کر کے بہ صد تشفّیٖ و تسلی رخصت کیا اور یوں کہا کہ اے بیٹا " ایں خانہ خانۂ شباست " جب تمہارا جی چاہے بے تکلّف چلے آنا ؛ اور اپنی زن مکّار بدکار سے کہنے لگا کہ اے زن وفادار ! اس طفل دلدار کو تو بھی ذرا چھاتی سے لگا کر پیار کر لے تا کہ اس کے دل سے خوف و خطر نکل جائے ۔ "

مثنوی

جو ایسے نہ ہوں بے حیا مسخرے
تو کیوں اُن کی جورو نہ ایسا کرے
غرض ایسی زن سے خدا کی پناہ
جو شوہر کے ہو سامنے بد نگاہ
خدا اُس کو اندھا کرے قہر سے
بہ ذلت نکالے و یا شہر سے
تری بات مہجور سچ ہے تمام
ولے شیخ سعدی کا سن یہ کلام
"ز بے گانگاں چشم زن کور باد !
چو بیروں شد از خانہ در گور باد ! "

(شیخ سعدی)


ریختہ صفحہ 188

چر تر

ایک شخص نے کئی دفتر عورتوں کے مکر و فریب کے لکھ کر اپنے پاس رکھے تھے ، ایک دِن ایک عورت نے ایسا
چر تر کیا کہ آس نے کبھی دیکھا نہ سنا تھا

دبیران سخن سنج اور محرران بے رنج یہ حکایت پُر ندرت بہ صفحۂ حریر یوں تحریر و تسطیر کرتے ہیں کہ ایک با تمیز نے زنان حیلہ ساز اور عورتان دغاباز کی مذمت میں چند دفتر چرتر کے اُس واسطے تحریر و تسطیر کیے تھے کہ اُن کے پڑھنے سے کوئی رنڈی بدکار ، نا ہنجار فریب پیش نہ لے جاوے اور ہمیشہ زن مکارہ و بدکار کو میں ہی ہر ایک قاعدے سے زیر و زبر کیا کروں ، لیکن قول نخشبی کو نہ سمجھا :

نظم

نخشبی مکر در زناں پید است
تا نہ دانی تو سہل عذر زناں
گر نویسد کسے ز شغف دروں
صد سفینہ شود ز مکر زناں

اتفاقاً وہ عزیز با تمیز ایک شہر نو آباد مینو سواد میں جو گزرا تو ایک مکان جنت نشان میں مقیم ہوا لیکن اُس کے قریب ایک محل بے بدل کے دریچے میں ایک عورت خوب صورت ، پُر فطرت بیٹھی تھی ۔ اُس میں ناگاہ اُس کی نگاہ جو اُس جوان کے اسباب پر پڑی تو کیا دیکھتی ہے کہ اور تو اسباب انتخاب بے حساب ہے لیکن کتابیں کچھ حد سے افزوں


ریختہ صفحہ 189


ہیں۔ یہ احوال کثیر الاختال وہ ماہ لقا با وفا ملاحظہ کر کے خاموش ہو گئی ، لیکن اُس جوان نادان کو ایک کنیز جان عزیز سے بلوا کر کہنے لگی " اے عزیز با تمیز ! تیرے اسباب انتخاب میں جلد ہائے کتاب بے حساب جو ہیں ، اُس کا کیا موجب ہے ؟" یہ کلام وہ خود کام سن کر کہنے لگا کہ " یہ کتابیں زنان فاجرہ و فاسقہ کے مکر میں میں نے تحریر کی ہیں کیوں کہ اُن کی ذات نہایت قسم واہیات سے ہے ، بقول عنایت ﷲ : شعر

عزیزاں را کند کید زناں خوار
بہ کید زن بود دانا گرفتار

یہ گفتگو وہ زن بدحواس عزیز با تمیز کی سن کر کہنے لگی " صاحب اب آپ پوشاک بے باک اُتار کر آرام فرمائیے ، یہ پلنگ خوش رنگ موجود ہے ، دو چار گھڑی کے بعد تشریف شریف اپنے مکان دلستاں پر کے جائیے گا " الحاصل اُس رو سیاہ کے ہمراہ شراب نوشی اور ہم آغوشی میں وہ جوان انجان مصروف و مالوف ہوا ۔ اُس عرصے میں اُس کا شوہر بے خبر در پر آواز ده ہوا تو اُس زن پُر فن نے ایک کنیز با تمیز سے کہا " اری فلانی ! دروازہ کھول دے ، میاں صاحب آتے ہیں ۔" وہ نوجوان نادان کہنے لگا " بی بی صاحب ! اب میں کہاں جاؤں " اُس زن پُر فن نے کہا " اُس صندوق مضبوط میں تُم جا بیٹھو ، میں اوپر سے قفل دے دوں گی ، تمہارا پردہ فاش نہ ہوگا " وہ جوان نادان صندوق میں جا کے مخفی ہوا اور صاحب خانہ نے گھر میں آ کے دیکھا تو عجب ماجرائے حیرت افزا ہے ۔ کہیں تو دستار رشک بہار رکھی ہے اور کہیں جامۂ گھیردار مردانہ پڑا ہے اور کہیں سپر اور تلوار عجوبہ کار رکھی ہے اور شراب ناب کے شیشے مع گلاس زرنگاری بہ صد تیاری جلوہ نما ہیں ۔

ریختہ صفحہ 190

یہ نقشہ اپنے گھر کا وہ حیرت زدہ دیکھ کر اپنی زن پُر فن سے کہنے لگا " ارے یہ کیا واردات واہیات ہے ؟" وہ زن پُر فن جواب دہ ہوئی " میاں صاحب ! ایک جوان مہمان آیا تھا ، سو اُس کے سامنے یہ سامان بے پایاں مہیا کیا تھا " صاحب خانہ یہ سخن دل شکن سن کر کہنے لگا کہ وہ جوان بے جان کہاں ہے ؟ اُس عورت پر فطرت نے کہا " اُس صندوق میں پنہاں ہے ، اُس کو کھول کر دیکھ لو " ، جوں ہی اُس نے اُس صندوق کی کنجی زن پُر فن کے ہاتھ سے لی کہ یکایک وہ عورت پُر فطرت کہنے لگی " اے جان مرا یاد ترا فراموش "و ﷲ تجھ با ہوش کو كس فطرت سے آج بہلایا ہے کہ تُجھ کو عمر بھر یاد رہے گا " اور لونڈی سے کہنے لگی " اے کنیز عزیز ! یہ سپر و شمشیر اور پوشاک مردانہ جس بے گانے کی لائی ہے ، اُس کو پہنچا دے " بہ خدا یہ بت جاں فزا اگر یہ فطرت پُر حیرت نہ کرتی ، نہ بازی لے جاتی ۔ اُس گفتگو دو بدو سے اُس اُلّو کو اُس نے ایسا خاموش کیا کہ اُس کا قفل سکوت کلید تقریر سے نہ وا ہوا اور وہ نوجوان نادان صندوق فطرت میں پنہاں کا پنہاں رہا ۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
صفحہ 166
ذکر یہ آپس میں سب کرنے لگے
دیکھیے گا عشق کہتے ہیں اسے​
المطلب اس غنچہ لب کو اس کے عاشق کی تربت کے برابر بہ صد شور و شیون دفن کیا لیکن سچ تو یوں ہے:
مثنوی
واہ رے اے عشق چالاکی تری
واہ رے اے عشق سفاکی تری

ایک کو غیرت سے مارا اس طرح
اس کو فرقت سے مارا اس طرح

ہر جگہ تیرے نئے انداز ہیں
عقل سے پوشیدہ تیرے راز ہیں

جس کو چاہا بات میں گھائل کیا
جس کو چاہا آن میں بسمل کیا

عاشقوں کا تو غرض سرتاج ہے
ہر کوئی عاشق ترا محتاج ہے

وصف تیرے کیا کہے مہجور اور
عاشقوں سے کوئی پوچھے تیرے جور

داستان
لکھنو کے قاضی زادے کا ایک ماہرو پر اثناے راہ مین عاشق ہونا اور اس داستان کے زیر مکان جان دینا اور معشوقہ دل فگار کا اس کی لاش پر مرنا

راویان حکایات غریب اور حاکیان روایات عجیب
 

ماہی احمد

لائبریرین
صفحہ 167
شاھد سخن کو حجلہ بیان میں یوں جلوہ گر کرتے ہیں کہ خلافت شاہنشاہ اکبر بادشاہ میں ایک قاضی زادہ (1) خاص لکھنو (2) کا باشندہ برائے سیر کوچہ و بازار ہمراہ یاران غم گسار گھر سے باہر نکلا کہ بقول میر تقی: شعر
ناگہ اک کوچے سے گزرا ہوا
آفت تازہ سے دوچار ہوا​
یعنی ایک ماہ تمام، بہ لب بام نظارہ کناں تھی کہ یکایک اس ذرہ بے مقدار کی آنکھ جو اس جادو چشم سے دوچار ہوگئی تو بقول میر تقی کیا کہوں:
ابیات
تھی نظر کہ یا جی کی آفت تھی
وہ نظر ہی وداع طاقت تھی
ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ
صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ
بے قراری نے کج ادائی کی
تاب و طاقت نے بےوفائی کی​

الغرض وہ نازنین مہ جبین تو بصد نازوانداز منہ کو موڑ کر کوٹھے کے نیچے اتر گئی اور اس خاک بسر نے بام عشق کے اول زینے پر قدم رکھ کر یہ شعر قائم کا پڑھا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ نسخہ مطبع مصطفائی اور میور پریس 1876 والے نسخے میں "خوزادہ" ہے۔
2۔ یہ مصنف کی عدم واقفیت کا اظہار ہے، اکبر بادشاہ کے زمانے میں لکھنو کہاں تھا!
 

ماہی احمد

لائبریرین
صفحہ 168
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کمند کہاں
دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا​
غرض وہ عاشق زاد، دل فگار اس گلی میں بستر خاک پر بحال مضطر بیٹھ گیا اور آنکھوں کو بالائے بام بہ خواہش آں ماہ تمام مثل نرگس حیران و نگران کیا لیکن وہ ماہ جبیں رشک لعبت چین پھر کبھی سر بام آکر جلوہ گر نہ ہوئی۔آخر کار اس عاشق زار، دل فگار، جگر سوز کے ایک روز تپ فرقت کی شدت سے ہاتھ اور پاوں مثل برد سرد ہو گئے لیکن آنکھیں سوئے بام بہ خواہش ماہ تمام جو نظارہ کناں تھیں، ان کی ٹکٹکی میں فرق نہ آیا۔ تب تو ہر ایک عقلمند دانشمند کی عندلیب تجویز گلشن بیان میں یوں نعرہ زن ہوئی، یعنی جس سمت گل پژمردہ، دل افسردہ کی آنکھیں مثل نرگس حیران و نگران ہیں، اسی مکان رشک میں اس کا غنچہ مقصد پوشیدہ ہے۔ اگر وہ کسی روش اس دور افتادہ، غم آمادہ کے قریب آئے تو غالب ہے اس کا گل مراد نسیم وصال سے شگفتہ ہو جائے کیونکہ یہ عاشق بقول میر تقی: شعر
خار خار دل غریباں ہے
انتظار بلا نصیباں ہے​
المطلب اھل ہم سایہ نے بصد منت و سماجت اس محبوبہ مایہ ناز و معشوقہ فسوں ساز کے پدر عالی مقدار سے جا کر عرض کی کہ اے معدن نجاہت و اے کان شرافت! ایک نوجوان پر ارمان کا خون ناحق تیری گردن پر ہوتا ہے؛ اگر تو اپنی دختر رشک قمر کو ایک دم کے واسطے اس بے دم کے پاس بلاوساوس بھیج دے تو غالب ہے کہ اس کا دم اس دم اپنے
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 201

عرصے میں اس زن پر فن نے اپنے دھگڑے کو مرغی کے دڑبے میں چھپایا اور مینڈها جو گھر میں بندھا تھا، اس کی گردن کھولنے کے بعد دروازے کی کنڈی کھول کر خاوند دل پسند کو بلا لیا اور وہ گیدی خر اس کو ننگے سر با حال پریشان اس آن دیکھ کر کہنے لگا "ارے یہ کیا سبب بے موجب ہے جو تو نے اتنی دیر میں دروازے کی کنڈی کھولی اور اس کے سوا تیرے بال و بال جان کیوں سراسر پریشان نظر آتے ہیں؟"

مثنوی
یہ سن کر کہا اس نے "اے میری جاں!
بھلا اس سبب کا کروں کیا بیاں
تیرے گھر میں مینڈھا جو ہے یہ بندھا
مجھے اس نے آج ایسا عاجز کیا
کہ جس سے مرا ناک میں دم ہے آج
بہ جز قتل اس کا نہیں کچھ علاج"

یہ احوال كثيرا لاختلال وہ مردک آذیک سن کر ایک بار تلوار بازه دار لے کر مینڈها مارنے کو تیار ہوا۔ غرض یہ بے پیر مینڈھے بے تقصیر کو مارنے کے داؤں گھات کرتا تھا؛ اتفاقاً وہ مینڈها دوڑتا دوڑتا تھک گیا تو اس مرغے کے دڑنے پر کھڑا ہو گیا کہ جس میں وہ مرغا چھپا تھا۔ اس مردک اذیک نے ایک بار تلوار زور سے جو اس مینڈھے پر ماری تو وہ تو چوٹ بچا گیا لیکن اس کی دهمک سے ذرا سا دڑبا ٹوٹ گیا۔ اس میں اس جوان اور اس بے ایمان کی آنکھ جو دو چار ہو گئی تو يوں حرف زن ہوا "ابے تو کون مرغا بے ہنگام ہے جو اس دڑبے سے نکل آیا؟" وہ بولا "ابے تو مجھ کو نہیں پہچانتا ہے؟ ابے میں ملک الموت صاحب فوت ہوں، یعنی تمام جن اور انسان

صفحہ 202
اور حیوان کی جان میرے قبضے میں ہے؛ سو اس مینڈھے کی جان اے نادان قبض کرنے آیا ہوں." یہ سخن دل شکن اس جوان کا سن کر کہنے لگا "اگر میں اس کو قتل نہ کروں تو تو کیا کرے؟" وہ جواب ده ہوا "کیا مضائقہ ہم اپنے آسمان بے نشان پر چلے جاویں گے۔

مثنوی
یہ کہہ کر وہاں سے وہ پر فن جواں
بچا لے گیا صاف ہی اپنی جاں
بچا آپ بھی اور مینڈھے کا جی
بچایا عجائب طرح سے اجی
جو مہجور ہوتا نہ وه ذو فنون
تو دونوں میں ہوتا عجب کشت و خون

چرتر
ایک عورت نے مکاری سے چراغ بجھا دیا اور شوہر
کے رو برو اپنے آشنا کو گھر سے باہر کیا

راویان روشن ضمیر اور حاکیان خوش تقریر اس حکایت دل افروز کو محفل بیان میں یوں روشن کرتے ہیں کہ ایک زن تیره روز اپنے یار دل سوز کو ساتھ لیے پلنگ خوش رنگ پر بیٹھی تھی کہ یکایک اس کا شوہر بے خبر دروازے پر آپہنچا اور اس روسیاه پرگناه نے اس کے پاؤں کی آہٹ پا کر چراغ جھٹ باد ہوائی سے بجھا دیا اور اس آشنائے دل سوز کو اپنے پیچھے چھپا کر بٹھا لیا۔ اتنے میں وہ گیدی خر آ کر کہنے لگا

صفحہ 203
"اے تیره بخت، سیاه رخت! آج کیا واردات واہيات درپیش ہے کہ ابھی تک گھر میں چراغ نہیں روشن ہوا؟" وہ کہنے لگی "اے محرم راز و اے ہم دم دل نواز! تیرا محلہ نهمہایت پر فطرت ہے ۔ والله بالله میں اس محلے کو لوکا لگا کر چھوڑ دوں گی: شعر

بھلا کیوں نہ میری طبیعت جلے
چلن ہوں يکاں کے جو ایسے برے
خدایا محلک یہ ہووے تباه
و یا اس کا دنیا میں ہو روسیاه"

یہ گفتگو جوروئے زشت رو کی سن کر وہ الو کہنے "اے بی بی! خیر تو ہے، یہ ماجرا حیرت افزا کس صورت پر ہے؟" وہ کہنے لگی "اے میاں! یہاں کی عورتاں عجب پر غضب ہیں، یعنی آج اس محلے میں ایک قحبہ نے یہ چرتر اپنے شوہر بے خبر کے ساتھ کیا کہ اپنے دوست کو پاس لیے بیٹھی تھی اور اس کا شوہر بےخبر جو باہر سے آیا تو اس نے جھٹ پٹ چراغ کو بے تامل گل کر دیا اور آشنا کو پیچھے چھپا کر بٹھایا۔" اس گفتگو میں اپنے سر کی چادر شوہر کے منہ پر ڈال کر کہنے لگی "اے میاں! اس طرح سے اس نے اپنے خاوند کے منہ پر چادر ڈال کر اپنے آشنا کو نکال دیا۔" یہ سخن پر فن اس کا یار دل دار سن کر چپکے سے دبے پاؤں وہاں سے راہی ہوا، اور یہ گیدی خر کہنے لگا "اے بی بی! تجھے اس واہی ماجرے سے کیا؛ بقول شخصے، مثل: "اپنی کرنی اپنی بھرنی": مصرع

مارا چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت"

مثنوی
واه حرفت تری زن عیار!
کس چلن سے نکالا اپنا يار

صفحہ 204
دیکھ کر عقل زن کی اور شعور
نخشبی نے کہا ہے اے مہجور
نخشی زن تمام حیلہ بود
تا نہ داری تو قول شاں باور
صد جگر از زناں شود خستہ
زشت باشد زن زباں آور

چرتر

تنبولی کی جورو نے ایک مرد مفلس کو ...¹ کے واسطے نوکر
رکھا اور وہ شخص اس تنبولن کے شوہر کا آشنا تھا ۔
ہر روز جو حال گزرتا، دانستہ تنبولی سے بیان
کرتا۔ تنبولی نے اس شخص کو اور اپنی
جورو کو پنچوں میں طلب کیا اور
حال گزشتہ پوچھا۔ اس نے مفصل بیان
کیا، پھر عورت کی اشارت سے
بیان واقعی کو خواب و خیال
سے مبدل کیا اور تنبولی کو
انفعال دیا

محرران اوراق بوستان اور دبیران اشتیاق نخلستان اس حکایت پر فطرت کو بیان کی پنواڑی میں یوں سر سبز کرتے ہیں


1۔ یہاں سے ایک فقره ہر بنائے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔


صفحہ 205
کہ ایک پان فروش ماہ وش کی دکان دل ستاں پر ایک سپاہی بہ حالت تباہی آن کر یہ سخن زبان پر لایا کہ "اے بہار سبز بختان گلشن دولت، و اے آبشار خیابان چمن حشمت! تیری خدمت فيض درجت ميں يہ عرض ہے کہ افلاس بے قیاس نے میری دولت دنیوی سب ڈهو لی ہے، اب کوئی انوپان اس آن سر سبزی کا نظر نہیں آتا، اور گردش افلاک نے مجھ غم ناک کے تباہ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے؛ غرض زمانے کی نیرنگی نے کمال بد رنگی دکھائی ہے۔ اگر تو اپنی دکان دل ستاں کا بنگلہ رہنے کو دے اور کچھ اکل و شرب کی خبر لے تو مجھ پر تیرا نہایت احسان بے پایان ہو گا، اور اس عرصے میں جو میرا روزگار پائدار ہو جائے گا تو میں بھی تیری خدمت بجا لاؤں گا۔" یہ کلام
اس خود کام کا وہ تنبولی سن کر یہ کہنے لگا: شعر

رواق منظر چشم من آشیانہ تست
کرم نما و فرود آ کہ خانہ، خانہ تست

الحاصل یہ جوان پریشان اس کی دکان دل ستاں میں رہنے لگا لیکن اس تنبولی کی جوروئے بد خو نہایت چنچل و بہ غایت بد فعل تھی۔ اتفاقا ایک روز یہ سپاہی، غم اندوز اس کے مکان عالی شان کی طرف ہو کر گزرا اور وہ تبولن رشک چمن دریچے میں بیٹھی نظاره کناں تھی۔ ناگاه اس جوان پریشان پر نگاه جو پڑی تو ایک چیری سے طلب کر کے کہنے لگی کہ "اے جوان پریشان! تو ہماری نوکری کرے گا تو ایک دو رویے کا روز فرحت اندوز حاضر ہے۔" یہ جوان پر ارمان کہنے لگا "بی بی میں اس تلاش دل خراش میں سر گرداں ہوں، بقول فدوی: شعر

آواره و سرگشتہ، نہ دیوار نہ در کے
سائے کی طرح ہم نہ ادهر کے نہ ادهر کے

صفحہ 206
غرض اس عورت بد بخت نے اسے ایک گوشے میں لے جا کے اس تنبولی کی پنواڑی کو کام دیو کے ہاتھ سے پامال کیا۔ بعد انفراغ مطلب اس عورت نے دو روپے اس جوان پریشان کو تنبول پینے کو دیے اور یہ کہا "اسی وقت تو یہاں با فراغت آیا کرنا" غرض وہ سپاہی واہی دو روپے لے کر خوش خوش تنبولی کے قریب آکر کہنے لگا "اے یار وفادار! آج ہم نے بڑا شکار خوش نگار مارا، یعنی ایک عورت خوب صورت نے ہم کو دو رویے روز پر نوکر دلبر بنا کے رکھا ہے۔" وہ تنبولی دل شکستہ نادانستہ پوچھنے لگا "اے یار غم خوار! اس کا مكان دل ستان کہاں ہے؟" اس نے جواب دیا "اے یار وفادار! اس کوچے کے قریب جو وہ حویلی دل فریب ہے، وهی اپنا عشرت کده ہے" بقول میر حسن: شعر

مرا تو تو ہم دم ہے دن رات کا
مجھے تجھ سے پرده ہے کس بات کا

به بات واہيات تنبولی سن کر کہنے لگا کہ کچھ دال میں کالا نظر آتا ہے کیوں کہ اس نے سب پتا میرے مکان دل ستاں کا دیا ہے۔ پھر کہنے لگا "اے یار وفادار! کل بھی وہاں جائے گا یا نہیں؟" وہ جوابده ہوا کہ "اے بھائی سودائی! جس کا نمک کھائیں گے اور اس کی نوکری نہ بجا لائیں گے؟ یہ بات آدمیت سے بعید ہے؛ اس کے سوا تحفہ خاصہ کھانا کھانے کو اور پری رخسار بوس و کنار اور عیش و طرب کو۔ وہ مثل ہے کہ "ہم خرما و ہم ثواب۔" یہ گفتگو عربده جو وه تنبولی سن کر چپ ہو رہا۔ دوسرے روز اس جوان دل افروز نے جو اراده چلنے کا کیا تو وہ تنبولی بولا "کیوں پیار غم گسار! وہیں جانے کا اب قصد ہے؟" کہنے لگا: شعر

صفحہ 207
ہاں مرے یار وہیں اس گھڑی ہم جاتے ہیں
دو روپے روز جہاں سے ہمیں ہاتھ آتے ہیں

یہ بات واہيات اس بد ذات کی تنبولی سن کر کہنے لگا "بھلا جا تو سہی، آج تیرا جانا معلوم ہو جائے گا۔" یہ سپاہی واہی تو اپنے مکان مقصد کو گیا، اس کے بعد تنبولی بھی دکان سے اٹھ کر اس کے پیچھے ہوا۔ جوہیں وه سپاہی واہی اس تنبولن کے قریب بیٹھا تھا کہ تنبولی نے دروازہ کھڑ کھڑایا۔ اس عورت پر فطرت نے سپاہی کو ایک بورے میں لپیٹ کر گوشے میں کھڑا کر دیا اور چیری سے کہا "دروازه کھول دے" کہ یکایک وه تنبولی بہ صورت مہیب اور بحال عجیب ادهر ادهر دیکھ بھال کے اپنی جوروئے بد خو کے قریب آ بیٹھا اور کہنے لگا "آج مجھ کو اشتہا بے انتہا سویرے معلوم ہوئی تھی، اس واسطے آیا ہوں کہ کچھ مٹهائی رکھی رکھائی ہو تو لے آ، اسے نقل کروں۔ غرض وه زن شیرین دہن کچھ لڈو اندر سے لے آئی اور ایک جا دونوں بیٹھ کر کھانے لگے۔ اس میں اس قحبہ نے کہا "اے رشک يوسف مصری! اگر کچھ دل میں نہ شک کرے تو اس بوریے ہیں لڈو پھینک، دیکھیں تو کس کا لڈو بوریے کے اندر جاتا ہے، اور جو میری یہ بات نہ مانے گا تو خوب پیزار پٹی کروں گی۔ وہ احمق مطلق ریوڑی کے پھیر میں آ کر کہنے لگا "تمسخر میں اے دلبرنی کیا ہے" آخرکار دونوں نابکار اس بوری میں لڈو پھینکنے لگے۔ غرض جو لڈو اس بوریے کے اندر گئے وہ گز ک اس جلیبی جوان کے ہو کر گویا اندر بہشت کے گئے۔
المطلب جب یہ بوالعجب اپنی دکان پریشان پر گیا تو اس زن پر فن نے اس سپاہی واہی کو بورے سے نکال کر کہا

صفحہ 208
"اے دلبر! سو لے میرے پاس، نہیں تو مارے تھپڑوں کے تیرا حلوا نکالوں گی، اس میں میرے ہاتھ کا گٹا اور کنگن کیوں نہ ٹوٹ جائے۔ غرض اس بد قوام نے اپنی چاشنی چکھا کے سپاہی کو بصد بشاشت رخصت کیا اور کہا "یہ گپ چپ کی مٹھائی تو اب یہاں سے کھا جا لیکن اس کی خرچیاں اکٹھیاں تجھ سے بھر لوں گی۔" الغرض وہ سپاہی واہی پھر اس تنبولی کے پاس بلا وسواس آن کر کہنے لگا کہ "اے یار وفادار! آج تو بڑا غضب پر تعب ہوا، یعنی جو نہیں میں وہاں پہنچا تھا کہ وہیں اس کا شوہر بے خبر باہر سے آیا؛ غرض وہ عورت نہایت پر فطرت کہ اس نے ایک بورے میں مجھ کو چھپایا بلکہ لڈو بھی وہیں کھانے کو پہنچائے۔" یہ سخن دل شکن اس سپاہی واہی کا سن کر کہنے لگا "ارے یہ تو صاف صاف اس شخص کا ماجرا حیرت افزا ہے۔" الحاصل "قبر درویش بر جان درويش" سمجھ کر چپ ہو رہا۔
تیسرے روز وہ جوان فرح اندوز جو وہاں چلنے کو ایک بار تیار ہوا تو وہ تنبولی کہنے لگا "کیوں جی وہیں كا اراده کیا یا کہیں اور کا قصد ہے؟" اس نے جواب دیا: شعر

کیوں نہ اس جا پہ ہم بھلا جاویں
دو روپے روز جس جگہ پاویں

به سپاہی واہی تو کہہ کر ادهر راہی ہوا اور اس کے بعد وہ تنبولی بھی اٹھا۔ غرض یوں ہی یہ گھر میں جا کر بیٹھا تھا کہ وه تنبولی بھی آ پہنچا۔ اس جوان پریشان نے کہا "اے جان! اب کیا کروں؟"اس عورت نے کہا "اس حوض پر آب میں غرقاب ہو جا اور ایک تربوز کا چھلکا اپنے سر پر رکھ لے

صفحہ 209
اور ادهر ادهر ٹہلا کرنا، المدعا وہ سپاہی واہی يوں ہی عمل میں لایا لیکن مارے خوف کے زہره آب تھا۔ اس میں وہ تنبولی جنونی آ کر تلوار آب دار سے بوریے کو چورنگ کرنے لگا۔ یہ ماجرا حیرت افزا تنبولن پر فن دیکھ کر کہنے لگی "اے ملعون ذو فنون! تجھ کو خیر تو ہے جو کل سے تو وحشی خبطی کی طرح سے حرکتیں کرتا ہے؟"
غرض وہ تنبولی حیران و ششدر ہو کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ وه زن پر فن کچھ امرود اور نارنگی اور فالسے اس آسیب زده کے رو برو رکھ کر کہنے لگی "ابھی رسوئی ہونے میں دیر ہے کیوں کہ تیری والده شريفہ آج انمول سری پائے پکا کے بھیجے گی اور اگر زیادہ بھوک ہو تو اس کونے میں انناس بے قیاس اکٹھے رکھے ہیں، جا من چاہے تو کھا لے اور جو بھوک کم رکھتا ہے تو کچھ کیلے تو ہی اکیلے کھا کر سبزی منڈی کو روانہ ہو جا۔" الحاصل وہ خود غرض امرود کھانے لگا اور اس زن پر فن کو جو اپنے یار دل فگار کا خیال آیا تو شوہر بے خبر سے کہنے لگی "اے میاں! تجھ پر قربان ہو گئی میں! یہ جو حوض میں تربوز کا چھلکا پڑا ہے، اس کو جو نشانہ مارے، وہ سو تربوز جیتے۔" یہ گیدی خر بے خبر اس کو امرود اور نارنگیوں سے نشانہ زن ہوا۔ وہ جوان پریشان وہ امرود بےنمود اور وہ نارنگیاں وہاں نوش جان کرنے لگا۔ دو چار گھڑی کے بعد وہ تنبولی ادھر اپنی دکان داستان کو گیا
اور ادهر اس عورت بدخصلت نے اپنے یار وفادار کو حوض سے نکال کر دامن مطلب کو در شہوار سے پر کیا۔ غرض بعد خلاصی از دست زن بدکار وہ جوان طرح دار تنبولی کے پاس بلا وسواس آ کر کہنے لگا "اے یار وفا دار! آج مجھ کو خدا

صفحہ 210
نے بچایا، یعنی اس کا شوہر گیدی خر آتے ہی گھر میں جس بورے میں، میں آگے چھپا تھا، اس نے اس کو ایک بار تلوار سے پرزے پرزے کیا۔ نہیں معلوم کس بوم نے اس بد اعمال کو میرے احوال سے آگاہ کر دیا، لیکن وہ عورت نہایت پر فطرت تھی کہ اس نے مجھے ایسا چھپایا تھا کہ وہاں فرشتے کو بھی دخل نہ تھا۔وه تنبولی بولا "اے عزیز بے تمیز! تو کہاں پنہاں تھا؟" کہنے لگا "آج اس دلدار نے مجھ کو حوض پر آب میں میرے سر پر تربوز کا چھلکا رکھ کر چھپا رکھا تھا، بلکہ امرود وغیره بھی وہیں اس مہ جبیں نے کھانے کو پہنچائے تھے۔" یہ تقرير نا گزیر سن کر دل میں کہنے لگا، بقول شخصے: شعر

یار در خانہ و من گرد جہاں می گردم
آب در کوزه و من تشنہ لبان می گردم

بروز چہارم وه سپاہی بے غم جو چلنے کو تیار ہوا تو وه تنبولی کہنے لگا "کیوں جی وہیں جانے کا ارادہ ہے؟" وہ جواب ده ہوا: شعر

بھلا کیوں کر نہ جاویں واں جہاں سے
بہ ظاہر زر ملے کار نہاں سے

یہ کلام وه نافرجام زبان پر لا کر وہاں سے راہی ہوا اور اس تنبولی نے جل کر جی میں کہا "ره تو مرغے خانہ خراب! آج تیرا دریا ہی جلا دیتا ہوں، پھر تو وہ انڈے کہاں سے لائے گا، اس کوفت میں تو آپ ہی مر جائے گا، یہ دل میں کہہ کر اس کے پیچھے چلا؛ اس میں جونہں وه سپاہی واہی اس کے پاس بے وسواس آ کر بیٹھا تھا کہ یہ تنبولی بھی جا پہنچا۔ اس عورت صاحب فراست نے اس کا کھٹکا پا کے ایک
 

شمشاد

لائبریرین
نورتن ریختہ صفحہ 101

اگر لیلی ماہ رخاسار اس روزگار میں بقید حیات ہوتی تو اس کے عشق میں خود مجنوں ہو جاتی اور اگر شیریں اس شیریں دھن، رشک سمن کو ایک بار دیکھتی تو مثل کوہ کن وہ خستہ تن اپنی جان شیریں، تیشۂ غم سے ہلاک کرتی اور اگر عذرا اس کا شہرہ سنتی تو بشکل وامق وہ سینہ شق، گرفتارِ رنج و بلا ہوتی۔ اور اگر دمن، رشک چمن اس غنچہ دہن کی نرگسی چشم کو ایک نظر دیکھتی تو اپنے دل کی بساط نل کی طرح چوسرِ غم میں ہار دیتی۔ غرض سچ تو یوں ہے، بقول شخصے

