نِکہت بریلوی ::::: اب اُس کی یاد ستانے کو بار بار آئے ::::: Nikhat Barelvi

طارق شاہ

محفلین
غزلِ

اب اُس کی یاد ستانے کو بار بار آئے
وہ زندگی جو تِرے شہر میں گُزار آئے

تِری لگن نے زمانے کی خاک چَھنوائی
تِری طلب میں، تمام آرزوئیں ہار آئے

یہ بے بسی بھی نہیں لُطف اِختیار سے کم
خُدا کرے نہ کبھی دِل پہ اِختیار آئے

قدم قدم پہ گُلِستاں کِھلے تھے رستے میں
عجیب لوگ ہیں ہم بھی، کہ سُوئے دار آئے

نہ چہچہے، نہ سرودِ شگفتگی، نہ مہک
کسے اب ایسی بہاروں پہ اعتبار آئے

جنُوں کو ابکے گریباں سے کیا مِلے گا، کہ ہم
بَفیضِ موسمِ گُل پیرہن اُتار آئے

یہ فخْر کم تو نہیں کُوئے یار میں نِکہت
نہ شرمسار گئے تھے ، نہ شرمسار آئے

نِکہت بریلوی، کراچی پاکستان
 
Top