نوید ظفر کیانی : چلو، اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

سید زبیر

محفلین
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
تو انٹرنیٹ کھولے اور چیٹنگ روم جا پہنچے
کسی رومانی چینل میں ہوں میں منتظر تیرا
بڑے ہی مان سے میں تجھ سے پوچھوں تیرا اے ایس ایل
تو لکھے سترہ برس کی، وطن انگلینڈ ہے میرا
میں لکھوں ، بیس کا سن ہے، میں ٹورانٹو میں بیٹھا ہوں
یہیں اک اشتہاری کمپنی میں جاب ہے میری
تو لکھے ، میں نمانی ہوں، ادب سے شغل رکھتی ہوں
میں لکھوں ، ہائے، اف اللہ ! تہی تو خواب ہے میری
تو لکھے کیٹس اور ٹیگور پر میں جان دیتی ہوں
میں لکھوں کون ہیں یہ جو; رقابت پر ہیں آمادہ
تو لکھے ، آنجہانی ہیں ، بڑے معروف شاعر تھے
میں لکھوں، پارڈن می ! کیا سمجھ بیٹھا تھا میں سادہ
بہت سی ہم میں باتیں ہوں، بہت سی فقرہ سازی ہو
بہت سے جھوٹے افسانے کہیں اک دوسرے سے ہم
یوں اک دوجے میں کھو جائیں ، بھلا دیں ساری دنیا کو
بھلا دیں وقت کی ظالم حقیقت کو سرے سے ہم
بھلا دیں وقت کو ایسے، خبر نہ ہو سکے یکسر
یونیورسٹی سے بیٹا اور بیٹی لوٹ آئے ہیں
تو ان کی کھلکھلاہٹ سن کر سی پی یو کو شٹ کر دے
انہیں معلوم ہے ، ماں باپ نے جو گل کھلائے ہیں
ہمیں وہ لیلٰی مجنوں کہہ کر چھیڑیں ، اور ہم بوڑھے
بہت جھینپیں جوانوں سے ، بہت شرمائیں ہم دونوں
مگر جب اگلا دن آئے ، یہی تجھ سے ہو فرمائش
چلو، اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

نوید ظفر کیانی

 
Top