نو بائیکاٹ......نظم

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم

ہمارےشہر میں آج کل اور پرسو سوشل میڈیا کے توسط سے پھل فروشوں کے خلاف boycott کیا جا رہا ہے یعنی آج کل اور پرسو کوئی ان سے پھل نہ خرید ے.اس حوالے سے میں نے بھی ایک نظم لکھی سوچا whatsapp کے ساتھ ساتھ یہاں بھی پیش کروں.

نو بائیکاٹ....No boycott


میں تو ٹھیلوں سے پھل خریدوں گا
آج بھی اور کل خریدوں گا
ٹھیلے والوں سے گر عداوت کی
ہےعلامت یہ بھی شقاوت کی
ان بچاروں کی زندگی نہیں کهیل
ایک دن تو بھی پھل کا ٹھیلہ دھکیل
سخت گرمی کڑکتی دھوپ میں چل
اےسی والے ذرا مکاں سے نکل
مفت پھر سب میں بانٹ پھل اے بھائی
میں بهی دیکھوں ہے کتنا حاتم طائی
تیرے بھی نیچے سے پسینہ بہے
تو پسینے میں بغض و کینہ بہے
ٹھیلےوالوں کا درد کر محسوس
بھائی کنجوس بلکہ مکھی چوس!
ایسی غم خواری کے مہینے میں
مرتا ہے مفلسوں کے کینے میں
دوکمانے... کما رہے ہیں حلال
ان غریبوں کو آگیا جو جلال
یہی پستول تان لیں گے پھر
آپ ہر بات مان لیں گے پھر
اب تو کہتے ہیں آپ پیسے نہیں
ہم بھی دیکھیں گے پھر کہ کیسے نہیں
ٹھیلےوالوں سے دشمنی کیا ہے
ان غریبوں کی زندگی کیا ہے
عمر کٹتی ہے حسرتیں کرتے
رات دن جیتے رات دن مرتے
ہوگی اصلاح سازشوں سے نہیں
ایسی بیکار کاوشوں سے نہیں
میں تو ٹھیلوں سے پھل خریدوں گا
آج بھی اور کل خریدوں گا
 

محمداحمد

لائبریرین
بلاشبہ پھل خریدیے اور جس سے چاہے خریدیے۔

تاہم اس بات کا بھی پتہ لگائیے کہ رمضان شروع ہوتے ہی سو والا پھل دو سو کا ہو جاتا ہے اُس کے پیچھے کون سا مافیا ملوث ہے؟

ناجائز منافع خوری ہمارے ہاں ہر طبقے میں موجود ہے چاہے وہ محض ٹھیلے ولا ہو یا دوکاندار ، آڑھتی ہو یا بیوپاری۔

سب سے عجیب بات تو یہ ہےکہ ہمارے ہاں چیزیں سودے بازی کر کے بیچی جاتی ہیں۔ یعنی بکنے والی شے کی قیمت کتنی ہے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ بیچنے والا اسے کتنے میں بیچ سکتا ہے۔ یعنی سو والی چیز ہزار میں بیچ دینا بے ایمانی نہیں، فن ہے۔ اب جب معاشرے میں یہی فن چلتا ہو تو فنکاریاں تو دیکھنے کو ملیں گی ہی۔
 

فرقان احمد

محفلین
ہم ہجوم سے قوم بننے کا سفر آہستہ روی سے طے کر رہے ہیں؛ اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بائیکاٹ ایک لحاظ سے خوش آئند پیش رفت ہے۔ ٹھیلے والوں کا ہمیں بھی خیال ہے تاہم یہ بائیکاٹ صرف ان کے خلاف نہیں ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ناجائز نفع خوری کیا چیز ہے مجھے نہیں معلوم .جتنا میں نے فقہ کو پڑھا ہے یہ جانتا ہوں کہ میں اپنی جائز چیز خواہ سو روپے میں بیچوں یا ہزار میں حرام نہیں اگر بیع کے دوسرے اصول پورے ہیں . البتہ اگر حکومت مجھے کسی ریٹ لسٹ کے ذر یعے پابند کرتی ہے تو حکومت کے ان قوانین کی بجا آوری جو شریعت سے متصادم نہ ہوں بھی مجھ پر واجب ہیں... مختصر یہ کہ حکومت نے اگر آم کے نرخ طے نہیں کیے تو کوئی پھل فروش سو روپے کلو کے آم پانچ سو میں بھی بیچ دے تو خلاف مروت ہے خلاف شریعت نہیں..ویسےیوں کبھی ہوا نہیں دس بیس روپے کا نفع ہی کماتے ہیں یہ بیچارے ...

بچپن میں والدہ سے ناراض ہو کر کبھی کھانا نہیں کھاتا تو وہ یہی کہتی تھیں کہ یہ خدائی سزا ہے والدہ کا دل دکھانے کی....آگےحد ادب...

میرے نزدیک بائیکاٹ کا با محاورہ ترجمہ بھائی کو بھائی سے کاٹنا ہے اور کچھ نہیں.
 
Top