کاشفی
محفلین
خفیف و لطیف طنز و مزاح۔۔۔۔
روزے رکھنا ہم نے اُسی وقت سے ہی شروع کر دیا تھا جب ہمیں یہ علم ہوا کہ کھاناپینا ہمارے لئے کتنا ضروری ہے۔بچپن میں ایک رمضان کی تپتی ہوئی دھوپ کا ذکر ہے کہ ہم روزے سے تھے اور اِفطار کی منزل ابھی دُور تھی۔ ہماری والدہ پاس بیٹھی چاول چُن رہی تھیں کہ بے خیالی میں ہم نے چاول کی ایک چُٹکی اُٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ والدہ نے چیخ کر ہمیں یاد دلا یا کہ ہمارا روزہ ہے۔ ہمیں بڑا افسوس ہُوا کہ کہیں ہمارا روزہ تو نہیں ٹوٹ گیا۔ پھِر اُنھوں نے اطمینان دِلایا کہ۔۔۔ "نہیں ! اگر بھُول سے کچھ کھا لِیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا"۔ یہ جان کر ہمیں پہلے سے بھی زیادہ افسوس ہُوا کہ کاش ہم بھُول سے پانی کا ایک بڑا سا گلاس پی گئے ہوتے۔ کوئی فرحت بخش شربت ہی منہ میں اُنڈیل گئے ہوتے۔ اُ س کے بعد ہم نے کئی روزے رکھے اور بہت کوشش کی کہ بھول جائیں۔ ایک لمحہ کے لئے ہی سہی مگربھول جائیںکہ ہمارا روزہ ہے۔ لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔
اُن ہی دِنوں کی بات ہے جب ہمیں لوگ چاند کہتے تھے۔تب ہم یہ سمجھتے تھے کہ چاند صرف سال میں دو مرتبہ ہی نظر آتا ہے۔وہ بھی اِتنا سا۔ ۔۔ ) ۔۔۔ اور ذرا تِرچھا۔اِس کے علاوہ بھی ہم نے کئی بارپُورا پُورا چاند بھی دیکھا لیکن کسی کو اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھتے ہُوے نہیں دیکھا۔ جبکہ رمضان و عید کا چاند نظر نہ بھی آئے تو ہم نے بہت سوں کو بڑے اہتمام کے ساتھ دیکھتے ہوئے دیکھا ہے۔بلکہ شہادت دیتے ہُوئے بھی دیکھا ہے۔ ہم بھی یہ دونوں چاند بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔اپنے چھوٹے چھوٹے قدموں سے دو ۔۔دو سیڑھیاں پھلانگتے ہُوئے مسجد کی چھت پر چڑھ جاتے اور جہاں سَر اُٹھایا وہیں چاند تلاش کر نے لگتے۔وہاں۔۔۔ شام کے دھُندلکے میں ہر بچہ الگ الگ سمت میں چاند ڈھونڈتا نظر آتا۔ گویا ہر بچے کہ لئے الگ الگ چاند نکلنے والا ہو۔ ہماری کیفیت دیکھ کر کوئی بڑا ہمیں اپنی گود میں اُٹھا کر اُنگلی کے اِشارے سے چند درختوں کے پیچھے آپس میں گُتھم گُتھا بجلی اور ٹیلفون کے تار دِکھاتا ۔ پھِرآسمان سے باتیں کرتیں اُونچی اُونچی عمارتیں ۔اور اُن کے بیچ میں سے خالی جگہ تلاش کر کے گھوڑوں ، پہاڑوں اور غباروں کی شکل کے بادل دِکھاتا۔
ہم اِس تمھید پر بے چین ہو جاتے۔وہ اِتنا سب کچھ دِکھانے کے بعد ہمارے ناخن کے برابر کوئی چیز دکھا کر کہتا کہ "دیکھو بیٹا !یہ وہی چاند ہے جس کا تمھیں سال بھر سے انتظار تھا۔ہم سر اُوپر اُٹھائے ایک ہاتھ سے اپنی ٹوپی سنبھالے اوردوسرے ہاتھ میں چپل تھامے وہ نازک سا ، تِرچھا چاند دیکھتے ۔جِسے دیکھ کر ایسا لگتا کہ اب گِرا ۔۔۔اب گِرا۔لیکن چاندسے زیادہ ہمیں اپنی ٹوپی کے گرجانے کا ڈر رہتا۔کیو ں کہ گھر لوٹنے پر ہم سے کوئی یہ نہیں پوچھتا تھاکہ کتنی رکعتیں پڑھیں؟۔ امتحانوں میں کامیابی کے لئے دُعا مانگی یا نہیںِ ؟۔