نِبھ ہی جاتی جو محبّت کو نبھاتے جاتے-----برائے اصلاح

الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن
۔۔۔۔۔۔۔۔
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نِبھ ہی جاتی جو محبّت کو نبھاتے جاتے
گر خطاؤں کو ہماری وہ بھلاتے جاتے
------------
ہم نے ان کی ہی محبّت کو بسایا دل میں
کاش وہ بھی تو ہمیں دل میں بساتے جاتے
------------
دل میں اپنے جو مرا پیار بسایا ہوتا
پھر مرے دل کو سدا یوں نہ جلاتے جاتے
------------
روک لیتا نہ اگر ہم کو وہ یوں رونے سے
ہم تو اشکوں کو سدا یوں ہی بہاتے جاتے
-------------
ہم کو آنے سے اگر تم نے نہ روکا ہوتا
تب محبّت میں تری روز ہی آتے جاتے
--------------
ہم نے چاہت کو تمہاری ہی مقدّم سمجھا
دل ہمارا نہ سدا تم بھی جلاتے جاتے
---------
ہوش آیا ہے تجھے آج نہ آتا ارشد
گر وہ نظروں سے تجھے جام پلاتے جاتے
--------------
 

الف عین

لائبریرین
ابھی ابھی جو غزل دیکھی ہے، اس کے مقابلے میں یہ صاف لگتا ہے کہ کسی مبتدی تک بند کی ہے!
اکثر اشعار مفہوم کے اعتبار سے دو لخت لگتے ہیں یا ایک ہی خیال دہرایا ہوا لگتا ہے۔
مثلاً مقطع کو ہی لوں
ہوش آیا ہے تجھے آج نہ آتا ارشد
گر وہ نظروں سے تجھے جام پلاتے جاتے
------------ نظروں سے جام پلانے سے ہوش آتا ہے؟ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ اگر نظروں سے پلاتے، یعنی کہ محبوب نے یہ جام نہیں پلایا! پھر کءسے ہوش آ گیا
 
Top