loneliness4ever
محفلین
نوری
از س ن مخمور
از س ن مخمور
ٹریفک سگنل پرہاتھ پھیلاتی نوری دوسرے روز بھی دن بھر کی اپنی تمام کمائی چرسی جیرے کے ہاتھوں سے نہ بچا سکی، اور شام ڈھلتے تھکے ہوئے قدموں اور خالی ہاتھوں کے ساتھ شہر کے بڑے نالے کے نزدیک واقع جھونپڑیوں کے جھنڈ میں داخل ہوئی تو اُس کی آنکھوں میں بھوک کے مارے بلکتے ڈھائی سالہ ماہی اور بوڑھی مائی کی سوال کرتی اُمید سے بھری آنکھوں کا تصور زنجیر بن کر قدموں میں پڑ گیا۔اور اپنی جھونپڑی کی جانب اٹھتے اُس کے قدم رک گئے۔ نشئی باپ کے ہاتھوں مٹھی بھر چرس کے لئے جیرے کو فروخت ہوئی نوری ہاتھ پھیلاتے پھیلاتے اور جیرے سے مار کھاتے کھاتے تھک چکی تھی، زندگی بوجھ کی صورت اُس کی ہر سانس پر مشکل پڑ رہی تھی۔وہ باآسانی شہر کی تیز رفتار ٹریفک سے بھری کسی بھی سڑک پر اِس بوجھ سے چھٹکا را پا سکتی تھی۔ مگر ممتا کی ماری ڈھائی سالہ ماہی کابوجھ اپنے سر سے اُتارنے کی ہمت نہیں کر پاتی تھی اِس لئے چلتی سانسوں میں زہر اُتار رہی تھی۔ باپ نشے کو گلے لگا کر اپنی ہر ذمہ داری سے فارغ ہو چکا تھا اور اب سال بھر سے جیرا بھی نشے سے دوستی کرکے اپنی ہر ذمہ داری سر سے اُتار چکا تھا۔
’’ کاش !!! جیرے کو بھی کوئی خریدار مل جائے؟؟ ماہی کے لئے مزید کچھ سانسیں اُدھار لے لونگی، مائی بھلے سے مر جائے روتے روتے اتنی زندگی گزر گئی اُس کی، موت بھی اُس کی آہیں سن کر اُس کے پاس نہیں آتی ۔کاش ۔۔۔ آسمانی بجلی گر جائے کٹیا پر، چار سال پہلے بھی تو گری تھی، خوش نصیب سعیدہ کو اُس کے بچوں سمیت ساتھ لے گئی۔۔۔ مگر مجھ بدنصیب پر تو ۔۔۔ ‘‘
’’اے نوری !! راستہ چھوڑ ۔۔۔۔ تیرے باپ کا ہے کیا جو بیچ راستے کھڑی ہے؟؟؟ ‘‘
کباڑئیے دینو کی جھنجھلائی ہوئی آواز نوری کو ہوش میں لے آئی اور وہ سمٹ گئی، سر ہلاتا دینو نوری کو گھورتا ہوا اپنا ٹھیلا لے کر آگے چل دیا
’’ ابھی ماہی کو اُٹھاتی ہوں اور بازار والی تیز سڑک پر جا پڑتی ہوں۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔ نہیں۔۔ اگرماہی بچ گیا تو بلکتا رہے گا، اورمیں تو مر کر بھی سکون نہیں پا سکوں گی ۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔‘‘
نوری اپنے جانے کے بعد ماہی کی تنہائی کا سوچ کر کانپ گئی۔ عمر بھر تنہائی کے ہاتھوں سسکتی نوری خوب جانتی تھی بھری دنیا میں تنہائی کے احساس کے ہمراہ جینے کا کرب، مائی کو اُس نے ہمیشہ کوستے ہی سنا تھا، آنکھ کے سامنے جو بھی آ جائے بوڑھی مائی کا کام کوسنے کے سواء کچھ تھا ہی نہیں، باپ کی مار اور جھڑکیوں نے محرومی رگوں میں لہو کی طرح بھر دی تھی، اور مستقل عذاب جیرے سے بیاہ کی صورت زندگی نے اُس کو انعام دیا تھا۔ مگر اِن تمام حقیقتوں کے باوجود ماہی کے لئے نہ وہ مائی بن سکی تھی، نہ باپ اور نہ جیرے کی مانند وحشی۔ زندگی نے اُس کی ممتاکو زندہ رکھ کراُس کو بڑے عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا۔وہ نہ ماہی کو کسی بے اولاد جوڑے کے ہاتھوں فروٖخت کرنے کو تیار تھی، نہ معاشرے میں غربت کے سبب بچوں کو موت کے گھاٹ اُتار نے کی ہمت رکھتی تھی۔
’’ کہیں سے زہر مل جائے یا ایسی دوا جو میری تمام پریشانیاں دور کر دے، پہلے مائی کو پلائوں گی، پھر ماہی کو، اور پھر خود پی لوں گی ۔۔۔۔ نن ۔۔۔ نن ۔۔۔ نہیں، میں اپنی آنکھوں کے سامنے ماہی کو کیسیمرتے دیکھ پائوں گی،۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ میں اُس کا بھوک سے تڑپنا نہیں دیکھ پاتی،اُس کو مرتا کیسے دیکھ پائوں گی ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ نہیں ۔۔نہیں‘‘