گویا بہ زمین ستارہ آمد
یوسف بہ جہاں دوبارہ آمد

لیکن اس حسن و جمال بے مثال پر بقول میر تقی : شعر

عشق رکھتا تھا اس کی چھاتی گرم
دل رہ رکھتا تھا موم سے بھی نرم
شر میں تھا شور، شوق دل میں تھا
عشق ہی اس کے آب و گل میں تھا

اور دولت و حشمت سے منعم حقیقی نے اس عالی قدر کو اس قدر آسودہ خاطر کیا تھا، بقول میر حسن : شعر

طویلے کے اس کے جو ادنیٰ تھے خر
انہیں نعل بندی میں ملتا تھا زر

الغرض وہ رشک گلزار برائے سیرِ شہر و دیار با رفقائے خوش کلام و ندمائے نیک انجام اپنے شہر سے عازم سفر ہوا، مگر اس کی جاہ و حشمت اور شان و شوکت کا کیا بیان کروں : شعر

اسباب تمام خسرانہ
بیلوں پہ لدا تھا سب خزانہ


نورتن ریختہ صفحہ 102

لشکر میں جو کوئی لشکری تھا
دولت سے وہ اس کی جوہری تھا
کہنے کو تو تھا وہ شخص تجار
شاہوں کی نہ ہو گی پر یہ سرکار

الحاصل وہ رشک حاتم بن طی منزل بہ منزل مراحل بہ مراحل راہ بے کرتا ایک شہر عالی شان میں داخل ہوا۔

مثنوی
اس شہر کے کیا کروں میں اوصاف
ہر کوچہ تھا آئینہ سا شفاف
اعجوبہ نگار ہر دکاں تھی
اور نہر گلی گلی رواں تھی
پتھر کے مکان تھے وہ اعلٰی
جنت سے جو تھے کہیں دوبالا

الغرض وہ سوداگر پری پیکر اس شہرِ مینوچر کی سیر کرتا اس عمارت عالی شان، جنت نشان کے قریب گیا کہ جس حویلیء رشک گلزار میں شاہان زوی الاقتدار اور تجاران عالی وقار اکثر آ کر مقیم ہوتے تھے۔ غرض اس مکان عالی شان میں وہ عالی وقار مع خویش و تبار رونق بخش ہوا لیکن بقول ضمیر : شعر

سمجھا نہ کہ ہوں گے ہم یہیں کے
دنیا کے رہیں گے اور نہ دیں کے

القصہ اُس مکان دل کشا، جاں فزا کے جلو خانے میں تمام سپاہ اور بنگاہ با خیمہ و خرگاہ منزل گزیں ہوئی اور رفیق قدیم و شفیق ندیم اس خانۂ باغ میں اپنے رختِ سفر اُتار کر


نورتن ریختہ صفحہ 103

بہر کار ایک بار مشغول ہوے۔ کوئی پاک طینت، نیک خصلت برلب جو وضو کرنے لگا اور کوئی آئینہ رو، آلودۂ گرد و غبار قریب آبشار نہانے میں مصروف و مالوف ہوا اور کوئی رشک چمن، غیرت سمن، بصد آرزو لب جُو زین پوش، گل دوز بچھا کر ‘بہار دانش‘ کا مطالعہ کرنے لگا اور کوئی بے وطن مثل بلبل دور از چمن اپنے گل رو کے تصور میں اُس باغ کو دیکھ کر یہ شعر پڑھنے لگا : شعر

تیرے دیوانے کو ہے جینے سے حرماں باغ میں
زخم آتے ہیں نظر گل ہائے خنداں باغ میں

اور کوئی تاک کا سایہ تاک کر استراحت فرما ہوا اور کوئی ماہ وش، روش پر کسی گل اندام کے ساتھ گل بازی کرنے لگا اور یہ شعر سودا کا زبان پر لایا :

رونق کسی گلشن کے نہ زینت کسی سر کے
مثلِ گل بازی نہ ادھر کے نہ اُدھر کے

بیان شب : اس ضمن میں جس وقت مطرب فلک نے دائرۂ آفتاب کو غلاف مغرب میں کیا اور رقاصۂ شب نے لولیٔ زہرہ و مشتری کو ستار ثریا اور قانون کہکشاں دے کر چاندنی کے فرش پر نوشاہ قمر کے سامنے مجرے کے واسطے بھیجا، اس وقت اس سوداگر پری پیکر نے طائفہ ہائے رشک گلزار اور مہ رویانِ پری رخسار کو یاد فرمایا۔ غرض ہر ایک ماہ وش پوشاک نفیس مع سازندہ ہائے جلیس فرشِ محمودی پر سامنے آ کر جلوہ گر ہوئی۔


نورتن ریختہ صفحہ 104

مثنوی
ناچ (1) کا اُن کے کیا کروں میں بیاں
منہ میں لکنت ہے کرتی میری زباں
بھاؤ بتلاتی تھی کوئی مہ رُو
کوئی آنکھیں لڑاتی تھی ہر سُو
کوئی گھونگٹ نکال کر منہ پر
سر دامن لگاتی تھی ٹھوکر
ناچتی تھیں وہ جب بایں انداز
نقدِ جاں کرتے تھے ہزاروں نیاز
کوئی دستار باندھ کر بانکی
کھول کر بال، مار کر گاتی
پیشواز اپنی کو اُٹھا کر آہ
تاکمر دونوں ہاتھ لا کر آہ
کھڑی پھربھرتی تھی اس طرح سے گت
جس طرح سے ہو برق کو حرکت
اور کوئی ایک سمت ہنس ہنس کر
رکھ کے انگشت کو زنخداں پر
سر و گردن کو اپنی کر کے خم
بھاؤ بتلاتی تھی کھڑی ہر دم
اور کوئی اک سمت اُٹھا کر ہاتھ
ناچتی تھی واں سبھوں کے ساتھ
اور یہ گاتی تھی خوش ادا پٹا
میرا بانکا سر و ہیوں والا
***************************************************************
(1) نسخہ مطبع مصطفائی 1267ھ میں ‘آج‘ ہے۔


نورتن ریختہ صفحہ 105

غرض کیفیت رقص اور وہ نفیس فرش عجب عالم رکھتا تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ اور ایک طرف کو سورج مکھیاں اور دیوار گیریاں اور کنول ہاے مینائی ایسے روشن اور منور تھے کہ جن کے ملاحظے سے دل کا کنول کھلتا تھا، اور ایک طرف کو لالٹینیں اور فانوسیں جواہر نگار، اعجوبہ کار سبز و سرخ، آبی و آتشی، بہ شمع ہائے مومی و کافوری اس قدر روشن تھیں کہ جن کے دیکھنے سے فانوس تن میں دل کو فروغ ہوتا تھا، اور ایک طرف طائفوں کے غٹ نفیس نفیس پوشاکیں تن پر آراستہ کیے از سر (1) تا فرق جواہر میں غرق اس شکل سے بیٹھے تھے : شعر

دیکھ کر جن کو جائے بھوک و پیاس
کبھی صحبت سے دل نہ ہووے اُداس

حاصل کلام وہ تاجر عالی مقام اس کیفیت سے دوپہر (2) شب بسر لے گیا، اُس کے بعد مع ہم نشین و ہم دم و انیس و محرم خاصہ نوش جان فرما کر بارہ دری میں برائے استراحت پلنگ پر نفاست پر جلوہ گر ہوا۔

قضائے کار نا مساعدت روزگار سے لیٹے لیٹے اُس ماہ طلعت، مہر صورت کی ناگاہ نگاہ بارہ دری کے کونے میں صندل کے چھاپوں پر جو پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ اُن صندلی چھاپوں میں ایک چھاپ خوش نگار، غیرت گلزار اس روش پر کسی غنچہ دہن کے ہاتھ کا ہے کہ جس کے دیکھنے سے پنجۂ غم سینے سے دل کو کھینچتا ہے۔
*************************************************************************
(1) نسخہ مطبع محمدی 1311ھ میں یہ لفظ نہیں ہے۔ مطبع مٖصطفائی 1267ھ اور میور پریس 1872ء والے نسخوں میں ‘سر‘ ہے۔
(2) نسخہ مطبع محمدی 1311ھ میں یہ لفظ نہیں ہے۔


نورتن ریختہ صفحہ 106

اس چھاپے کو دیکھ کر وہ سوداگر خستہ جگر دست افسوس زانوئے غم پر مار کر یوں گویا ہوا کہ ہاے مجھ جگر فگار دل بیمار کی دیکھیے چنگل شہباز دشق سے کیوں کر رہائی ہو گی، بقول شخصے :

کوئی صورت نہیں ہے زندگی کی
رہی جاتی ہے جی میں بات جی کی

اور کبھی وہ نو گرفتار محبت اور سرشار مئے الفت، بے اختیار سیماب وار بے قرار ہو کر پلنگ پر اُٹھ بیٹھتا اور بچشمِ پرنم بصد الم اُس چھاپے کو دیکھتا اور یہ کہتا، بقول میر مظہر علی زار : شعر

چھوٹ جاویں غم کے ہاتھوں سے جو نکلے دم کہیں
خاک ایسی زندگی پر تم کہیں اور ہم کہیں

اور کبھی وہ مبتلائے الم و آشنائے ستم آنکھوں جپر رومال رکھ کر بے اختیار زار زار (1) مثل ابر نو بہار روتا اور ضمیر کی یہ غزل پڑھتا :

غزل
نہ سر کی خبر نہ ہوش پا ہے
کیا جانیے مجھ کو کیا ہوا ہے
دیکھے نہ کسی کے میں نے ابرو
خنجر سا یہ دل میں کیوں لگا ہے
واقف نہیں شکل سے بھی جس کی
افسوس کہ اُس پہ جی چلا ہے
**************************************************************
(1) نسخہ مطبع محمدی 1311ھ میں ‘راز‘ کی جگہ ‘و نزار‘ ہے


نورتن ریختہ صفحہ 107

یوسف علیہ السلام کو بھی تو نے اے زلیخا
دل خواب میں دیکھ کر دیا ہے
یہ عشق مرا تو دیکھ میں نے
دیکھا نہ صنم کو نہ سنا ہے
آگاہ نہیں جس کے نام سے بھی
اے وائے وہ جی میں کھب گیا ہے
کیا کہیے ضمیر تجھ سے واللہ
یہ عشق ہے یا کوئی بلا ہے

بیان سحر : اس عرصے میں پنجۂ خورشید نے گریبان سحر کو چاک کیا اور خادمِ فلک آفتاب کا آفتابہ لے کر مع زیر انداز شفق سمت مشرق سے نمود ہوا۔ اس وقت وہ سوداگر خستہ جگر منہ ہاتھ دھو کر جو مسند زرکار، رشک بہار پر آ بیٹھا تو عجب حالت تھی کہ آنکھوں کو جو دیکھیے تو چشم بد دور یہ نقشہ تھا، بقول میر تقی : شعر

ڈبڈبائی آنکھ آنسو تھم رہے
کاسۂ نرگس میں جوں شبنم رہے

اور جو اس کے لبِ خداں رشک گل تر تھے، ان پر عشق کی گرمی اس قدر غالت تھی کہ مارے خشکی کے پھیپڑیاں بندھ گئی تھیں اور اُس کے چہرے کا رنگ جو مثل ورد سرخ تھا، سو کاہشِ غم سے شکلِ گلِ صد برگ زرد ہو گیا۔

اس پامالِ غم کا یہ احوال، پُر ملال دیکھ کر کوئی انیسِ ہم دم اور چلیس محرم جو پوچھتا کہ اے گلِ باغِ خوبی واے غنچۂ حدیقۂ محبوبی! یہ اس گرفتگیٔ طبیعت پُر از رقت


نورتن ریختہ صفحہ 108

کا موجب اور سبب کیا ہے؟ نصیب اعدا ء شب کو سوائے شگفتگیٔ خاطر کوئی آثار حزن و ملال نہ تھا۔ تو وہ از خود رفتہ دل خستہ (1)، تفتہ جگر ایک آہ بھر کر حسرت کا یہ شعر زبان پر لاتا : شعر

کیا پوچھتے ہو ہم دم مجھ جسم ناتواں کی
رگ رگ میں نیشِ غم ہے کہیے کہاں کہاں کی

اور جو کوئی غم گسار، غم خوار تسلی و تشفی دے کر کہتا تھا کہ اے غریقِ ورطۂ محبت، واے رفیقِ دجلۂ الفت! اس قدر مضطر نہ ہو، تو وہ نیم جاں، کشتۂ ہجراں اور زیادہ ڈاڑھیں مار مار کر روتا، بقول خواجہ حسن سچ ہے : شعر

دل دلاسے سے ہے کرتا بے قراری بیشتر
خانۂ ماتم میں ہو پُرسے سے زاری پیشتر

آخر کار وہ دل فگار رخت گدائی تن پر آراستہ کر کے فقیر ہو بیٹھا اور وہ اسباب بے حساب لٹا کر ہم دموں سے کہنے لگا کہ اے صاحبو! اب تمہار جدھر جی چاہے، اُدھر تشریف لے جاؤ، کس واسطے کہ اب مجھ کو انیسِ غم اور جلیسِ الم کے سوا کوئی نہیں خوش آتا، بقول مرزا سائب :

بیت
عشق ست غم گسار دلِ درد مند را
آتش گرہ زکار کشاید سپند را

غرض اس دل طپیدہ، آفت رسیدہ کا سوائے مونسِ غم کوئی
***********************************************************************
(1) نسخہ مطبع محمدی 1311ھ میں ‘شکستہ‘ ہے۔


نورتن ریختہ صفحہ 109

یار غم گسار نہ رہا، تو یہ شعر خواجہ حسن کا زبان پر لایا : شعر

پایا ہے بے کسی میں عجب میں نے یاد دل
میں غم گسار دل کا (1) مرا غم گسار دل

اور کاہے وہ عاشق زار جو کوچہ وبازار کی طرف جاتا تو اُس کی حالت پُر ملالت پر کوئی دست بسینہ ہوتا اور کوئی لوگوں میں انگشت نما کر کے یوں کہتا کہ یہی شخص سودائی، چھاپے کا شیدائی ہے۔

القصہ اسی حال پُر ملال سےیہ ماہ رو نیک خو کئی مہینے بسر لے گیا لیکن جس مکان دلستان میں یہ خانہ خراب نقش دیوار ہوا تھا، اس مکان جنت نشان کی ایک عورت صاحب عصمت ملکیت رکھتی تھی اور اُس کی طرف سے ایک پیر زال، شیریں مقال اس حویلیٔ رشک گلزار کی مختار تھی۔ آخر کار ایک روز یہ غم اندوز با دلِ زار اس مختار مکان کے پاؤں پر سر رکھ کے یوں گویا ہوا کہ اے سرمایۂ خوبی واے پیرایۂ محبوبی! برائے خدا و بحق مصطفی ﷺ سچ کہہ کہ اس مکان دلستان میں کس پری زاد، رشک شمشاد کے ہاتھ کو وہ چھوٹا صندلی چھاپا ہے۔ کہ جس کو دیکھ کر ہیہات اپنی حیات سے میں دست بردار ہوں؟

یہ تقریر اُس دل گیر پُر تشویر کی سن کر وہ کہنے لگی کہ اے کان ملاحت و اے معدن صباحت! اس صندلی چھاپے پر عبث تو نے درد سر پیدا کیا۔ کیا تجھ کو خبط ہوا ہے، یا تو وحشی، سڑی، سودائی ہے۔ کہیں بھی دل دیئے کا یہ
**********************************************************************
(1) نسخہ مطبع محمدی میں ‘ہوں‘ ہے۔


نورتن ریختہ صفحہ 110

دستور ہے جو تو نے اپنے بھلے چنگے جی کو روگ لگایا ہے؟

یہ کلماتِ نصیحت آمیز، دُر ریز اُس مختار مکان کے سن کر یہ کہنے لگا "اے نیک بخت، صاحب عصمت! تو سچ کہتی ہے، لیکن جامی علیہ الرحمۃ کا قول ہے : شعر

نہ تنہا عشق از دیدار خیزد
بسا کیں دولت از گفتار خیزد

الحاصل اس مختار مکان کو دریافت ہوا کہ یہ دل افگار، جان نثار، عاشق صادق ہے، تب اپنی بلبل زبان کو گلشن تقریر میں یوں نطق میں لائی کہ اے گلِ گلزار محبت و اے بلبل شاخسار باغ الفت! چھ مہینے کے قریب ہوئے ہیں کہ ایک تجار عالی وقار مع عیال و اطفال اس مکان عالی شان میں نازل ہوا تھا، چنانچہ شادی سال گرہ کی تقریب جو درپیش آئی تو اُس عالی مقام نیک انجام نے کئی مقام بحسب اتفاق اُسی وثاق (1) میں کیے اور اُس کی وہ عورتیں ماہ پیکر، رشک مہر انور رسومات شادی سب بجا لائیں۔ اے عاشقِ صادق! یہ چھاپے ان حور لقا عورتوں کے ہاتھ کے ہیں اور جس بت چین کے دستِ نازنین کے چھاپے پر تو جگر افگار نقش دیوار ہے، وہ اُس کی دختر رشک قمر کے مبارک ہاتھ کا ہے۔ آگے اُس کے حسن و جمال کی تعریف کرنا کلام کی (2) فضولی ہے مگر بقول میر حسن : شعر

برس پندرہ یا کہ سولہ کا سن
جوانی کی راتیں مرادوں کے دن
**********************************************************************
(1) یعنی محل۔
(2) نسخہ مطبع محمدی 1311 ھ میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔



نورتن ریختہ صفحہ 111

اور اس کے سراپا کی صفت سراپا کیا بیان کروں! اس قدر کافی ہے کہ وہ حور لقا، ماہ سیما، سراپا قیامت کا ٹکڑا ہے، بقول میر تقی : شعر

جدھر وہ ذرا گرم رفتار ہو
قیامت اُدھر سے نمودار ہو

اس گفتگو دُو بدُو سے اُس تفتہ جگر کے شعلۂ شوق کو اور اشتعالگ ہوئی، بقول شخصے : شعر

شعلے بھڑک کے اُٹھنے لگے دل کے داغ سے
آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

الحاصل یہ سوختۂ آتش فرقت اور برشتۂ نیران الفت آہِ جگر سوز، دل دوز کھینچ کر یوں حرف زن ہوا کہ اے مختار مکان و اے آرام جان! وہ تجار قافلہ سالار تشریف شریف کدھر لے گیا ہے اور کس شہر مینوچہر کا متوطن ہے؟

اس کے جواب میں وہ مختار مکان بآہ وہ فغان کہنے لگی کہ اے دور افتادۂ منزل محبت و اے غم آمادۂ مراحل الفت! اُس کے وطن رشک چمن سے تو میں حسب دل خواہ آگاہ نہیں ہوں مگرا س کے قبائل حور شمائل کی زبانی یوں سننے میں آیا تھا کہ ایک سال فرخندہ مآل کے بعد پھر اس مکان دلستان میں مقرر مقرر (1) آئیں گے۔ سو اے مبتلائے بلائے روزگار و اے شیدائے نقش دست نگار! اس بات کو چھ مہینے گزر گئے ہیں اور چھ مہینے کا عرصہ اس کاروان سبک عنان کی ادھر مراجعت کرنے میں باقی ہے۔
***********************************************************
(1) نسخہ مطبع محمدی میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔


نورتن ریختہ صفحہ 112

یہ گفتگو اس نیک خو کی گوش زد کر کے یہ شعر کسی کا پڑھنے لگا : شعر

صبح پر وصل یار کی ٹھہری
آہ پر انتظار کی ٹھہری

لیکن یہ عشقِ خانہ خراب بقول میر تقی :

ابیات
خار خار دل غریباں ہے
انتظار بلا نصیباں ہے
آرزو ہے امید واروں کی
درد مند جگر فگاروں کی

اور کبھی اُس کے خیال پُر ملال میں کہتا تھا "اے یار جانی و اے مایۂ زندگانی! بقول طوفان :

نگویم بوصلت مرا شاد کن
ز محرومئ من دمی یاد کن

القصہ اس دوچار بلائے ناگہانی اور مبتلائے آفت آسمانی کو اسی شش و پنج میں پانچ مہینے اور چند روز، غم اندوزگزر گئے کہ دیکھیے کہ وہ ماہ مقصد سپہر امید پر کب جلوہ گر ہوتا ہے، اور جب چھ مہینے میں کوئی دس پانچ روز باقی رہے، تب اُس دور افتادۂ غم آمادہ کی وہ حالت ہوئی کہ الانتظار اشد میں الموت، اور بقولِ خلیفہ شاہ محمد سچ ہے : شعر

وعدۂ وصل چوں شود نزدیک
اتشِ شوق تیز تر گردد

اس عرصے میں اس بے دل کو وہ چھ مہینے کامل حالت اشک باری و بے قراری میں گزر گئے، تو بستر ناتوانی پر غلطیدہ ہو کر میاں جرأ کا یہ شعر زبان پر لایا : شعر


نورتن ریختہ صفحہ 113

یہ آیا پر نہ آیا یار افسوس
چلی اب تن سے جانِ زار افسوس

آخرکار اُس مختار مکان کو بلوا کر یہ وصیت کی کہ اے دوائے درد منداں و اے شفائے مرض امیدواران! برائے خالق کون و مکان بعد انتقال مجھ بے وصال کو اسی مکان بے نشان پر دفن کیجیو کہ جس مقام پر ہو صندلی چھاپے ہیں، کیوں کہ بقول جرأت : شعر

غم دلبر سے دل بر میں حزیں ہے
امید اب مجھ کو جینے کی نہیں ہے

اے مختارِ مکان و اے غم خوار مظلومان! اس واسطے کہتا ہوں کہ جیتے جی تو اُس سرمایۂ زندگانی، یار جانی سے وصل میسر نہ ہوا، مبادا وہ ماہ لقا ادھر کو رونق افزا ہو اور میری تربت کو بخرام ناز بصد انداز ٹھوکر لگا کر سرفراز و ممتاز کرے، تو عجب نہیں کہ زیر خاک مجھ غم ناک کی تسکین خاطر ہو جائے۔ اے مختارِ مکان! میری اس وصیت و نصیحت میں تو قصور کرے گی تو واللہ باللہ میں چاک گریباں محشر میں تیرا دامن گیر ہوں گا۔

آخر کار وہ جگر افگار یہ گفتگو کرتے کرتے بیک آہ جاں سوز، مانند چراغ سحری گل ہو گیا۔ یہ ماجرائے جگر سوز و حیرت اندوز دیکھ کر مختار مکان بے اختیار، زار زار (1) مثل ابرِ نوبہار رونے لگی اور ضمیر کے یہ اشعار آب دار زبان پر لائی :
***************************************************************
(1) نسخہ مطبع محمدی 1311ھ میں "و نزار‘ ہے۔


نورتن ریختہ صفحہ 114

اشعار
ایسا تجھے ہائے غم نے گھیرا
آکر کو ہوا وصال تیرا
لذت نہ اُٹھائی زندگی کی
حسرت رہی ہائے جی میں جی کی
دل تیرا ہوا نہ شاد ہے ہے!
اے عاشق نامراد ہے ہے!

القصہ مختار مکان، دل بریان نے مکان وصیت میں اس کشتۂ الفت کو دفن کیا۔

اس عرصے میں کئی دن کے بعد وہ تجار عالی وقار مع خویش و تبار اس مکان جنت نشان میں نازل ہوا کہ جس کے انتظار میں وہ سوداگر خستہ جگر اپنی متاعِ زیست بازار عشق میں بیچ کر عدم کو روانہ ہو گیا تھا، لیکن اے یار بقول مرزا علی لطف :

عشق کوئی زور ہے خوں ریز ہے
عشق کوئی طرفہ آفت خیز ہے
واقعی گر چارہ سازی پر یہ آئے
لاکھ معشوقوں کو عاشق کر دکھائے
دل میں گر لائے خیال آہ گرم
موم سا آہن کو کر دکھلائے نرم
زندگی میں گر رہے عاشق سے فصل
خاک میں دے بعد مرنے کے یہ وصل

چنانچہ اس کے مطابق میر تقی بھی یہ کہتے ہیں : شعر

وصل جیتے نہ ہو میسر گر
لائے معشوق کو یہ تربت پر

المدعا وہ قافلۂ پُبلا اس مکانِ دلستان میں اُترا مگر وہ نازنین مہ جبین کہ جس کے نقش دست کے تعشق میں کوئی دست اجل میں گرفتہ ہو گیا تھا، وہ سرمایۂ زندگانی غافل از بلائے ناگہانی اس جائے راحت افزا میں کیا دیکھتی ہے کہ


نورتن ریختہ صفحہ 115

ایک تربت کسی غربت زدہ کی ایسی ہے کہ سوائے باد صبا اُس کا جاروب کش کوئی نہیں نظر آتا اور بجائے چراغ اس تیرہ روز کا داغِ دل روشن ہے اور پاسبانی کو اس کی تربت پر غربت بصد حسرت موجود ہے، لیکن بقول ضمیر :

اشعار
اس قبر کو دیکھتے ہی وہ گل
کہنے لگی دل سے کر تأمل
آگے نہ تھی قبر اور اب ہے
معلوم نہیں یہ کیا سبب ہے

یہ احوالِ پُر ملال، حیرت افزا وہ ناشکیبا دیکھ کر مثل سیمات ایسی بے تاب ہوئ کہ عنان صبر دست دل سے چھوٹ گئی اور توسن طبع، میدان وحشت میں جولانی کرنے لگا۔ آخر کار مختار مکان کو بلوا کر سب سے الگ لے گئی۔ بعد گفتگوئے بسیار وہ دل فگار یوں کہنے لگی کہ اے نیک بخت، صاحبِ عصمت! تیرے جو مکان دلستان میں آگے ہم اُتر گئے تھے تو یہ تربت پر حیرت نہ تھی، سچ کہہ اس جا پر قبر ہونے کی کیا جہت ہے؟

یہ سخن دل شکن وہ مختارِ مکان سن کر با دیدۂ تر یوں کہنے لگی بزبانی ضمیر :

نظم
اے نو گل بوستان خوبی
وے زیب دہ مکان خوبی
اے کام دل امیدواراں
وے عقدہ کشائے بستہ کاراں
غم ہوئے تجھے نہ تا قیامت!
اللہ رکھے تجھے سلامت!

اے مایۂ ناز و اے پیرایۂ اعجاز : شعر

اب آگے کیا کہوں احوال، جی تو سنسناتا ہے
زباں کرتی ہے لکنت اور کلیجا منہ کو آتا ہے


نورتن ریختہ صفحہ 116

قصہ کوتاہ اے غیرتِ ماہ! اس تربت، پُر حسرت کا یہ واقعۂ جگر سوز حیرت اندوز ہے کہ ایک سوداگر پری پیکر حشمت شاہانہ اور شوکت خسروانہ سے اُتر کر اس مکان دلستان کو مطبوع و وسیع ملاحطہ فرما کر نازل ہوا تھا۔ قضائے کار بوقت خواب اُس نے تاب کو تیرے ہاتھ کا چھاپا جو نظر آیا تو اُسی وقت سے اُس دل طپیدہ، جگر دریدہ کے اجل دست و گریباں ہوئی۔ الحاصل تیرے فراق پُر اشتیاق میں سب اسباب بے حساب لٹا کر چند روز ہوئے ہیں کہ وہ جگر سوز، غم اندوز ملک عدم کو سفر کر گیا، اگرچہ مجھ جگر کباب بیتاب نے تیرے ادھر پھر آنے کا وعدہ بھی بیان کیا تھا لیکن بقول ضمیر : شعر

میں غم زدی کیا کہوں کہ کیا ہے
اس قبر کا سن یہ ماجرا ہے

اس احوال پُر ملال، کثیر الاختلال کو جو گوش زد کیا تو مرزا علی لطٖف کے بقول :

ابیات
تھی مجال اس گفتگو کی پھر کسے
بات کی دل نےنہ دی فرصت اُسے
بے کلی سے ایسی ہی گھبرا کئی
رک کے جاں اک دم میں لب پر آ گئی
اپنی ہی مطلق نہ تھی اس کو خبر
ہووے کس کو پاس ناموسِ پدر
مضطرب افتاں و خیزاں برق وار
پہنچی اس مرقد تلک جب بے قرار


نورتن ریختہ صفحہ 117

کر کے اک آلودہ حسرت کی نگاہ
گر پڑی مرقد پہ اُس کے کر کے آہ
ہو گیا اک دم میں سب قصہ تمام
عشق نے آخر کیا اپنا ہی کام

کہ یکایک اس کشتۂ حسرت کی تربت شق ہوئی اور اس میں وہ غیرت ماہ، آہ سما گئی۔ یہ واقعۂ جگر سوز، حیرت اندوز اُس کی مادر خستہ جگر دیکھ کر بحالتِ مضطر خاک پر تڑپ کر کہ اشعار زبان پر لائی :

مثنوی
اے راحت جان من کجائی
وے روح روان من کجائی
جس طرح سے تو نے جی دیا ہے
اس طرح کوئی بھی مر گیا ہے
افسوس ہے صد ہزار افسوس!
مر جائے تو یوں نگار افسوس!

