فیصل عزیز
محفلین
ہوا کی نرم گود میں سُلا دیا گیا، چراغ
سو، زندگی کے طوق سے ہٹا دیا گیا، چراغ
ہمارے احتجاج پر وہ کوزہ گر بھی خاموش رہا
ہمیں گھما کے چاک پر بنا دیا گیا، چراغ
فلک کے نیلے پازؤں کو سونپ کر اک آفتاب
زمیں کے خاکی جسم پر سجا دیا گیا اک، چراغ
کچھ آیتیں پڑھی گئی تھیں پہلے گیلے جسم پر
پھر اُس کے بعد مجھ میں اک جلا دیا گیا، چراغ
سنہری روشنی کا عکس کرچیوں میں بٹ گیا
جب آئینے کو اک شب دیکھا دیا گیا، چراغ
وہاں پہ روشنی نے دل سے آنکھ تک سفر کیا
جہاں پہ ایک رات کو بجھا دیا گیا، چراغ
اثاثہ گھر کا بٹ رہا تھا بھائیوں میں جب نوید
ہمارے حصے میں بس اک تھما دیا گیا، چراغ
نوید حیدر ہاشمی
کتاب
عشق سید ہے
سو، زندگی کے طوق سے ہٹا دیا گیا، چراغ
ہمارے احتجاج پر وہ کوزہ گر بھی خاموش رہا
ہمیں گھما کے چاک پر بنا دیا گیا، چراغ
فلک کے نیلے پازؤں کو سونپ کر اک آفتاب
زمیں کے خاکی جسم پر سجا دیا گیا اک، چراغ
کچھ آیتیں پڑھی گئی تھیں پہلے گیلے جسم پر
پھر اُس کے بعد مجھ میں اک جلا دیا گیا، چراغ
سنہری روشنی کا عکس کرچیوں میں بٹ گیا
جب آئینے کو اک شب دیکھا دیا گیا، چراغ
وہاں پہ روشنی نے دل سے آنکھ تک سفر کیا
جہاں پہ ایک رات کو بجھا دیا گیا، چراغ
اثاثہ گھر کا بٹ رہا تھا بھائیوں میں جب نوید
ہمارے حصے میں بس اک تھما دیا گیا، چراغ
نوید حیدر ہاشمی
کتاب
عشق سید ہے