اپنی سو چ پرنوری ایک مرتبہ پھر کانپ گئی ا ور لپک کر اپنی جھونپڑی کی جانب بڑھی مگر پھر ٹھٹک کے رک گئی۔ماہی کی بھوک اور مائی کی آنکھوں کا تصورایک مرتبہ پھر اُس کی آنکھوں میں آکر پائوں کی زنجیر بن گیا۔ وہ خالی ہاتھ لئے واپس پلٹنا نہیں چاہتی تھی مگر اپنے ہاتھوں کی محرومی وہ کیسے دور کرے ؟؟ یہ سوال اُس کے جواب کا منتظر تھا۔ وہ اِسی کشمکش میں تھی کہ اُس کے ذہن میں ایک خیال بجلی بن کر چمکا اورپھر فورا ہی اُس نے اپنی جھونپڑ ی کی جانب پشت پھیر لی۔ اور ایک امید لئے وہ تیز تیز قدم اُٹھاتی گندی بستی سے نکل گئی۔
’’یقینا وہاں کچھ مل جائے گا، میرا ماہی بھوکا نہیں سوئے گا، کچھ تو کھلا ہی دونگا میں آج اُس کو‘‘
ایسی ہی باتیں سوچتی وہ بڑے بازار کے پاس والی سڑک تک پہنچ گئی۔شام رات کی آغوش میں دم توڑ چکی تھی اور شب نے اپنے بازو پھیلادئیے تھے۔تیز رفتار ٹریفک سے سجی سڑک کی تیزی ماند پڑ رہی تھی۔ اسٹریٹ لائٹس روشن ہو چکی تھیں جس کے سبب سڑک رات کے اندھیرے سے محفوظ تھی۔نوری نے سڑک عبور کرنے کے لئے دائیں بائیں دیکھا اور قدم اُٹھانے چاہے تو اُس کی نگاہ سڑک کی دوسری جانب روشن اسٹریٹ لائٹ کے ایک پول کے پاس کھڑے سراپے پر ٹھہر گئی۔ بھڑکتے سرخ لباس میں ملبوس اُجلا ، نکھرا سرخی پاوڈر سے آراستہ وجود کھڑا تھا۔نوری کے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی کار سڑک کنارے کھڑی اُس دوکان کے پاس آ رکی، مگر گاہک سودا طے کرنے میں ناکام رہا اور خالی ہاتھ کار آگے بڑھا دی۔ نوری نے اُس کے چہرے کو دیکھا تو وہاں کار والے کیلئے ایک طنزیہ مسکراہٹ نظر آئی۔ اور اِس سے پہلے نوری پھر سڑک عبور کرنے کا سوچتی، ایک اور کار پول کے پاس کھڑے وجود کے پاس آ کر رکھ گئی۔کار کی تیز روشنی کے سبب باریک کپڑے کے بھڑکتے سرخ لباس نے بیوپاری کے مال کونمائش کے لئے عام کر دیا ۔کار میں بیٹھے گاہک نے ہاتھ بڑھا کر سودا طے کرنا چاہا ، اور وہ کچھ باتیں طے کرکے مسکرا کر ڈرائیونگ سیٹ کے برابر والا دروازہ کھول کر بڑے تپاک سے کار میں بیٹھ گئی۔ نوری سمجھ گئی کہ گاہک اپنی بھوک اور اُس کی مانگ کے مطابق سودا طے کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔نوری نے سر کو جھٹکااور تیزی سے سڑک عبور کر گئی۔غریب اور بھیک منگتی تھی مگر یہ منظر دیکھ کر اُس کا لہو گرم ہوگیا۔ اُس نے سڑک کی دوسری جانب پہنچ کر مٹی کا ڈھیلا اُٹھایا اور دُور جاتی کار کی جانب اچھال دیا۔
’’ گندی، میلی ، کلوٹی ۔۔۔۔‘‘
وہ شاید اُس کو خوب بُرا بھلا کہتی مگر ماہی کی بھوک کے خیال نے نوری کو وہاں زیادہ دیر رکنے نہ دیااور وہ جگمگ کرتے بازار میں داخل ہوگئی۔رات کے وقت بازار کی آب وتاب کی بات ہی کچھ اور تھی، برقی قمقموں سے روشن دوکانیں اوراچھے اچھے اُجلے اُجلے چہروں والے خریدار ، ہنستے مسکراتے چہرے سب کچھ نوری کو بچپن میں دیکھے ہوئے اپنے خوابوں کی طرح لگتا تھا۔ بازار کی تمام رونقوں کو سرسری نگاہ سے دیکھتے ہوئے نوری جلد از جلد بازار کی دوسری جانب واقع بڑے میدان پہنچنا چاہتی تھی۔دل اور قدموں کو پکڑتی ہر چمکتی شے کو نظر انداز کرتے ہوئے اچانک اُس کی نظر ایک دوکان کے آگے لگے قد آدم آئینے پر جا کر ٹھہر گئی۔آج سڑک پار دیکھے واقعہ کے بعد پہلی بار چوبیس سالہ نوری کو اپنا آپ الگ سا لگا، ایک اجنبی احساس نے اُس کو تھام لیا۔