آخر کار اُس کی مادر و پدر اہلِ ماتم، پُر غم کو ہر ایک نے یوں سمجھایا کہ مشیت ایزدی سے کسی کو چارہ نہیں ہے بہر حال اس حور تمثال کے لیے اب صبر کرنا واجبات سے ہے، چنانچہ حدیث شریف سے ہے "الصبر عند الصدمۃ اولیٰ" یعنی صبر کرنا مصیبت کے نزدیک اولیٰ تر ہے۔ المدعا وہ سوگوار بادل زار بصد بے قراری و اشک باری چہلم تک اس مکان وحشت نشان میں مقیم رہی۔ بعد چہلم وہ اہل ماتم سنگ صبر اپنے سینۂ بریان پر رکھ کر وہاں سے بصد تباہی راہی ہوئی :


نورتن ریختہ صفحہ 118

مثنوی
آب آگے کیا لکھوں اس غم کا دفتر
ہوا جاتا ہے میرا حال ابتر
بس اے مہجور تو اپنی زباں تھام
ہمیشہ سے یہی ہے عشق کا کام
کہ بعد از مرگِ عشاق دل افگار
روا ہے قتل معشوقان غدار

داستان

ایک بادشاہ طفلِ ماہی گیر پر عاشق تھا اور بادشاہ کی بیٹی ماہی گیر کے عشق میں ماہی وار بے قرار تھی۔ ایک دن ایک جوان راہ گیر شاہزادی پر عاشق ہوا اور شاہزادی نے اُس عاشو سے ماہی گیر کے واسطے اُس کا دل طلب کیا۔ اس نے اپنا دل نذر کیا اور جان بہ حق تسلیم ہوا۔ تین دن کے بعد شہزادی نے بھی اس جوان کے عشق میں جاں بہ حق تسلیم کی۔

راویانِ غواص دجلۂ معانی اور ھاکیان امواج لجنۂ خوش بیانی یہ حکایت گرداب الم اور روایت سحاب پُر غم بالائے کاغذ آبی، مثل موج دریائی، سیاہی رواں سے یوں لکھتے ہیں کہ ایک


نورتن ریختہ صفحہ 119

بادشاہ، شہنشاہ دریا دل، گرداب الم کا ساحل، ایک ماہی گیر دل پذیر کے دام عشق میں اسیر تھا لیکن اُس بادشاہ عالم پناہ نے اس کو ارباب محفل میں لانا ننگ دبدبۂ بادشاہی جانا اور ایک نظر آٹھ پہر میں اُس کو نہ دیکھنا یہ بھی شاق تھا۔ اس واسطے بادشاہ عالی جاہ نے اُس ماہی گیر خوش تقریر کو فراست سے یہ خدمت بخشی کہ ایک مچھلی کا دلِ نیم بسمل محفل عالی منزل میں شب کو بلا ناغہ لایا کرے۔

لیکن اس ماہی گیر، رشک ماہ منیر کے دامِ عشق میں اُس بادشاہ کی دختر، رشک قمر بھی ایسی گرفتار تھی کہ اگر ایک روز اُس دل افروز کو نہ دیکھتی تو مانند ماہیٔ بے آب بے تاب ہو جاتی اور اپنی اشک باری اور بیداری پر وہ بے خور و خواب بہ صد اضطراب یہ مطلع مصحفی کا پڑھتی : مطلع

ہوں آشنائے غفلت چشم پُر آب کیوں کر
پانی کے اندر آئے مچھلی کو خواب کیوں کر

وہ دختر شہر یار، دل فگار، گرفتارِ دامِ بلا، برائے تفریح طبع بارھا آہ سرِ راہ جھروکے میں بیٹھ کر مرزا علی لطف کے بقول : شعر

وحشیوں کو سیکڑوں انداز سے
صید کرتی تھی کمند ناز سے

قضائے کار نامساعدیٔ روزگار سے ایک جوان پرارمان، شکل رعنا، خوش زیبا، ماہ سیما، مہر لقا، شکار شہباز عشق، گرفتار انداز عشق جو اس طرف سے گزرا اور نگاہ اس رشک ماہ سے ناگاہ دوچار ہو گئی تو میر تقی کے بقول :


نورتن ریختہ صفحہ 120

مثنوی
تھی نظر یا کہ جی کی آفت تھی
وہ نظر ہی وداع طاقت تھی
ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ
صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ
بے قراری نے کج ادائی کی
تاب و طاقت نے بے وفائی کی

لیک وہ ماہ وش اُس جفاکش کی طرف کب خیال وصال کرتی، کس واسطے کہ ہمیشہ ماہی گیر کے دریائے انتظار میں اس کی شست نگاہ آہ پڑی رہتی تھی اور اُس کے سوا مرزا علی لطف کے بقول :

اشعار
مہر اُس پر کیوں کہ ہو اُس ماہ کو
کیا تناسب ہے گدا سے شاہ کو
کب غرور حسن کو ہے یہ دماغ
خود نمائی سے کہاں اس کو فراغ
صید لاغر کو اُٹھانا خاک سے
ننگ سمجھے باندھنا فتراک سے

حاصل کلام وہ خوش خرام بقول میر تقی :

مثنوی
جھاڑ دامن کو بس وہ مہ پارہ
اُٹھ گئی سامنے سے یک بارہ
وہ گئی اس کے سر بلا آئی
خاک میں مل گئی وہ رعنائی

اب آگے عاشقِ زار، نو گرفتار کی حقیقت پُر رقت، صفحۂ غم


نورتن ریختہ صفحہ 121

پر نوک قلم سے کیا رقم کروں! جس جا پر وہ خستہ جگر مضطر و ششدر، محو نظارۂ ماہ پارہ کھڑا تھا، وہیں کھڑا رہ گیا لیکن بقول عشرت :

نظم
پھر کوئی اُٹھتا تھا اُس کا واں سے گام
کیوں کہ واں تو عشق تھا گستردہ دام
پاؤں اُس کا کیا اُٹھے واں سے بھلا
عشق جس جا ہو گیا زنجیر پا

بیان شب : القصہ بعد روز سوم، سر شب چہارم جس وقت ماہی گیر شب نے برائے تسخیر ماہیان سیارگان شست کہکشاں ماہ کا چارہ لگار کر دریائے فلک میں پھینکی، وہ ماہی گیر دل پذیر اپنے معمول سے سر شام شاہزادی غیرتِ ماہ کے قریب آ کر مے نوشی میں مالوف و مصروف ہوا۔

اسی کیفیت اور نشۂ عشرت میں وہ شب بو العجب جب پہر کے قریب گزری تو ماہی گیر، رشک ماہ منیر بہ خوف شاہ بحر و بر نشۂ غفلت سے ایک بار ہوشیار ہو کر شاہزادی رشک پری سے رخصت طلب ہوا اور یہ سخن زبان پر لایا کہ اے دریائے جود و سخا و اے صدف گوہر بے بہا! آج طلاطم امواج عیش و عشرت کے باعث سے میری دام داری کا وقت گزر گیا مگر اب اس گرداب فکر میں دل غوطہ زن ہے کہ اگر آج مچھلی کا دل بادشاہ بحر و بر کے متصل نہ پہنچے گا تو خدا جانے اس آن کیا طوفان برپا ہو گا۔ اے مایۂ عشرت! اس وقت میرے احوال پُر ملال پر بقول مرزا بے دل : شعر

بحر می پیچد بموج اشک غم پُر درد ما
چرخ می گردد دوتا در فکرِ بار درد ما


نورتن ریختہ صفحہ 122

یہ سخن دل شکن اس ماہی گیر دل پذیر کا شاہزادیٔ رشک پری سن کر یوں حرف زن ہوئی کہ اے غریق بحر ہر اس و اے رفیق دریائے یاس! ایک مچھلی کے دل کے واسطے اپنے دل کو لجتۂ غم میں ناحق ڈبوتا ہے۔ اے دل دار! میں دل فگار تجھ کو مچھلی کا دل اسی منزل میں منگا دوں گی، اپنی خاطر فاطر کو ساحل امید سے ہم کنار کر۔

اس کلام بد انجام سے اس ماہی گیر دل پذیر کو شگفتہ دل کر کے ایک خواص خاص سے یوں چپکے سے فرمایا کہ اے محرم راز و اے پروردۂ ناز! ایک کارد خوں ریز اور طشت طلائی اس بے بدل کے پیچھے سے چھپا کر لے جا اور وہ جوان پُر ارمان دل فگار جو میرا نشنۂ دیدار کھڑا ہے، اس سے یوں کہہ کہ اے عاشق صادق! دختر شہر یار، تیری دل دار کہتی ہے کہ اپنے دل ناشاد، نامراد کو سینے سے فی الحال نکال کر میرے پاس بلا وسواس بھیج دے تو میں جانوں کہ تو بے دل عاشق کامل ہے ورنہ بہ قول میر تقی : شعر

دل اگر تھا عزیز، اے ناکام!
کیوں عبث عشق کو کیا بدنام

الحاصل وہ خواصِ خاص حسبِ ارشاد دختر شہر یار ایک بار وہیں جا کر موجود ہوئی کہ جس جا پر وہ جوان پُر ارمان، بے آب و نان محو خیال جاناں کھڑا تھا۔ یکایک چھری اور طشت کوآگے رکھ کے یہ سخن زبان پر لائے کہ اے گرفتار اجل و اے دل فگار بے بدل! تیری مایۂ زندگانی اور پیرایۂ کامرانی تیر دل طپیدہ، آفت رسیدہ طلب کرتی ہے۔ اگر تو نے میدان عشق میں قدم مارا ہے تو ہاتھ دریائے یاس میں دھو کر موت کا بیڑا اُٹھا لے اور حکم دل دار بلا تکرار بجا لا


نورتن ریختہ صفحہ 123

چنانچہ مرزا بے دل کہتے ہیں : شعر

بے دل! آں صیدے کہ مخمور گرفتاری بود
ساغر سر شار داند حلقہائے دام را

یہ گفتگو دُو بدُو اس عربدہ جُو کی وہ کشتۂ الفت اور تفتۂ آتشِ محبت سن کر بقول شخصے یوں کہنے لگا : شعر

دل لے کے ہمارا کہیں برباد کرو گے
لو دل تمہیں ہم دیتے ہیں کیا یاد کرو گے

الحاصل اُس بے دل نے اپنا دل شینۂ بے کینہ سے نکال کر اس خواص خاص کے حوالے کیا اور یہ شعر کسی کا زبان پر ارمان پر لایا : شعر

نقد دل رکھتے تھے سو یار کو مطلوب ہوا
للہ الحمد! چھٹے رنب سے کیا خوب ہوا

غرض وہ نیم بسمل، بے دل تو خاک پر تڑپ کر جان بہ حق ہو گیا اور وہ خواص بلا اختصاص اس بے دل کا دل دختر شہر یار، جفا کار کے پاس لے گئی مگر اپنے دل میں بقول عشرت یوں کہتی تھی : شعر

دیکھیو نیرنگ بازی عشق کی
بے دلوں پر حیلہ سازی عشق کی

آخر کار وہ ماہی گیر نابکار اُس صید شاہباز عشق کا دل باورچی خانۂ شاہی میں لے گیا اور کباب پُر جگر کباب نے چاہا کہ اُسے سیخ پر لگا کر بارئے شاہ عالی جناب کباب تیارکروں کہ یکایک اُس دل فگار سے یہ آواز خدا ساز صادر ہوئی : مصرع

دلم بردی و دل داری نہ کر دی


نورتن ریختہ صفحہ 124

یہ احوال کثیر الاختلال کباب پُز جگر کباب اور تمام احباب سن کر حیران و ششدر ہوئے۔

المدعا یہ خبر وحشت اثر بکاول باورچی خانے کا سماعت کر کے بصد ادب، دست بستہ شہنشاہ عالم پناہ سے بقول عشرت یوں عرض کرنے لگا :

اشعار
کاے شہ مہر شپہر عز و جاہ!
ماہتاب سلطنت عالم پناہ!
وے شہ عالی قدر والا گہر!
آج دیکھا ماجرائے طُرفہ تر
یعنی ہر شب بہر شاہ نیک نام
ایک دل مچھلی کا آتا تھا مدام
آج کا دل اُن دلوں سے کچھ کلاں
طُرفہ تر آیا ہے بے نام و نشاں

اور اس کے سوائے یہ ماجرا عجیب و غریب ہے کہ اُس دلِ بے دل سے یہ صدا بار ہا آتی ہے : مصرع

دلم بُردی و دل داری نہ کر دی

لیکن بقول عشرت : شعر

میں یہ حیراں ہوں یہ کیا اسرار ہے
یہ دلِ ماہی عجب پُر خار ہے

یہ کلام وحشت التیام وہ شاہِ بحر و بر سن کر گرداب حیرت میں غوطہ زن ہوا اور لجتۂ تفکر میں ڈوب کر بہ تامل بسیار ایک بار اس بکاول سے یوں فرمانے لگا کہ اُس دل شکوہ کن کو حضور پُر نور میں حاضر کر تاکہ دریافت صاف صفا ہو کہ وہ دل کس کی تیغِ جفا کا نیم بسمل ہے۔


نورتن ریختہ صفحہ 125

الحاصل حسبِ ارشادِ عالی متعالی وہ دل میان طشتِ زریں بارگاہ شاہی میں حاضر ہوا ور بصد اضطرار ایک بار یوں آواز دینے لگا : مصرع

دلم بُر دی و دل داری نہ کر دی

یہ ماجرا حیرت افزا بادشاہ عالی جاہ ملاحظہ فرما کر دم بخود ہوا اور تمام حضار، محفل میں اُس دل نیم بسمل کے احوال پُر ملال پر مانند ماہیٔ بے آب بے تاب ہوئے؛ اور میاں عشرت حضرت عشق کی شان میں یوں کہتے ہیں :

نظم
واہ رے ظالم تری بے باکیاں
طُرفہ تر ہیں کچھ تری چالاکیاں
خا ک میں رکھا کہیں تن کر چھپا
دل کو فریادی کہیں ظاہر کیا

الغرض بادشاہ جم جاہ نے اُس ماہی گیر بے پیر کو طلب فرما کے پوچھا کہ اے صیاد ماہیان دریا و اے جلاد دل مظلومان باوفا! تو نے آج کس صید ناامید کو تہ دام بلا کیا ہے جو یہ دل نیم بسمل مچھلی کے دل سے نہایت افزور ہے اور اس کے سوا ہر زماں شکوہ کناں ہے؟

یہ ارشاد حضور پُر نور وہ صیاد بے شعور سن کر یوں گویا ہوا کہ اے مہر شپہر حشمت و اے ماہتاب آسمان شوکت! اس دل کی آواز خدا ساز سے میں بھی حیران ہوں مگر اس دل کی کلانیٔ لاثانی کا یہ سبب ہے کہ آج ایک مچھلیٔ کلاں میرے دام کے درمیان آ کر پھنسی تھی۔ غرض آپ کے اقبال دولت سے غلام نے بہ زور تمام اُسے تہ دام کر کے اُس کا شکم


نورتن ریختہ صفحہ 126

چاک کیا تھا مگر معلوم و مفہوم ہوتا ہے کہ یہ مچھلی کسی بحر عشق کی ہے کہ جس کے دل سے درد کی صدا آتی ہے اور یا یہ ماہی کسی عاشق صادق کو شکل حضرت یونس علیہ السلام بر محل نگل گئی ہے، اور یا اس ماہی کی سرشت میں صانع قدرت نے عشق مخلوق کیا ہے۔


حاصل کلام وہ ماہی گیر نا فرجام تقریر بے تاثیر کرتا تھا لیکن بادشاہ عالم پناہ کے دل کو اصلاً تشفی نہ ہوتی تھی۔ بہر حال وہ شب پُر تعب تو گزر گئی۔

بیان سحر : اور جس وقت جلاد فلک نے خورشید کو خون شفق میں غلطاں کر کے مثلِ دلِ نیم بسمل طشت مشرق میں رکھا، اس شہنشاہ عادل زمان، رشک نوشیرواں نے کوتوال خوش خصال سے فرمایا کہ اس دل فگار آوز دار کو سر بازار دروازۂ شاہی میں رکھوا دے اور چند اشخاص خاص پاسبانی اور خبرداری کو تعین کر دے، شاید اس کا راز مخفی کسی رو گزرے سے افشا ہو جائے تو عجب نہیں۔

القصہ وہ دل نیم بسمل ادھر سر بازار مصروف شکوۂ یار روانہ ہوا اور اُدھر کا احوال پُر ملال، کلک جگر شگاف قرطاس الم پر کیا رقم کرے! یعنی دختر شہر یار، ماہ رخسار جفا کار نے اُس بے دل کا دل بے دلی سے طشت آزمائش میں لیتے تو لیا مگر جس وقت وہ جوان پُر ارمان، کشتۂ تیغ جفا اور مذبوح خنجر دغا زیر زمین دفن ہوا، اُسی وقت اسی ساعت سے جذبۂ عشق نے مرزا علی لطف کے بقول :


نورتن ریختہ صفحہ 127

مثنوی
یاں کیا پیوند اس کو خاک کا
دل وہاں پھیرا ہے اُس سفاک کا
شاد و خنداں یا تو مثل گل تھی وہ
یا کہ رشک افزائے صد بلبل تھی وہ
پر حیا از بسکہ دامن گیر تھی
چپ مثال بلبل تصویر تھی
گرچہ تھا شدت سے ضبط اضطرار
پر کوئی ہوتا ہے دل پر اختیار
رفتہ رفتہ اشک سے خوں ہو گیا
یا تو نم تھا یا کہ جیحوں ہو گیا
ہم سری تھی گل سے جس عارض کو ننگ
ہو گیا صد برگ سا صاف اس کا رنگ
فرش گل پر بے کلی سے زار تھی
ہر رگ گل اُس کو نوک خار تھی

اور میاں عشرت کشتۂ الفت کی زبانی ہے :

مثنوی
سونپتے ہی خاک میں وہ دل فگار
ہو گئی دامِ محبت کی شکار
آتش غم دل پہ جو بھڑکی دو چند
مضطرب جلنے لگی مثل سپند
غرق دریائے ندامت تھی مگر
جذب دل اس پر ہوا یہ حملہ ور
روز و شب بے خواب و خور با چشم تر
بیٹھتی تھی آ کے اُس کی خاک پر


نورتن ریختہ صفحہ 128

سیر صحرا سے ہوئی وہ دل فگار
گشت گلشن ہو گیا آنکھوں میں خار
بیٹھتی غرفوں (1) میں سیر آب کو
رو کے اُٹھتی اُس دل بے تاب کو
ذکر جام و بزم سے تھا اُس کو ننگ
ہو گئی تھی زندگی سے اپنی تنگ
تھی جو آمد رفت اُس صیاد کی
سد رہ اس کے وہ حالت ہو گئی

اسے سامعانِ حکایتِ پُر غم و اے ساعرانِ عطارد رقم! ادھر تو دخٹر شہر یار دل فگار اپنے عاشق زار، جاں نثار کی سوگوار تھی اور اُدھر وہ دل نیم بسمل، طشتِ طلا میں دروازۂ شاہی پر مانند قندیل بے عدیل لٹکتا تھا اور ایک ہجوم بادلِ مغموم اُس کے گرد شب و روز اس قدر تھا، بقول میر تقی : شعر

تھا ہنگامہ اک سر پہ یوں اس کے جمع
پتنگے اکھٹے ہوں جو گرد شمع

لیکن اس راز مخفی اور آواز غیبی سے کوئی ماہر نہ تھا۔

قضائے کار بہ قدرت پروردگار ایک فقیر روشن ضمیر، عاشق دل، صادق منزل سر پر تاج الفت رکھے، گلے میں محبت کی کفنی پہلے، اشک مسلسل کی سیلیاں ڈالے اور ہاتھ میں آہ کی بیراگی لیے، فراق کا کچکول کمر سے لگائے، اُس جائے حیرت افزا پر وارد ہوا کہ جس رہ گزر میں وہ دل ناقلاں با آہ و فغاں شکوہ کناں دلبراں بے وفا تھا۔ یہ فقیرِ روشن ضمیر اُس
*************************************************************
(1) نسخہ مطبع محمدی 1311ھ میں ‘گلشن‘ ہے۔


نورتن ریختہ صفحہ 129

بے نصیب کے قریب گیا اور یوں گویا ہوا، بقول عشرت :

ابیات
ہے دلوں کو عاشقوں کے اضطرار
لیکن اے دل! ہو نہ ایسا بے قرار!
پردہ ہائے غم میں ہے پنہاں سرور
بے قراری اتنی اے دل کیا ضرور

یہ حرفِ شگرف وہ درویشِ جگر ریش کہہ کر راہی ہوا اور یہ دل طپیدہ، آفت رسیدہ چپ ہو گیا اور فی الحقیقت ہے : شعر

پھر زباں سے کس طرح نکلے جواب
جب کہ حاصل ہو جواب باصواب

اور یہ واقعۂ حیرت افزا، ہوش ربا، پیر و جواں اس زمان دیکھ کر آئینہ ساں حیران و ششدر ہوئے اور یہ ماجرائے عجیب و غریب خبرداران صدق مقال اور چوکی داران کوتوال کی زبانی بادشاہ عالم پناہ کے گوش ہوش میں پہنچا کہ ایک فقیر روشن ضمیر کے ہم کلام ہونے سے وہ دل پُر آواز، کشتۂ ناز چپ ہو گیا ہے : شعر

اب نہیں وہ بے قراری کی صدا
ہے گلِ پژمردہ سا بے حس پڑا

اس سخنِ حیرت افزا سے شہنشاہِ عالی جاہ کو اور حیرت زیادہ ہوئی لیکن وہیں ارشاد فرمایا کہ اس درویش کو جلد تلاش کر کے بارگاہ شہی میں حاضر کرو۔

غرض لوگوں نے بہ تلاشِ بسیار اُس درویشِ عالی مقدار کو رو بروئے بادشاہ عالم پناہ حاضر کیا۔ شہنشاہ عالی جاہ


نورتن ریختہ صفحہ 130

نے اُس درویش صاحب کمال، شیریں مقال کو اپنے قریب بٹھا کے با دل شاد یہ ارشاد کیا کہ اے صاحب کشف و کرامات و اے فخرِ فقیران عالی درجات! اس دل کی شکایت بے نہایت کا اور چپ ہو جانے کا کیا سبب ہے؟

یہ کلام شاہِ عالی مقام کا استماع کر کے فقیرِ روشن ضمیر نے کہا کہ اے بادشاہ بحر و بر و اے شاہ والا گہر! یہ دل ماہی کا نہیں ہے، یہ دل کسی ناامید، دامِ عشق کے صید کا ہے، یہ دل دریائے الم کا غریق رحمت ہے، یہ دل گرداب ستم کا آشنا ہے، یہ دل کشاکش الم کا مستغرق ہے اور اس کا ماجرائے پوشیدہ کیا بیان کروں، بقول شخصے : مصرع

کہیں کہنے سے اولیٰ ہے نہ کہنا

حاصلِ کلام، بادشاہِ عالی مقام جب اس رازِ مخفی کے افشا کرنے میں نہایت درپے ہوا تو اُس درویشِ دل ریش نے اُس دلِ نیم بسمل کو مثل ید بیضائے حضرت موسیٰ علیہ السلام ہاتھ میں لے کر یہ کہا کہ اے بادشاہ عالم پناہ! اگر تجھ کو کوہِ طور عشق کی تجلی دیکھنی ہے تو بسم اللہ میرے ہمراہ چل؛ اس دلِ فگار کا احوالِ پُر ملال دل پر اظہر ہو جائے گا۔

غرض شاہ و گدا باہم اُس دل پُر غم کو لیے جو اُٹھے تو وہ دل بے تاب مثل سیماب اس درویش دل ریش کے ہاتھ پر جذبۂ عشق سے یوں چل نکلا کہ گویا دست درویش کو خود بخودکھینچے لیے جاتا ہے۔ آخر کار وہ دل فگار بادشاہ اور گدا کو اپنے پیچھے پیچھے لیے اس مکان حیرت نشان پر آیا جس جا پر اس کا قالب تن بے وطن تہ خاک پڑا تھا۔ اُس تربت بے نشان لا مکان پر وہ نابود اپنی بود موجود سمجھ کر کھڑا ہو
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 211

صندوق مضبوط میں اس سپاہی کو بند کر کے قفل لگا دیا، اور وہ تنبولی آگ بھبھوکا بنا ہوا جو آیا تو نہ دیکھا آؤ نہ دیکھا تاؤ، ایک بار گھر کے سائبان کو آگ لگا دی۔ اس زن پر فن نے یہ خانہ خرابی شتابی دیکھ کر کہا "اے خانہ خراب، جگر کباب! گھر تو اپنا تو نے آتش نادانی سے جلایا، خوب کیا مگر میرے جہیز کا صندوق لاکھوں روپوں کا جلے گا تو میرے وارث تجھ کو بورے میں رکھ کر پھونک دیں گے۔" یہ گفتگو اپنی جوروئے بدخو کی سن کر جھٹ صندوق کو سر پر اٹھا کے باہر رکھ دیا۔ بارے مردمان ہم سایہ نے جھٹ پٹ ہاتھوں ہاتھ آگ تند کو بجھا لیا۔ آخرکار اس نابکار کو سب نے لعنت ملامت کر کے قائل کیا۔
القصہ یہ تنبولی اپنے مکان دلستان کی سوختگی میں دکان پریشان کو گیا اور ادھر اس زن بے ہوده نے اس کو صندوق نکال کر اپنی کار برآری کر کے بہ صد بشاشت رخصت کیا۔ یہ سپاہی واہی پھر اس تنبولی کے قریب آکر کہنے لگا "اے یار دل سوز! آج کے روز اور بھی آفت قیامت ہوئی، یعنی آج تو اس کم بخت بد بخت نے آتے ہی سارے گھر کو جلا دیا، لیکن وہ زن شعلہ رو نکایت باشعور تھی کہ مجھے صندوق میں چھپا کے اپنے شوہر سے کہنے لگی تیری اس میں خیریت اور حرمت ہے کہ میرے باپ کا صندوق آتش نادانی سے بچاوے، نہیں تو تو خاک میں مل جائے گا۔ اسے بار گراں یار! آج اس صورت سے خدا نے بچایا، نہیں تو جل بھن کے کباب ہو گئے ہوتے۔" یہ گفتگو دو بدو سن کر تنبولی کہنے لگا کہ "اے عزیز با تمیز! بہ ماجرا حیرت افزا تو اور لوگوں کے سامنے بھی بیان کرے گا؟" وہ سپاہی واہی کہنے لگا

صفحہ 212
"اے احمق مطلق؟ سانچ کو آنچ کیا، اگر کوئی بادشاه شکنشاه ہم سے پوچھے گا تو ہم صاف صاف کہہ دیں گے۔ القصہ اس تنبولی نے اپنی جورو بدخو کو تو اس کے ماں باپ کے گھر پہنچا دیا اور اس سپاہی واہی کو ساتھ لے کر سسرال بد اعمال میں گیا اور پنجایت جمع کر کے کہنے لگا "اے بھائیو! میرا کہنا سراسر جھوٹ ہے، لیکن جو یہ سپاہی للہی کہے اس کو تم سب سچ جانو۔" غرض سب لوگوں نے قبول بے عدول کر کے کہا "اے میاں سپاہی! تمہاری سرگزشت کیوں کر ہے؟ صاف صاف بیان کرو۔" یہ سپاہی واہی کہنے لگا "اے پنچو! سچ تو یوں ہے کہ "پنچ مل خدا اور خدا مل پنج, اس تنبولی مرد اجنبی نے ہمارے ساتھ کمال احسان کیا ہے کہ اس سے عہده برا ہونا مشکل ہے لیکن اس کی دوستی مجھے ایسی بھاگوان ہوئی ہے کہ دو چار روز نہ گزرے تھے کہ فلانے محلے میں بڑی حویلی والی عورت خوبصورت نے مجھ کو عہده اردلی کا دے کر دو رونے روز کا نوکر رکھا؛ چنانچہ پہلے روز جو میں غم اندوز گیا تو بھلا چنگا نکل آیا۔ دوسرے روز معلوم نہیں کسی جاسوس منحوس نے اس کے شوہر گیدی خر کو خبر کی کہ اس نے مجھے آ دبایا، لیکن وہ عورت پر فطرت نہایت تھی کہ بوریے میں چھپا رکھا، بلکہ لڈو وہیں کھانے کو پہنچائے۔ غرض تیسرے دن محھ غريق بحر الفت اور شناور دریائے محبت کو اس نے حوض پر آب میں نایاب کیا۔ چوتھے روز اس بد آموز نے میرے جلانے میں اپنا تمام گھر جلا دیا، لیکن اس شعلہ خو نے مجھ کو ایک صندوق مضبوط میں چھپا رکھا اور اس کے سر پر رکھوا کے آتش غضب پر تعب سے بچا لیا۔" یہ گفتگو دو بدو سپاہی واکی کی پنچ لوگ سن رہے تھے

صفحہ 213
کہ اس تنبولن پر فن نے دل میں کہا "ہائے اس احمق نے شیشہ ننگ و حیا کا سنگ رسوائی سے ناحق توڑا!" یکایک وہ دلارام بالائے بام کھنکاری کہ اس واہی کی گفتگو دو بدو میں آنکھ اوپر اٹھ گئی تو کیا دیکھتا ہے کہ وہی عورت ماه طلعت بالائے بام جلوه گر ہے اور زبان غنچہ ساں دہن میں دابے ملاتی ہے۔ اس ایمان پر فریب کو معلوم کر کے وہ چپ ہو گیا۔ اس میں پنچوں نے کہا "اے سپاہی بھائی! آگے کیا ہوا؟" کہنے لگا "اس عرصے میں کہیں جو غل بے تامل ہوا تو ایک بار میری آنکھ بیدار ہو گئی۔" وہ پنچ بے رنج کہنے لگے "اے باتمیز! یہ بات تو سچ کہتا ہے یا خواب پر اضطراب
بیان کرتا ہے؟" وہ بولا "میں نے چارہ غریب، آواره نصیب، مجھ کو محل بے بدل کہاں سے نصیب ہوا، لیکن یہ تو البتہ ہے کہ جھوپڑے میں رہتا ہوں اور خواب محلوں کا دیکھتا ہوں۔ اے یارو! بہ چشم شور خیال تو کرو کہ جو کوئی دو روپے روز کسی کو دے گا، آٹھ پہر اپنے پاس نہ رکھے گا؟" یہ گفتگو دوبدو سن کر سب پنج بے رنج شش و پنج کر کے کہنے لگے کہ "یہ سپاہی بے چاره سات پانچ کچھ نہیں جانتا، جو کہ راست براست تھا سو اس نے کہہ دیا، مگر یه تنبولی نہایت دروغ گو ہے کہ اپنی جوروئے نیک خو کو اس بے چارے آفت کے مارے سے متہم کرتا ہے:

قطع

الغرض اس نے اس تنبولی کو
الٹا قائل کیا خفا ہو ہو
وہ تنبولن و لیکن اے مہجور
پاک طینت بنی سبھوں کے حضور

صفحہ 214
چرتر

ایک عورت شکر مول لینے کو گئی اور شکر فروش
سے ......¹ کی اور شاگرد شکر فروش نے
عیاری سے شکر کے بدلے خاک باندھ دی ،
شوہر اس کا منغص ہوا۔ اس
عورت نے حاضر جوابی سے
اس کو خوش حال کیا

راویان شیرین دکن اور ناقلان رنگین سخن بہ چالاکی زبان یوں بیان کرتے ہیں کہ یک زن پر فن يقال بد افعال کی دکان پر طوفان میں شکر لینے کو گئی۔ وہ بقال بد اعمال اس زن شیریں سخن کی گفتگو میں محبت کی چاشنی پا کر گھل گھل کے باتیں کرنے لگا اور اس زن بدکار ناہنجار نے بقال بد اعمال کو جو گندم رو خرمن جوانی کا خوب رو پایا، ایک بار بے اختیار آسیائے حسرت میں آٹے کی طرح پس گئی۔ الحاصل اس بقال بد خصال نے اس زن شیرین دہن کے گوشہ چادر میں ایک آثار شكر خوش گوار تول کر باندھ دی اور کھنڈ سار کے گوشے میں اپنا مطلب پورا کرنے کو لے گیا²، لیکن بقال بدخصال کے شاگرد استاد زمانہ نے جو دیکھا کہ یہ زن پر فن سیر بھر شکر ناحق لیے جاتی ہے، وہیں دوڑ کر وہ شکر خوشتر تو گوشہ چادر سے کھول کر مٹکے میں ڈال لی اور اس کے عوض تھوڑی خاک ناپاک دست چالاک سے گوشہ چادر میں باندھ کر چپ ہو رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1-2- یہاں سے ایک جملہ بر بنانے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔


صفحہ 215
اس میں وه زن پر فن بعد انفراغ جسمانی اور خلاص نفسانی دكان بقال سے بزودی تمام بجائے شکر خاک ناپاک لے کر گھر کی طرف روانہ ہوئی۔ ایک ساعت کے بعد وہ گھر پہنچی تو چادر رکھ کر استنجے کو گئی اور اس کے شوہر گیدی خر نے اس گوشہ چادر کو جو کھولا تو کیا دیکھتا ہے: شعر

نہ بورا ہے اور شکر نری ہے
سراسر خاک چادر میں بھری ہے

یہ ماجرا حیرت افزا دیکھ کر وہ الو چپ بیٹھا تھا کہ وہ استنجا کر کے جو واپس آئی تو وہ الو خفگی سے کہنے لگا "اے ناپاک زبان چالاک! تو شکر خوش تر لینے گئی تھی یا چوراہے کی خاک ناپاک اٹھانے کو، اس میں وہ زن بے حجاب حاضر جواب، جواب ده ہوئی "اے شوہر خجستہ پیکر! اس کا ماجرا حیرت افزا کچھ نہ پوچھ؛ جس وقت میں گگر ڈے نکل کر چار سوئے بازار رشک گلزار میں پہنچی تھی کہ یکایک کسی کے جھگڑے کا بیل خونی جنونی چھوٹا ہوا ایک طرف سے نمود ہوا اور اس کے خوف و خطر سے لوگوں کا لوگوں کا ہجوم با دل مغموم بھاگتا پھرتا تھا۔ چنانچہ میں بھی اس کے ڈر سے جو بھاگنے لگی تو میرے پیسے خرید شکر کے آنچل سے کھل کر گر پڑے۔ میں نے اس بھیڑ میں بیٹھ کر پیسے چننے کی فرصت نہ پائی، جلدی سے اس جگہ کی خاک ناپاک گوشہ چادر میں بھر لائی۔ سو وہ یہ خاک ہے؛ از برائے خدا ذرا اس میں سے پیسے ڈهونڈھ کر نکال دے تو میں پھر جا کر شکر بے خوف و خطر لا دوں، کیوں کہ اب اس بیل کی آفت بھی فرو ہو گئی ہو گی۔ میں کم بخت ناشدنی تو ہنوز شکر والے کی دکان تک بھی نہ پہنچی تھی کہ بیچ میں یہ شگوفہ پھولا، یہ کلام اس بد انجام کا وہ
 

محمد عمر

لائبریرین
191

یہ بھی چرتر تمہارے دفتر ابتر میں لکھا ہے یا نہیں؟“ غرض اُس جوان نادان نے اُس کا چرتر خوش تر دیکھ کر وہ دفتر ناکام تمام دریائے حیرت میں ڈبو دیا اور یہ قطعہ نخشبی کا زبان پر لایا :

قطعہ

نخشبی زن بہ جملگی مگر ست

نیست خالی زمانہ از تلبیس

کید و مکرے کہ از زنان آید

ناید آن ہیچ وقت از ابلیس

سچ ہے مہجور فرقۂ نسواں

ہے عجائب طرح کا میری جاں

ان کے مکروں سے ہے خدا کی پناہ

گھر کے گھر ان سے ہو گئے ہیں تباہ

چرتر

ایک شخص تاجر نے عیاشی کے واسطے دلالہ کے ہاتھ عورت کو طلب کیا اور دلالہ نادانستہ اسی کی جورو کو اس کے پاس لے گئی اور عورت نے ایسا حیلہ کیا کہ وہ شخص آپ نادم ہوا

تجارانِ جنس معانی اور خریدارانِ متاعِ خوش بیانی یہ حکایت بیش قیمت و دل پذیر بہ بازار تقریر یوں بیان میں لاتے

192

ہیں کہ ایک سوداگر پری پیکر برائے سوداگری براہ تری کسی ملک کو روانہ ہو گیا تھا اور اس کے بعد گھر والی بی بی (1) مصروف بہ عیش و عشرت ہوئی۔ بعد مدت مدید و عرصۂ بعید اس سوداگر نے سفر سے آ کر اپنے شہر کی کاروان سرا میں داخل ہو کر ایک پیر زن پُر فن کو طلب کیا اور یہ سخن زبان پر لایا کہ ”اے پیر زال نیک خصال! میرا جی چاہتا ہے کہ چند روز دل افروز اس شہر مینو چہر میں رہ کر زندگی کی حلاوت اُٹھائیے کیوں کہ بقول فہیم : شعر

دم کا یہ مہمان ہے دم جو دم ہے سو غنیمت ہے

زیست نظر آتی ہے کہ جو دم ہے سو غنیمت ہے“

یہ کلام اس عالی مقام، نیک انجام کا وہ پیر زال کذب مقال سن کر کہنے لگی کہ ”اے سوداگر، پری پیکر، رشک قمر، مہر انور! تیرے واسطے ایسی پری رخسار، غیرت گلزار، شعلہ نور، رشک حور لاؤں، بقول مصفحی : شعر

کیا حسن سے اس کے ہو خبر اہل زمیں کو

سورج نے بھی دیکھا نہ ہو جس پردہ نشیں کو

یہ گفتگو وہ بدخو سوداگر سے کر کے نادانستہ اس کی جورو ماہ رو دل فریب کے قریب آ کے کہنے لگی ”اے ماہ تمثال خوش حال! تیرے واسطے ایک شکار فربہ اور تیار لائی ہوں۔ اس کو اپنے دام فریب میں لا کر طائرِ دولت اور کبوترِ حشمت کو شوق سے اُڑا، یعنی ایک سوداگر ملک التجار مال دار کسی شہر کا تیرے ملک میں صادر و وارد ہوا ہے، سو اس کی یہ خواہشِ دل ہے کہ کوئی عورت خوب صورت ہو تو اس سے

---

1) یہاں سے ایک جملہ بر بنائے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔

193

چند روز اس شہر فرحت اندوز میں اوقات بسر کیجیے۔ سو اے ماہ لقا، با وفا! میں نے تجھ کو تجویز کیا ہے؛ اگر مزاج وہاج میں آوے تو اس امر میں تامل نہ کر، بقول شخصے : ع

دركار خیر حاجت ہیچ استخارہ نیست“

یہ کلام وہ بد انجام اس پیر زن پر فن کا مسموع کر کے کہنے لگی ”ازیں چہ بہتر۔“

المطلب وہ غنچہ لب، بہ صد زیب و زینت آراستہ و پیراستہ ایک ڈولی میں سوار ہو کر اس پیر زن پر فن کے ہمراہ ہوئی۔ رفتہ رفتہ وہاں پہنچی تو کیا دیکھتی ہے کہ اس مکان دلستان میں تو میرا شوہر جلوہ گر ہے۔ القصہ جو ان دونوں کی نگاہ ایک بار دو چار ہوئی، یکایک وہ عورت پر فطرت چادرسر سے پھینک کر بہ صورت مہیب اور بہ حالت عجیب اس غریب کے قریب جا کر ایک دو ہنٹر سر پر جڑ کے یہ سخن زبان پر لائی کہ ”اے مرد بے درد! میں نے تو تیرے فراق پر اشتیاق میں ایک ایک روز با آہِ دل سوز ایک ایک سال کے برابر کاٹا اور تو آج اس شہر میں جو وارد و صادر ہوا ہے، تو یہاں اس واسطے مقام نا کام کیا ہے کہ عیاشی و مزے داری بہ شوق تمام کیجیے۔ چہ خوش چرا نہ باشد“ اے جھڈو، نکھٹو! اتنے روزوں باہر رہا اور تا حال عشق بازی سے جی نہیں بھرا جو آج کے روز یہاں ٹھہر رہا ہے۔ اے بے حیثیت اور بے حقیقت وہ تو مجھ کو وہیں خبر وحشت اثر تیرے داخل ہونے کی ہوئی تھی کہ جس وقت تو اس شہر میں وارد و صادر ہوا تھا، لیکن اس بڑھیا کا خدا بھلا کرے کہ جس نے تیرے مکان کے نشان کا پتا لگا دیا۔ غرض وہ عورت پُر فطرت اس احمق مطلق کو مارتی دھاڑتی گھر کو لے گئی :

194

مثنوی

واہ رے تیری عقل، واہ شعور

بخشبی کا ہے قول سچ مہجور

”بخشبی زن کہ جنگ جُو باشد

طاقت جنگ او نہ دارد گیو

ہمہ عالم ز دیو بگریزد

از زن جنگ جو گریزد دیو“

چرتر

زنِ دہقانی بد کار، حاضر جواب

باغبان گل زار خوش بیانی اور مزارعانِ کشت زار معانی مزرعۂ قرطاس صاف میں اس حکایت نغز کو یوں سر سبز کرتے ہیں کہ ایک زن دریدہ دھن، دہقانی بے معنی کی بے حساب حاضر جواب تھی: چنانچہ ایک روز وہ تیرہ روز اپنے شوہر گیدی خر کے واسطے ستو مثل لڈو گوندھ کر ایک رکابی میں بھر کر کشت کار پُر بہار کو لے چلی لیکن اثنائے راہ میں ایک جوان نونہال، خوش جمال، گندم رنگ کو دیکھ کر خرمن ننگ و ناموس کو آتش شوق سے جلا کر اس کے قریب گئی اور یوں گویا ہوئی ”اے گلِ خوبی و اے حدیقۂ محبوبی! بقول میر حسن:

نظم

غنیمت شمر صحبت دوستاں

کہ گل پنج رو زست در بوستان

195

ثمر لے بھلائی کا گر ہو سکے

شتابی سے بو لے جو کچھ ہو سکے

الحاصل وہ عورت پُر فطرت اس جوان عالی شان کو دام فریب میں لا کے ایک مکان ویران میں لے گئی(1)، اور اُدھر اُس جوان انجان نے رکابی کو شتابی جو وا کیا تو ستو مثل لڈو نظر آئے۔ اس جوان شیریں دہن نے چالاکی دست صنعت سے اس ستو مثل لڈو کا ایک پیل مست، بد صورت پُر ہیبت بنا کر پھر اس رکابی کو غلاف کر دیا، اور یہ زن پُر فن بعد خلاصی عیاشی اس کے پاس سے بلا وسواس اُٹھ کر اپنے شوہر کی قریب جا کر ستو کی رکابی رکھ کر چپ ہو گئی۔ وہ خر بے دُم جو زہر مار کرنے کو بیٹھا تو کیا دیکھتا ہے ستو کا ایک ہاتھی رکابی میں رکھا ہے۔ یہ ماجرائے عجیب و غریب دیکھ کر کہنے لگا کہ ”اے المست، عقل پست! یہ ستو تو کیسے واہی تباہی بنا کے لائی ہے؟“ وہ زن پُر فن بولی ”اے میاں کچھ نہ پوچھ، آج کی شب پر غضب میں مَیں نے یہ خواب پُر عذاب دیکھا تھا کہ تیرے پیچھے ایک فیل بد مست بہ ہیئت دوڑتا ہے اور تو اس کے ڈر سے بھاگا پھرتا ہے۔ یہ خواب پُر عذاب میں نے جو ایک بزرگ سے وقت سحر بیان کیا اُس نے یہ تعبیر پُر تاثیر دی کہ ایک ہاتھی ہاتھوں ہاتھ ستو کا بنا کے اپنے شوہر بے خبر کو کھلا دے تو اس کی نحوست پُر کدورت دور ہو جاوے۔ اے الو! اس ستو کا بہ موجب اور سبب ہے۔“ لیکن وہ احمق مطلق یہ گفتگو جوروئے بد خو کی نہ سمجھا اور بہ خوشی تمام یوں گویا ہوا:

---

1 ) یہاں سے دو جملے بربنائے کثافت حذف کر دیے گئے ہیں۔

196

مثنوی

خدا اجر اس کا بہت دے تجھے

کہ ایسی بلا سے بچایا مجھے

و لیکن نہ سمجھا وہ اس بات کو

کہ یہ پیل پُر مکر تھا تند خو

جو مہجور ایسا نہ ہوتا وہ مست

تو گھر اُس کا رہتا نہ بے بندوبست

زنِ بد سے لیکن ہمیشہ خدا

رکھے حفظ میں اپنے یہ ہے دعا


چرتر

زن دہقانی نے ایک شخص سے (1)۔۔۔۔۔ کی اور سسرے کو خفت دی اور خاوند کو راضی رکھا

مزارعانِ مزرعہ حکایت اور جامعانِ خرمن روایت، سطح كاغذ پر دانہ ہائے سخن کی یوں تخم پاشی کرتے ہیں کہ ایک زنِ پُر فن دہقانی کے معنی کی نہایت پُر فطرت تھی۔ اتفاقاً وہ نافرجام ایک روز بالائے بام نظارہ کناں تھی۔ قضائے کار ایک جوان طرح دار سے دو چار جو ہو گئی تو وہ جوان پُر ارمان اس گندم گوں کر دیکھ کر خرمن صبر و شکیبائی کو بدست فوجِ عشق لٹا بیٹھا اور بقول میر حسن یوں کہنے لگا: شعر

صبر و قرار و ہوش و دل و جان تو کھو چکا

اب چھیڑوں کیوں کہ تجھ کو جو ہونا تھا ہو چکا

1) یہاں سے ایک لفظ بر بنانے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔

197

یہ احوال پُر ملال اُس جوان ماہ تمثال كا وہ زنِ بد افعال بہ دانائی کمال دریافت کر کے نیچے کوٹھے کے آئی اور اس جوانِ نادان کے گوش ہوش اور گردنِ رشک سِمن کو مل کر گھر میں چلی گئی۔ یہ جوان پر ارمان بعد انتظار بے شمار اپنے گھر میں آیا مگر یہ عقدہ دل میں گرہ بند ہوا۔

المطلب ایک پیر زال بد اعمال سے پوچھا کہ اے پیر زال! میرے احوالِ كثیر الاختلال کا کیا بھید ہے؟ برائے خدا سچ بتا۔ وہ پیر زن پُر فن جواب دہ ہوئی کہ اے جوان نادان! تیرے گوش اور گردن ملنے سے اُس چشمک زنِ پُر فن کا یہ اشارہ اور ایما کے کہ تو کسی رنڈی زاد کو میرے پاس بلا وسواس برائے پیغام و سلام روانہ کر تا میری اور تیری مالقات ہو۔ یہ کلام بہ انجام اس پیر زال كذب مقال کا وہ جوان نادان سن کر کہنے لگا: شعر

تجھ سا غم خوار، وفا دار کہان پاؤں گا

اس فسوں ساز کے نزدیک جو بھجواؤں گا

غرض اس جوانِ نادان نے پیر زنِ پُر فن کو اپنی دلدار ماہ رخسار کے قریب بھیجا۔ القصہ وہ پیر زال بد اعمال جونہیں اس ماہ پارہ کے قریب گئی، وہیں اس کے اُس پیر زن پُر فن کا منہ خاطر خواہ سیاہ کر کے تابدان کی راہ نکال دیا۔ یہ پیر زن دل شکن باین صورت اس جوان مہر رفعت کے قریب جو آئی تو وہ جوان حیران و پریشان ہو کر کہنے لگا ”ہائے یہ رسوائی اور بے حیائی کیا در پیش آئی۔“ یہ گفتگو وہ پیر زن بد خو سن کر کہنے لگی۔ ”اے جوان نادان! اس کو رسوائی اور بے حیائی نہ سمجھ، یہ اشارا سارا تیری ملاقات

198

بے آفات کا ہے، یعنی اس روسیاہی اور تابدان سے نکالنے کا یہ مطلب بوالعجب ہے کہ تو بوقت شب تابدان کی راہ سے اُس کے پاس بلا وسواس جانا“ یہ سخن حیرت افگن سن کر وہ جوان نادان خاموش ہو گیا۔

بیان شب : اس عرصے میں جس وقت شام سیہ فام نے سیاہئ شب سے رخِ خورشید کو کالا کیا اور تابدان کہکشاں کو سطح فلک پر نمود کیا، اس وقت وہ جوان پُر ارمان تابدان کی راہ سے اُس زن مکار بدکار کے قریب گیا اور یہ شعر شمیم زبان پر لایا : شعر

دل کو یقیں ہوا کہ بس اب جی سے جا چکے

جب ہم تمھارے دام محبت میں آ چکے

۔۔۔ (1) قضائے کار یہ دونوں نابكار ایک بار خواب غفلت میں بے ہوش و مدہوش ہو کر سو رہے۔

بیان سحر : اس عرصے میں جس وقت کھیت ستاروں کا آغاز سحر سے مرجھانے اور کملانے لگا، اس وقت اس رنڈی کا سسرا پُر دغا ایک بار کشت کار کو راہی ہوا۔ اتفاقاً جس گوشے میں یہ دونوں خواب غفلت سے کھیت آئے تھے، اسی طرف ہو کر نکلا۔ یہ احوال كثیر الاختلال وہ دہقانی بے معنی دیکھ کر خاموش ہو گیا لیکن اس کے پاؤں کی گجری نقرئی اس واسطے اُتار لی کہ یہ بوقت سحر منکر نہ ہو جائے۔ غرض وہ گجری ستھری لے کر اپنی کشت کار رشک بہار کو روانہ ہو گیا اور ادھر جو اُس زن پر فن کی آنکھ کھل گئی تو اپنے حال بد اعمال سے ماہر ہوئی۔ اس جوان پُر ارمان کو

---

1) یہاں سے ایک جملہ بر بنائے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔

199

بصد بشاشت رخصت کیا اور اپنے شوہر بے خبر کے پاس بے ہراس آ کر کہنے لگی ”اے مونسِ غم خوار اور اے جان غم گسار! آج یہ گناہ گار بے مزگئ طبیعت سے جہاں لیٹی تھی وہیں سو رہی اور اس وقت خواب غفلت سے میری آنکھ وا ہوئی تو میں نے اپنے پہلو میں تجھ زینت آغوش کو نہ پایا۔ اے جان جان ! اس مکان پریشان میں کیا سوتا ہے : شعر

چل آٹھ یاں سے ہمراہ میرے وہاں

میں غفلت میں سوتی تھی تجھ بن جہاں

دیکھ تو کیا خوب، دل مرغوب، ٹھنڈی ٹھنڈی سہانی سہانی ہوا چلتی ہے، کوئی دو چار گھڑی با فراغت الگ استراحت کیجیے“ وہ الو اس غوغائی کے کہنے سے وہیں آ کر سو رہا۔ ایک گھڑی کے بعد اپنے شوہر بے خبر کو جگا کے کہنے لگی ”دیکھ یہ کیا غضب پُر تعب ہوا! کہیں یہ بھی سنا ہے کہ جس جا جورو خاوند خواب میں خورسند ہوں، وہاں سسرا بڑا بوڑھا آن کر اپنی بہو کے پاؤں کی گجری کو اپنے ہاتھ سے لے جائے: شعر

ہائے کیسا یہ بد زمانہ ہے

ہے وہ بے گانہ جو یگانہ ہے

یہ کلام وہ نا فرجام اپنے شوہر ناکام سے کر کے پھر سو رہی۔

الحاصل دوپہر کے وقت اس کا خسر گھر میں آ کر اپنے فرزند دل بند سے کہنے لگا ”اے نادان، انجان! دیکھ اپنی جورو بد خو کا تماشا بے محابا کہ شب کو ایک شخص غیر کے ساتھ فلانے گوشے میں با فراغت ایسی سوتی تھی کہ یہ اس کی گجری میں نے اُتاری اور اس بے خبر کو خبر نہ ہوئی۔“ یہ گفتگو

200

عربدہ جُو وہ بد خُو باپ کی سن کر کہنے لگا ”یہ بڑھاپے میں تجھ کو اے بوالہوس! کیا بڑبھس لگا تھا جو تو نے یہ حرکت ناشائستہ کی۔ ارے وہ تو میرے باہم سوتی تھی؛ چنانچہ اس نے تو مجھ کو وہیں اس بات سے آگاہ کر دیا تھا۔ غرض تو بھی احمق مطلق ہے۔ کوئی بھی بہو بیٹے سے یہ سوانگ کرتا ہے جو تو نے یہ اختراع نکالا۔“

مثنوی

یہ سن کر کہا اس نے "ہاں واقعی

یہ تقصیر مجھ سے نہایت ہوئی

اگر مجھ کو معلوم ہوتی یہ بات

تو ہرگز میں اس کو لگاتا نہ ہاتھ“

غرض اس کا سسرا بہ صد انکسار

یہ کہنے لگا ”میں ہوں تقصیر وار“

نہ مہجور زن ایسی حرّاف ہو

نہ اپنے پرائے سے یوں صاف ہو

چرتر

ایک عورت نے اپنے آشنا کو شوہر سے رو پوش کیا اور وہ جوان دانائی سے اپنے گھر گیا

فیلسوفان زمان اور با وقوفانِ جہان کاغذِ افشاں پر نوک قلم سے یوں رقم کرتے ہیں کہ ایک زن پُر فن اپنے یار دل خواہ کے ہمراہ عیش و طرب میں مصروف و مالوف تھی کہ یکایک اس کے شوہر گیدی خر نے دروازے پر آ کر آواز دی۔ اس
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 216
نافرجام سن کر اس خاک ناپاک میں پیسے ڈھونڈنے لگا۔ جب اس کچے مطلق، پکے احمق کو پیسے خاک میں نہ ملے تو ایک بار بے اختیار جورو کی بلائیں لے کر کہنے لگا:
مثنوی

تری جان پر سے سن اے گل عذار
تصدق کروں ایسے پیسے ہزار
تری جان و عزت تو آفت سے آج
بچی ہے خدا کی عنایت سے آج
گیا مال جوتی سے، پر جان کی
میری جان کی اب خیریت تو ہوئی
غرض اس کو مہجور وہ بے حیا
تسلی یہ دیتا تھا لے کر بلا
جب ایسے نہ ہوں بےحیا مسخرے
تو کیوں ان کی جورو نہ ایسا کرے

چرتر
چار عورتیں ایک عورت کے لاشہ بے سر پر اس کے
چشم و دندان و لب کا بیان کرتی تھیں۔ ان میں سے
تین عورتوں نے اپنے کہے کا بادشاہ کو نشان
دیا اور اپنا رستہ لیا اور چوتھی عورت بادشاه
کی قید میں رہی۔ ایک سال کے بعد جو کہا تھا
وہ دکھا کر دانائی سے بھاگ کر بادشاه
کو خجلت دی

دانایان زماں اور نا قلان جہاں بالائے کاغذ فطرت پہ

صفحہ 217
حکایت پر فراست یوں رقم کرتے ہیں کہ ایک عورت بد خصلت کا سر کسی سردار باحیا نے کٹوا کر کہیں پوشیدہ دفن کیا اور اس کے دھڑ کو چار سوئے بازار شہر غدار میں پھنکوا دیا۔ یہ خبر وحشت اثر جو بادشاه عالم پناہ کو پہنچی تو کوتوال بد خصال کو ابلاغ حکم کیا کہ اس لاشہ بے سر کے پاس جو اشخاص آ کر تیغ زبان سے گل کتریں، اس کی خبر یہ کر روش ہمارے قریب خبر داران صبا رفتار کے ہاتھ جلد پہنچے۔ الحاصل ایک تجار عالی وقار کی چار بیٹیاں غیرت گلزار ایک رتھ پر سوار چار سوئے بازار میں ہو کر نکلیں۔ ایک اژدهام خاص و عام کو دیکھ کر وہ بھی نظاره کناں ہوئیں۔ یہ ماجرا حیرت افزا وحشت انتما دیکھ کر ایک جادو چشم ان میں بول اٹھی کہ "یہ عورت بد خصلت، معلوم ہوتا ہے کہ سرمہ خوب لگاتی ہو گی" یہ کلام حيرت التیام دوسری رشک پری سن کر کہنے لگی "واقعی لیکن یہ لالہ رو بد خو پان بھی انو پان سے افزوں کھاتی ہو گی۔" یہ بات عجائبات سن کر تیسری خجلت ده کبک دری جواب دہ ہوئی "کہ یہ تیره بخت مسی بھی نہایت اچھی لگاتی ہو گی۔" یہ سخن پر فن گوش زد کر کے چوتھی یوں حرف زن ہوئی کہ "اس کم بخت بد بخت نے کیا اور کر نہ جانا۔"
قطع

جو ہوتی اسے عقل تو بر ملا
نہ ہوتی گرفتار رنج و بلا
دیا ہے خدا نے جنہیں کچھ شعور
نہیں ان سے ہوتا ہے ایسا قصور

یہ باتیں وہ نیک، ذاتیں تو کہہ کر اپنے گھر کو روانہ

صفحہ 218
کوئیں اور یہ خبر وحشت اثر مخبران صادق اور محرران واثق کی زبانی بادشاہ کو پہنچی کہ فلانے سوداگر پری پیکر کی چار بیٹیاں غیرت مہر درخشاں، رشک ماه تاباں اس طرح کا کلام حيرت التیام کر گئی ہیں۔ المطلب بادشاه عالی جاہ نے ان چاروں کو طلب فرما کے کہا کہ "تم اپنے اپنے سخن کا جواب باصواب دو، یعنی اس عورت بے سر کو تم نے کیوں کر جانا کہ مسی اور سرمہ خوب لگاتی ہو گی اور پان بہت کھاتی ہو گی؟" یہ کلام بادشاه عالی مقام کا گوش زد کر کے ایک جادو نگاه، سحر البیان جواب ده ہوئى کہ "اس کنیز ناچیز کے شعور بے قصور نے اس تیره بخت کے گوشہ چادر میں سرمے کی سیاہی دیکھ کر دریافت کیا تھا۔" اور دوسری رشک پری سے جو پوچها کہ "تجھ سرخ فام گل اندام نے کیوں کر جانا تھا کہ وه لالہ رو بہت پان کھاتی ہو گی؟" وہ شعلہ خو جواب ده ہوئی کہ "پیر و مرشد! اکثر جا پر اس کے دوپٹے میں پیک کی افشاں نمایاں تھی." اور تیسری خجلت ده کبک دری سے بادشاہ جم جاه نے پوچھا کہ "تو نے کس طرح دریافت کیا تھا کہ وه سیاه بخت مسی خوب محبوب لگاتی ہو گی؟" وہ جواب ده ہوئی کہ "حضرت سلامت! اس کے دوپٹے کے آنچل میں جو دھڑی پونچھنے کا نشان بے گمان تھا، اس نے میرے گوش ہوش میں خبر دی تھی۔" اور چوتھی فتنی سے جو پوچها کہ تو جو کہی تھی کہ "کیا اور کر نہ جانا." اس کے کیا معنی ہیں؟ سچ کہہ نہیں تو تیرا کہا تیرے آگے آئے گا " وہ زبان چالاک سفاک جواب ده ہوئى کہ "خدا وند! اگر اس کو شعور اور وقوف ہوتا تو اس بلا میں کیوں گرفتار ہوتی اور عقل مندی اور دانائی کے تو یہ معنی ہیں کہ کرے اور کر دکھائے۔" یہ سخن پرفن

صفحہ 219
بادشاہ نے اس کا سن کر ان تینوں کو تو بصد بشاشت رخصت کیا اور اسے ایک پختہ کوٹھری میں جید مقید کر کے یوں کہا کہ "اے فتنى! دیکھیں تو کیونکر کر دکھاتی ہے؟"

نظم

اگر تجھ میں ہے کچھ فراست کا زور
تو پیدا کر اپنا یہاں تو لگور
نہیں تو اسی قید میں تیری جاں
کروں گا میں برباد اے بد زباں!

القصہ اس زن پر فن کو مقید کر کے ایک کوزه آب و پاره نان اپنے ہاتھ سے دينا مقرر کیا اور گاہے گاہے یہ سخن بھی پوچھتا کہ "کیوں ری فتنی! جہاں میں کون چیز لذيذ ہے؟" تو وہ جگر کباب بہ چشم پر آب جواب ده ہوتی کہ "خداوند نعمت! جہان بے نشان میں رنڈیوں¹ کو مرد نہایت عزیز و لذيذ ہيں تو بادشاہ جواب دہ ہوتے کہ "اے فتنی! سب رنڈیوں کو میسر ہو گا لیکن تجھ ناکام تلخ كام كو نہ بہم پہنچے گا۔" تو وہ کشتہ ياس بالا وسواس کہتی کہ "آپ سچ فرماتے ہیں لیکن خدا میں سب قدرت ہے۔" چنانچہ کہتے ہیں میر حسن: شعر

نه لاؤ کبھی یاس کی گفتگو
کہ قرآن میں آیا ہے "لا تقنطوا"

الغرض اس زن پر فن نے بہر صورت اپنے دوست نیک سیرت کو یہ پیغام بھیجا کہ "اے یار جانی و اے مایہ زندگانى! یہ خانہ خراب جگر کباب اس عذاب منجلاب میں ہے کہ خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کرے، لیکن میری رہائی اس دانائی

1۔ لکھنؤ میں عورت کے لیے "رنڈی" کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔


صفحہ 220
سے ہوتی ہے کہ ایک سرنگ بہ ہر رنگ حسب دل خواه، اے رشک ماه! میرے قید خانے سے اور اپنے مکان دل ستاں تک تیار کر، آگے میں سمجھ لوں گی۔" المطلب اس سوداگر خوش منظر نے ایک سرنگ بے درنگ خاطر خواه بنوائی۔ غرض ایک روز وہ غم اندوز اس سرنگ کی راہ اس رشک ماہ کے قریب جا کر یہ گفتگو در میان لائی کہ "اے یار دم ساز و اے غم خوار ہم راز! بالفعل تو کچھ جواہر زواہر تحفہ و نادر بادشاه عالی جاہ کو نذر گزران اور بعد صفائی آشنائی پیدا کر کے اپنے گھر میں بطريق ضیافت طلب کر، پھر جو کچھ ہونا ہو گا ظہور میں آجائے گا۔"
الغرض وہ سوداگر پری پیکر یوں ہی عمل میں لایا، مگر بادشاه جم جاہ کو اس سوداگر خوش منظر سے اس قدر محبت بہم پہنچی کہ اگر اس کے متاع حسن کو دیده میزان میں ایک روز نہ وزن کرتا تو جنس بے قراری کا نرخ بڑھ جاتا بلکہ سودا پورا ہو جاتا اور آٹھ پہر ہنگامہ بازار شوق ما فوق کا گرم رہتا:

نظم

غرض ایسی بڑھی دونوں میں الفت
که رہتے تھے ہمیشہ بے کدروت
کبھی اس پاس وه شہ آپ جاتا
کبھی اپنے بھی گھر اس کو بلاتا

الحاصل اس عرصے میں اس زن پرفن کو اس سوداگر خوش منظر کا بر محل حمل ره گیا۔ بعد انقضائے چند ایام نیک انجام اس زہره جبیں، لعبت چیں کے ایک طفل رشک مہر
 

شمشاد

لائبریرین
نورتن ریختہ صفحہ 221

درخشاں، غیرت ماہ تاباں متولد، لیکن وہ زن اس طفل کو دائیوں کی آغوش میں دے کر آپ اپنے قید خانے میں آ بیٹھتی اور جس وقت بادشاہ دیوان خاص میں رونق افزا ہوتے تو وہ اُس سرنگ کی راہ گمراہ سے پھر اپنے خانۂ مطب میں جا کر زینت بخش ہوتی۔ اس عرصے میں جب چھٹی کا روز عشرت اندوز جلوہ گر ہوا تو وہ ماہ پیکر اس سوداگر سے کہنے لگی کہ "تو آج بادشاہ عالی جاہ کو مہمان خانے میں برائے ضیافت طلب کر اور میرے ہاتھ سے لڑکا ہونے کی نذر دلوا؛ دیکھ تو بطن فطرت سے کیسا طفل پُر فطرت پیدا ہوتا ہے۔" الغرض اُس سوداگر خوش منظر نے بادشاہ عالی جاہ کو اپنے گھر میں بلوا کے اُس زن پُر فن کے ہاتھ سے نذر حرفت دلوا کے اُس طفل کو بھی آغوش بادشاہ میں دیا اور یہ سخن زبان پر لایا کہ "خداوند نعمت! اس کنیز ناچیز کی نذر قبول بے عدول ہو۔" لیکن بادشاہ اس عورت پُر فطرت کو دیکھ کر نہایت متعجب ہو کے گرداب حیرت و سکوت میں مستغرق ہو گیا۔ بعد شناوریٔ بحر حیرانی ساحل گفتگو سے ہم کنار ہو کے یہ دل میں کہنے لگا کہ "یہ تو وہی عورت پر فطرت صاف صاف معلوم ہوتی ہے کہ جس کو میں نے جید مقید کیا تھا" : شعر

یہ نہیں معلوم کیا اسرار ہے
یا مری ہی عقل کج رفتار ہے

پھر سوچ کر کہنے لگا کہ "میں نے تو اُس کو ایسی جا مقید کیا ہے کہ وہاں فرشتے کو بھی دخل نہیں اور اس کے سوا میں وہیں قید خانے میں ابھی اُس کو مقید کر کے چھوڑ آیا ہوں، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت ماہ طلعت کی صورت اُس کی صورت سے نہایت ہم شباھت ہے" لیکن یہ بات عجائبات

نورتن ریختہ صفحہ 222

بادشاہ کے دل میں گرہ ہوئی؛ اس خیال کثیر الاختلال میں بادشاہ وہاں سے اُٹھ کر اپنے مکان دل ستاں میں رونق افزا ہوا اور وہ زن پُر فن بھی سرنگ کی راہ سے جھٹ پٹ اپنے قید خانے میں آ بیٹھی اور بادشاہ نے آ کر اُس کو جو اسی قید خانے میں دیکھا تو وہیں بیٹھا پایا۔

الغرض وہ زن پُر فن بھی فن کرتی رہی کہ جب بادشاہ سوداگر کے پاس جاتا تو آپ بھی سرنگ کی راہ گمراہ سے جا کر مقابلہ کرتی اور جب گھر میں تشریف فرما ہوتا تو اپنے قید خانے میں آ بیٹھتی، لیکن بادشاہ اس احوال پُر ملال پر نہایت حیران و ششدر تھا؛ پر سوداگر آئینہ رو کی آشنائی بہ صفائی نبی جاتی تھی، کبھی دل پر غبار نہ آتا تھا۔ الغرض ایک روز اُس زن پُر فن نے اپنے سوداگر سے کہا "اے عزیز با تمیز! آج تُو بادشاہ جم جاہ کے پاس بلا وسواس جا کر یہ بات کہنا کہ اس شخص کے ہمشیر زادے کی شادی کدخدائی کل کی تاریخ مقرر ہے، لیکن وہ مکان رشک گلستان اس شہر مینوچہر سے دس منزل کامل ہے اور میری طلب کو وہاں سے قصد مہینے کے قریب ہوا ہے کہ روانہ ہوا تھا مگر نا مشاعدیٔ وقت سے اُس کم بخت کو ناگاہ راہ میں اس قدر بیماری ہوئی کہ وہ یہاں تک آنے کو دق ہوا؛ بارے اللہ تعالٰی کی عنایت سے جو شفا پائی تو وہ بے ہراس آج میرے پاس آیا ہے۔ سو میں اس بات سے نہایت حیران و پریشان ہوں کہ کل کا روز دل افروز شادی کا معین ہے اور مجھ کو خبر وحشت اثر آج پہنچی : شعر

کیا کروں آج سخت حیراں ہوں
گر نہ جاؤں وہاں پشیماں ہوں

نورتن ریختہ صفحہ 223

سو اے خداوند نعمت، نیر حشمت! میری عروس تجویز کو حنائے اجابت سے یوں رنگین کیجیے کہ حضور پُر نور میں وہ جو سانڈنی سو کوس کے دھاوے کی ہے، اس کو عنایت و کرامت فرمائیے تو میں وہاں ایک روز میں پہنچ کر مہمانوں کے ہم پہلو ہوں، اور اگر خدا نخواستہ میرا وہاں جانا نہ ہو گا تو مہار یگانگی ہاتھ سے چھوٹ جاوے گی۔ اے عزیز با تمیز! اگر تجھ کو بادشاہ عالی جاہ وہ سانڈنی دے گا تو پھر میں اپنے توسن طبع کی چالاکی تجھ کو دکھاؤں گی۔"

المطلب وہ سوداگر عیار حسبِ ایمائے زنِ مکار بادشاہ کے پاس جا کر وہ قصۂ پُر فریب اور فسانۂ عجیب بیان کرنے لگا۔ بادشاہ نے اُس کی گفتگوئے پُر یاس و حسرت استماع کر کے داروغۂ شتر خانے کو طلب فرما کے ارشاد کیا کہ "ہماری وہ سانڈنی لیکی نزاد کہ جو سو کوس تک جانے میں پہلو تہی نیں کرتی، اُس کی مہار سوداگر مجنوں شعار کے ہاتھ میں حوالے کر دے۔" بموجبِ ارشادِ عالی وہ داروغہ ذہن سے خالی وہی سانڈنی جو اس سوداگر فتنہ گر کو دینے لگا تو اُس کا ساربان پیر ناتوان بصد آہ و فغاں کہنے لگا کہ "اے داروغہ! اگر یہ سانڈنی صبا رفتار رشکِ بہار کچھ حادثے میں گرفتار ہو جائے گی تو پھر تجھ کو خار حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا، کیوں کہ ایسی سانڈنی رشک پری باغ جہاں میں دوسرے کوئی نہیں ہے۔" غرض وہ داروغہ یہ مصلحت نیک دل میں سمجھ کر کہنے لگا "سچ ہے سخن بزرگاں راست ست" الغرض داروغۂ شتر خانہ نے اسی کوس کی منزل کی سانڈنی اس سوداگر بے خبر کو دی۔ اس سانڈنی خجلت دہ کبک دری پر وہ سوداگر مع زن فتنہ گر اور پسر رشک قمر سوار ہو کر فرار

نورتن ریختہ صفحہ 224

ہو گیا۔ اس عرصے میں بادشاہ عالی جاہ کو جو دریافت ہوا کہ وہ سوداگر فتنہ افروزی زن فتنہ گر سے شطرنج دغا کھیل کر امات عیاری سے میری بازی ہیہات مات کر گیا اور مہرۂ ہوش کو چار خانہ ششدر میں زچ کر گیا :

مثنوی
کوئی ایسی نہیں اب سوجھتی چال
جو اس کو توڑوں فرزیں بند فی الحال
نہ کوئی گھوڑا ایس اہے نہ ہے فیل
جو اُس کو مار لوں جا کر بہ تعجیل
پیادہ ہے نہ کوئی ایسا چالاک
کہ اُس تک رخ کرے اپنا وہ سفاک

الغرض وہ شاہ شاطر زمان اس آن داروغۂ شتر خانہ کو طلب فرما کے کہنے لگا کہ "کوئی اور بھی سانڈنی رشک پری ہمارے شتر خانے میں سو کوس کے دھاوے کی ہو تو جلد لا، ہم تجھ کو انعام بے بہا دیں گے" یہ کلام بادشاہ عالی مقام کا سن کر وہ کہنے لگا کہ "سچ ہے بڑے بوڑھوں کا کہنا ماننا مصلحت نیک ہے، وقت پر کام آ رہتا ہے، آخر اُس کی بات کام آئی۔ اگر آج یہ سانڈنی اُس کے حوالے کر دی ہوتی تو نہایت پشیمانی کھینچنی پڑتی" المدعا وہ سانڈنی چالاک بادشاہ غم ناک کے قریب لا کر حاضر کی۔ وہ بادشاہ جم جاہ اس پر سوار ہو کر مثل باد صبا فرفر روانہ ہوا۔ اس عرصے میں جب بادشاہ عالی جاہ کی سانڈنی سوداگر اور زن پُر فریب کے قریب پہنچی تو ایک بار بادشاہ عالی مقدار نے للکار کر کہا کہ "اے زن پُر فن! اب تو میرے ہاتھ سے جان بر کہاں ہو سکتی ہے!" یہ سخن دل شکن وہ زن پُر فن سن کر کہنے لگی "خدا خیر کرے!

