سیما علی
لائبریرین
دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گہہ نورجہاں ہے
مدت ہوئی وہ شمع تہ خاک نہاں ہے
اٹھتا مگر اب تک سر مرقد سے دھواں ہ
جلووں سے عیاں جن کے ہوا طور کا عالم
تربت پہ ہے ان کے شب دیجور کا عالم
اے حسن جہاں سوز کہاں ہیں وہ شرارے
کس باغ کے گل ہو گئے کس عرش کے تارے
کیا بن گئے اب کرمک شب تاب وہ سارے
ہر شام چمکتے ہیں جو راوی کے کنارے
یا ہو گئے وہ داغ جہانگیر کے دل کے
قابل ہی تو تھے عاشق دلگیر کے دل کے!
تجھ سی ملکہ کے لیے بارہ دری ہے
غالیچہ سر فرش ہے کوئی نہ دری ہے
کیا عالم بے چارگی اے تاجوری ہے
دن کو یہیں بسرام یہیں شب بسری ہے
ایسی کسی جوگن کی بھی کٹیا نہیں ہوتی
ہوتی ہو مگر یوں سر صحرا نہیں ہوتی
تعویذ لحد ہے زبر و زیر یہ اندھیر
یہ دور زمانہ کے الٹ پھیر یہ اندھیر
آنگن میں پڑے گرد کے ہیں ڈھیر یہ اندھیر
اے گردش ایام یہ اندھیر! یہ اندھیر
ماہ فلک حسن کو یہ برج ملا ہے
اے چرخ ترے حسن نوازش کا گلا ہے
حسرت ہے ٹپکتی در و دیوار سے کیا کیا
ہوتا ہے اثر دل پہ ان آثار سے کیا کیا
نالے ہیں نکلتے دل افگار سے کیا کیا
اٹھتے ہیں شرر آہ شرر بار سے کیا
یہ عالم تنہائی یہ دریا کا کنارا
ہے تجھ سی حسینہ کے لیے ہو کا نظارا
چوپائے جو گھبراتے ہیں گرمی سے تو اکثر
آرام لیا کرتے ہیں اس روضے میں آ کر
اور شام کو بالائی سیہ خانوں سے شپر
اڑ اڑ کے لگاتے ہیں در و بام کے چکر
معمور ہے یوں محفل جاناں نہ کسی کی
آباد رہے گور غریباں نہ کسی کی
آراستہ جن کے لیے گل زار و چمن تھے
جو نازکی میں داغ دہ برگ سمن تھے
جو گل رخ و گل پیرہن و غنچہ دہن تھے
شاداب گل تر سے کہیں جن کے بدن تھے
پژمردہ وہ گل دب کے ہوئے خاک کے نیچے
خوابیدہ ہیں خار و خس و خاشاک کے نیچے
رہنے کے لیے دیدہ و دل جن کے مکاں تھے
جو پیکر ہستی کے لیے روح رواں تھے
محبوب دل خلق تھے جاں بخش جہاں تھے
تھے یوسف ثانی کہ مسیحائے زماں تھے
جو کچھ تھے کبھی تھے مگر اب کچھ بھی نہیں ہیں
ٹوٹے ہوئے پنجر سے پڑے زیر زمیں ہیں
دنیا کا یہ انجام ہے دیکھ اے دل ناداں
ہاں بھول نہ جائے تجھے یہ مدفن ویراں
باقی ہیں نہ وہ باغ نہ وہ قصر نہ ایواں
آرام کے اسباب نہ وہ عیش کے ساماں
ٹوٹا ہوا اک ساحل راوی پہ مکاں ہے
دن کو بھی جہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گہہ نورجہاں ہے
مدت ہوئی وہ شمع تہ خاک نہاں ہے
اٹھتا مگر اب تک سر مرقد سے دھواں ہ
جلووں سے عیاں جن کے ہوا طور کا عالم
تربت پہ ہے ان کے شب دیجور کا عالم
اے حسن جہاں سوز کہاں ہیں وہ شرارے
کس باغ کے گل ہو گئے کس عرش کے تارے
کیا بن گئے اب کرمک شب تاب وہ سارے
ہر شام چمکتے ہیں جو راوی کے کنارے
یا ہو گئے وہ داغ جہانگیر کے دل کے
قابل ہی تو تھے عاشق دلگیر کے دل کے!
تجھ سی ملکہ کے لیے بارہ دری ہے
غالیچہ سر فرش ہے کوئی نہ دری ہے
کیا عالم بے چارگی اے تاجوری ہے
دن کو یہیں بسرام یہیں شب بسری ہے
ایسی کسی جوگن کی بھی کٹیا نہیں ہوتی
ہوتی ہو مگر یوں سر صحرا نہیں ہوتی
تعویذ لحد ہے زبر و زیر یہ اندھیر
یہ دور زمانہ کے الٹ پھیر یہ اندھیر
آنگن میں پڑے گرد کے ہیں ڈھیر یہ اندھیر
اے گردش ایام یہ اندھیر! یہ اندھیر
ماہ فلک حسن کو یہ برج ملا ہے
اے چرخ ترے حسن نوازش کا گلا ہے
حسرت ہے ٹپکتی در و دیوار سے کیا کیا
ہوتا ہے اثر دل پہ ان آثار سے کیا کیا
نالے ہیں نکلتے دل افگار سے کیا کیا
اٹھتے ہیں شرر آہ شرر بار سے کیا
یہ عالم تنہائی یہ دریا کا کنارا
ہے تجھ سی حسینہ کے لیے ہو کا نظارا
چوپائے جو گھبراتے ہیں گرمی سے تو اکثر
آرام لیا کرتے ہیں اس روضے میں آ کر
اور شام کو بالائی سیہ خانوں سے شپر
اڑ اڑ کے لگاتے ہیں در و بام کے چکر
معمور ہے یوں محفل جاناں نہ کسی کی
آباد رہے گور غریباں نہ کسی کی
آراستہ جن کے لیے گل زار و چمن تھے
جو نازکی میں داغ دہ برگ سمن تھے
جو گل رخ و گل پیرہن و غنچہ دہن تھے
شاداب گل تر سے کہیں جن کے بدن تھے
پژمردہ وہ گل دب کے ہوئے خاک کے نیچے
خوابیدہ ہیں خار و خس و خاشاک کے نیچے
رہنے کے لیے دیدہ و دل جن کے مکاں تھے
جو پیکر ہستی کے لیے روح رواں تھے
محبوب دل خلق تھے جاں بخش جہاں تھے
تھے یوسف ثانی کہ مسیحائے زماں تھے
جو کچھ تھے کبھی تھے مگر اب کچھ بھی نہیں ہیں
ٹوٹے ہوئے پنجر سے پڑے زیر زمیں ہیں
دنیا کا یہ انجام ہے دیکھ اے دل ناداں
ہاں بھول نہ جائے تجھے یہ مدفن ویراں
باقی ہیں نہ وہ باغ نہ وہ قصر نہ ایواں
آرام کے اسباب نہ وہ عیش کے ساماں
ٹوٹا ہوا اک ساحل راوی پہ مکاں ہے
دن کو بھی جہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے