نِکل جانے کا یہ ارماں بڑی مُشکل سے نِکلے گا غزل نمبر 125 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
نِکل جانے کا یہ ارماں بڑی مُشکل سے نِکلے گا
فلک بھی چِیر دے گا نالہ جو اِس دِل سے نِکلے گا

اگر قاضی خُدا ترس اور سچا ہو تو کیا شک ہے؟
لہو کا ایک قطرہ خنجرِ قاتِل سے نِکلے گا

سدا حامی رہو سچ کے، ہمیشہ مُنتظر رہنا
کوئی حق کا پیامی بھی صفِ باطِل سے نِکلے گا

مسیحا نے دُعا دِی ہے تو اب مایوس مت ہونا
تُمہارا ڈُوبنے والا اِسی ساحِل سے نِکلے گا

نہ اپنی ساکھ رُسوا ہو، نہ اُن کی ذات رُسوا ہو
کوئی تو درمیانہ راستہ عادِل سے نِکلے گا

مُنافق چُھپ نہیں سکتا سدا جُھوٹے لِبادے میں
کبھی تو سانپ اپنے آپ اپنے بِل سے نِکلے گا

اندھیرے رات کے مِٹ جائیں گے خُورشیدِ روشن سے
یہ خوفِ رہزنی بھی رہبرِ منزل سے نِکلے گا

ہماری جاں مچلنے دو، ذرا بے کل تو ہونے دو
ابھی درد اور بھی کُچھ عِشق کے بِسمل سے نِکلے گا

وہ شامِل ہے مری جاں میں بُھلاؤں کِس طرح اُس کو
قیامت تک نہ وہ اب اِس دِلِ مائل سے نِکلے گا

ازل سے حُسن سے کیوں عِشق ہوتا ہے خُدا جانے
کوئی حل اِس مُعمہ کا کِسی قابِل سے نِکلے گا

خُدا محفوظ رکھے، آئے گا شیطاں کے نرغے میں
خُدا کا نام جِس دِن بھی دِلِ غافل سے نِکلے گا

بُلائے بِن ہی آیا ہے بڑا ہے بے ادب
شارؔق
بہت بے آبرُو ہو کر تری محفل سے نِکلے گا
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
نِکل جانے کا یہ ارماں بڑی مُشکل سے نِکلے گا
فلک بھی چِیر دے گا نالہ جو اِس دِل سے نِکلے گا
واضح نہیں، کہاں سے کس کے نکل جانے کا؟

اگر قاضی خُدا ترس اور سچا ہو تو کیا شک ہے؟
لہو کا ایک قطرہ خنجرِ قاتِل سے نِکلے گا
ترس، ت اور ر پر زبر ہوتا ہے، ر پر جزم نہیں، مفہوم بھی واضح نہیں


سدا حامی رہو سچ کے، ہمیشہ مُنتظر رہنا
کوئی حق کا پیامی بھی صفِ باطِل سے نِکلے گا
ہمیشہ منتظر رہنا والا ٹکڑا جملہ معترضہ لگتا ہے، اس کی جگہ کچھ اور کہو، جیسے
تو ممکن ہے کہ ایسا ہو
مسیحا نے دُعا دِی ہے تو اب مایوس مت ہونا
تُمہارا ڈُوبنے والا اِسی ساحِل سے نِکلے گا
تمہارا ڈوبنے والا؟ سے کیا مطلب ہے؟

نہ اپنی ساکھ رُسوا ہو، نہ اُن کی ذات رُسوا ہو
کوئی تو درمیانہ راستہ عادِل سے نِکلے گا
عادل قافیہ غلط استعمال ہوا ہے

مُنافق چُھپ نہیں سکتا سدا جُھوٹے لِبادے میں
کبھی تو سانپ اپنے آپ اپنے بِل سے نِکلے گا
سدا کا استعمال غلط ہے، کبھی استعمال کرو تو درست ہے، یعنی
.... کبھی جھوٹے لبادے میں

اندھیرے رات کے مِٹ جائیں گے خُورشیدِ روشن سے
یہ خوفِ رہزنی بھی رہبرِ منزل سے نِکلے گا
.. دو لخت لگتا ہے، یعنی دونوں مصرعوں میں ربط نہیں

ہماری جاں مچلنے دو، ذرا بے کل تو ہونے دو
ابھی درد اور بھی کُچھ عِشق کے بِسمل سے نِکلے گا
یہ بھی قافیہ بندی ہے، عشق کے بسمل سے نکلنا مہمل ہے


وہ شامِل ہے مری جاں میں بُھلاؤں کِس طرح اُس کو
قیامت تک نہ وہ اب اِس دِلِ مائل سے نِکلے گا
ٹھیک

ازل سے حُسن سے کیوں عِشق ہوتا ہے خُدا جانے
کوئی حل اِس مُعمہ کا کِسی قابِل سے نِکلے گا
یہ بھی قافیہ بندی ہے، شعر نکال دو

خُدا محفوظ رکھے، آئے گا شیطاں کے نرغے میں
خُدا کا نام جِس دِن بھی دِلِ غافل سے نِکلے گا
ٹھیک

بُلائے بِن ہی آیا ہے بڑا ہے بے ادب شارؔق
بہت بے آبرُو ہو کر تری محفل سے نِکلے گا
درست،، بہت بے آبرو.... والا فقرہ واوین میں رکھو کہ مشہور مصرع کا ٹکڑا ہے
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر رہنمائی کے لئے سپاس گزار ہوں۔
مطلع کو دو اشعار میں تبدیل کیا ہے ان دونوں اشعار کا پہلا مصرعہ تبدیل کردیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
اُنہیں پانے کا ارماں جانے کب اِس دِل سے نِکلے گا؟
نِکل جانے کا یہ ارماں بڑی مُشکل سے نِکلے گا

ستانا مت بے واؤں کو، یتیموں کو، غریبوں کو
فلک بھی چِیر دے گا نالہ جو اِس دِل سے نِکلے گا


پہلا مصرعہ تبدیل کیا ہے اب مفہوم بھی واضع ہے۔(یعنی اگر قاضی انصاف سے کام لے تو وہ مقتول کا انصاف دلاسکتا ہے اور قاتل کو سزا دلاسکتا ہے۔)
مِلے مقتول کو اِنصاف، اگر صادق ہو اِک قاضی
لہو کا ایک قطرہ خنجرِ قاتِل سے نِکلے گا


اصلاح کے بعد۔۔
سدا حامی رہو سچ کے، تو مُمکن ہو کہ ایسا ہو
کوئی حق کا پیامی بھی صفِ باطِل سے نِکلے گا


تمہارا ڈوبنے والا؟ سے کیا مطلب ہے؟
مطلب یہ ہے کہ اگر مسیحا چاہے تو کیا نہیں کرسکتا؟ کیوں کہ یہ طاقت اُسے اللہ نے عطا کی ہے مثال کے طور پر حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک بارہ سال پہلے
ڈُوبی ہوئی کشتی کو نکالا تھایعنی مسیحا نے اگر ہمارے حق میں دعا کردی ہے تو اطمینان رکھو اور مایوس نہ ہونا وہ ضرور پوری ہوگی چاہے وہ کوئی ڈوبی ہوئی کشتی ناممکن بات ہی کیوں نہ ہو۔
مسیحا نے دُعا دِی ہے تو اب مایوس مت ہونا
تُمہارا ڈُوبنے والا اِسی ساحِل سے نِکلے گا


اصلاح کے بعد۔۔عادل کو عامل کردیا ہے۔
نہ اپنی ساکھ رُسوا ہو، نہ اُن کی ذات رُسوا ہو
کوئی تو درمیانہ راستہ عامِل سے نِکلے گا


اصلاح کے بعد۔۔
مُنافق چُھپ نہیں سکتا کبھی جُھوٹے لِبادے میں
کبھی تو سانپ اپنے آپ اپنے بِل سے نِکلے گا


سر یہ شعر آپ کو دولخت کیوں لگ رہا ہے میری ناقص عقل کے مطابق رہزنی کا خوف زیادہ تر رات کے اندھیرے میں ہی ہوتا ہے صبح کے اجالے میں ایسے واقعات کم ہی رونما ہوتے ہیں دوسرے لفظوں میں خوفِ رہزنی کو رات کے اندھیرے سے تشبیہ دی ہے اور خُورشیدِ روشن کا رہبرِ منزل کہا ہے۔
اندھیرے رات کے مِٹ جائیں گے خُورشیدِ روشن سے
یہ خوفِ رہزنی بھی رہبرِ منزل سے نِکلے گا