’’ سب کچھ تو ہے پاس میرے۔۔۔ مگر اچھا ہے دھول مٹی اور کالک سے سجا ہوا ہے۔۔۔۔ وہ گندی، میلی، ناہنجار ۔۔۔۔‘‘
اپنے بارے میں سوچتے ہوئے اچانک نور ی کاخیال پھر اُس پولکے پاس کھڑے وجود کی جانب چلا گیا اور وہ پھر اُس کوبرا بھلا کہنے لگی
’’چل بھاگ۔۔۔ کیوں اِدھر کھڑی ہے بت بن کر، دوکانداری خراب کرتی ہے‘‘
دوکان کے مالک کی کرخت آواز نے نوری کو اُس کی سوچوں سے آزاد کر دیا اور وہ کچھ کہے بنا تیز تیز قدم اُٹھاتی آگے بڑھ گئی۔ اللہ اللہ کرکے بازار کی حد ختم ہوئی اور نوری میدان کی حدودمیں داخل ہوگئی۔
’’ یقینا مجھے یہاں سے کچھ کھانے کو مل جائے گا۔۔۔۔۔ آم کا موسم ہے مجھے آم تو ضرور ملے جائے گا ‘‘
غربت ، افلاس ، ممتا سے مجبور نوری امید کا دیاروشن کرتے ہوئے میدان میںدوسری طرف بکھرے کچرے کے سمندر کی جانب چل پڑی
’’گلا سڑا، آدھا چوس کر پھینکا ہوا ، کچھ تو مل ہی جائے گا۔۔۔۔ ورنہ کوئی اور شے ضرور مل جائے گی جو بھوک میں سہارا تو دے سکے گی۔۔۔ ماہی کو کچھ تو سکون مل ہی جائے گا، مائی کا کوسنا تو آج رات نہیں ہوگا‘‘
اِن تمام سوچوں کے ساتھ نوری ابھی میدان کے بیچوں بیچ پہنچی تھی کہ کتوں کے بھونکنے کی آوازوں نے اُس کو ایک بار پھر حقیقت کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔ اُس پر لرزا طاری ہو گیا۔کتے کا وجود بچپن ہی سے اُس کے لئے دہشت کی علامت تھا۔اور یہاں تو ایک نہیں جانے کتنے کتوں کا ہونا لازمی تھا۔اُس نے کچرے کے ڈھیر کی جانب اپنی پشت کر لی اور بازار کی طرف پلٹنا چاہا، مگر ماہی کی بھوک نے ایک بار پھر اُس کو پلٹنے سے روک دیا۔ نوری نے آگے پیچھے کی جانب نگاہیں گھماتے ہوئے ٹٹول کر لرزتے ہاتھوں سے میدان میں ادھر ادھر بکھرے پتھروں میں سے ایک پتھر اپنے دائیں ہاتھ میں دبوچ لیا۔ اور پھر شیرنی کی طرح تن کر کھڑی ہوگئی۔
’’ کتے پاس آئے تو پتھرمار کر بھاگا دونگی۔۔۔‘‘
یہ سوچ ذہن میں لا کر نوری نے اپنا دل مضبوط کیا اور اندھیرے میں پھر کچرے کے ڈھیر کی جانب بڑھنے لگی۔بازار میں چمکتی روشنیوں نے اب نوری کا ساتھ مکمل چھوڑ دیا تھا۔ اِس طرف علاقے کی بجلی بھی گئی ہوئی تھی اِس لئے ٹوٹے چاند کی روشنی ہی اندھیرے میں اُس کا واحد سہارا تھی۔ کچرے کے ڈھیر کے پاس پہنچ کر نوری نے اِدھر اُدھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کتوں کو تلاش کیا اور پھر اُن کو نہ پاکر ہاتھ میں پکڑا پتھر پاس رکھ کر اکڑوں بیٹھ کے کچر ے میں ہاتھ مارنے لگی۔آم کے چھلکے ، مکمل چوسی گئی گٹھلیاں اُس کو منہ چڑانے لگیں۔ دل میں جلتے امید کے دئیے کی لو تھر تھرانے لگی۔
’’ کم بخت !!! لگتا ہے کھانے والے ایک ایک پائی وصول کرنے لگے ہیں۔۔۔‘‘
کچرے میں ہاتھ چلاتی نوری جھنجھلاتے ہوئے بڑبڑائی ، اُس کے بڑبڑانے کے سبب کسی نے چلتا منہ روک دیا۔
’’ لے ۔۔۔یہ کھا لے۔۔۔‘‘
کچرے کے ڈھیر کے دوسری طرف بیٹھے کچرا چننے والے مرد نے دونوں ہاتھوں میں پکڑی آم کی گٹھلی اپنے منہ سے ہٹاتے ہوئے نوری کی جانب بڑھا دی۔نوری اپنی جگہ سے اُٹھی اور لپک کر اُس کے ہاتھ سے گٹھلی لے لی۔ اُمید کی بجھتی لُولمحہ بھر کو پھر بھڑک اُٹھی اور پھر مایوسی کے سرد تھپیڑوں کی زد میں آگئی۔ نوری نے بوجھل دل سے آدھی سے زیادہ صاف گٹھلی دینے والے کے ہاتھ میں واپس تھما دی۔
’’ اِس میں اب کچھ نہیں رکھا تو ہی کھا اِس کو ۔۔۔۔ ‘‘