نورتن ریختہ صفحہ 225

ہماری سانڈنی پر دغا ہے مگر کیا مضائقہ، ہم اپنے طعام فطرت کا بادشاہ کو مزہ چکھا دیں گے۔"

الغرض جب اُس سوداگر اور زن فتنہ گر کی سانڈنی اسی کوس کی منزل پر پہنچی تو یکایک اس کی طاقت نے پہلو تہی کر کے اس صحرائے ہولناک میں مقام کیا۔ وہ زن مکار اور سوداگر عیار مع پسر رشک قمر اس سانڈنی کی پشت پر سے اُتر کر، سامنے ایک باغ با فراغ تھا، مثل نسیم سبک رو اُس کی طرف روانہ ہو کر دونوں اُس باغ کے دروازے کے ایک ایک پٹ کی اوٹ میں بہ زورِ بازوئے دانائی جھٹ پٹ روپوش ہو گئے۔ اس میں بادشاہ جم جاہ نے جو آ کر ملاحظہ فرمایا کہ وہ دونوں ناپاک بے باک اس باغ میں پوشیدہ ہیں، اپنی سانڈنی پر سے اُتر کر باغ کے اندر بے تحاشا یہ کہتا چلا : شعر

اب کہاں ہاتھ سے جاتی ہے مرے وہ ناپاک
ایک ہی ہاتھ میں تلوار کے کرتا ہوں ہلاک

یہ کہتےکہتے وہ بادشاہ تو باغ کے اندر مکاناتِ عجائبات میں ڈھونڈنے لگا اور یہ دونوں پُر فن پٹوں کے اوٹ سے جھٹ پٹ نکل کر بادشاہ کی سانڈنی پر سوار ہوئے اور وہ زن مکاریوں کہنےلگی "اے بادشاہ غفلت پناہ! "کیا اور کر دکھایا" اسے کہتے ہیں۔"

مثنوی
یہ کہہ کر وہاں سے وہ زن نابکار
بہ شکل ہوا ہو گئی جب فرار
تو دستِ الم مل کے وہ بادشاہ
لگا کہنے میں بے اضل مر گیا

نورتن ریختہ صفحہ 226

میرے پاؤں میں اب یہ طاقت کہاں
جو گھر تک پہنچ جاؤں بے خوفِ جاں
غرض بادشہ تو یہ روتا رہا
مگر ہو گئی وہ وہاں سے ہوا
جو مہجور ہوتی نہ وہ باشعور
تو اس وقت میں قتل ہوتی ضرور

چرتر

ایک عورت نے اپنے آشنا کو چور کے بہانے سے شوہر کے سامنے گھر سے باہر نکال دیا اور اس نے دریافت نہ کیا

دانش وارانِ حکایاتِ عجیب اور سخن وران روایاتِ غریب یہ حکایت پُر فراست بہ زبان فصاحت یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک زن پُر فن اپنے یار غم گسار کو آغوش دلبری میں لیے بیٹھی تھی کہ یکایک اس کے شوہر گیدی خر نے باہر سے دروازے پر آ کر جو آواز دی تو وہ شخص بے حواس بہ صد یاس کہنے لگا کہ "اے کان فراست و اے معدنِ فطرت! یہ پُر از دہشت کیا کرے؟ شعر

گھر میں آئے گا جب ترا شوہر
تو بچے گی یہ میری جاں کیوں کر"

وہ زن پُر فن کہنے لگی "اے یارِ جانی و اے سرمایۂ زندگانی! تو اس دالان کے گوشے میں چھپ کر کھڑا رہ، جس وقت میں اس کیدی کو جا ضرور کی طرف بھیجوں گی، تو اس وقت ایک بار

نورتن ریختہ صفحہ 227

یہاں سے فرار ہو جانا، پھر آگے میں سمجھ لوں گی۔" غرض وہ عورت پُر فطرت اس آشنائے پوشیدہ کو ظاہر میں چھپا کر دروازے کی زنجیر بہ تدبیر کھولنے کو آئی تو اُس کا شوہر گیدی خر بولا "اے گدھی! اتنی دیر کنڈی کھولنے میں کیوں کی؟" اُس نے جواب دیا کہ میاں کچھ نہ پوچھ :

قطعہ
کیا کہوں تجھ سے عجائب بات ہے
گھر میں آیا چور اک بد ذات ہے
خوف سے اس بے حیا کے اے میاں
دیر میں نے واقعی کی اس زماں

اے شوہر خجستہ پیکر! تیری خوف و خطر سے وہ بد ذات بد اوقات کنڈی کی کھڑ کھڑاہٹ کی آواز سنتےہی کہیں گوشے میں جا ضرور کی طرف چھپ رہا ہے۔"

یہ بات واہیات وہ گیدی خر سن کر تو جا ضرور کی طرف گیا اور ادھر اس زن مکار بدکار نے اپنے آشنا کو چور خانے سے نکال کر کہا "اے شوہر بے خبر! اُدھر تو کیا تلاش بے قیاس کر رہا ہے، دیکھ وہ چور سنہ زور ادھر سے نکل کر فرار ہوا چاہتا ہے۔" یہ سخنِ دل شکن وہ گیدی خر سن کر اُس کے پیچھے دوڑنے لگا تو وہ زن پُر فن اس خناس بے حواس کی کمر میں دونوں ہاتھ ڈال کر چڑیل سی لپٹ کر کہنے لگی "اے میاں! اس زمان بہ خدا تجھ کو نہ جانے دوں گی، کیوں کہ اُس کے ہاتھ میں تلوار اور باڑھ دار ہے۔ وہ جلاد تجھ تیغ ابرو رشک ہلال سے بغیر لڑے نہ رہے گا اور تیری قبضے میں اُس کا آنا بہت اشکال اور محال ہے۔ جانے دے ایسے مونڈی کاٹے

نورتن ریختہ صفحہ 228

واہی تباہی کو۔ خدا جانے کون کم اصل اور ذلیل ہے۔ یا تو کوئی گجراتی دیہاتی یا کوئی کلکتے کا انگریزی پاڈری ہے، یا کوئی انسان مغربی یا خراسانی ولایتی لاثانی ہے، یا مۃوا جہازی کوا ہے جو ایسا دل کا کڑا پُر اوسان میرے گھر کے درمیان آ کر خوش غلاف ہو گیا۔ برائے خدا اُس بے پیر ننگی شمشیر والے کا پیچھا نہ کر، خدا جانے کیا میرے آگے آئے۔ تیرے اس سرو سے سید ہے قد کے صدقے ہو کر یہ قمری نزاد مر گئی تھی۔ اے جانی، گل جاودانی! ظاہرا تو وہ زہر کی گرہ آج کچھ مال بھی گھر کا نہیں لے گیا مگر کچھ گپتی ہی لے گیا ہو تو اس کو کوئی کیا جانے، اور احیاناً وہ کچھ بھی لے گیا ہو گا تو بلا سے، تیری جان پر تصدق کیے تھے؛ ناحق خونِ نابِ جگر کھانا کیا فائدہ!" غرض اُس زن پُر فن سیف زبان نے اس کچے احمق پکے ہونق کو ان باتوں کی باڑھ دے کر تیزیٔ رفتار کو میٹھی گفتار سے کند ذہن کر کے در زبان پر خموشی کا تیغا کر دیا :

قطعہ
جو مہجور ہوتی نہ وہ ذو فنون
تو دونوں میں ہوتا عجب کشت و خون
خدا ایسی عورت سے ڈالے نہ کام
بہ حق محمد علیہ السلام

نورتن ریختہ صفحہ 229

چرتر
ایک عورت نے اپنے دوست کو شوہر کے سامنے بلنیات کے حیلے سے گھر سے نکال دیا اور اس دیوث نے معلوم نہ کیا بلکہ خوش ہوا۔

راویانِ سحر بیان اور ساحرانِ شیریں زبان قرطاس جادو پر یہ حکایت پُر مضمون یوں رقم کرتے ہیں کہ ایک عورت پُر فطرت اپنے دوستِ دل نواز اور یار دم ساز کے ساتھ بوس و کنار میں مشغول و مصروف تھی کہ یکایک اس کا شوہر بے خبر در پر آ کر دستک زن ہوا، تو اُس کے یارِ غم خوار نے کہا "اے بی بی! میں مرد اجنبی کیا کروں؟" شعر

سخت حیراں ہوں اب بہ حال تباہ
تیرے سر کی قسم مجھے و اللہ!

یہ کلام اس ناکام نا فرجام کی وہ زن پُر فن سن کر کہنے لگی "اے جوانِ بے اوسان! اس قدر ہراساں نہ ہو، اپنی روباہ نامردی کو پنجۂ شیر دلاوری میں دبوچ کر بیشۂ جواں مردی کی سیر کر۔ دیکھ نیستان فراست کی نیرنگی کیا تماژے دکھاتی ہے۔ جو تیری غزال طبیعت کا چیتا ہے، ان شاء اللہ تعالٰی بے دست و بے کفیل بر آئے گا۔" غرض اُس زنِ پُر فن نے اس بے ننگ وک ایک کھیس سفید سر سے پاؤں تک سیدھا اُڑھا کر کہا "تو اسی شکل سے دست بستہ اس مکان کے صحن میں ادھر اُدھر ٹہلتا پھر، وقت فرصت پا کر دبے پاؤں نکل جانا۔"

آخر الامر وہ زنِ پُر فن بلائے روزگار، یکتائے عیار اُس

نورتن ریختہ صفحہ 230

مبہوت کو شکل جن بنا کر انگنائی میں استادہ کر کے دروازے کی کنڈی جھڑ سے کھول دی؛ خاوند کا بازو پکڑ کر پٹ سے یہ کہنے لگی کہ "اے میاں! آج گھر کے درمیان عجب آفت ناگہانی اور بلائے آسمانی نازل ہوئی ہے کہ کبھی دیکھنے کا اتفاق اس آفاق میں نہیں ہوا ہے، یعنی کوئی ملعون جن کی صورت اور دیو کی شباہت صحن مکان میں پڑا پھرتا ہے۔" الحاصل وہ زنِ پُرفن شوہر کی کمر سے لپٹ کر کانپتی ہوئی سائبان کے قریب آ کر کہنے لگی "اے شوہر خجستہ پیکر! دیکھ تو وہ موا سامنے ٹہل رہا ہے" یہ تماشا بے محابا وہ با حیا عکھ کر رنڈی (1)سے بھی زیادہ کانپنے لگا اور درود نا معدود زبان پر لایا۔ الغرض وہ زن پُر فن فریب دانائی سے ڈرتی ڈرتی الگ اپنے خاوند کو لے جا کر پلنگ پر آ بیٹھی اور یہ سخن زبان پر لائے کہ "اے صاحب! اگر تم کوئی شہید مرد اہل درد ہو تو مجھ کو اپنی تیغ خوف سے نہ شہید کرو، میں تمہارا دونا مع ہار و پان نذر کروں گی اور اگر شیخ سدو یا شاہ دریا نیک خو ہو تو مجھے دریائے ہراس میں نہ ڈبوؤ، میں تمہارا بکر اور بھیک بے شک دوں گی، اور اگر کوئی ابلیس پُر تلبیس ہو تو میں تمہارا بھوگ موہن بھوگ دوں گی۔ مجھ تلخ کام کی جان شیریں نہ ہلاک کرول برائے خدا و بہ حق مصطفیٰﷺ میرے مکان پریشان سے تم نکل جاؤ۔" یہ کلام فطرت التیام وہ پڑھا جن سن کر دبے پاؤں اپنےگھر کو راہی ہوا اور یہ زن پُر فن خوش ہو کر شوہر گیدی خر سے کہنے لگی "واہ سبحان اللہ! کیا پیر روشن ضمیر سچے تھے کہ مجھ وک اور تجھ کو کچھ نہ ستایا اور اپنے مکان دل ستاں کو چلے گئے۔ واللہ باللہ میں بہ وقت احر ان کی نیاز بہ صد امتیاز مستحقوں کو کھلوا
*********************************************************************
(1) لکھنؤ میں رنڈی سے مراد عورت ہے۔

نورتن ریختہ صفحہ 231

دوں گی۔" المدعا اس عورت صاحب فطرت نے دوسرے دن ہر طرح کا کھانا پکوا کے اپنے یار غم خوار کو مع ہم نشیں و ہم راز و جلیس و دم ساز شوہر کے ہاتھ بلوا کے خوب دل مرغوب ملیدہ اور وہ کھانا کھلوایا :

مثنوی
حال اس عورت کا آگے کیا کہیں
لیکن اے مہجور باغ خلق میں
ہے دعا اپنی یہی لیل و نہار
اپنے بندوں کو جناب کردگار
زن نہ دے بدکار و پُرفن، بد چلن
راست ہے واللہ رنگیں کا سخن
"حق رکھے سب کو بری رنڈی سے دور
کہہ گئے ہیں بات یہ اہل شعود"

نورتن ریختہ صفحہ 232

تیسراباب

داد خواہوں کے عدل میں حکایت

دو عورتیں ایک طفل پر مدعی ہوئیں کہ یہ میرا بیٹا ہے اور قصہ جناب امیر رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئیں۔ حضرت نےانصاف سے لڑکا اس کی مادر حقیقی کو عنایت کیا اور دوسری کو تعذیر دی۔

محررانِنیک صفات اور منشیانِ پاک ذات یہ حکایت پُر فصاحت بر کاغذ انصاف کلک اوصاف سے یوں رقم کرتےہیں کہ دو رنڈیاں با شور و فغاں ایک پسر رشک قمر پر جنگ و جدل پر دغل کرتیں اور ہر ایک اپنی طرف اس پسر بے پدر کو کھینچتی اور یہ کہتی کہ "یہ نور بصر لخت جگر میرا ضیائے چشم ہے، تو کون ہوتی ہے جو میرے فرزند دل بند کو زبردستی لیتی ہے!" شعر

اے زبردست زیر دست آزار
گرم تا کے بماند ایں بازار

لیکن اس بات واہیات کا کوئی گواہ حسب دل خواہ نہ تھا جو ان دونوں کو قائل کرت۔ یہ قصۂ حیرت اندوز اور ماجرائے جگر سوز حامیٔ دین حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے حضور میں رجوع ہوا اور انصاف صاف اس قصۂ پُر آشوب کا ان دونوں

نورتن ریختہ صفحہ 233

نے چاہا۔ ان کا یہ احوال پُر اختلال جناب امیر رضی اللہ عنہ نائب خیر الانام نے مسموع فرما کر ایک جلاد بے داد سے فرمایا کہ اس طفل بے نسل کو تیغ بے دریغ سے برابر دو حصے کر کے آدھا ایک عورت نیک خصلت کو دے اور آدھا ایک زن پُر فن کی آغوش پُر فطرت میں چھوڑ دے، کس واسطے ؟ شعر

ز کید زن دل مرداں دہ نیم ست
زناں را کید ہائے بس عظم ست

یہ سخن دل شکن جناب امیر ؓ کی زبان مبار سے سن کر وہ زن پر فن کہ جس کا طفل بے نسل نہ تھا، خاموش ہو گئی، لیکن جس عورت نیک طینت کے شکم سے وہ دلبر رشک قمر متولد ہوا تھا، بے اختیار زار زار مثل ابر نوبہار رو کر کہنے لگی کہ "یا جناب پاک! یہ غم ناک، دل دو نیم، جان سقیم اس بات پر یہ دال راضی و شاکر ہے، مگر یہ طفل بے گناہ آہ! اسی زن رہ زن کو حوالے کر دیجیے، لیکن اس کو قتل کا حکم نہ فرمائیے، میر حسن : شعر

نہ ملنے کے دکھ اُس کے میں نے سہے
بھلا اپنے جی تو جیتا رہے

اس بے پرواہ کو آہ کیا پروا : شعر

بوائی کی نہیں جس شخص کو پیر
چہ داند دیگرے را درد بے پیر

یہ گفتگو اس عورت نیک خو کی جناب امیر علیہ السلام استماع کر کے فرمانے لگے "اے عورت نیک طینت! فی الحقیقت یہ پسر مہر انور تیرے سیہر بطن سے جلوہ گر ہوا ہے۔ یہ اندھیر نہیں ہے جو کوئی تیرہ بخت روسیاہ تجھ بے گناہ سے لے۔" غرض حضرت پُر کرامت

نورتن ریختہ صفحہ 234

نے اس کا طفل دلوا دیا اور دوسری زن پُر فن کو زجر و توبیخ کر کے تشہیر کیا :

قطعہ
تاکہ دنیا میں کوئی بدخصلت
پھر کسی پر نہ یوں دھرے تہمت
سچ ہے مہجور رنڈیوں سے خدا
حفظ میں اپنی رکھے صبح و مسا

حکایت

ایک شخص کا غلام بھاگ کر دوسرے شہر میں گیا، مالک نے وہاں جا کر اُسے پکڑا، غلام نے آقا کو اپنا غلام ظاہر کیا۔ جناب امیر علیہ السلام نے غلام کو دریافت فرما کر اُس کے آقا کے حوالے کیا۔

سخن وران باوفا اور حاکیان دل صفا کاغذ بے وفائی پر کلکِ دانائی سےیہ حکایت نو روایت یوں تحریر و تسطیر کرتے ہیں کہ ایک غلام نافرجام اپنے آقا نیک اساس کے پاس سے ایک بار فرار ہو گیا۔ بعد انقضائے چند ایام وہ صاحب نیک انجام وسیلۂ روزگار سے ایک شہر غدار میں جو وارد و صادر ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ غلام ناکام بہ خوشی و خرمی تمام شہر میں سیر کناں ہے۔ اس عزیز باتمیز نے جو

نورتن ریختہ صفحہ 235

غلام نافرجام کو پیچان کر دست بگیر کیا تو وہ ناپاک، زبان چالاک اپنے آقا کی کمر میں ہاتھ ڈال کر کہنے لگا "اے غلام ناکام! مدت مدید اور عرصۂ بعید کے بعد تو آج میرے ہاتھ آیا ہے، لیکن سچ کہہ کہ وہ میرا جو اسباب انتخاب تو چرا کر لے آیا تھا، وہ کیا کیا؟" غرض باہم دونوں میں یہ گفتگو دُو بدُو تھی کہ وہ صاحب تو کہتا تھا کہ تو میرا غلام زر خرید ہے اور غلام نافرجام اپنے آقا کو کہتا تھا کہ تو میرے باپ کا غلام ناکام ہے، خدا سے ڈر تیری وہ مثل ہے : مثل

کہ اُلٹے چور کوتوال کو ڈانڈے

غرض اُس بے چارے آقا پر یہ مثل حل ہو گئی کہ "سچا جھوٹے کے آگے رو مرے۔"

غرض یہ محکمۂ عظیم اور مخمصۂ ذمیم جناب امیر رضی اللہ عنہ کے پاس وہ آقا با وفا لے گیا اور یوں حرف زن ہوا کہ یا جناب پاک! یہ عجیب اتفاق اس آفاق میں درپیش ہے، یعنی : فرد

گل بہ تاراج رفت و خار بہ ماند
گنج برباد رفت و مار بہ ماند

لگے کہ "اگر تمہارا کوئی گواہ حسب دل خواہ نہیں ہے تو تم دونوں غرفوں میں الگ الگ سر کو نکال کر بیٹھو، تمہارا قفل انصاف کلید دانائی سے کھل جائے گا۔" غرض وہ دونوں "حکم حاکم مرگ مفاجات" سمجھ کر الگ الگ دریچوں میں سر نکال کر بیٹھے۔ اس وقت جناب امیر رضی اللہ عنہ نے یہ کلام جلاد پُر بے داد سے کہا "اے جلاد! کیا دیکھتا ہے، ایسی تیغ بے دریغ غلام کی گردن پر مار کہ سر اُڑ جائے۔" یہ بات پُر کرامات اُس

نورتن ریختہ صفحہ 236

غلام ناکام نے سن کر جلدی سے سر دریچے میں کھینچ لیا اور وہ آقا سچا جس طرح بیٹھا تھا، بیٹھا رہ گیا، بقول شخصے "سانچ کو آنچ کیا" یہ حرکات واہیات غلام بد ذات کی جناب امیر ملاحظہ فرما کے اُس کے آقا سے ارشاد کرنے لگے کہ "اے عزیز با تمیز! یہ غلام لا کلام تیرا ہے اور تو اس کا مالک و مختار ہے، جو چاہے سو کر لیکن اس بے وفا سے وفا کی توقع نہ رکھ کہ حدیث شریف میں ہے "لا خیر فی عبیدی" اور سچ یہی ہے :

ابیات
پُر دغا با وفا نہیں ہوتا
باوفا پُر دغا نہیں ہوتا
بے وفائی غلام کی مہجور
واقعی سب جہاں میں ہے مشہور

حکایت

کئی شخصوں نے روئی کے گٹھے چرائے اور کسی کو دریافت نہ ہوا؛ ایک امیر صاحب تدبیر نے فراست و کیاست سے چوروں کو تحقیق کر کے تعذیر دی

عاقلانِ پنبہ دہان اور فیلسوفانِ چیدہ زبان خوب روئی اور زشت روئی اشراف و اجلاف کی روئے انصاف سے یوں بیان کرتے ہیں کہ زمانۂ قدیم اور عہد شاہانِ عظیم میں بازار شہرِ عذار سے کچھ روئی کے گٹھے اکٹھے چوری ہو گئے۔ ہر چند عقل مند و دانش مند کوتوال نے تلاش بے قیاس کی لیکن ایک پشم اُس کے ہاتھ نہ آئی۔ بایں

نورتن ریختہ صفحہ 237

عدل و انصاف؛ بقول مرزا رفیع السودا اس شہر مینوچہر میں :

اشعار
مارا جاتا تھا چور ککڑی کا
باندھا جاتا تھا دزد لکڑی کا
تھا نہ رشوت سے کوتوال کو کام
نہ تھا عالم میں چوٹے کا نام

آخر کار سب روئی فروش باہوش با صد جوش و خروش بادشاہ گیتی پناہ کے درِ دولت اور آستانۂ حشمت پر بہ گرمی و داد خواہی مستغاثی ہوئے۔ یہ احوال کثیر الاختلال سن کر بادشاہ فرخندہ فال بہ صد ملال دل میں کہنے لگا کہ اگر ان داد خواہوں کی چیز نہ ملے گی تو ناحق لوگوں سے آنکھ چرانی پڑے گی۔الغرض بہ نرمیٔ سخن ہر ایک امیر صاحب توقیر سے کہا کہ اس کی جستجو سو بہ سو تم سب پر واجب ہے۔ المدعا ایک امیر صاحب تدبیر نے یہ تدبیر کی کہ سب مردمانِ شہر کو دعوت پُر عداوت کے بہانے اپنے گھر میں بلوایا۔

القصہ جبکہ تمام ساکنانِ شہر مجتمع ہوئے، اس امیر خوش توقیر نے بہ آواز بلند یوں کہا کہ "عجب اس شہر کے لوگ احمق اور بے وقوف ہیں، یعنی صریع جانتے ہیں کہ روئی کے گٹھے چاندنی چوک سے چوری ہو گئے ہیں اور بادشاہ عالم پناہ اُس کے تفحص اور تجسس میں سرگرم ہے اور میرے گھر میں لوگ روئی کے روئیں اپنے ریش و رُو پر افشاں کر کے آئے ہیں، بقول خواجہ حافظ علیہ الرحمہ : ع

چہ دلاور ست دُزدے کہ بہ کف چراغ دارد"

یہ گفتگو دُ بدُو امیر صاحب تدبیر کی چور سن کر اپنی

نورتن ریختہ صفحہ 238

ڈاڑھی اور مونچھ کو جھاڑنے لگے۔ یہ ماجرائے عجیب و پُر فریب وہ امیر دیکھ کر لوگوں سے کہنے لگا کہ "ان زشت رو بہرے کانوں کی ڈاڑھی ایک پھل سے بہ دست غضب تونب ڈالو" الغرض ان لوگوں کو سرہنگوں نے ندافوں کی طرح چوب سیاست سے جو دھننا شروع کیا تو یہ صورت ہوئی کہ "تانت باجا اور راگ بُوجھا" لیکن وہ دزد اشد یہی کہتے تھے کہ "سوت نہ کپاس کورے سے لٹھم لٹھا" یہ ہم پر اتہام ناکام ناحق ہے، مگر زد و کوب وہ شے ہے، بقول شخصے "لکڑی کے بل مکڑی ناچے" قصہ مختصر چوروں نے چوری قبول بے عدول کی اور وہ جو روئی بہ زشت روئی انٹی کر گئے تھے، لا کر حاضر کی اور اپنے رشتہ داروں میں اس پیچک سے نہایت خجل ہوئے اور اُن کا بل تکلے کی طرح نکل گیا اور اُن چوروں میں جو کوئی بداعمال بادہ پونی چمرخ کی شکل تھے، اس مار دھاڑ سے ان کے ہاتھ پاؤں اٹیرن ہو گئے :

نظم
لیک مہجور زیر چرخ کہن
شیخ سعدی کا یاد رکھ یہ سخن
"عالمِ آں بہ کہ با عمل باشد
ورنہ زنبور بے عسل باشد"

حکایت

ایک امیر صاحب توقیر کا اسباب دیوان خانے سے گم ہوا؛ قاضی نے دانائی سے پیدا کیا

حاکیانِ دُزد معانی اور راویانِ عسس زبانی زبانِ سحر بیان سے یوں بیان کرتےہیں کہ ایک امیر صاحب توقیر کا کچھ

نورتن ریختہ صفحہ 239

اسباب انتخاب دیوان خانے سے چوری ہو گیا تھا۔ صاحب خانہ نے ہر چند تلاش بے قیاس کیا مگر کہیں سراغ مثلِ چراغ نہ روزشن ہوا کہ ان لوگوں میں کس نے یہ اندھیرکیا۔ قصہ کوتاہ، یہ قصہ قاضیٔ شہر علامۂ دھر کے آگے رجوع ہوا۔ قاضی مرد ریاضی بہ تامل بسیار ایک بار اندرون خانہ جا کر کئی چھڑیاں برابر تراش کر باہر لے آیا اور یوں حرف زن ہوا کہ "ان چھڑیوں کو ہر ایک خادم اور ملازم اور صاحب خانہ اپنے اپنے گھر لے جائے، مگر وقت سحر بے خطر ان چھڑیوں کو میرے پاس بلا وسواس لے آئے، کیوں کہ اس چھڑی کا خواص خاص یہ ہے کہ دزد نا مرد کے پاس ایک انگشت بڑھ جاتی ہے اور شاہ عالی جاہ کے پاس برابر رہتی ہے۔ اس دلیل استوار اور عمل پائدار سے مجھ کو چور منہ زور اور شاہ بے گناہ خوب ثبوت ہو جاتا ہے۔ میں نے اس عمل بے خلل سے بارھا چوروں کو زیر چوب کھینچا ہے۔"

یہ گفتگو قاضیٔ نیک خو کی سن کر ہر ایک نے ایک ایک چھڑی اُٹھا لی اور اپنے اپنے گھر کو راہی ہوا، مگر جس شخص نے جواں مردی سے دزدی کی تھی، وہ گھر میں جا کر دال میں کہنے لگا "اگر یہ چھڑی میرے پاس بلا وسواس زیادہ نکلی تو بڑا غضب پر تعجب ہو گا، اس لیے اس چھڑی دزد فاش کو ایک انگل تراش ڈالیے تو خوب ہو، تاکہ ہم چشموں میں انگشت نما نہ ہو جیے۔" اس پیش بندی اور عقل مندی سے اس دزد نامرد نے اس چھڑی کو چھری سے ایک اُنگل کاٹ دالا۔ وقت سحر بے خطر وہ دزد اشد اُس چھڑی کو قاضی نیک طینت صاحب فراست نے جو اُن سب چھڑیوں کو گز دانائی سے پیمائش

نورتن ریختہ صفحہ 240

کیا تو ایک پور اس چور منہ زور کی چھڑی کم نکلی۔ قاضی نے اُس چور دست دراز کو اشارۂ انگشت سے سب میں انگشت نما کیا اور ہاتھ پاؤں باندھ کر ایسی کف پائیاں لگوائیں کہ اپنی کوتاہی کا قائل ہو کے دست بستہ آنکھ چرا کر کہنے لگا کہ "بس آپ مجھے زیادہ ہم چشموں میں رسوا نہ کریں، میں تمہارا مال و اسباب بے حساب حاضر کرتا ہوں۔" :

قطعہ

آخر کار اُس نےلا کے شتاب
صاحب خانہ کا دیا اسباب
منصفی چاہتی ہے یوں مہجور
جیسے قاضی نے کی بہ عقل و شعور

حکایت

دو شخص چوسر باز سیر بھر بدن کا گوشت بازی بد کر کھیلے، ان میں سے ایک نے بازی جیت کر شرط طلب کی؛ دوسرا اپنے گوشت کے عوض زر دینے لگا، اس نے قبول نہ کیا؛ قاضی نے دانائی سے اُسے مفت خلاصی دلوا دی، کچھ دینا نہ پڑا

میر بساطانِ حکایاتِ کہن و قمار بازان روایات انجمن بساطِ قرطاس رنگین پر یوں تحریر کرتے ہیں کہ دو شخص باہم بازیٔ چوسر یہ بد کر کھیلے کہ جو مقامر شاطر بازی

نورتن ریختہ صفحہ 241

بہ جاں بازی جیتے وہ سیر بھر گوشت مع پوست بدن کا اتار لے : شعر

انہوں نے غرض کر کے عہد استوار
عجب طرح کی یہ بدی جیت ہار

الحاصل ان میں سے ایک عزیز باتمیز بازی بہ درازی ہارا اور دوسرا شخص بہ خوشی و خرمی اُس سے اپنی بازی کا طلب گار ہوا، تو وہ غریب بے نصیب اُس بازیٔ جاں بازی سے پہلو تہی کر کے گوشت اعضا کے عوض مبلغ خطیر اور تحفۂ بے نظیر دینے کو حاضرہوا، لیکن اس عزیز ناچیز نے ایک آثار گوشت مع پوست کے سوا کسی شے پر خیال نہ کیا : شعر

عجب طرح کا تھا یہ قصہ وہاں
کہ حیران تھے جس سے خُرد و کلاں

القصہ یہ قصہ رفتہ رفتہ قاضیٔ شرع شریف کے سامنے رجوع ہوا۔ اُس قاضی شرع متین صاحبِ تمکین نے کہا "اے قصاب خصال و اے خام خیال! اس ضعیف لاغر تن کے بدن کے گوشت کا خواہاں نہ ہو، اس کے عوض درہم و دینار جو تجھے درکار ہو، اس عزیز ناچیز سے لے اور رنج و محن سے فرصت دے۔" غرض ہر چند قاضیٔ دانش مند نے اُس کو سمجھایا مگر وہ سمجھا، شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے بقول :

اشعار
آہنے را کہ مورچہ نہ بہ خورد
نہ تو ان برد ازو بہ صیقل زنگ
با سیہ دل چہ سود گفتن وعظ
نہ رود میخ آہنی در سنگ

آخر کار ناچار قاضی نے کہا "اے عزیز بے تمیز! اگر اس کا گوشتِ اعضا تیرے لینے کی مرضی ہے تو خیر بسم اللہ، لیکن

نورتن ریختہ صفحہ 242

ایک آثار گوشت سے اگر ایک ماشہ زیادہ تو لے گا تو تیری بوٹیاں کاٹ کاٹ کر چیلوں کے حوالے کروں گا۔" یہ کلام بد انجام قاضی مردِ ریاضی کا وہ نافرجام سن کر گویا ہوا کہ "اے قاضی! اس امر پر میں راضی میرا خدا راضی کہ اس کا گوشت مع پوست میں بحل کیا :

ابیات
اور جو اب اس سے پھر کروں تکرار
تو مجھے کیجیو ذلیل اور خوار
میں نےبازی تمام بھر پائی
پھر کروں گا نہ ایسی رسوائی
الغرض قاضی نے اُسے مہجور
خوب راضی کیا بہ زور شعور

حکایت

ایک شخص نے جواہر کا صُرہ مُہر کر کے قاضی کے سپرد کیا اور قاضی نے اُس میں خیانت کی؛ بادشاہ نے فراستِ کاملہ سے دریافت فرما کر جواہر خاص مالک کو دیا اور قاضی کا نادم کیا

جوہریانِ دُر معانی اور مقیمانِ لآلیٔ تیز زبانی یہ حکایت آب دار اور روایت رشک دُر شاہوار رشتۂ بیان میں یوں پروتے ہیں کہ ایک شخص دانا دل اور یگانہ عاقل چند عدد

نورتن ریختہ صفحہ 243

جواہر زواہر ایک کیسے میں سر بہ مہر کر کے قاضی لامعانی کے روبرو لے گیا اور گُہر ہائے سخن کو رشتۂ بیان میں یوں پرونے لگا کہ "اے لعل بے بہائے کان دیانت و اے صدفِ بے ریائے دکان امانت! :

ابیات
تجھے بے ریا نیک طینت سمجھ
رجھے با خدا نیک خصلت سمجھ
ضرورت سے ہے مجھ کو عزم سفر
میں لایا ہوں رکھنے کو کچھ تیرے گھر
سفر سے جو جیتا میں پھر آؤں گا
تو اپنی امانت یہ لے جاؤں گا
ہوئی گر وہاں میری ہستی تمام
تو یہ مال تیرا ہے اے نیک نام!"

