نوشت جو تہہ اعراب ۔۔۔۔ اصلاح کے لئے

السلام عليكم
استاد محترم جناب الف عین سر اور احباب محفل
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں ۔۔۔۔

افاعیل : مفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعلن

نَوِشت جو تہہِ اِعراب دیکھ سکتا ہے
پسِ چراغ و تہہِ آب دیکھ سکتا ہے

ستارا جو سَرِ مہتاب دیکھ سکتا ہے
مری دعاؤں کے آداب دیکھ سکتا ہے

کسی کو شک ہو ترے گرم نرم ہاتھوں پر
تو چھو کے ریشم و کمخاب دیکھ سکتا ہے

جسے خبر ہو چراغوں تلے اندھیرے کی
وہی پسِ رُخِ مہتاب دیکھ سکتا ہے

غرور جس کو طوالت کا ہو، برائے سبق
وہ دریا، مُڑ کے یہ تالاب دیکھ سکتا ہے

جو سوچنے کے بھی قابل ہو، ذہن وہ ہی اسے
بغیر نیند کے، بیخواب دیکھ سکتا ہے

جنوں کا کیا ہے، یہ دشت و سراب وحشت میں
رواں اک عالمِ اسباب دیکھ سکتا ہے

گزار دی ترے وعدے پہ عمر سب جس نے
وہ خشک پھول بھی شاداب دیکھ سکتا ہے

جو دھڑکنوں کی زباں کو سمجھ سکے کاشف
مکانِ دل میں پسِ باب دیکھ سکتا ہے
سیّد کاشف

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے البتہ دونوں مطلعے واضح نہیں محض خوبصورت الفاظ کا مجموعہ لگ رہے ہیں، مفہوم بہت مبہم ہو گیا ہے
.. گرم نرم ہاتھوں؟ گرمی کا یہاں کیا ذکر، یہ محاورہ بھی نہیں ۔ محض نرم نرم ہاتھوں کہا جائے
وہ دریا، مُڑ کے یہ تالاب دیکھ سکتا ہے
دریا کے الف کا گرنا اچھا نہیں لگتا یہاں
اور
جو دھڑکنوں کی زباں کو سمجھ سکے کاشف
مکانِ دل میں پسِ باب دیکھ سکتا ہے
میں بھی ابہام زیادہ ہے اور پسِ باب کی ترکیب کچھ اچھی نہیں لگ رہی
 
Top