یہ کہہ کر سر جھکائے وہ ایک بار پھر آنکھیں پھاڑے کچرے میں بھوک مٹانے کا سامان ڈھونڈنے لگی۔ جوس کے ڈبوں کو دیکھ کر وہ لپکی مگر لگتا تھا قطرہ قطرہ صاف کرکے ہر ایک ڈبہ ،ہر ایک پھل پھینکا گیا ہے۔ نوری کو مایوس ہوتا دیکھ کرگٹھلی چوسنے والا پھر بولا
’’ تو نے دیر کر دی، کل شام ہونے سے پہلے آنا بہت کچھ مل جائے گا، ابھی تو سب کام کی چیزیں بھوکے لے گئے ہیں‘‘
نوری نے سر ہلایا اور خاموشی سے ہاتھ جھاڑ کے کچرے کے ڈھیر سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ کل پھر آئوں ۔۔۔ مگر کل تک ماہی کا کیا ہوگا ، پچھلے سات دن سے چنا برابر تو اُس کے منہ میں اُتر رہا ہے اور کل سے تو حرام ہے جو مٹی بھی اُس نے چانٹی ہو۔۔۔۔ کل تک کیا ہوگا۔۔۔۔‘‘
یہ سوچتے ہی نوری کی آنکھیں بھرآئیں۔ اُس نے گھونٹ گھونٹ اپنے آنسوئوں کو پیا اور کچھ سوچ کر میدان کے پار پوش علاقے کی جانب چل پڑی۔
’’ باجی ۔۔۔۔باسی روٹی دے دو، کچھ کھانے کو دے دو ۔۔۔۔ ‘‘
اونچی اونچی دیواروں کے سائے میں پہنچ کر نوری نے حلق کے زور سے آواز لگائی، مگر رات کے سناٹے میں اپنی آواز کے سواء اُس کو کچھ سنائی نہ دیا۔
’’ اے خان!! کیا مفت کی روٹی توڑتے ہو، پرے کرو اِس کو ۔۔۔ رات کو بھی سکون نہیں لینے دیتے۔‘‘
اُونچی دیواروں کے پار ایک کھڑکی کھلی اور کسی نے اُس کی غربت کو گالیاں دیتے ہوئے چوکیدار کو ہدایت کی۔ہدایت پاتے ہی خان حرکت میں آگیا، اور دھتکارتے ہوئے نوری کو اُس نے گلی سے نکال دیا۔ نوری چپ چاپ ایک گلی سے نکل کر دوسری گلی میں اپنی قسمت آزمانے، آوازیں لگانے لگی۔ مگر دیواریں ایسی تھیں کہ اُس کی آواز اُن دیواروں کے اُس پار جا نہ سکی اور وہ پندرہ ، بیس منٹ سناٹے میں خاک چھانتی رہی۔ اور پھر تھک ہار کے واپس بازار کی جانب چل پڑی۔ رات کے سائے گہرے ہونے کے سبب اب بازار کی رونق بھی ماند پڑنے لگی تھی۔ نوری نے خریداری کرتے ہوئے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا شروع کر دئیے، کچھ کھلانے کا سوال کرنے لگی۔ مگر اُن کی ضرورتیں نوری کی ضرورتوں سے زیادہ تھیں،اُن کی ضرورتیں پوری ہوتیں تب ہی وہ چند سکے اُس کی پھیلی ہتھیلی پر ڈال جاتے مگر شایداُن چند سکوں کی بھی نوری سے زیادہ اُن کو ضرورت تھی۔نوری کے ہاتھ خالی ہی رہے اور وہ سوال کرتے کرتے پرفیوم کی دوکان کے سامنے رک گئی۔کچھ دیر نوری کے وجود کو خوشبودار ماحول نے برداشت کیا اور پھر ایک کرخت آواز نے اُس سے وہاں کی زمین چھین لی
’’ چل پرے ہٹ، بدبودار ۔۔۔۔ میلی ۔۔۔۔ بھاگ تیری وجہ سے میرے پرفیوم کی خوشبو بھی بدبو دار ہو رہی ہے ۔۔۔‘‘
اور نوری خاموشی سے سر جھکائے دوکان سے ذراد دور کھڑی ہوگئی۔ ہنستے مسکراتے ، تھلیاں اُٹھائے چہرے اُس سے بچتے ہوئے جاتے رہے۔ اور وہ بازار سے بھی مایوس سڑک کنارے آ کھڑی ہوئی۔سڑک کنارے پہنچ کر نوری کو پھر وہی تاجر یاد آگئی۔
’’ خبیث، گندی ۔۔۔۔۔ ‘‘
نوری بڑبڑائی اور ایک بار پھر اُس کو اپنی سوچوں میں برا بھلا کہنے لگی، اچانک ایک خیال نے اُس کی تمام توجہ اپنی جانب مبذول کر لی اور وہ برا بھلا کہنا بھول کر تیزی سے ایک سمت بڑھنے لگی
’’ کچھ ملے گا کھانے کو؟؟‘‘
نوری نے التجائی لہجے سے سوال کیا۔اُمید کی لُو اِس جگہ پہنچ کر پھر بھڑک اٹھی تھی۔
’’ معاف کر، رات کے گیارہ بج رہے ہیں ، اب یہاں کیا بچا ہے،کل مغرب کے بعد آنا۔۔۔۔ پلیٹ بھر چاول ملیں گے‘‘
بازار کی پرلی سمت واقع کسی فلاحی ادارے کی جانب سے قائم لنگر خانے پر مقیم چوکیدار نے نوری کے سوال کا جواب دیکر پھاٹک کا دروازہ بند کر دیا۔اندھیری گلی میں نوری پھر اُمید کے بجھے دئیے آنکھوں میں لیکر سر جھکائے کھڑی رہ گئی۔