یہ کلام نیک انجام قاضی استماع کر کے یوں گویا ہوا کہ اے عزیز باتمیز! کیا مضائقہ : مصرع

درکار خیر حانت ہیچ استخارہ نیست

غرض بہ صد قیل و قال اس نیک خصال نے وہ جواہر زواہر سپرد کر کے عزم سفر کا کیا اور ادھر قاضی پاجی نے وہ جواہر بیش قیمت اُس کیسۂ سر بہ مہر کو پارہ پارہ کر کے نکال سر بہ مہر کو پُر کر دیا اور ایک رفوگر یکتائے زمانہ یگانۂ روزگار کو بلوا کر رشتۂ بیان سے پارۂ سخن کو یوں رفو کرنے لگا کہ "اے دانش مندِ خطۂ کشمیر و اے خرد مند روشن ضمیر! اس کیسۂ سر بہ مہر کو ایسا رفو کر دے کہ اصلا کسی پر

نورتن ریختہ صفحہ 244

افشا نہ ہو۔ اس کا انعام اے نیک انجام، جس قدر طلب کرے گا، حاضرکروں گا" غرض کئی ہزار دینار اُس کی اجرت ٹھہرا کر اُس رفو گر بے خطر نے اس شکل کا رفو اس کیسے پر کیا کہ اگر ہزار بینا چشم غور سے ملاحظہ کرے، لیکن ممکن عقل نہیں کہ اُس رفو گر کے رشتے کو پائے۔

المدعا وہ کیسۂ سر بہ مہر اس شکل سے درست اور چست کر کے رفو گر نے قاضی کے حوالے کیا اور اُس کا اجورا پورا دست بہ دست لےکر وہاں ے تیز پا ہوا۔ القصہ بعد انقضائے چند ایام وہ نیک انجام سفر سے آ کر جو اپنی امانت کا طالب ہوا تو اس قاضیٔ پُر دغل بد عمل نے وہ کیسۂ سر بہ مہر حوالے کیا، اور اس عزیزی باتمیز نے اپنے گھر میں جو وہ کیسہ کھولا تو وہ جواہر زواہر پتھر نظر آیا۔ یہ ماجرائے عجیب وہ عزیز باتمیز ملاحظہ کر کے قاضی کے قریب گیا اور یوں کہنے لگا کہ "اے قاضی پاجی! یہ تو نے کیا تغلب پر غضب کیا!" تو وہ قاضی پاجی کہنےلگا کہ "اے عزیز با تمیز! تو مجھ کو یہ دزدی و دغا بازی کیوں متہم کرتا ہے :

مثنوی
میں نہیںواقف امانت سے تیری
لوگ واقف ہیں دیانت سے مری
جو طرح کا مجھ کو کیسہ دے گیا
ویسا ہی تو مجھ سے آ کر لے گیا
مجھ کو زر لینا جو ہوتا قہر کا
تو میں تھا قاضی تمامی شہر کا
جس طرح جی چاہتا کرتا وہ بات
مال و دولت جس میں آتی میرے ہات"

نورتن ریختہ صفحہ 245

غرض قاضی نے اس لعل بیش قیمت کو گفتگوئے دروغ سے قلب کر دیا۔ وہ عزیز باتمیز ناچار ایک بار اکبر بادشاہ عالی جاہ کے پاس جا کر مستغاثی ہوا۔ بعد دریافت حال پُر اختلال شاہ گیتی پناہ نے کہا کہ "اے عزیز باتمیز! وی کیسہ جواہر غلط کا بلا وسواس میرے پاس چھوڑ جا اور چند روز دل افروز کے بعد تو پھر یہاں آنا، تیری داد ناشاد مل جائے گی، اپنی خاطر فاتر جمع رکھ۔" اس کلام صدق نظام سے بادشاہ عالم پناہ نے اس کو بہ صد بشاشت رخصت کیا، مگر جس مسند زرنگار رشک بہار اعجوبہ کار پر مسند نشین تھا، اس کو قریب حاشیہ بادشاہ جم جاہ نے چاک کر دیا اور برائے شکار فرحت آثار طرف کوہسار و مرغزار سوار ہو گیا۔ اور ادھر فراش خوش معاش نے چاہا کہ مسند زرنگار رشک بہار کو آراستہ کرے تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ مسند زرین، رشکِ چین حاشیے کے قرین قدرے چاک ہے۔ دیکھتے ہی یہ واردات عجائبات فراش بشاش کی آنکھوں میں بے حواسی کے پردے پڑ گئے اور یوں دل میں کہنے لگا "اگر اس مسند کے چاک سہم ناک کا بادشاہ عالم پناہ پر پردہ فاش ہو گا تو مجھ کو مارے طمانچوں کے فرش کر دے گا۔" اس احوال پُر اختلال سے اس فرأش پُر تلاش نے جو اپنے دوست دار جوڑی دار کو مطلع کیا تو وہ بے باک صاحب ادراک کہنے لگا "اے برادر بہ جان برابر! یہ راز پوشیدہ اگر اور کسی پر افشا نہیں ہے تو خاطر فاتر جمع رکھ؛ اس شہر مینو چہر میں ای رفوگر کامل و عاقل ایسا ہے کہ یہ شگاف بہ خوبی اُس کے دست شفقت سے رفو ہو جائے گا۔"

یہ کلام وہ نیک انجام اُس کی زبان سے سن کر، وہ

نورتن ریختہ صفحہ 246

زرین رفوگر کے قرین لے گیا اور یوں گویا ہوا کہ "اے ناردہ کار، سلیقہ شعار! یہ التجا تیری خدمت فیض درجت میں رکھتا ہوں، اس کو بہ اجابت قبول کر اور جو اس کا پورا اجورا ہو گا، اس سے المضاعف تیری خدمت فیض درجت میں حاضر کروں گا۔" الغرض اُس صاحب ادراک بے باک نے اس چاک مسند کو جیسا چاہیے، ویسا ہی رفو کر دیا کہ اُس فراش خوش معاش کی عقل رفو در چکر ہو گئی۔

قصہ مختصر وہ فراش خوش قماش مسندِ زرنگار، رشک بہار کو اُس روش سے آراستہ کر کے خاموش ہو رہا، لیکن اکبر بادشاہ عالم پناہ نے جو مسند پارہ کو دوبارہ درست اور چست پایا تو اُس فرش عیاش کو بلوا کے ارشاد کیا کہ "راست راست کہو، اس مسند زریں، رشکِ چیں کو کس رفوگر نادرہ کار، سلیقہ شعار نے درست کیا؟" یہ سخن لرزہ فگن بادشاہ عالی جاہ کا فراش بے حواس سن کر ترساں اور لرزاں ہوا۔ بادشاہ عالم پناہ نے بہ تشفیِ تمام یہ کلا کیا کہ "اے پُر ہراس! بے حواس نہ ہو، یہ جائے خوف و خطر نہیں ہے، برائے مصلحت نیک اس مسند زرنگار، اعجوبہ کار کو میں نے پارہ کیا تھا" یہ کلام نیک انجام فراش بے حواس کے جو گوش زد ہرا تو حواس خمسہ بجا کر کے اُس رفوگر بے نشان کا نشان دیا۔ غرض بادشاہ ظل اللہ نے اُس رفوگر نادرہ کار کو طلب فرما کے وہ کیسہ دکھلایا اور یوں حرف زن ہوا کہ "یہ کیسۂ سر بہ مہر اے رو سیاہ! تیرے ہاتھ کا درست کیا ہے؟ سچ کہہ دے وگرنہ تیرا گوشت پوست پارہ پارہ کر دوں گا۔"

آخر کار بہ خوفِ نام دار اس رفوگر پُر خطر نے کہا

نورتن ریختہ صفحہ 247

"واقعی اس کیسے میں رفو بہ صد آرزو غلام ناکام نے قاضیٔ شہر کو کر دیا۔ اس بات میں مُو برابر تجاوز و تفاوت نہیں ہے۔"

حاصل کلام بادشاہ عالی مقام نے قاضی شہر کو طلب فرما کے یوں ارشاد کیا کہ "اے پاجی! تجھ کو صاحب دیانت اور مرد بے خیانت سمجھ کر میں نے قضیہ ہائے شہر کی قضا دے دی تھی اور تجھ سے یہ فعل سرزد ہوا؟ بقول شخصے : ع

چو کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی

مگر اب اسی میں خیریت ہے کہ اس عزیز باتمز کو جواہر زواہر حوالے کر دے۔" یہ کلام شاہ عالی مقام کا قاضی گوش زد کر کے کہنے لگا کہ "اے بادشاہ عالم پناہ! میں نے اس عزیز باتمیز سے جیسا کیسۂ سر بہ مہر لے کے رکھا تھا، ویسا ہی سر بہ مہر اس کے سپرد کیا۔" اس سخن پُر فن پر بادشاہ متبسم ہو کر یوں حرف زن ہوا کہ "اے قاضی پاجی طینت، بے حیثیت! جس رفوگر نے اس کیسے پر رفو کیا ہے، وہ خود موجود ہے۔" اس گفتگو دُو بدُو سے قاضی کمال نادم و شرمندہ ہوا۔ المدعا بادشاہ عالی جاہ نے اس عزیز باتمیر کا جواہر گراں بار قاضیٔ نابکار سےدلوا دیا اور پنڈت خانی کا قضایا سپرد کیا، اور رفوگر نادرہ کار سلیقہ دار کے دونوں ہاتھ کٹور کر کچھ ایسا تعین کر دیا کہ تابہ زیست مع خویش و اقربا خوش معاش رہے اور عباد جناب الٰہی سے غافل نہ ہو :

ابیات
جو ایسی عدالت کرے شہریار
تو راضی رہے اُس سے پروردگار
جو حاکم کرے عدل سے احتراز
نہیں اس کا مقبول روزہ نماز

نورتن ریختہ صفحہ 248

یہ حاکم جو مہجور ہیں آج کل
خدا ان کو غارت کرے بے اجل

حکایت

ایک شخص نے کئی اشرفیاں درخت کے نیچے چھپا کر گاڑ دیں؛ وہاں سے کوئی کھود کر لے گیا؛ مالک اشرفی اکبر بادشاہ سے داد خواہ ہوا؛ بادشاہ نے حکمت عملی سے پیدا فرما کے مالک کو دلوا دیں

زرگرانِ فصیح زبان اور سیم برانِ ملیح بیان یہ حکایت پُر فصاحت قرطاسِ طلائی پر بہ نوک قلم ضرب المثل اس روپ سے رقم کرتے ہیں کہ ایک عزیز خسیس، کھوٹی قسمت نے کچھ اشرفیاں اکبر شاہی صحرائے بے پایاں میں زیر درخت پنہاں اور پوشیدہ رکھی تھیں، مگر اُس جا کو وہ بدطینت بے حیثیت گاہے گاہے دیکھ آیا کرتا تھا۔ قضائے کار بہ دست چرخ کج رفتار ایک روز کوکئی دست چالاک اُن اشرفیوں کو اس چلن سے وہاں سے اُڑا لے گیا کہ اصلا کسی پر افشا نہ ہوا اور یہ نامعقول اپنے معمول سے جو گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ اشرفیاں پنہاں سب کی سب غائب ہیں۔ غرض یہ خسیس کثیف نہایت جلا بھنا، مگر بقول شخصے : دوہرا

آگے کے دن پاچھے گئے ہر سے کیا نہ ہیت
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

نورتن ریختہ صفحہ 249

الحاصل یہ بے دل روتا پیٹتا اکبر بادشاہ عالم پناہ کی ڈیوڑھی پر داد خواہ ہوا۔ اکبر بادشاہ ظل اللہ نے اس کو طلب فرما کے پوچھ اکہ "اے عزیز باتمز! تیری اس بات کا کوئی گواہ خاطر خواہ بھی ہے یا نہیں؟" اُس نامعقول دل ملول نے کہا کہ "اے شہنشاہ عادل زمان و اے داد رس مظلومان! حقیقت تو یوں ہے کہ جناب باری کے سوا کوکئی اس امر سے ماہر نہیں ہے، مگر میں نے فلانے صحرائے لق و دق میں ایک درخت کے نیچے وہ اشرفیاں دفن کی تھیں اور گاہے گاہے اُن کو بہ چشم خود دیکھ آتا تھا، لیکن نہیں معلوم اور مفہوم ہوت ہے کہ ایسے مکان بے نشان سے کون دست چالاک وہ اشرفیاں پنہاں غائب کر گیا۔"

یہ کلام اس نیک انجام کا بادشاہ سن کر کہنے لگا کہ "اے عزیز بے تمیز! کوئی بھی ایسی حرکت ناشائستہ کرتا ہے جو تجھ سے وقوع میں آئی؟ خیر کیا مضائقہ، ان شاء اللہ تعالٰی چند روز کے بعد تیری اشرفیاں پنہاں ظاہر ہوجائیں گی۔" اس گفتگو نیک خو سے بادشاہ نے اُس کو بہ صد بشاشت و لطافت رخصت کیا اور حکمائے حاذق اور اطبائے صادق کو طلب فرما کے یوں ارشاد کیا کہ "وہ فلانے صحرائے بے نشان کے درمیان ایک درخت اعجوبہ، رشک طوبیٰ سرسبز ہے، اُس کا خواص حاص دریافت کرو کہ اُس کا برگ و بر مع بیخ و شاخ کس کس مرض کو سود مند ہے؟" آخر کار اطبائے شاہی از روئے قانون حکمت اس درخت کا خواص خاص دریافت کر کے حضور پُر نور میں حاضر ہوئے اور وہ نسخہ معجون تدبیر بے نظیر کا نظر مبارک میں گزران کر یوں گویا ہوئے کہ "اے فلاطون طبیعت و اے ارسطو خصلت! اُس درخت کے پتوں کا یہ خواص ہے کہ اگر اس کا سفوف صاحب یرقان ہمراہ آب تازہ نہار نوش جان کرتو فوراً اچھا

نورتن ریختہ صفحہ 250

ہو جائے، اور اُس کا ثمر پر اثر کے کھانے سے مدقوق و مسلول صحت پاتے ہیں، اور اس کی شاخ کے ضماد سے مریض طحال فی الحال نونہال ہوتے ہیں، اور اس کی بیخ کے بخور سے مستسقی کیا لحمی، کیا زقی، کیا طبلی ایک روز میں غسل صحت کرتے ہیں۔"

الحاصل بعد دریافتِ خواصِ درخت اعجوبہ رشک طوبیٰ بادشاہ عالم پناہ نے سب اطبائے شہر کو بلوا کر فرمایا کہ ؔاس مہینے میں قیرینے سے دریافت کرو کہ تمہارے مطب میں کتنے مریض استسقیٰ کے رجوع ہوتے تھے۔" آخر کار بہ تامل بسیار ہر ایک نے اپنے اپنے مریض کو بادشاہ عالم پناہ کے حضور میں حاضرکیا۔ اس رشکِ بقراط اور غیرتِ سقراط نے سب مریضوں کو طبیبوں کے روبرو دُو بدُو کر کے پوچھا، ؔتم سب آزار مندوں نے کس کس دوا سے شفا پائی ہے؟ سچ کہنا، نہیں تو مورد عبات شاہی ہو گے۔"

غرض ہر ایک نے اپنی صحت کا احوال فی الحال بیان کیا، مگر جس مریض نے اس درخت کی جڑ سے شفا پائی تھی، اس سے بادشاہ جم جاہ نے حکمت عملی سے پوچھا کہ "وہ درخت کی جڑ تو نے کس دوا ساز ناساز سے منگوائی تھی؟ قدرے مجھ کو بھی مطلوب ہے۔" یہ کلام نیک انجام بادشاہ عالی مقام کا سن کر اس مریض نے اُس کو حاضر کیا۔ شاہ عادل زمان اور باذل جہان نے اُس دوا ساز سے پوچھا کہ فلانے درخت کی بیخ، اے شیخ! تو ہی لایا ہے؟ اُس نافہم ناقص عقل نے کہا "قربانت شوم بلے : شعر

اس جڑی کی جڑ سے واقف ہوں، مگر
اس نہال زر سے میں ہوں بے خبر"
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 251
یہ گفتگوئے زرگری ٹکسال ماہر بادشاه گوش زد کر کے یوں گرم سخن ہوا کہ "اے جہان کے نیارے! اگر اس درخت کی بیخ و بنیاد سے تو واقف ہے تو اس بے گناہ کی اشرفیاں حوالے کر دے، نہیں تو ضرب پاپوش سے تیرے سر کی چاندی گداز ہو جائے گی اور سکہ دزدی سے ٹھونکا جائے گا۔" المدعا خوف زد و کوب سے اس مفت بر نے وہ اشرفیاں پنہاں لا کر حاضر کیں، لیکن:

ابیات
سبھی شاہوں کو اے مہجور اس دارالخلافت میں
یہی جائز ہے ایوان طريقت اور شریعت میں
کہ منصف ہو تو ایسا ہو، جو عادل ہو تو ایسا ہو
جو عاقل ہو تو ایسا ہو، جو عامل ہو تو ایسا ہو

8 حکایت

ایک شخص اپنا مالی خوشبو ساز کے پاس رکھ کر
سفر کو گیا؛ چند روز کے بعد سفر سے آ کر
اپنا مال طلب کیا؛ وہ منکر
ہوا، نہ دیا۔ حسب استغاثہ مدعی
حاكم شہر نے فراست
سے دلوا دیا

راویان معطر مشام اور حاکیان معنبر کلام یہ حکایت پر نگہت صفحہ صندلی پر کلک عود خام اور سیاہی مشک فام

صفحہ 252
سے یوں رقم کرتے ہیں کہ ایک شخص نیک بخت، فرشته طینت نے ایک خوشبو ساز دغا باز کو صاحب دیانت بے خیانت جان کر اپنا مال بے زوال سپرد کیا اور برائے سیر کسی شہر کو راہی ہوا۔ بعد انقضائے چند ایام اس نیک انجام نے سفر سے آ کر جو اپنا مال بے زوال طلب کیا تو وہ دغا باز ناساز مال مردم خور، منہ زور کہنے لگا کہ اے عزیز بے تمیز! کچھ وحشی خبطی ہو گیا ہے؟ جا قصد لے، ان باتوں میں خون کی بو آتی ہے۔ مجھ سے کلام پر اتہام نہ کر. کوئی تیری سند کا گواه و شاہد بھی ہے جو ناحق بہتان بے نشان تو کرتا ہے؟" یہ ماجرا حیرت افزا اس کے قرب جوار اور یار غار سن کر کہنے لگے کہ "اے عزیز بے تمیز! تیرا اتہام اس نیک انجام پر کفایت نہ کرے گا" کیوں کہ یہ شخص:

مثنوی
دیانت متانت میں مشہور ہے
یہ خود مال دنیا سے معمور ہے
تو چاهے کرے روشنی اس کی ماند
چھپا ہے کہیں خاک ڈالے سے چاند
جو تو اس سے نا حق کو لڑ جائے گا
تو اپنے کیے کی سزا پائے گا

یہ گفتگو عربده جو اس کے ہمسائے کی سن کر وہ
عزیز با تمیز خاموش ہو گیا؛ دو روز کے بعد حاکم شہر کی ڈیوڑھی پر جا کے مستغاثی ہوا۔ اس حاکم عادل زماں نے پوچھا کہ "اے عزیز با تمیز! کچھ اس کی سند اسناد اور نوشت و خواند بھی رکھتا ہے یا نہیں؟" وہ خود گم کرده جواب ده ہوا کہ "اے حا کم جہاں و اے عادل زماں! سوائے ذات خدا

صفحہ 253
کوئی اس امر کا گواه حسب دل خواه نہیں ہے، مگر اس قول پر شاکر یعں، بقول شخصے" : شعر

کہ بینم کہ تاکردگار جہاں
دریں آشكارا چہ دارد نہاں

اس کا یہ کلام صدق نظام استماع کر کے حاکم وقت نے کہا، "اے عزیز صاحب تمیز! تو بے دل تین روز کامل اس کی دکان پر جا بیٹھ مگر منہ سے کچھ نہ بولنا؛ بعد روز سوم، اے پر غم! میری سواری بہ صد تیاری ادھر کو وارد ہو گی، میں تجھ کو سلام مسنون الاسلام کروں گا، تو وعلیکم السلام کہہ کر چپ ہو رہنا، پھر میں جو تجھ کو کہوں گا تو جواب ده نہ ہونا، مگر ذرا اپنے سر کو بے خطر ہلا دينا؛ کچھ اس میں سر اسر سر با اثر ہے اور میرے رخصت ہونے کے بعد تو اس سے سوال کرنا، پھر وہ جو جواب دے تو تو میرے پاس آ کر اظہار کیجیو، یہ تدبیر پر تاثیر وہ عادل زمان اور حاکم جہاں اس کو سمجھا کے کاروبار ملکی و مالی میں سرگرم ہوا اور یہ عزیز صاحب تمیز بہ صورت وحشیانہ گم کرده آشيانہ اس کی دکان پر بہتان میں آ بیٹھا، لیکن کچھ سوال مال درمیان نہ لايا۔ تين شبانہ روز کامل کے بعد ایک باری حاکم شہر پر قہر کی سواری نمود ہوئی۔
الحمدعا جس وقت وہ حاکم جمال عادل زماں وہاں اس بے نصیب کے قریب آیا، ایک بار اسپ باد رفتار کو استاده فرما کر رسوم سلام مسنون الاسلام بجا لایا۔ اس عزیز صاحب تمیز نے وعلیکم السلام کہہ کر حسب فرمودک حاکم زماں مہر خاموشی سے اپنے لب کو آشنا کیا اور حاکم جہاں اور عادل زماں يوں حرف زن ہوا کہ "اے بے ریائے زماں و اے

صفحہ 254
نا آشنائے جہاں! تو میرے پاس بلا وسواس گاہے گاہے بھی نہیں آتا اور نہ کچھ اپنا احوال پر ملال مجھ پر افشا کرتا ہے، اس کا کیا موجب اور کیا سبب ہے؟" یہ سخن پر فن حاکم سے سن کر وہ عزیز جواب ده نہ ہوا مگر ذرا سر کو جنبش دے کر چپ ہو رہا۔ خیر وہ حاکم زماں تو برائے سیر شہر غدار و باغ رشک بہار کی طرف کو تشریف فرما ہو گیا اور اس عزیز با تمیز نے ایک دو گھڑی کے بعد پھر اس خوشبو ساز دغا باز سے يہ کہا "کیوں بھائی ہمارا مال نہ دو گے؟" تمہاری ہی مرضی ہے تو خیر اچھا مگر اس کا نتیجہ برا ہے، مثل مشہور ہے": مثل

جو ستائے گا کسی کو وہ ستایا جائے گا

یہ گفتگو وہ بد خو سن کر دل میں کہنے لگا کہ "یہ
حاکم عالی مقدار کا یار غار ہے، اگر اس سے اپنا ذکر کرے گا تو ناحق حرمت میں بٹ آجائے گا اور زر کا زر دینا پڑے گا تو وہ مثل اصل ہو گی": مثل

"ملاحی کی ملاحی دی اور بانس کے بانس کھائے"

اس سے تو بہتر ہے، بہ قول شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ: شرع

چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی

یہ تدبير وه پر تذویر سوچ کر کہنے لگا کہ "اے عزیز با تمیز! تو نے جس وقت مجھ کو اپنا مال سپرد کیا تھا، کوئی شخص اور بھی اس وقت میرے قریب تھا یا میرے ہی تیرے یہ معاملہ در پیش ہوا تھا؟ مجھ کو ٹھیک ٹھیک بتا دے، شاید کہ فراموش ہو گیا ہو، کیوں کہ: مثل

صفحہ 255

"الانسان مر کب من الخطاء والنسیان"

غرض اس عزیز نے جب تمام و کمال پتا دیا تو وہ دغا باز ناساز یوں گویا ہوا کہ "ہاں راست كہتا ہے، مجھ کو بھی یاد آیا، تیرا مال بے زوال حاضر ہے، لے جا"

ابیات
غرض اس نے جلدی سے لا کر تمام
دیا مال اس شخص کو دام دام
نہ ہوں ایسے عادل جو اے مہر باں
تو معلوم ہو بود و باش جہاں
جو حاکم عدالت سے غفلت کرے
تو سارا جہاں اس پہ لعنت کرے
جع عادل ہیں ان کو تو مہجور سب
دعائیں یہ دل دیتے ہیں روز و شب



9 حکایت
ایک ساہوکار کی امانت لے کر قاضی منکر ہو گیا
اور مدعی علی مردان خان وزیر ہندوستان
داد خواه ہوا؛ نواب موصوف نے
حکمت عملی سے امانت قاضی
سے دلوا کر راضی کیا​

قاضیان شرع متین اور مفتیان پیشوائے دین صفحه انصاف پر کلک جگر شفاف سے یوں تحریر و تسطیر کرنے ہیں کہ

صفحہ 256
ہندوستان جنت نشان میں ایک ساہوکار مال دار اس قدر زر وافر رکھتا تھا کہ شاید سپہر بھی صندوقچہ کہکشاں میں اتنے انجم نہ رکھتا ہو گا۔ ایک روز یہ آه جگر سوز اس کی عورت نیک خصلت نے مشوره عاقبت اندیشی سے کہا کہ "اے کان دولت و اے معدن حشمت! اس دولت نا پائدار مستعار کا کچھ بھروسا نہ رکھ، بقول میر حسن: شعر

یہ دولت کسی پاس رہتی نہیں
سدا ناؤ کاغذ کی بہتی نہیں

اس سے بہتر یہ ہے کہ کچھ اشرفیاں خفيہ کسی صاحب دیانت اور مرد بے خیانت کو سپرد کر دے، کس واسطے کہ زمانے کی پستی و بلندی ہر بشر کے لیے در پیش ہے؛ اگر خدا نخواستہ اس روزگار ناپائدار کا دوالا نکل جائے گا تو پھر اوقات بسری میری اور تیری کہاں سے ہو گی؟ اس واسطے کہتی ہوں کہ اگر کچھ کہیں رکیا ہو گا تو وہاں سے زر نقد تھوڑا تھوڑا لینا اور اخراجات لا يدی میں صرف کرنا۔ بھلا قوت لایموت سے تو سير رہیں گے، کیوں کہ بقول میر حسن: شعر

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

وه مشوره نیک وه ساہوکار عالی وقار پسند خاطر کر کے لاکھ روپے کی اشرفیاں اکبر شاہی رات کو قاضی شہر کے قریب لے گیا اور یوں گویا ہوا کہ "اے قاضی شرع متین و اے رہبر دین! تجھ کو صاحب دیانت اور مرد بے خیانت جان کر یہ مبلغ خطیر تیری خدمت فیض درجت میں لایا ہوں؛ اس امانت کو اپنے صندوق دیانت میں رکھ چوڑ۔ جس وقت مجھ کو

صفحہ 257
برائے کار در کار ہو گا، لے جاؤں گا۔" یہ کلام وہ قاضی نافرجام سن کر کہنے لگا: شعر

"رواق منظر چشم من آشیانہ تست
کرم نما و فرود آ کہ خانہ خانہ تست

غرض وہ ساہوکار عالی مقدار وہ اشرفیاں پنہاں قاضی صاحب کو سپرد کر کے گھر میں آ بیٹھا۔ بعد انقضائے چند سال اس نیک اعمال کا وہ سب مال دست گردش گردون دوں اور پیش پائے افلاس بے قیاس سے پامال ہو گیا؛ حتی کہ نان شبینہ تک وہ دل افروز محتاج رہنے لگا۔ آخر کار زوجہ ساہوكار با دل زار یوں کہنے لگی کہ "اے گرفتار الم و اے پامال جور و ستم! وه اشرفیاں پنہاں قاضی کو سپرد کی تھیں، وہ کس دن کے واسطے رکھی ہیں، جا کر تھوڑی سی لے آ اور کاروبار ضروری میں صرف کر۔ یہ گفتگو اپنی جورو نیک خو کی سن کر ساہوكار قاضی شہر کے پاس گیا اور نقد سخن کو درجک دہن سے نکال کر محک امتحان قاضی پر کس کر کہنے لگا کہ "اے قاضی مرد حقانی! اس امانت معلومہ سے ایک سو اشرفی میرے دست تہی میں دے تا کہ کچھ اجرائے کار دنیوی سے فراغت پاؤں۔" یہ کلام وہ قاضی بد انجام استماع کر کے کہنے لگا "اے ساہوكار! تجھ کو خیر تو ہے، کیسی اشرفیاں اور کیا بکتا ہے؟ یہ باتیں کھوٹی مار کھانے کی نشانی ہیں۔" یہ سخن دل شکن قاضی پاجی سے سن کر وه ساہوكار دل فگار با دیدۂ گریاں اور سینہ بریاں گھر میں آ بیٹھا۔
ایک روز کے بعد اس احوال پر اختلال کی عرضی نواب علی مردان خان کو گزرانی۔ نواب موصوف نے اس کا احوال کماحقہ دریافت کر کے یوں اس ساکوکار کے گوش میں