اصلاح کے بعد۔۔
بُلائے بِن ہی آیا ہے بڑا ہے بے ادب شارؔق
"بہت بے آبرُو" ہو کر تری محفل سے نِکلے گا
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر رہنمائی کے لئے سپاس گزار ہوں۔
مطلع کو دو اشعار میں تبدیل کیا ہے ان دونوں اشعار کا پہلا مصرعہ تبدیل کردیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
اُنہیں پانے کا ارماں جانے کب اِس دِل سے نِکلے گا؟
نِکل جانے کا یہ ارماں بڑی مُشکل سے نِکلے گا

ستانا مت بے واؤں کو، یتیموں کو، غریبوں کو
فلک بھی چِیر دے گا نالہ جو اِس دِل سے نِکلے گا
نکل جانے کا.... اب بھی بے ربط ہے
بواؤ تقطیع غلط ہے
ستاؤ گے جو بیواؤں، یتیموں کو، تو پھر اک دن
پہلا مصرعہ تبدیل کیا ہے اب مفہوم بھی واضع ہے۔(یعنی اگر قاضی انصاف سے کام لے تو وہ مقتول کا انصاف دلاسکتا ہے اور قاتل کو سزا دلاسکتا ہے۔)
مِلے مقتول کو اِنصاف، اگر صادق ہو اِک قاضی
لہو کا ایک قطرہ خنجرِ قاتِل سے نِکلے گا
یہ مطلب صرف پہلے مصرع سے نکلتا ہے، دوسرے مصرع میں لہو کا ایک قطرہ کی خصوصیت واضح نہیں
اصلاح کے بعد۔۔
سدا حامی رہو سچ کے، تو مُمکن ہو کہ ایسا ہو
کوئی حق کا پیامی بھی صفِ باطِل سے نِکلے گا
درست
تمہارا ڈوبنے والا؟ سے کیا مطلب ہے؟
مطلب یہ ہے کہ اگر مسیحا چاہے تو کیا نہیں کرسکتا؟ کیوں کہ یہ طاقت اُسے اللہ نے عطا کی ہے مثال کے طور پر حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک بارہ سال پہلے
ڈُوبی ہوئی کشتی کو نکالا تھایعنی مسیحا نے اگر ہمارے حق میں دعا کردی ہے تو اطمینان رکھو اور مایوس نہ ہونا وہ ضرور پوری ہوگی چاہے وہ کوئی ڈوبی ہوئی کشتی ناممکن بات ہی کیوں نہ ہو۔
مسیحا نے دُعا دِی ہے تو اب مایوس مت ہونا
تُمہارا ڈُوبنے والا اِسی ساحِل سے نِکلے گا
مثال کے طور پر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ڈوبنے والی کشتی تھی جو بارہ سال بعد نکلی؟
اصلاح کے بعد۔۔عادل کو عامل کردیا ہے۔
نہ اپنی ساکھ رُسوا ہو، نہ اُن کی ذات رُسوا ہو
کوئی تو درمیانہ راستہ عامِل سے نِکلے گا
یہ بھی درست نہیں
اصلاح کے بعد۔۔
مُنافق چُھپ نہیں سکتا کبھی جُھوٹے لِبادے میں
کبھی تو سانپ اپنے آپ اپنے بِل سے نِکلے گا


سر یہ شعر آپ کو دولخت کیوں لگ رہا ہے میری ناقص عقل کے مطابق رہزنی کا خوف زیادہ تر رات کے اندھیرے میں ہی ہوتا ہے صبح کے اجالے میں ایسے واقعات کم ہی رونما ہوتے ہیں دوسرے لفظوں میں خوفِ رہزنی کو رات کے اندھیرے سے تشبیہ دی ہے اور خُورشیدِ روشن کا رہبرِ منزل کہا ہے۔
اندھیرے رات کے مِٹ جائیں گے خُورشیدِ روشن سے
یہ خوفِ رہزنی بھی رہبرِ منزل سے نِکلے گا
رہبر کے دل سے تو خوف نکل سکتا ہے، لیکن انسانی جسم میں تو خوف شامل نہیں!
رہبر کا کام ہی یہ ہے کہ وہ اپنے قافلے کی ہر خطرے سے حفاظت کرتے ہوئے منزل تک پہنچائے
خیال مجھے اب بھی درست نہیں لگتا
اصلاح کے بعد۔۔
بُلائے بِن ہی آیا ہے بڑا ہے بے ادب شارؔق
"بہت بے آبرُو" ہو کر تری محفل سے نِکلے گا
"بہت ے آبرو ہو کر" کے ٹکڑے کو واوین میں لانے کا لکھا تھا
 
Top