’’ یہاں بھی کل ۔۔۔۔ مگر کل آنے سے پہلے پہاڑ سی رات کیسے کٹ سکے گی؟؟؟ چھوٹے بڑے گھروں والے جینے کی تمنا کرتے ہیں اور موت انھیں آ ہی جاتی ہے مگر میں تو اپنے لئے اور ماہی کے لئے مرنے کی خواہش کرتی ہوں مجھے اور میرے ماہی کو ایک ہی وقت میں موت کیوں نہیں آتی؟؟؟ دنیا والوں کی طرح کیا دنیا بنانے والا بھی رحم کرنا چھوڑ چکا ہے۔۔‘‘
اور ایسی ہی جانے کتنی سوچوں نے نوری کی آنکھوں پر احساس کا بوجھ بڑھا دیا۔ اُس نے لرزتے ہاتھوں سے اپنا میلا پھٹاہوا دوپٹہ پکڑکر آنکھوں کو جیسے نچوڑ دیا۔ سڑ سڑ کرکے آنسوئوں کے ساتھ بہتی ناک پر بند باندھا اور دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی پھر سڑک پاس جا پہنچی۔سڑک کنارے خاموش کھڑی وہ ٹک ٹک اُس پول کو تکنے لگی جہاں کچھ وقت قبل اُس نے بھوک، خواہش، مجبوری، مشغلہ، ہوس کے سبب سودا ہوتے دیکھا تھا۔اِس بار نوری نے اُس کو بُرا بھلا نہ کہا اور دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی اُس پول کے پاس بالکل وہاں جا کھڑی ہوئی جہاں وہ کھڑی تھی۔گاڑیاں آتی رہیں ، گزرتی رہیں، روشنیاں اُس پر پڑتی رہیں مگر کوئی بھی کار والا، کوئی بھی بھوکا اُس سے خریداری کرنے نہیں رکا۔
’’ نہیں کوئی نہیں رکے گا، کوئی بھی نہیں ۔۔۔۔۔ وہ تو اجلی تھی، نکھری تھی، سرخی پائوڈر سے سجی اور میں۔۔۔ میں تو دھول مٹی، کالک غبار اوڑھے کھڑی ہوں۔۔۔ ‘‘
یہ سوچ ذہن میں آتے ہی وہ تھکے ہوئے قدموں کے ساتھ پول کے پاس سے ہٹ گئی۔
’’ اُس کے کپڑے بھی اچھے تھے، جوتے بھی اچھے تھے، مگر میر ے پاس تو ایسا کچھ نہیں،۔۔۔۔۔ پیشہ ہوگا اُس کا، میری تو ایک روز کی مجبوری ہے۔۔۔۔مگر ۔۔۔ مجھ جیسی میلی، بدبودار کو کوئی بھوکا کیسے ملے۔۔؟؟‘‘
ایسی باتیں سوچتے سوچتے نوری بوجھل قدموں اور اُمید کے بجھے ہوئے چراغوں کے ساتھ واپسی کا راستہ طے کرتی بڑے نالے کے پاس پہنچ گئی۔ چند قدم اور آگے بڑھی اور پیٹ پکڑکر زمین پر بیٹھ گئی۔سینے میں کھینچائو بڑھنے لگا۔ماہی پر سے چند لمحے جو سوچ پرے ہوئی تو بھوک اُس پر حاوی ہو گئی۔
’’کم بختی ماربھوک جب مجھے یوں تکلیف دے رہی ہے تو میرے ماہی کا کیا حال ہوگا۔۔۔‘‘
یہ سوچتے ہی نوری ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔مگر اُس کے قدم خالی ہاتھ بستی کی جانب نہ بڑھ پائے۔
بھوک، مفلسی، بے رحمی،تنہائی نے اِس پل آگے بڑھ کر اُس کی آ نکھوں پر بندھے بند نوچ کر پھینک دئیے اور نوری وہیں نالے کی چھوٹی سی دیوار سے ٹیک لگائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اُس کی سسکیوں سے زمین کا کلیجہ کانپنے لگا۔فلک پر چمکتا چاند بادلوں کے پیچھے جا چھپا۔تاروں کا نور نوری کی آنکھوں سے بہتے آنسوئوں کے آگے ماند پڑ گیا، میلے میلے رخساروں پر آج برسوں بعد ستارے اُمڈ آئے تھے، شیشے کی مانند صاف شفاف آنسو۔۔۔ نوری برسوں بعد بکھری تھی، مائی کی جھاڑو، باپ کی مار اور شوہر کی لاتیں کھا کھا کر بھی نوری ہمیشہ اپنے آنسوئوں کو پیتی رہی تھی۔ مگر آج اپنے ماہی کی بھوک ، اُس کی تکلیف کے احساس کے سبب جام چھلک پڑے تھے۔ ممتا کی ماری نوری جانے کتنی دعائیں اور شکوے آنسوئوں کے سائے تلے مولا سے کرتی رہی، اور پھر کچھ سوچ کر بہتے آنسوئوں سے اپنا میلا چہرہ صاف کرنے لگی۔ اور آنکھوں پر بند باندھ کر ایک مرتبہ پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ ڈیرے پر جاتی ہوں، وہاں ضرور کسی بھوکے کے معیار پر اُتر جائوں گی۔۔۔۔ کار والوں کے لئے تو میںبدبودار ہوں ، مگر ڈیرے پر کسی کو میرے پاس سے بو نہیں آئے گی۔۔۔‘‘