صفحہ 258
گوش زد کیا کہ "اس بات کو ہر گز کسی کے گوش گزار نہ کرنا کیوں کہ دیوار ہم گوش دارد، ان شاء الله تعالی چند روز کے بعد تیری اشرفیاں یک مشت تیرے ہاتھ آئیں گی۔ اس کلام فرحت انجام سے ساہوکار کو یہ صد بشاشت رخصت کیا اور نواب موصوف نے دو چار روز کے بعد قاضی کو بی صد اشتیاق برائے ملاقات اپنے گھر میں بلوایا۔ چند کلام فرحت انجام کے بعد نواب موصوف نے خلوت کر کے قاضی سے کہا کہ "اے زینت مسند دین و اے حاکم شرع متین! تیری خدمت فيض درجت میں یہ عرض ہے کہ کم لوگ ہمیشہ عتاب شاہی میں گرفتار رہتے ہیں، خدا نخواستہ ہم سے کوئی تقصير صغیر و کبیر سرزد ہو جائے اور بادشاہ جم جاہ اس کے مواخذے میں ہمارا گھر بار ضبط کرے تو پھر ہماری زیست خدا جانے کیونکر بسر ہو اور ہمارے بعد نہیں معلوم بال بچوں کا کیا حال ہو جاوے؛ اس واسطے یہ مصلحت دل پزیر خیال میں گزری ہے کہ میری دو لاکھ روپے کی اشرفیاں اپنے پاس بلا وسواس رکھ چھوڑ اور اپنی مہر خاص سے یہ نوشتہ کر دے کہ یہ مال بے زوال علی مردان خان کے عیال و اطفال کا ہے، جس وقت وہ چاکیں لے جائیں": شعر

کہ اس گلشن جاں گزا کی بہار
میں اک و تیر ے پہ ليل ونہار

یہ کلام وه قاضی نافرجام سن کر کہنے لگا "کیا مضائقہ! میرا مکان دل ستان حاضر ہے، جس طرح سے آپ فرمائیے بجا لاؤں۔" نواب موصوف نے فرمایا کہ "بالفعل تو تہہ خانے بنوانے کی تجویز کیجیے، اس کے بعد وہ زرخطیر بہ تدبیر حاضر ہو گا۔" غرض قاضی بے وقوف نواب موصوف کے فقرے میں آ کر

صفحہ 259
درمیان مکان تہہ خانہ بے نشان کی تیاری کرنے لگا۔ الحاصل بعد تیاری مکان مذکور قاضی بے شعور نے نواب موصوف کو یہ رقعہ لكھا کہ "بہ موجب ارشاد عالى مكان امانت اور ایوان دولت تیار ہے، اب بے خوف و خطر اس مصلحت معلومہ کو عمل میں لائیے۔" نواب موصوف نے اس کے جواب میں یہ کلام نیک انجام رقم فرمایا کہ "ان شاء الله تعالی ایک دو روز بعد ساعت سعید میں زنانی سواریوں کے حیلے سے وہ اشرفیاں خدمت شریف میں پنہاں حاضر ہوتی ہیں، لیکن اے بندہ نواز! یہ راز کسی پر افشا نہ ہو۔" ادھر تو نواب موصوف نے یہ رقعہ فريب آماده اس حقیقت کو لکھ کر بھیجا اور ادھر ساہوکار داد خواہ کو طلب فرما کے یوں ارشاد کیا کہ "تو کل اپنا مال اس بد اعمال سے طلب کرنا اور یہ کہنا کہ اگر تو میرا مال اس حال نہ دے گا تو میں تیری نالش کی عرضی علی مردان خان کی وساطت سے بادشاه عالی جاء کو گزرا لوں گا۔ اس کلام نیک انجام سے وہ بدگمان¹ تیری اشرفیاں مقرر دے دے گا، اس میں مطلق فرق نہیں۔"
غرض وہ ساہوكار دل فگار حسب ارشاد نواب علی مردان خان اشرفیاں لینے کو اس قاضی پاجی کے قریب جا کر وہی کلام غيرت التیام درمیان لایا۔ قاضی اپنے دل میں سوچ کر کہنے لگا "اگر اس کی ایک لاکھ روپے کی اشرفیاں آج کل کے درمیان نہ دوں گا تو نو لاکھ روپے کی اشرفیاں علی مردان خان کی یک مشت میرے ہاتھ سے مفت جائیں گی؛ آخر کو غیر از افسوس کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔" یہ دل میں سوچ کر قاضی نے ساہوكار دل فگار کو وہ سب اشرفیاں حوالے کیں اور کہا برائے خدا یہ راز مخفی کسی پر افشا نہ ہو کیوں کہ میرے پاس قضایت کی خدمت

1- یہاں ایک لفظ پر بنائے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔

صفحہ 260
نازک ہے۔" اس کے بعد وه قافی پاجی نواب موصوف کی اشرفیوں کا منتظر رہا، آخر کار وہ مثل ہوئی: مثل

دبدها میں دوؤ گئے، مایا ملی نہ رام

بقول شخصے کہ "ہاتھ کی بھی بر خو کھوئی"

ابیات

غرض سچ ہے مہجور حق دار کا
خدا حق دلاتا ہے یوں بارہا
کسی کا کوئی گر کرے حق تلف
مقرر وہ دنیا میں ہے ناخلف

10 حکایت
دو شخصوں نے اپنا مال ایک پیر زن کو سپرد کیا اور
چلے گئے۔ چند روز کے بعد ان میں سے ایک نے آ کر اپنے شریک کو مرده ظاہر کيا اور وہ مال اس
پیر زن سے لے گیا۔ چند روز کے بعد دوسرے
شریک نے آکر اس پیرزن سے مال طلب
کیا، قاضی نے اس شخص کو معقول کیا​

روایان فطرت اساس اور حاکیان تہمت شناس یہ حکایت پر ندرت بہ نوک قلم بول رقم کرتے ہیں کہ دو شخص کچھ زر نقاد ایک پیر زال نیک خصال کو سپرد کر کے یہ کہنے لگے کہ "جس وقت اے نیک بخت! ہم دونوں بہم تیرے پاس بلا وسواس آئیں تو اپنا مال کے زوال لے جائیں": شعر

صفحہ 261
یہ ایں عہد و پیمان وہ دونوں جواں
ہوئے پاس سے پیر زن کے رواں

بعد انقضائے چند روز ایک عزیز نا چیز ان میں سے پیر زن کم سخن کے پاس آ کر یوں گویا ہوا کہ "اے پیر زن لاغر تن! قسم ہے وحده لا شریک کی کہ میرا شریک مال فی الحال نقاد جان لے کر برائے خريد جنس عذاب ملک عدم کو روانہ ہو گیا، وہ مال کے زوال دست بہ دست مجھ کو عنایت کر۔"
چار و ناچار اس پیر زال نیک خصال نے وہ مال تمام و کمال اس کے حوالے کیا۔ کئی روز کے بعد وہ دوسرا شخص پیر زن کم سخن کے قریب آ کر کہنے لگا کہ "اے پیر زن خجستہ پیکر! وه ہماری امانت کم کو دے تا کہ اپنے کاروبار دنیوی میں مصروف و مالوف ہوں، یہ سخن حیرت فگن اس عزیز بے تمیز کا سن کر پیر زال پر ملال کہنے لگی کہ "اے بیٹا! تیرا دوسرا بھائی تیری وفات پر آفات ظاہر کر کے وہ اسباب سب کا سب لے گیا": شعر

یہ بھی قسمت کی کھوٹ تھی میری
یوں جو مقروض اب ہوئی تیری

غرض وہ عزیز بے تمیز اس پیر زن کم سخن کے سخن کا ہر گز شنوا نہ ہوا؛ یہ سیاست کمال قاضی فرخنده فال کے قریب لے گیا اور انصاف طلب ہوا۔ قاضی نے وہ احوال پر اختلال گوش زد کر کے دل میں کہا "ظاہر بعلوم ہوتا ہے کہ یہ پیر زن کم سخن بے تقصیر و بے قصور ہے۔" یہ خیال خیر سگال دل میں کر کے اس ملعون ذوفنون سے قاضی گویا ہوا کہ "اے عزیز بے تمیز! تو اول شرط کیا کر گیا تھا کہ جس وقت ہم دونوں

صفحہ 262
شر یک تیرے پاس بلا وسواس آئیں تو اپنا مال بے زوال لے جائیں، اب اپنے شریک مال بد خصال کو ہمراه لے آ اور اپنا مال تمام و کمال لے جا، لیکن تجھ کو تنہا ایک خر مہره اس بڑهیا سے نہ ملے گا یہ سخن دل شکن قاضی کی زبان سحر بیان سے سن کر وہ عزیز بے تمیز لا جواب ہوا:

مثنوی
سچ کے جس کا سخن دروغ ہوا
اس کو محفل میں کب فروغ ہوا
فی المثل بات ہے يہ لاثانی
'دودھ کا دودھ پانی کا پانی'
لیک مہجور ایسے قاضی پر
آفریں کہیے روز شام و سحر
جس نے دانائی اور فراست سے
پیر زن کو بچایا تہمت سے

11 حکایت
ایک شخص ہزار رویے صراف کو سپرد کر گیا؛
جب سفر سے پھرا، اپنے رویے طلب کیے۔
صراف منکر ہوا، قاضی نے فراست و
دانائی سے اس کے رویے دلوا کے
رخصت کیا​

صرافان بازار دل کش معانی اور نقادان عیار خوش زبانی

صفحہ 263
اس حکایت زر ریز کو امتحان کی کسوٹی پر یوں کستے ہیں کہ ایک شخص نے ہزار روپے سکہ حال رائج الوقت ایک صراف حراف کو با دیانت اور بے خیانت سمجھ کر سپرد کیے اور آپ برائے کار ضروری بہ مہجوری اور کسی شہر میںنو چہر کو سفر کر گیا۔ بعد چند مدت مدید اور عرصہ بعيد وه عزیز با تمیز سفر سے آ کر اس صراف حراف سے اپنے زر کا طالب ہوا تو وہ دغا باز، بد چلن پر فن یہ سخن زبان پر لایا کہ "اے رکابی مذہب! ایسی کھوٹی باتوں سے تو میری دیانت میں بٹا لگایا چاہتا ہے، چل دور ہو میرے آگے سے، نہیں تو ایسا ٹھوکوں گا کہ تیری جان تن سے نکل جائے گی اور ضرب پاپوش سے تیرے سر کی چاندی گداز کر دوں گا؛ تجھ سے نیارے اور بہروپیے کرارے میں نے اس سکہ صرافی میں بہت پرکھ ڈالے ہیں؛ پس تیری جھوٹی آنت سانٹ کچھ سود نہ کرے گی۔"
یہ گفتگو اس عربده جو کی سن کر وہ عزیز با تمیز نہایت جل بھن کر دست افسوس ملتا قاضی شہر کے آگے گیا اور یوں داد خواه ہوا کہ "اے قاضی شرع متین و اے حاکم اوامر دین! تیری عدالت کی ٹکسال میں میری محنت اور ریاضت کی درشنی
ہنڈوی نہیں سکرتی": شعر

جو انصاف اس کا نہ ہم پائیں گے
تو جھوٹوں سے سجے نہ بر آئیں گے

الحاصل بعد در بافت احوال کثیر الاختلال قاضی نے اس داد خواه سے کہا کہ "اے عزیز با تمیز! اس احوال صادق مقال کو اب کسی سے ہر گز نہ کہنا؛ دو چار روز کے بعد تیرے روپے اس کی بے دیانتی کی تھیلی سے نکل آئیں گے۔" غرض

صفحہ 264
قاضی نے اسے تشفی اور تسلی سے رخصت کیا اور اس صراف حراف کو قاضی نے خلوت میں بلوا کر کہا کہ "اے افسر دیانت داران و اے تاج سر ساہوكاران! تیری نجابت اور شرافت مردان راست گو اور منشیاں نیک خو سے کماحقہ ہم پر ثابت ہوئی، اس واسطے تکلیف ده ہوا ہوں کہ میں بالفعل آور خدمت سے یہ عنایت حضور پر نور سر افراز و ممتاز ہوا چاہتا ہوں، کوئی ایسا رفیق و شفیق شر یک حال نہیں ہے جو اسے اپنی نیابت کا خلعت دوں، سو میں نے تجھ کو نہایت صاحب دیانت اور ذی لیاقت سمجھ کر نائب صاحب تجویز کیا ہے۔" یہ کلام فرحت انجام وہ ناکام نافرجام خر بے دم سن کر مارے خوشی کے اپنے پیرہن میں گدھے کی صورت ہھولا نہ سمایا، مگر وہ احمق مطلق یہ نہ سمجھا، بقول شخصے: ع

آدمیاں گم شدند ملک خدا خر گرفت

ایک بار بے اختیار ہنس کر کہنے لگا "بہت خوب! دیکھیے کیسا سر انجام کار سرکار بہ اہتمام تمام کرتا ہوں۔" قاضی نے متبسم ہو کے کہا "دریں چہ شک ست۔"
الغرض قاضی نے اس ساده لوح کو باغ سبز کی بہار دکھلا کر رخصت کیا اور اس داد خواہ کو بلوا کر کہا کہ "اس صراف حراف کے پاس بلا وسواس جا کر کہہ کہ اے بد کردار ناہنجار! اگر میرے روپے نہیں دیتا ہے تو چل میرا اور تیرا انصاف صاف صاف قاضی کے رو برو دو بدو انفصال پا جائے گا۔ اس گفتگو عربدہ جو سے وہ دغا باز ناساز تیرے روپے بلا تکرار حاضر کرے گا۔" آخر وہ دل فگار جو اس صراف حراف مار کے پاس جا کر یہ گفتگوئے فریب آماده در میان لایا تو وہ بے ایمان

صفحہ 265
......شیطان دل میں کہنے لگا کہ اگر اس سے اب گفتگو دو بدو کروں گا یا قاضی کے قریب جاؤں گا تو عدالت کی نیابت مفت ہاتھ سے جائے گی، اس بات سے یوں بہتر ہے کہ اس کے رویے اس روپ سے دیجیے کہ کوئی کانوں کان نہ جانے؛ یہ بندش دل میں باندھ کر وہ ساده لوح کہنے لگا کہ "اے عزیز با تمیز! اپنی خاطر فاتر جمع رکھ، تیرے رویے کل مجھ کو بھی کھاتہ دیکھنے سے یاد آئے؛ وہ رویے بلا قصور حاضر ہیں، لے جا، مگر مجھ سے یہ قول و قسم کر کہ یہ راز کسی پر افشا نہ کروں گا، تو ایک ہزار کیا میں دو ہزار روپے دوں گا۔" یہ عزیز با تمیز اپنے ہزار روپے کو رو بیٹھا تھا نہ کہ دو ہزار ملتے ہیں، بقول شخصے: مثل

چپڑی اور دو دو

غرض جس طرح اس بد طینت نے اس کو کہا، وہی بجا لایا بقول شخصے: ع

زمانه با تو نہ سازد تو با زمانہ بہ ساز
اپنی غرض کو گدھے کو باپ بناتے ہیں

الحاصل وہ عزیز با تمیز اس سے روپے لے کر قاضی کے جان اور مال کو دعائیں دیتا اپنے گھر سدهارا اور یہ لعین بے دین دوسرے روز بہ لیاقت تمام قاضی نیک نام کے پاس یہ طمع نیابت قضایت گیا۔ قاضی نے بہ صد تشفی و تسلی کہا کہ "بالفعل تو ابھی میرے کام میں کچھ تامل اور تساہل ہے، وقت رو بکاری سواری بھیج کر تمھیں بلوا لوں گا۔" یہ کلام قاضی نیک انجام کا سن کر نہايت ملول وه نا معقول اپنے گھر میں آیا اور دل میں سخت نادم ہو کر یوں کہنے لگا کہ "ہائے نیابت کی طمع میں

صفحہ 266
دو ہزار رویے مفت ہاتھ سے گئے، بقول شیخ سعدی شیرازی عليہ الرحمہ:

ابیات
"بخت و دولت بہ کار دانی نیست
جز یہ تائید آسمانی نیست"
لیکن اے مہجور! گر ہے عقل مند
گوش کر تو یہ فرید الدین کی پند
"بر تو باید اے عزیز نام ور!
گز چنیں مکاره باشی پر حذر"

12 حکایت
دو برادر سر کو روانہ ہوئے اور اثنائے راہ میں کیسہ پر زر
مع دو لعل احمر پایا، اس کے باہم دو حصے کیے
بڑے بھائی نے اپنا حصہ چھوٹے بھائی کو دے کر
رخصت کیا اور کہا کہ "میرا حصہ گھر جا کر
میری زوجہ کو دینا" اور آپ سفر کو گیا.
چھوٹے بھائی نے زر نقد بڑے بھائی کی
زوجہ کو دیا اور پارۂ لعل اڑا لیا اور
بھائی سے کہا "میں نے تیری زوجہ
کو حوالے کیا" یہ قصہ بادشاه
نے فیصل فرما دیا​

جواہر شناسان كامل فن اور گوہر فروشان تازه سخن یہ

صفحہ 267
حکایت لعل بے بہا صفحہ طلا پر یوں رقم کرتے ہیں کہ دو برادر یہ جان برابر بہ حال مضطر سفر کو راہی ہوئے . الحاصل پہلی منزل میں وہ اپنی منزل مقصود کو پہنچے، یعنی اثنائے راه میں ایک کیسہ پر زر مع دو لعل خوش تر ان کے صدف دست میں آیا۔ اس دولت غیر مترقب کو پا کر چھوٹے بھائی نے کہا "اے برادر عالى قدر! حاصل سفر تو بر آیا، اب آگے جانے سے کیا فائدہ، اب اپنے غریب خانے میں چل کر بہ فراغت تمام بہ صد آرام اوقات بسر کیجیے: شعر

کیوں کہ ایسی رقم لگی ہے ہات
جس سے اپنی کٹے گی خوش اوقات"

برادر کلاں نے کہا "اے بھائی! فی الحقیقت ہے، مگر مجھ کو سیر جہاں و کوه و بیاباں کی رغبت نہایت ہے، کس واسطے، بقول شخصے: مثل

ان نینوں کا یہی بسیکھ
یہ بھی دیکھا وہ بھی دیکھ

اے برادر عزيز القدر! تو گھر میں چل، میں بھی چند روز کے بعد آرہوں گا، الغرض اس مال بے زوال کے بڑے بھائی نے برابر دو حصے کر کے کہا 'اے بھائی دل شیدائی! یہ میرا حصہ مع لعل بے بہا میری جورو نیک خو کو سپرد کر دینا، باقی تو اپنے حصے کا مالک و مختار ہے۔" یہ گفتگو وہ نیک خو چھوٹے بھائی سے کر کے آپ برائے سیر شہر و دیار و گزار روانہ ہوا، لیکن اس عزيز نا چیز نے بڑے بھائی کا حصہ اپنی بھاوج کو دیا، مگر لعل بے بہا اپنی جیب دغا میں چھپا رکھا۔ بعد انقضائے چند ایام وہ نیک انجام سفر سے جو گھر میں آیا تو وہ پارۂ لعل بے بہا نہ پایا تو اپنی جورو نیک خو سے یوں ہم کلام ہوا کہ

صفحہ 268
"اے یاقوت لب و اے عالی نسب! سچ کہہ، وہ پاره لعل بیش قمیت میں نے جو بھیجا تھا، کیا کیا؟" یہ سخن حیرت فگن وه زن سن کر یوں کہنے لگی:

ابیات
"میں نہیں آگاه تیرے لال سے
ہاں مگر واقف ہوں نقدی مال سے
سو وہ سب موجود میرے پاس ہے
لال کیا ہے چیز کیا اجناس ہے؟"

القصہ بڑے بھائی نے جو چھوٹے بھائی سے پوچھا کہ "اے صدف گوہر دغا! وہ لعل بے بہا تو نے کیا کیا؟" اس کے جواب میں اس نے کہا "تیرا لعل بے بہا تیری جورو نیک خو کو میں نے حوالے کر دیا: شعر
ہے عجب طرح کی یہ تیری بوجھ
مجھ سے کیا پوچھتا ہے اس سے پوچھ"

یہ کلام وحشت التيام وہ مضطر سن کر کہنے لگا کہ "وہ تو کہتی ہے کہ میں سینہ شق مطلق نہیں واقف ہوں۔" چھوٹے نے کہا "دروغ کہتی ہے۔ حاصل کلام بہ ایں قیل و قال آپس میں جنگ و جدل ہونے لگی۔ بڑے بھائی کی جورو نے اس قصے کی قاضی سے داد فریاد کی۔ قاضی نے ان دونوں کو طلب کر کےپوچھا کہ "اے عزیز بے تمیز! تو نے جس وقت اس زن کو پاره لعل بے ںہا دیا تھا، اس وقت کا کوئی بھی گواه حسب دل خواه رکھتا ہے یا نہیں؟" اس عزیز ناچیز نے کہا "اس امر کے شاهد عادل اور واقف کامل دو اشخاص خاص موجود ہیں۔" قاضی نے حکم دیا کہ ان گواہوں کو حاضر کر۔ غرض یہ ملعون ذوفنون

صفحہ 269
دو شخصوں کو کچھ زر نقد دے کر گواه قلب و شاهد تغلب سچے لعل کو جھوٹا کرنے کو قاضی کے آگے لے گیا اور وہ دونوں لعین بے دین قاضی سے قسمیہ کہنے لگے کہ واقعی اس نے پارۂ لعل جیب سے نکال کر میرے سامنے اس کی جورو کے ہاتھ میں دیا تھا، قاضی کم عقل نے اس مدعی سے کہا "اے عزیز با تمیز! اپنا لعل بے بہا اپنی جورو سے لے اور اس سے دست بردار ہو۔" یہ سخن دل شکن قاضی کی زبان سے سن کر وہ زن بادیدہ گربیان اور پہ مژگان خوں چکان بادشاه عالم پناه سے داد خواه ہوئی۔ بادشاه عالی جاہ نے کہا "اے زن دل شکن! اس کا انصاف قاضی شہر سے کیوں نہیں چاہتی ہے؟" اس زن کم سخن نے کہا "اے بادشاه جم جاہ! قاضی شہر نے میرا انصاف صاف صاف نہ کیا۔" بادشاه عادل زبان اور حا کم جہاں نے دونوں بھائی اور دونوں گواہوں کو طلب فرما کے قدرے قدرے موم کافوری ہر ایک شخص کو جدا جدا ديا اور بہ نرمی یوں فرمایا کہ "اس موم سے ہر ایک لعل کی صورت جدا جدا جا کر بنا لاؤ۔"غرض ان دونوں بھائیوں نے جیسا کہ وہ لعل بےبہا تھا، ویسی ہی صورت بے کدورت بنائی مگر دونوں گواہوں روسياہوں نے کبھی لعل کی شکل نہیں دیکھی تھی، صورت مختلف بنا کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ شہنشاہ عادل زماں نے اس زن کم سخن کو بھی فرمایا کہ تو بھی کہ تو بھی ایک لعل کی شکل تیار کر لا۔ اس زن کم سخن نے تو کبھی لعل کی صورت نہ دیکھی تھی مگر عقليہ اس نے کہا کہ لعل بے بہا نہایت قیمت رکھتا ہے، اس کی شکل بڑی ہو گی، یہ ایں دانائی ایک چیز واہی تباہی بنا کر بادشاه عالی جاہ کے قریب لے گئی۔ بادشاہ عالم پناه اس لعل بے بہا کو ملاحظہ فرما کے دل میں کہنے لگے کہ فی الحقیقت یہ زن لبے تقصیر

صفحہ 270
ہے، اس نے لعل کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن جب گواہوں کے لعل تغلبی بنانے پر بادشاہ جم جاہ نے مارے طمانچوں کے منه لال کروائے تو وہی روسیاه پر گناہ کہنے لگے کہ "اے بادشاہ عالی جاه! ہم نے طمع زر نقد سے جھوٹی گواہی دی تھی: شعر

واجب القتل ہیں خنجر کے سزا وار ہیں ہم
ہاں میاں سچ ہے کہ ایسے ہی گنہ گار ہیں ہم

غرض بادشاه عالم پناه نے فراست و دانائی و عقل آرائی سے اس کے چھوٹے بھائی سے وہ پاره لعل بے بہا دلوا دیا۔

مثنوی
یہ انصاف مہجور جیسا ہوا
جیاں میں کسی سے کم ایسا ہوا
حکومت میں حاكم ہو اس طرح غرق
تو لعل و خذف ميں نہ کیوں کر ہو فرق
جو حاکم کو اپنا بھی سوجھے پلاؤ
تو جو اور گندم بکیں ایک بھاؤ
غرض حاکموں کو بہ قول حسن
سناتا نہیں کوئی اتنا سخن
کرو سلطنت لیک اعمال نیک
کہ تا دو جہاں میں رہے حال نیک
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 301

نظم

یہ مصرع شاه زاده سن کے فی الحال
لگا کہنے زہے میرا یہ اقبال
کہ ایسا کے بنا اور نیک آساس
رہے يوں روز و شب حاضر مرے پاس
تو بس معلوم ہوتا ہے کہ میرا
یہ جان و دل سے ہے مفتون و شیدا
غرض مہجور شہزادے نے اس کو
رکھا اپنی رفاقت میں خوشی کو

نقل ہے کہ ایک بادشاہ جم جاہ کے محل خاص کے سر دفتر لالہ رویاں اور افسر گل رخاں غسل فرما کے برہنہ ایک چوکی طلائی مرصع پر زینت بخش تھی کہ یکایک بادشاه عالی جاہ جو اندرون محل بر آمد ہوئے تو بے ساختہ اس پری بے نقاب پر حجاب سے چشم دو چار ہو گئی لیکن خواہان خاص نے جوں ہی بادشاه عالم پناہ کو محل میں برآمد ہوتے دیکھا، وہيں سفید کھیس اس مہ جبين لعبت چین پر سراسر ڈال دیا۔ اس وقت بادشاه عالی جاہ نے اپنی ماه تاباں مہر درخشاں کو ہلکے ابر میں پنہاں دیکھ کے یہ مصرع برجستہ کہا: مصرع
آں پری در پرده شد محو تماشایم ہنوز

اس مصرع پر حیرت آماده حسرت کو پڑهتا ہوا وہ بادشاہ محل سرا دل کشا بر آمد ہوا، اور شاعران قدیم اور صاحبان عدیم سے فرمایا کہ اس کا دوسرا مصرع جلد بہم پہنچاؤ۔ الحاصل سب شاعروں نے مشقت خیال سے گوہر ہسئے سخن کو سوراخ کر کے رشتۂ الفاظ میں پرویا، لیکن مصر ع اول کے تسلسل معانی

صفحہ 302
اور مسلسل بیانی سے کوئی منسلک نہ ہوا۔ تب تو بادشاه عالی جاہ نے با دل شاد ارشاد کیا کہ "کوئی اور بھی شاعر ہمارے شہر مینو چہر میں ایسا ہے جو ہمارے مصرع سے اپنا مصرع چسپاں کر دے " یہ کلام بادشاه عالی مقام کا سن کر ایک ندیم قدیم کہنے لگا کہ "خداوند نعمت سپہر بر کرامت! ایک شاگرد ناصر علی نہایت موزون الطبع ہے۔ اگر وہ وحشی رشک انوری حضور پر نور میں حاضر ہو تو البتہ آپ کے مصرع حیرت افزا کا مطلع یہ از مطلع آفتاب جہاں تاب ہو جائے۔" یہ سخن حیرت افگن بادشاه عالی جاہ نے استماع فرما کر کہا کہ "اس شاگرد یگانہ استاد زمانہ کو بارگاہ شاہی میں طلب کرو۔" اس ندیم قدیم نے جواب دیا "پیر و مرشد برحق! اس کا حضور پر نور میں حاضر ہونا نہایت محال اور اشكال ہے، کیوں کہ اس کی ایک جہت ہے؛ اول تو وہ کسی اعلی و ادنی کے گھر میں نہیں جاتا اور کہیں رونق افزائے بزم ہوتا ہے تو اس طرح کہ ایک کشمیری بچے پر وہ ملک الشعرا فريفتہ اور شیدا ہے ، جو اس کشمیری بچے کو کوئی برائے رقص اپنی محفل میں طلب کرتا ہے، تو وہ بھی پروانہ وار اس شمع رو کے ساتھ جا کر صاحب خانہ کے قریب بیٹھتا ہے، اس میں کوئی کیوں نہ ہو۔ خداوند نعمت! وہ سودائی واہی حضور پر نور کے قابل نہیں ہے۔" یہ سخن دل شکن بادشاه عالی جاہ سن کر فرمانے لگے "کیا مضائقہ، اس کشمیری بچے کو طلب کرو۔" بقول شخصے، مثل: "ہم فال و ہم تماشا۔" یعنی ناچ کا ناچ دیکھیں گے اور مطلب کا مطلب حاصل ہو گا مثل ہے:

"ایک پنتھ دو کاج"

الحاصل بادشاه عالی جاہ نے اس کشمیری بچے کو برائے رقص محفل شاہی میں طلب کیا، جوں ہی وہ کشمیری غیرت پری بزم

صفحہ 303
رشک پرستان میں حاضر ہو کر برائے رقص گھونگرو باندھ کے مع سازنده ہائے خوش نوا کھڑا ہوا، وہیں وه شاگرد ناصر على جلد ایک طرف سے نکل کر بادشاه عالی جاہ کے قریب جا بیٹھا اور شان کبریائی کا تماشائی ہوا، لیکن بادشاه عالم پناه سے سلام علیک تک بھی نہ کی؛ وہ بادشاہ جم جاہ اس کی حرکات و اہیات کا مانع نہ ہوا۔ ایک گھڑی کے بعد بادشاه گیتی پناه نے وزیر صاحب تدبیر سے کہا کہ "ہمارا مصرع اس کے رو برو پڑھ کے جواب طلب کرو" الغرض وزیر صاحب توقیر نے مکرر سہ كرر بادشاہ کا مصرع اس محو جاناں کے رو برو پڑها لیکن وہ پر حیرت ایسا عالم محویت میں تھا کہ مطلق جواب ده نہ ہو سکا۔ آخر کار خود بادشاه نامدار نے اس خود غلط کا بازو ہلا کر کہا کہ "میرے مصرع کا جواب باصواب دے کر سرفراز کیجیے۔" غرض وہ حیرت زده جواب ده نہ ہوا۔ اتفاقاً اس عرصے میں اس کشمیری بچے کے پاؤں کا گھونگرو رقص کرنے میں جو ٹوٹ گیا تو وہ قدر شناس پاس آداب شاہی سے سازندوں کے پیچھے گھونگرو باندھنے کو بیٹھ گیا۔ اس وقت اسی وحشی نے اپنے پری رو دل جو کو نظر پنہاں دیکھ کر بادشاه عالی جاہ سے کہا "تمہارا مصرع بے بہا کیا خوب دل مرغوب ہے! : مصرع

آں پری در پرده شد محو تماشائم ہنوز

لیکن اس کا جواب حسب حال، اے شاہ فرخنده فال! یوں ہے: مصرع

رفته ام از خویشتن چنداں کہ می آیم ہنوز

اشعار
سنا شہ نے برجستہ مصرع جو یہ
لگا کہنے با صد خوشی تب تو یہ

صفحہ 304
جو مصرع مرے دل کو مطلوب تھا
وہی آپ نے فی البدیہ کہا
غرض شہ نے اس شعر گو کو وقار
دیا شاعروں میں یہ صد افتخار
سخن داں سخن گو کی مہجور سب
کریں قدر کیوں کر نہ یوں روز و شب
سخن کے طلب گار ہیں عقل مند
سخن سے ہے نام نکویان بلند

نقل ہے کہ شاه جہاں بادشاه گیتی پناه کسی چور محل بے بادل میں چوری سے شب کو استراحت فرما ہوئے تھے۔ وقت سحر وه شاه خوش منظر دیوان خاص میں برآمد ہوا۔ دو چار گھڑی کے بعد کمند اشتیاق سے چور محل نے پھر بادشاه عالی جاه کو اپنی طرف کھینچا۔ قضائے کار وہ بیگم بے غم و الم شب کے سرور میں اس شکل بیٹھی تھی:

