کاشفی
محفلین
ہم بھی خُورشید و قمر رکھتے ہیں
(محسن نقوی شہید)
نوکِ نیزہ پہ جو سَر رکھتے ہیں
وہ زمانوں کی خبر رکھتے ہیں
ہم کو مت خانماں برباد سمجھ
ہم تو فردوس میں گھر رکھتے ہیں
ہو محبت جنہیں زندانوں سے
سانس لینے کا ہُنر رکھتے ہیں
بُخلِ دریا سے ہمیں کیا مطلب؟
ہم تو کوثر پہ نظر رکھتے ہیں
زور پر شامِ غریباں ہے تو کیا
ہم ابھی دیدہء تر رکھتے ہیں
خاک آلود قباؤں والے
آنکھ میں لعل و گُہر رکھتے ہیں
عرش والوں سے ہے نسبت ہم کو
ہم بھی جبرئیل کے پَر رکھتے ہیں
ہنس کے مٹّی سے بہلنے والے
سلطنت زیرِ اثر رکھتے ہیں
اپنے سینے پہ ہیں ماتم کے نشاں
ہم بھی سامانِ سفر رکھتے ہیں
زیرِ خنجر بھی حسین علیہ السلام ابنِ علی علیہ السلام
ہم غریبوں کی خبر رکھتے ہیں
میرے بچّوں پہ کرم ہو مولاعلیہ السلام!
آپ اکبر سا پسر رکھتے ہیں
دیکھ یہ زخم ، یہ آنسو محسن
ہم بھی خورشید و قمر رکھتے ہیں