یہ سوچتے ہی نوری کے دل میں ایک مرتبہ پھر امیدوں کے مدہم چراغ روشن ہو گئے۔
’’ نن ۔۔ نن ۔۔۔ نہیں۔۔ ڈیرے پر جانے کے بجائے آس پڑوس سے مانگ لیتی ہوں، اونچی دیواریں تھوڑی ہیں بستی میں کسی گھر کی، کچی اینٹوں، لکڑیوں ، پیٹیوں کی دیواروں کے پیچھے تو چار گھردور کی آواز بھی پہنچ جاتی ہے۔۔۔ ہاں ۔۔۔ مگر ۔۔۔ کوئی مائی کی وجہ سے جھانکنے بھی نہیں آیا ہوگا۔۔ عذاب ٹلتی بھی نہیں ہے، اتنا تو جی لی، مگر ۔۔ ہاں ماہی اب تک بھوکا ہی ہوگا، رونے کی آواز سکینہ، رشیدہ نے سن تو لی ہوگی لیکن ۔۔۔ مائی کی وجہ سے جھونپڑے میں جھانکا تک نہ ہوگا۔۔۔ بڈھی لڑاکا ۔۔ ‘‘
نوری نے یہ خیال آتے ہی مائی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا، اور ڈیرے کی جانب جانے کا خیال جھٹک کر بستی کی جانب چل پڑی۔ابھی چند قدم چلی تھی کہ پھر راستے میں رک کر زمین کو تکنے لگی۔
’’ پاگل ۔۔۔ وہ تو خود تیری طرح منگتی ہیں، ایک کا شوہر تو جیرے کا یار ہے، چرسی کہیں کا اور ایک کے درجن بھر بچے ہیں، اُن کے پاس جو کچھ ہوگا وہ کھا پی کر تمام ہو گیاہو گا،باقی بھی پیٹ پر ہاتھ رکھے سو گئے ہونگے، اب اس وقت کس کے پاس تیرے لئے کچھ بجا ہوگا۔۔۔‘‘
بستی میں چوبیس سال سے رہنے والی نوری کو بستی والوں کی ایک ایک عادت کا بخوبی علم تھا۔وہ اپنی سوچ پر افسوس کرتی پھر منہ پھیر کے کھڑی ہوگئی۔
’’ ڈیرے پر جا کر دام لگوانے پڑیں گے ۔۔۔۔۔ ‘‘
یہ سوچتے ہوئے نوری نے ڈیرے کی جانب بڑھنا شروع کر دیا۔ ابھی کچھ فاصلہ طے کیا تھا کہ سر سے پائوں تک لرز گئی اور بت بنی پھر بیچ راستے میں کھڑی ہوگئی۔
’’ اگر دام لگ گئے ۔۔؟؟؟۔۔ بھوکا مل گیا تو ۔۔۔۔؟؟؟۔۔ ‘‘
اِس کے بعد کا منظر سوچ کرنوری لرز گئی۔
’’وہ جانے کون ہو؟؟ کیا کچھ کرے؟؟ کتنا وقت لگے؟؟؟ بستی میں پتہ چلا تو؟؟؟؟ ہمیشہ کے لئے میل چڑھ جائے گا۔۔۔۔نہیں۔۔ کبھی نہیں۔۔۔‘‘
یہ سوچتے ہی نوری نے منہ پھیرنا چاہا تو اُس کی آنکھوں میں ماہی کا تڑپنا اُتر گیا۔
’’ ناہنجار۔۔۔ مارے گی کیا اپنے ماہی کو ؟؟؟جلدی چل، اگر وہاں کوئی بھوکا نہیں بچاتو دام کون لگائے گا۔۔۔ظالم ہوگئی ہے دنیا والوں کی طرح ۔۔۔ ماہی کا کچھ خیال نہیں ۔۔۔۔‘‘
نوری یہ سوچتے ہی بھڑک اٹھی اور تیز تیز قدم اُٹھاتی اپنے آپ پر ملامت کرتی ڈیرے پر جا پہنچی۔ڈیرے پر دن نکلا ہوا تھا، لگتا تھا رات کے گیارہ نہیں بلکہ دن کے گیارہ بجے ہیں۔ دن بھر ڈرائیوری کرکے، بسوں پر لٹکتے کنڈیکٹر ، ٹرک ڈرائیور، ٹیکسی چلانے والے غرض روز کا روز کمانے والے ایسے ہی کتنے پیشوں والے لوگ چھابڑ ہوٹل کے اردگرد چٹائی، چارپائی بچھائے چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بیٹھے تھے۔ کوئی گوٹیاں کھیل رہا تھا، کوئی تاش، کوئی دن بھر کی روداد کسی کو سنا رہا تھا، تو کوئی مستقبل کے سپنوں میں کسی کو اپنا راز دار بنا رہا تھا۔ نوری کچھ دیر کھڑی اردگرد کے ماحول کو دیکھتی رہی۔ پھر قریب ہی ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔
’’ نکمی ۔۔۔ مال بیچتے ہیں تو آواز لگاتے ہیں، بازار میں دیکھا تھا ناں کیسے حلق پھاڑے دوکان دار گاہک کو متوجہ کر رہے تھے، سبزی والا صبح سے شام ٹھیلا گلی گلی لئے پھرتا ہے تو کچھ کماتا ہے، اور تو رانیوں کی طرح ایک جانب بیٹھ گئی ۔۔۔۔ ‘‘