مثنوی
کہ مکھڑے پہ تھی زلف بکھری ہوئی
اور انگیا کچھ اوپر کو اٹھی ہوئی
دوپٹہ بھی سر پر سے سرکا ہوا
نزاکت سے مونڈھے کے نیچے پڑا
اور آنکھیں خماریں وہ نرگس سی آه
کسی کی ہر اک سمت تکتی تھیں راه

کہ یکایک شاه جہاں شہنشاه زماں سامنے سے جو نمودار و آشكار ہوئے اور ہم دونوں کی آنکھیں جو دو چار ہو گئیں تو وہ آئینہ رو بادشاه نیک خو کو دیکھ کر بہ حالت ششدر انگشت حیرت

صفحہ 305
دانتوں میں رکھ کر مثل تصویر دل گیر عالم سکوت میں آگئی۔ شاه جہاں اس زماں وہ انگشت حیرت بہ دنداں دیکھ کر یہ نيم مصر ع برجستہ فرماتے ہوئے محل سے بر آمد ہوئے: مصرع

نیمے دروں نیم بروں

الحاصل بادشاه عالم پناه نے ہر ایک شاعر قدیم اور مصاحب عمیم سے کہا کہ اس نيم مصرع کا سارا مصرع ہو جاوے۔ غرض ہر ایک نے بہ قدر حوصلہ میدان شاعری میں قدم مارا لیکن کسی کا مصرع اس کے ہم ردیف نہ ہوا۔ آخر کار ناصر على¹ رشک انوری کو جو بادشاه نے طلب فرمایا تو وہ فخر شاعران اور رہبر کاملاں بادشاه عالی مقام کا کلام سن کر کہنے لگا کہ "اے بادشاہ جم جاہ! تیرے سوال کا یہ جواب باصواب ہے:
از ہیبت شاه جہاں لرزد زمین و آسماں
انگشت حیرت در دھاں نیمے دروں نیمے بروں

نظم

سن کے یہ شعر بادشہ نے کہا
آفریں باد تجھ کو مرد خدا
رتیہ ناصر علی کا اے مہجور!
سب پہ روشن ہے کیا کروں مذکور

نقل ہے کہ ایک پری زاد ستم ایجاد جادو نگاه فسوں ساز سحر طراز صدف چشم کو کحل الجواہر سے چشم بد دور آلوده کر رہی تھی، لیکن سرمے کی تیزی سے اشک گہر بار چشم آب دار سے کچھ سیاہی آلوده گرتے تھے۔ اس ضمن میں بادشاہ عالم پناه
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


1- ناصر على ممر کندی شاه جہاں کے عہد کا نہیں بلکہ اورنگ زیب کے عہد کا شاعر ہے۔


صفحہ 306
جو محل بے بدل میں در آمد ہوئے تو یہ عالم اس بادشاہ بیگم کا دیکھ کر یہ مصرع برجستہ موزوں کیا: مصرع

در ابلق کسے کم دید موجود

اور اس مصرع کو پڑهتے ہوئے دیوان خاص میں رونق افزا ہو کے شاعروں سے فرمایا کہ اس کا دوسرا مصرع بہم پہنچاؤ۔ ہر چند ہر ایک شناور دریائے معانی نے بحر تفکر میں غواصی کی لیکن در مطلب کسی کی صدف میں نہ آیا۔ آخر کار ایک بار ناصر على عالى وقار کو بادشاہ نے طلب فرما کے با دل شاد ارشاد کیا "اے ناصر على استاد فن شاعری! یہ مصرع تنہا مطلع مثل مطلع آفتاب درخشاں چاہتا ہے۔" ناصر علی رشک انوری نے كہا "اے مہر سپہر کرامت و اے نیر آسمان حشمت! وہ کون سا مصرع ہے جس کا مصرع ثانی بہ آسانی نہیں بہم پہنچتا ہے؟" بادشاه جم جاه نے فرمایا "اے ناصر على رشک آنوری !: مصرع

در ابلق کسے کم دید موجود

اس کے جواب میں ناصر علی نے کہا، "خداوند نعمت فی الحقيقت ہے نگر مصرع ثانی: ع

بغیر از اشک چشم سرمہ آلود

اشعار
غرض وہ شاه مصرع سن کے مہجور
ہوا دل میں نہایت اپنے مسرور
لگا یہ بات کہنے ہر کسی سے
یہ صد فرحت دلی اور منصفی سے
یہ دریائے سخن کہنا روا ہے
یہ مصرع سلک گوہر سے بڑا ہے

صفحہ 307
نقل ہے کہ شاه جہاں بادشاه كا در دنداں بوس و کنار میں ایک لالہ رو کے لب لال گوں پر جو لگ گیا تو وہ رشک گلستاں مثل گل خنداں خنداں ہوئی۔ اس وقت بادشاہ جم جاه کی زبان مبارک سے یہ مصرع سر زد ہوا: مصرع

از گزیدن زیب دیگر داد آں لب خنده را

یہ مصرع پڑھتے پڑھتے بادشاه عالی جاه دیوان خاص میں تشریف فرما ہوئے اور اس مصرع کا جواب باصواب ہر ایک سے طلب کیا مگر ایک شاعر شاگرد ناصر على¹ موزوں طبع رنگیں وضع، بلبل زبان کو گلشن نطق میں چہچہہ زن کر کے کہنے لگا "اے خداوند نعمت! فی الحقیقت ہے: ع

از گزیدن زیب دیگر داد آں لب خنده را

لیکن مشہور و معروف ہے :ع

قیمت آرے بیشتر باشد عقیق کنده را

اشعار
سن کے مصرع یہ بادشاہ نے کہا
آفرین باد تجھ کو مرد خدا
کیوں نہ بازار شاعری میں تری
ہوئے قیمت در سخن کی بڑی
الغرض بادشاه نے اے مہجور!
اس کو دولت سے کر دیا معمور

نقل ہے کہ زیب النسا حور لقا نے ایک روز کسی غنچہ لب کے خیال میں شگفتگی خاطر میں یہ مصرع رشک شمشاد موزوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 - ناصر علی سر ہندی شاه جہان کے عہدے کا نہیں بلکہ اورنگ زیب عالم گیر کے عہد کا شاعر ہے۔ ۔


صفحہ 308
کیا: مصرع

از ہم نمے شود زحلاوت جدا لبم

لیکن اس مصرع کا مصرع ثانی با معانی گلشن خیال میں کسی روش نہ سر سبز ہوا۔ آخر کار نا چار زیب النسا حور القا نے ایک صفحہ رنگی و قرطاس نگاری پر یہ خط گلزار وہ مصرع رشک بہار لکھ کر ناصر على رشک آنوری کے قریب بھیجا۔ اس کے جواب میں ناصر على رونق باغ شاعری نے قلم شاخ نرگس سے یہ خط ریحان اس کاغذ زرافشاں پر یہ مصرع رقم کر کے زیب النسا کے پاس بلا وسواس بھیج دیا: مصرع

گویا رسید بر لب زیب النسا لبم

اس مصرع مرزعہ خشم کو زیب النسا ملاحظہ فرما کر خرمن طپش پر لوٹ کر مثل سنبل پیچ و تاب کھانے لگی اور یہ شعر بران مثل تیغ عریاں بہ نوک قلم رقم کر کے ناصر على کو بھیجا:

ناصر علی بہ نام على بردی پناه
ورنہ بہ ذوالفقار علی سر بريد مت

نظم
لیک شاعر جو ہیں سو اے مہجور
میں ڈرتے کسی سے تا مقدور
آن کی میدان شاعری میں زبان
کرتی ہے کام سیف کا ہر آن

نقل ہے کہ سلمان فخر شاعران رمان فصل جوش بہار میں مع فضلا و شعرا برائے تفریح طبع ایک دجلہ رواں کے کنارے لجہ سیر میں غوطہ زن تھا۔ اتفاقا ناصر بخاری درویش مشرب

صفحہ 309
مائل سیاحت اس مجمع شعرا میں زینت بخش ہوا۔ سلمان اس آن بہ رطب اللسان یوں گویا ہوا کہ "اے عزیز با تمیز! تو کون بشر بے خطر ہے؟" ناصر بخاری ایک باری طوطی زبان کو میان گلشن بیان یوں نطق میں لایا کہ "یہ فقير تن حقیر باغ جہاں میں نخلستان شاعری کی باغ بانی کرتا ہے، یہ کلام سلمان شیریں کام سن کر کہنے لگا "اے عزیز با تمیز! فی البدیہ بھی کہنے کی طاقت رکھتا ہے؟" اس نے جواب دیا "البتہ؟" سلمان صاحب ایمان نے فی البدیہ یہ مصرع موزوں کیا: مصرع

دجلہ را امسال رفتارے عجب مستانہ ایست

ناصر على بخاری نے کہا سچ ہے ليكن: مصرع

پاے در زنجیر و کف بر لب مگر دیوانہ ایست

یہ مصرع برجستہ ناصر علی بخاری سے سن کر تمام شعرا اور فضلا گرداب حیرت میں مستغرق ہوئے اور سلمان خنداں خنداں اٹھ کر بغل گیر ہوا:

قطعہ
کیوں نہ شاعر کی قدر اے مہجور!
شاعران زماں کو ہو منظور
سچ تو یہ ہے نہ گو کوئی مانے
قدر جوہر کی جوہری جانے

نقل ہے کہ ایک روز شیخ على حزین بہ صد تمکین اپنے گلستان دل ستاں میں تن تنہا گل ہائے مضمون گلشن خیال سے چن چن کر برجستک غزل کا گلدستہ بیٹھے بنا رہے تھے، لیکن دربانوں اور پاسبانوں کو حکم تھا کہ اس وقت کوئی ہمارے پاس بالاوسواس آنے نہ پائے۔ قضائے کار ایک شخص زبان طرار اس

صفحہ 310
گلزار پر بہار میں جانے کو تیار ہوا مگر چوکی داروں کے مانع ہونے سے وہ عزیز با تمیز دروازے کی راہ چھوڑ کے بہر روش ایک تابدان کی راہ سے مثل آب رواں اس جا پہنچا کہ جس جا شیخ موصوف مصروف سیر گل ہائےے مضامین تھے۔ اس عزیز با تمیز کو خار سمجھ کر شیخ موصوف نے یہ زبان فصاحت پر بلاغت فرمایا: مصرع

دریں بزم ره نیست بیگانہ را

وہ عزیز با تمیز! اس مصرع کو گوش زد فرما کے بہ چرب زبانی فتیلہ زبان کو محفل سخن میں روشن کر کے کہنے لگا کہ "اے چراغ خاندان شرافت و اے شمع شبستان نجابت! سچ ہے: مصرع

دریں بزم ره نیست بیگانہ را

لیکن فی الحقیقت ہے مصرع ثانی:

کہ پروانگی داد پروانہ را

نظم
سن کے مصرع یہ شیخ جی نے وہیں
اس کو اعزاز سے بٹھایا قریں
سچ ہے مہجور ہر سخن داں کی
قدر کیوں کر کریں نہ دل سے سبھی

نقل ہے کہ شیخ على حزین بہ صد تمكين مع ہم نشین اپنی محفل عالی منزل میں رونق بخش تھے۔ جس وقت کہ شب بو العجب دوپہر کے قریب گئی، یکایک شیخ موصوف نے بہ زبان فصیح پر ملیح یہ ارشاد کیا: مصرع

از شب چہ قدر رسیده باشد

اس میں ایک شاگرد رشید صاحب فہمید نے جواب دیا:
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 311
مصرع ثانی

زلفش بہ کمر رسیده باشد

یہ جواب با صواب شاگرد رشید صاحب فہمید کا سن کر شیخ موصوف نہایت محظوظ ہوئے:

مثنوی
بر جستہ سخن کے جو مہجور
ذی عقل نہ ہووے کیوں وہ مشہور
یہ راست ہے جو کہ ہیں سخن سنج
دولت سے سخن کے ہيں وه بے رخ

نقل کے کہ ایک امیر صاحب توقیر کہ جس کا نام نیک انجام زبان پر لانا مناسب حال نہیں ہے، وہ امیر صاحب توقير شيخ على حزين عزلت گزین کی ملاقات کے واسطے جو مكان دل ستاں میں تشریف فرما ہونے لگا تو شیخ موصوف کا ایک چوب دار نابکار گویا ہوا کہ "خداوند نعمت سپہر کرامت! آپ کے در آمد ہونے کی اس غلام ناکام کو خبر کرنی شرط ہے۔" غرض وہ امیر اس کے سخن کا شنوا نہ ہوا مگر بہ تكدر خاطر شیخ موصوف کے قریب بیٹھ کر یہ مصرع زبان پر لایا: مصرع

در درويش را در بان نہ باید

اس کے جواب میں شیخ جی نے بہ نرمی زبان فرمایا :ع

بہ باید تا سگ دنیا نیاید

مثنوی
سن کے مہجور یہ جواب حقیر
شرم گیں دل میں ہو گیا وہ امیر

صفحہ 312
کیوں نہ وه شخص دل میں ہوئے خفيف
گوش زد جس کے یہ سخن ہو کثیف

نقل ہے کہ ایک روز اکبر بادشاه گیتی پناه گلزار رشک بہار میں سیر کناں تھا کہ ایک بار لالہ داغ دار پر نگاہ جو پڑی تو یہ مصرع رشک شمشاد زبان پر گزرا: مصرع

لالہ در سینہ داغ چوں دارد

اس میں امیر خسرو نیک خو نے عندلیب زبان کو قفس سكوت سے پرواز دے کر گلشن تقریر میں مقرر کیا کہ اے گل حديقہ جاودانی و اے سرو باغ کامرانی! فی الحقيقت: مصرع

لالہ در سینہ داغ چوں دارد

لیکن جواب: مصرع ثانی

عمر کوتاه و غم فزوں دارد

یہ مطلع بوقلمون پر مضمون سن کر ایک طرف سے بیر بل اکمل مثل گل ہنس کر کہنے لگا "پیر و مرشد برحق! غلام ناکام یوں گستاخی کرتا ہے: شعر

لالہ در سینہ داغ چوں دارد
سبز شاخے بہ زیر کوں دارد

مثنوی
مصرع بیر بل کو سن مہجور
دل میں اکبر ہوا بہت مسرور


1- امیر خسرو اور اکبر بادشاہ کے عہد میں تقریبا تین سو سال کا فصل ہے۔ "آب حیات" میں مولانا محمد حسین آزاد نے یہ لطيفہ سودا اور میر جعفر زٹلی کے بارے میں لکھا ہے۔ دیکھیے "آب حیات" ناشر شیخ مبارک على لاہور، صفحہ 175.


صفحہ 313
جو سخن داں ہیں وه سخن گو کی
قدر کرتے ہیں سن کے بات بری

نقل ہے کہ ایک بادشاه عالی جاہ نے عالم سرور میں شراب سخن شیشہ مضامین سے نکال کر ساغر موزوں میں بھر کر یہ مصرع پر کیف کہا: مصرع

ساغر نیمہ و لبريز نہ ديد ست کسے

اور اس کا مصرع ثانی با معانی بادشاہ نے ہر ایک سے طلب کیا۔ اپنے بہ قدر حوصلہ سب نے میدان شاعری میں توسن طبع کو چمکایا مگر کسی شخص کا اشہب خیال کوئے سخن میں نہ دوڑا۔ ایک روز بادشاه عشرت اندوز نے نہایت خفا ہو کر اپنے ملازم افسر شعرا سے یوں کہا کہ "اگر اس مصرع کا مصرع ثانی با معانی صبح تک نہ بہم پہنچائے گا تو والله بالله تجھ مردار کو وقت شام دار پر کھینچوں گا۔" الحاصل اس شاعر بے بدل سے کوئی مصرع برجستہ سر زد نہ ہوا۔ آخر کار اس شاه نام دار عالی وقار نے اپنے سامنے اس شاعر خجستہ جگر کو دار پر کھینچا۔ اس حالت پر ملالت میں اس نیم جان کا ساغر دهان شراب سخن سے جو لبریز ہوا تو یہ مصرع برجستہ زبان پر لایا: شعر

نیم جان کہ یہ لب بود رسید ست بہ لب
ساغر نیمہ و لبريز نہ دید ست کسے

یہ مصرع برجستہ استاع فرما کر بادشاه عالی جاہ نے اس کی جان بخشی کی۔

مثنوی

سچ ہے مہجور جو سخن داں ہیں
قدر داں وہ سخن کے ہر آں ہیں

صفحہ 314
اور جن کو نہیں ہے اس میں دخل
اپنے نزدیک ہیں وہی بے عقل

نقل ہے کہ ایک روز نصف النہار کے قریب نواب
عمدہ الملک نے خانہ باغ کی روش پر گلشن اختلاط میں چاہا کہ اس وقت گنا بیگم غنچہ دھن کے چمن مراد کو آب پاشی عشرت سے سیراب کیجیے۔ اس میں اس گل زیبا اور سرو رعنا نے بہ صد شگفتگی خاطر نواب موصوف سے کہا "آپ خیابان خلوت میں رونق افزا ہوجیے، میں بھی استنجے کی حاجت سے فارغ ہو کر حاضر ہوتی ہوں۔" غرض نواب موصوف اس پری رخسار کے کہنے سے پلنگ غیرت گلزار پر غلطیده ہوئے کہ چشم انتظار پرخمار غنودگی سے نیم خوابی میں آگئی۔ اس عرصے میں گنا بیگم نے جو آ کر در کا پردہ اٹھایا تو نواب موصوف کی نیم خوابی کا پرده فاش ہو گیا۔ یکا یک پردے کو ہاتھ سے چھوڑ کر وہ پر حجاب جونہیں پیچھے کو ہٹی کہ ایک بار نواب نام دار کی آہٹ سے جھٹ آنکھ بیدار ہو گئی۔ اس وقت یہ مصرع بے ساختہ زبان زد ہوا: مصرع

آ کر ہماری لاش پہ کیا یار کر چلے

وہیں گنا بیگم نے جواب دیا: مصرع

خواب عدم سے فتنے کو بیدار کر چلے

یہ مصرع برجستہ گنا بیگم نے پڑھ کر بہ صد عشوه گری بہ ناز پری، یہ خرام کبک دری نواب موصوف کے قریب آ کر نسيم عیش و عشرت سے گل آرزو کو شگفتہ کیا:

مثنوی
کیوں نہ مہجور وہ خوشا اوقات
گل تر کی روش ہنسیں دن رات

صفحہ 315
جن کو الله نے میان جہاں
نعمتیں سو طرح کی دی ہر آں

نقل ہائے کبيشران

نقل ہے کہ سابق میں راجے مہاراجوں کی بیٹیاں رانی زادیاں بادشاہ اولوالعزم ذوی الاکرام کو ڈولے کے طریق پر آتی تھیں اور انھیں کی اولاد میں سے شاہزادے خوزادے تخت سلطنت پر جلوس فرماتے تھے۔ چنانچہ معمول کے موافق ایک رانی كل نو بہار جوانی، بقول میر حسن: شعر

برس پندره یا کہ سولہ کا سن
جوانی کی راتیں مرادوں کے دن

اکبر بادشاہ جم جاہ کے محل سرا دل کشا میں رونق بخش ہوئی۔ ایک شب بادشاه خود مطلب نے اس نو رستہ باغ نو جوانی گلدستہ حديقہ كامرانی کا غنچہ اميد نسيم عشرت سے شگفتہ کرنے کا ارادہ کیا، لیکن وہ نونہال گلشن خوبی اور سرو چمن محبوبی گل عشرت کو خار سمجھ کر خیابان آغوش بادشاہ سے مثل صبا جو ہوا ہوئی تو بادشاہ جم جاہ نے دوڑ کر اس کا ساعد غیرت شاخ گل اپنے پنجہ رشک مرجان میں پکڑا۔ الحاصل ان دونوں کی کشاکش سے رانی مہارانی کے لہنگے کا گره بند ٹوٹ گیا؛ وہیں اس شمع شب افروز چراغ عشرت اندوز نے اپنے دونوں یاتھ ییمات اس واسطے شمع سوزاں پر رکھ دئیے تا کہ چراغ بے ستری صبائے تیرگی سے گل ہو جائے۔ یہ تماشائے حیرت افزا اس ماه دل افروز، رشک بہار نوروز کا دیکھ کر بادشاہ آتش عشق پر سپند آسا تڑپ کر یوں کہنے لگا: چھمچھا

کہہ کارن سندر ہاتھ جری

صفحہ 316
غرض چھمچھا کہتے ہوئے بادشاه عالم پناه محل سے دیوان خاص میں بر آمد ہوئے اور کبیشر زبان آور کو طلب فرمایا۔ چنانچہ اس وقت ایک کبیشر خوش منظر جو کہ خانے میں حاضر تھا۔ حسب ارشاد حضور پر نور دست بستہ حاضر ہوا۔ اکبر بادشاه نے فرمایا "اے کبیشر نیک منظر! اس ارتھ کا کبت پر مضمون موزوں کر دے، یعنی: چھمچھا

کہہ کارن سندر ہاتھ جری

یہ چھمچھا وہ کبیر زبان آور سن کر کہنے لگا: دوہرا

کدھی نہ کا گج ہاتھ لیوں نہ جانوں سیاہی کیسا رنگ
سدا سر ستی داہنے حکم سے بھگوان کے سنگ

اے بادشاہ عالم پناه! اس ارتھ کا یہ کبت ہے:

کبت

نئی آبلہ رس بھید نہ جانت سیج گئی جیہه مانہ ڈری
رس بات کہی چپ چونک چلی تب دهائی کی کنتھ نے بانہ دهری
ان دونوں کے جھک جھوروں میں کٹھ ناب پتمبر ٹوٹ پڑی
کر دیپک کا من جھانپ ليو یہ کارن سندر ہاتھ جری

یہ كبت حسب حال أس كبيشر صدق مقال کا سن کر بادشاہ اکبر آتش غضب پر غلطان ہوا اور طیش میں آ کر کہنے لگا اس کبیشر گیدی خر نے یہ كبت ایسا حسب حال فی الحال کہا کہ گویا یہ خناس میرے پاس کھڑا تھا:

نظم

مقید کرو اس کو زنداں میں اب
میں ہوں غوطہ زن بحر طوفان میں اب


صفحہ 317
غرض اس کبیشر پہ غصہ کیا

اسی وقت زنداں میں بھجوا دیا
وہیں اک کبیشر نے یہ عرض کی
خدا وند ہم سے نہ ہو گا کبھی
که شاہوں کے محلوں میں بے خوف و غم
پھریں چوری چوری سے اس طرح ہم

یہ گفتگو دو بدو دوسرے کبیشر کی سن کر بادشاہ نے خاصه برداران خاص سے کہا کہ "اس کو جید مقید کرو، ہم اور چھمچھا بنا لاتے ہيں۔ دیکھیں تو یہ اس کا جواب باصواب کیوں کر دیتا ہے۔" یہ کہہ کر بادشاه شہنشاه محل کے اندر در آمد ہوئے۔ بعد انفراغ خواب وقت طلوع آفتاب عالم تاب لب دریا جھروکے میں جو آ کے زینت بخش ہوئے تو کیا دیکھتے کہ ایک عورت خوب صورت مہ پاره شب کو اپنے شوہر رشک قمر کے ساتھ ہم بستر ہو کر وقت سحر بے خوف و خطر برائے اشنان بہ صد سامان دریائے جمن میں نازل ہوئی، تو اس وقت کا عالم کیا بیان کروں۔ اس مہ جبین کے پانی چیرنے میں بدن کی چمک تا ںہ فلک تھی۔ جس طرح آب صاف میں ماه تاباں اور مہر در خشاں کی پرچھائیں دیکھتے ہیں اور یکایک وہ پر فن غوطہ زن ہو کر پانی پر جو ابھری تو اس کے بال و بال عارض ہو کر تمام منہ پر آ ریے۔ اس مہ جبين لعبت چین نے جو دونوں ہاتھوں سے ان بالوں کو ادهر ادهر پریشان کیا تو اس کے مکھڑے کا ان بالوں میں پہ نقشہ معلوم ہونے لگا کہ جس طرح آفتاب جہاں تاب کوه پر شکوہ کے درمیان نکلتا ہے۔ یہ عالم وه شاه نیر سپہر اعظم دیکھ کر یہ سخن زبان پر لایا: چھمچھا

صفحہ 318
نکسو رب پھوڑ پھاڑ کے تائیں

الحاصل بادشاه عالم پناه چهمھمچھا كہتے ہوئے محل سے باہر آنے اور دوسرے کبیشر محبوس دل مایوس کو بلوا کے فرمایا "اے کبیشر نیک اختر! اس چھمچھا کا کیا کبت کہتا ہے, جلد بیان کر": چهمجها

نکسو رب پھوڑ پھاڑ کے تائیں

اس ارتھ کا جو عالم میں نے دیکھا ہے، اگر ويسا ہی نہ کہے گا تو تجھ کو ہاتھ پاؤں باندھ کے دریائے سیاست میں ڈبوا دوں گا، یہ سخن دل شکن بادشاہ کا سن کر وہ کبیشر اپنے دیوتاؤں کو منا کر کہنے لگا "خداوند نعمت سپہر کرامت! اس کا یہ مطلب ہے:

کبت
پرات سمیں رس کیل کیوا لى بھور بھيو آٹھ منجن دهائیں
نیر کی چھیر میں دیہ دلی جمنا جل میں جیسے چندر کی چھائیں
لے بڑ کی جل سے ابھری الجھن آنکھیں مکھ اوپر آئیں
دو دو کر کیس سنوار لیو نکسو رب پھوڑ پھاڑ کے تائیں

یہ كبت پر حیرت سن کر وہ بادشاہ عالم پناه دریائے تحير میں مستغرق ہو کر کہنے لگا۔ "یہ كبیشر جادو گر ہیں، سحر کے زور سے ان کا ہم زاد ہمارے ساتھ ساتھ رہتا ہے کیوں کہ جو عالم صبح دم میں نے تن تنہا لب دریا دیکھا تھا، وہی نقشہ ہو ہہ ہو میرے رو برو اس نے زبان قلم سے قرطاس بیان پر کھینچ کر دکھا دیا: شعر

بھلا کیونکر نہ میری عقل ہو دنگ
پیان غیب کرنے کے ہیں یہ ڈهنگ

یہ گفتگو عربده جو اکبر بادشاه گیتی پناہ کی سن کر
بياء

صفحہ 319

کب گنگ کبیشر نیک محضر کہنے لگا "خداوند نعمت! ہم لوگوں کی کیا قدرت اور جرأت ہے کہ زور جادو سے نمک حرامی کریں۔ ہم لوگوں کو سرستی کا بل بر محل البتہ ہوتا ہے، یہ بات واہیات کب گنگ خوش آہنگ کی سن کر بادشاہ چوکی داروں سے فرمانے لگے۔ "اس کب گنگ بے ننگ کو تم ہاتھ پاؤں جکڑ کے پکڑے ر ہو، ہم محل بے دل میں جاتے ہیں، دیکھیں اس کا کہنا کیا ظہور پکڑتا ہے۔
الحاصل بادشاہ جم جاه محل کے اندر رونق افزا ہوئے۔ وہاں ایک حور لقا ماه سیما اپنا سنگار رشک ہار کر کے عطر سہاگ میں ڈوبی ہوئی بام دل آرام کی طرف چلی تھی کہ بادشاہ جم جاہ کا مشام كام ديو بوئے سہاگ سے معطر ہوا تو اس نازنین مہ جبین کا دست سیمیں بغل میں داب کر کوٹھے پر مراجعت فرما ہوئے، لیکن تیسرے زینے پر قدم جو بے قرینے پڑا تو یکایک اس پری رخسار رشک بار کے ساعد سیمیں کا کنگن طلائی ڈھیلے پن سے بادشاہ کی بغل میں رہ گیا اور وہ نازنین مہ جبین زمین پر گر پڑی، اور کنگن رشک چمن بادشاہ کی بغل سے جدا ہو کر اس نازنین کی فرقت میں ہر ایک زینے سے سر ٹکراتا ہوا زمین پر گر پڑا، تو عجب آواز خوش انداز پیدا ہوئی جس پر بادشاہ کو یہ ارتھ سوجها: چهمچھا

ٹھن ٹھن ٹھن ٹھن ٹھکو

اس چھمچھا کو کہتے ہوئے بادشاه عالی جاہ محل سے بر آمد ہوئے اور کب گنگ سے فرمایا کہ "اے کب گنگ خوش رنگ! اس ارتھ کا کیا کیت ہے: چھمچھا

ٹھن ٹھن ٹھن ٹھن ٹھکو

صفحہ 320

یہ کلام بادشاه عالی مقام کا سن کر کب گنگ نے اپنی سرستی کو پہلے یاد کر کے جواب دیا "خدا وند نعمت! یہ كبت یوں ہے:

کبت

انگم سار سو گند لگاوت باس وہیں جو نديس کو مہکو
آئی کر سنگار اٹا کو چلیں منہ دیکھت لالن کو لہکو
کنگن ایک کرو جو کرسوں سڑهن بھرے وه ببکو
کب گنگ کہیں یہ سبد سنو ٹھن ٹھن ٹھن ٹھن ٹھکو

اس کبت پر حیرت کے سنتے ہی بادشاہ جاہ کا زیور حواس گلوئے عقل سے ٹوٹ کر گر پڑا، اور ہوش کی چودانی گوش دماغ سے پرواز کر کے بالا بالا عالم بالا کو پہنچی، اور وہم و فہم کا نورتن بازوئے ادراک سے کھل کر دست بہ دست جاتا رہا، اور حیرانی کی ہیکل اور پریشانی کا طوق گردن قیاس سلطانی سے گلو گیر ہوا، اور انگشتر حیرت انگشت خیال میں تنگ ہو کر انگشت نما یوئی۔ غرض بادشاہ حلقہ تفکر میں ایسے مستغرق ہوئے کہ عقل کی مچھلی پتال کو گئی۔ تب بادشاہ جم جاه نے توڑے دار سپاہیوں کو یہ حکم کرا دیا کہ ان کبیشروں کو زنجیر پائے زیب کر کے چھڑا چھڑا مقید کرو تا کہ یہ آپس میں ناد علی پڑھ کے کچھ دعا تعویذ نہ کرنے پائیں اور بندی خانے کے اندر اپنے پیٹ میں بچھوا مار کے نہ مر جائيں کہ مجھ کو کلنگ کا ٹیکا نہ لگے۔ المدعا بادشاہ جم جاه نے سب کے کبیشروں کو جید مقید کیا۔ چند روز کے بعد ایک کبیشر دلاور حکمت نامی دلی کا شاگرد حضور لامع النور میں حاضر ہو کر شامحانہ اسیس کے بعد
 

ماہی احمد

لائبریرین
صفحہ 169
دم ساز کو دیکھ کر سوئے عدم نہ جائے۔ یہ کلام حیرت التیام اس کا پدر مضطر سن کر نہایت ششدر اور حیران ہوا۔ آخر کار چارو ناچار اس عالی مقدار والا تبار نے دختر رشک قمر کو مواصلت کی اجازت دے دی، لیکن وہ ماہ جبین جوں ہی (1) اس اندہگین کے قریب آ کر چشم سے چشم دوچار ہوئی، یک بیک قوت عشق کی بدولت اٹھ بیٹھا اور اس کی طرف بغور دیکھ کر یوں کہنے لگا: شعر
کہ تجھ کو دیکھ لیں پھر ایک باری
بس اتنی ہی تمنا ہے ہمارے​
یہ کہہ کر وہ مضطر بستر خاک پر گر جاں بحق تسلیم ھوگیا۔ یہ واقعہ حیرت افزا اس کی محبوب دل مرغوب ملاحظہ فرما کر بےاختیار بےقرار ہو کر اس کی نعش جگر خراش سے لپٹ کر یوں کہنے لگی:
مثنوی
اے عاشق جاں نثارمیرے
قربان میں عشق کے ھوں تیرے
کیوں کر نہ ملوں میں ہاتھ ہے ہے!
جی کی رہی جی میں بات ہے ہے!
اپنی نہ کہی، سنی نہ میری
فرصت ہی نہ دی قضا نے تیری​
یہ کہتے کہتے وہ مضطر خستہ جگر آخر کو آخر ہو گئی۔ یہ واقعہ الم افزا اس کے خویش و اقربا دیکھ کر نہایت بے قرار اور اشک بار ہوئے لیکن صبر کے سوا کوئی چارہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسخہ مطبع محمدی بمبئی 1311 میں یہ لفظ نہیں

صفحہ 170
نہ دیکھا بصد رقت ان دونوں کشتہ الفت کو ایک ہی قبر میں مدفون کیا:
مثنوی
خاک میں خاک مل گئی آخر
بات کہنے کو یہ رہی آخر
عشق کی یہ بھی ایک حرفت ہے
ورنہ انسان کی کیا حقیقت ہے
عشق کی داستان اے مہجور
بخدا عقل سے بہت ہے دور​
 
Top