نوری نے یہ سوچا اور اپنے آپ پر غصہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی
’’ مگر آواز کیا لگائوں؟؟ اُس نے بھی تو آواز نہیں لگائی تھی۔ بس پول پر لگی لائٹ کی روشنی میں کھڑی ہوگئی تھی۔۔۔۔‘‘
یہ سوچ کر نوری آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی اُس جگہ جا کھڑی ہوئی جہاں روشنی قدرے زیادہ تھی۔ڈیرے پر موجود لوگوں میں سے کچھ نے اُس پر سرسری نظر ڈالی اور پھراپنی باتوں میں، کھیل تماشوں میںمشغول ہوگئے۔ کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد نوری کی آنکھوں میں نااُمیدی کے سائے بڑھنے لگے اور وہ واپسی کے لئے پلٹ پڑی۔
’’ ہوٹل بند ہے ورنہ یہاں ہاتھ پھیلا لیتی۔۔۔۔‘‘
یہ سوچتے ہوئے نوری نے سر جھکا لیا، اُس پر مایوسی کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔
’’ڈیرے پر بیٹھے ہوئے لوگوں سے مانگ۔۔۔۔ بھوکے تو ہیں نہیں جو دام لگائیں تیرے۔۔۔۔ اب تومانگ لے اِن سے۔۔۔ شاید کچھ مل جائے کھانے کو۔۔۔‘‘
یہ خیال آتے ہی نوری اپنی بند مٹھی کھول کر آگے بڑھی ہی تھی کہ ہلکی سی سیٹی کی آواز نے لمحہ بھر میں کتنی ہی امیدوں کے دئیے اُس کی آنکھوں میں روشن کر دئیے۔
’’ یہ سیٹی یقینا میرے ہی لئے ہے، کوئی بھوکا ہے شاید ۔۔ شاید بھوکا ہی ہو ۔۔۔ ذرا مسکرا کر ۔۔۔‘‘
نوری نے یہ سوچتے ہی آنکھوں میں اُمیدوں کے چراغ سجا ئے اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لئے پلٹ گئی۔ ایک مضبوط اور پھیلے ہوئے جسم کا مالک للچائی ہوئی نگاہوں سے اُس کو دیکھ رہا تھا۔
’’ بول ۔۔؟؟‘‘
نوری نے خیال و وجود پر طاری لرزش کو چھپاتے ہوئے ، دل کو مضبوط کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے سیٹی بجانے والے سے سوال کیا۔
’’ چلتی ہے ۔۔۔ ؟؟‘‘
اُس نے قد م نوری کی جانب بڑھاتے ہوئے جواب دیا اور نوری کو اپنے قدموں کے نیچے سے زمین نکلتی محسوس ہوئی، اُس کا دل حلق میں آ گیا، اُس نے بھاگنا اور چیخنا چاہا مگر ماہی کی بھوک نے اُس کو ایسا کرنے سے روک دیا۔نوری نے ماہی کے تصور کو اپنی آنکھوں میں پیوست کر تے ہوئے دریافت کیا
’’ کتنی دیر کے لئے ۔۔۔؟؟‘‘
’’ تجھ جیسی کے سامنے زیادہ دیر کون ٹک سکتا ہے، مگر مجھے گھنٹہ بھر تو دے گی ناں؟؟؟‘‘
اس نے میل اوڑھے نوری کے سراپے کو للچائی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ اب نوری کے برابر آ کھڑا ہوا تھا، نوری کو ایسا لگا کہ اُس کا دل سینہ پھاڑ کر باہر آ گرے گا۔ نوری پلٹی اور تیز تیز قدم اُٹھاتی ڈیرے کی حد سے باہر نکل گئی، وہ پسینہ پسینہ ہو رہی تھی، ماہی کے تصور سے پل کو اُس کا ذہن ہٹا اور وہ لمحے کی بھی تاخیر کئے بناڈیرے سے دُور ہو گئی۔
’’ ارے یہ کیا کیا میں نے ۔۔۔۔۔ اُف ۔۔۔ ۔۔۔ پاس آیا گاہک چھوڑ آئی۔۔۔‘‘
اور وہ ٹھٹک کے رک گئی، اُس کی سانس پھول چکی تھی۔نوری اپنی حرکت پر افسوس کر نے لگی مگرپیچھے کسی کے قدموں کی آواز نے اُس کے افسوس کو خوف میں تبدیل کر دیا، اُس کا رواں رواں کھڑا ہوگیا۔
’’ بہت تیز چلتی ہے تو ۔۔ آ چلیں ۔۔۔ یہاں کچے میں پاس ہی میں نے بس کھڑی کی ہوئی ہے، اُس میں ہی گھنٹہ بھر گزار لیں گے ۔۔۔ آ‘‘
اُس نے نوری کے پاس پہنچتے ہوئے کہا اور قدم آگے بڑھا دئیے مگر نوری جہاں تھی وہیں کھڑیرہی۔اُس نے چند قدم آگے بڑھائے لیکن فورا ہی اُس کو نوری کے پیچھے رہ جانے کا احساس ہوگیا۔
’’چل رک کیوں گئی۔۔۔ گھنٹے بھر میں چھوڑ دونگا تجھے ۔۔۔۔ ‘‘
اُس نے پلٹ کر نوری سے کہا اور یقین دلانے کے لئے قسمیں کھانے لگے۔ نوری پر لرزا طاری تھی۔ وہ اپنی تمام کیفیت کو چھپاتے ہوئے استفسار کیا
’’ کتنے دے گا ۔۔۔۔؟؟ ‘‘
نوری کا سوال سن کر اُس نے دانت نکال دئیے۔۔۔
’’ سو روپے ۔۔۔ ‘‘
مگر نوری کے قدم آگے نہ بڑھے
’’ ارے چل ناں ۔۔۔۔ دو سو دے دونگا ۔۔۔ ‘‘
لیکن نوری ٹس سے مس نہ ہوئی
’’ دیکھ ۔۔ چلتی ہے تو چل ۔۔۔ پانچ سو سے زیادہ نہیں دے سکتا ۔۔۔‘‘
اُس کی بھوک اُس کو مجبور کر رہی تھی اور وہ سوروپے کے ایک نوٹ سے سے پانچ نوٹوں پرراضی ہو گیا تھا مگر نوری تھی کہ خاموش کھڑی اُس کو دیکھے جا رہی تھی۔رات کے اِس پہر جب لوگ اپنا اپنا کاروبار بند کرکے گھروں کو جا چکے تھے۔وہ پانچ سو روپے لے کر کیا کرتی۔ آخرنوری کی خاموشی ٹوٹ گئی
’’ کھانے کو کچھ دے گا ۔۔۔۔۔ ؟؟ ‘‘
نوری کے سوال پر اُس نے پھر دانت نکال دئیے
’’ ہاں ۔۔ ہاں ۔۔ سیب خریدے تھے، وہ رکھے ہیں بس میں۔۔ ۔وہ کھا لینا تو‘‘
یہ سنتے ہی نوری کو جھٹکا لگا اور ماہی کی بھوک مٹانے کی خاطر سیب کا سن کر وہ اُس کے ہمراہ آگے بڑھ گئی۔اندھیرے میں اندھیرے کی سمت بڑھتے ہوئے دونوں خاموش تھے۔ بس ڈرائیور کا دل بلیوں کی طرح اچھل رہا تھا اور نوری کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ بس کے قریب پہنچ کر ڈرائیور نے جلدی سے بس کا بند دروازہ کھولا اور بس میں داخل ہوگیا۔نوری کی آنکھوں میں خوف مر چکا تھا، سیبوں کی خوشبو اُس کو محسوس ہونے لگی ، اُس نے بس میں داخل ہونے کے لئے بس کے دروازے پر لگے ہینڈل کو پکڑا اور بس میں چڑھنے کے لئے ایک پائوں بس کے دروازے پر لگے فٹ اسٹیپ پر رکھا اوراُوپر چڑھنا چاہا۔ عین اُسی وقت نوری کے جھونپڑے میں چٹائی پربھوک سے بلکتے ماہی نے ننھے ننھے گھٹنے اپنے سینے کی جانب سمیٹ لئے ۔ جھونپڑی کی سماعت میں ننھے ماہی کی سسکی اُتر گئی اور وہ بھوک سے نجات پا گیا۔ اُدھرماہی کا خیال اسی پل بس میں چڑھتی ہوئی نوری کے ذہن سے پھسل گیا اوروہ لرز گئی، اُس کی گرفت سے بس کا ہینڈل چھوٹ گیا اورپل بھر میں وہ کمر کے بل زمین پر گر پڑی۔بس ڈرائیور فوراَ بس سے اُترکے نوری کی جانب لپکا مگر ٹھٹک کر پیچھے ہٹ گیا۔ زمین پر گرتے ہوئے نوری کا سر نوکیلے پتھر سے ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں نوری کے سر سے خون بہنا شروع ہو گیا تھا، بھوک ، ذہنی تنائو اور پتھر کی کاری ضرب نے نوری کو بے ہوشی کے سمندر میں غرق کر دیا۔ اِس حالت میں نوری بس ڈرائیور کے لئے تسکین کا سامان نہیں رہی تھی۔ چنانچہ بس ڈرائیور نے منہ پھیرا اور وقت ضائع کئے بنا بس اسٹارٹ کرکے کچے سے پکی سڑک پر آ گیا اور آن واحد میں نوری سے دُور ہو گیا۔ بے ہوش نوری کے سر سے بہتاخون رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ اتنے میں ماہی فضا کے گھوڑے پر سوار اپنی ماں کے پاس آ پہنچا۔ اُس نے نوری کے گال کا بوسہ لیا اور نوری کی آنکھیں کھل گئیں۔ ماہی کو اپنے سامنے دیکھ کر اُس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔نوری نے اپنی آنکھیں ملیں، چاروں جانب دیکھا۔ یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت تھی نوری کی دعا نے قبولیت کا درجہ پا لیا تھا۔ اُجلی نوری میلی اور گندی ہونے سے بچ گئی تھی۔ اُس نے محبت سے ماہی کو اپنے سینے سے لگایا اور اُس کو اپنے ہمراہ لے کربادلوں کے پیچھے چھپے چاند کی سیر کے لئے پرواز کر گئی۔
س ن مخمور
امر تنہائی