وہاں تو سب سے پہلا سوال ٹوپی اور چپل کی سلامتی کے متعلق ہوتا تھا۔ !ہاں تو۔۔۔ بڑوں کے ساتھ جب بھی ہم چاند دیکھتے تو اُن ہی کے طریقے سے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں سُکیڑ کر چاند کی طرف دیکھتے ، پھِر اُن کی طرف دیکھتے۔ وہ اگر آنکھوں کے آگے اپنے ہاتھ سے سائبان بناتے تو ہم بھی تھوڑی دیر کو اپنی ٹوپی چھوڑ کر ا پنا ہاتھ اپنی آنکھوں کے اوپر رکھ کر چھوٹا سا سائبان بناتے۔ لیکن جب ہم بڑے ہوئے تو یہ کھُلا کہ یہ سب دور کی چیزوں کو قریب دیکھنے کا کوئی جدید فارمولا نہیں ہے۔ بلکہ بڑے بوڑھے ؛ اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ آہ۔۔۔! ہم نے بڑوں کی بعض عادتوں کی تقلید میں اپنا بچپن بہت ضائع کیا۔
ہمارے دوست پُرجوش پُوری جو ہم سے ایک دوسال بڑے ہوںگے ، وہ بچپن میں روزے کم ہی رکھتے مگر اکثر روزہ داروں جیسی شکل بنائے پھِرتے۔ اور روزہ دار کو جو مراعات حاصل ہوتیں وہ پوری پوری استعمال میں لاتے۔ ۔۔
ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ اِفطار کے وقت دسترخوان پر وہی سب سے زیادہ کھاتا ہے جو روزے سے نہیں ہوتا۔
اُن دِنوں ہمیں کبھی کبھار محلے کی مسجد میں افطار کرنے کے مواقع بھی مِلتے۔ مسجد کی بالائی منزل پر چھوٹے بڑے تھالوں میں قسم قسم کے پکوان سجائے جاتے۔ افطار شروع ہوتے ہی بچے اُن پکوانوں کو تھالیوں کے باہر بھی سجا دیتے ۔ ہر بچہ پُو را پُورا۔۔۔اُن تھالیوںمیں بیٹھنے کی کوشش میں ہوتا ۔ کبھی کبھار دھکم دھکا میں کسی کی " پانچوں انگلیا ں تھالی میں ہوتیں اور سرلڑائی میں "۔ بڑے بچے جو عام طور پر اِس ہنگامی افطاری میں ماہر و مشاق ہوتے، وہ اپنے لئے جگہ ڈھیلی کرنے کی غرض سے ہمارے سرکی ٹوپی اُٹھا کر دور پھینک دیتے ۔ اور جب تک ٹوپی لے کر ہم واپس آتے تب تک "خالی "جگہ " پُر" ہوچُکی ہوتی اور تھال " پُر"سے" خالی"ہو چُکا ہوتا۔وہ تمام چیزیں ہر بچے کی دونوں مٹھیوں میں ہوتیں اور کچھ اُن کے پھُولے ہُوئے منہ میں ۔ اور ہم یہ سب چھیننے سے تو رہے!۔
بچوں کی 'نوچاکھسوٹی 'کا وہ منظر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آج کے بعد دُنیا سے کھانا پینا اُٹھ جائے گا۔آج موقع ہے ، نیت نہیں تو کم از کم پیٹ ہی بھر لیاجائے۔اس ہنگامے میں کچھ غریب بچے ایسے بھی ہوتے تھے جوافطار کے بعد اِدھر اُدھربکھری ہوئی ، کُچلی ہُوئی اشیاء چُنتے اور اپنی میلی ٹوپیوںمیں ڈال کر گھر لے جاتے۔یہ سب دیکھ کر ہم جب پُرجوش پوری کو سمجھاتے کہ جو خوشی اپنا لقمہ دوسروںکو دے کر ملتی ہے اصل میں وہی سچی خوشی ہوتی ہے۔ وہ کہتے کہ "میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ اپنا چھوٹا لقمہ دوسروں کو دے کر خوش ہوتا ہوں۔ اور دوسروں کا بڑا لقمہ ہتھیا کر اُنھیں بھی خوش ہونے کا موقع دیتا ہوں"۔
رمضان میں ہر بچے کوگھر سے نماز اور افطاری کے لئے تھوڑی چھوٹ ملتی ، اِس خیال سے کہ بچے کا روزہ بہل جائے۔ ماں باپ یہ سوچ کر خوش ہوتے کہ ہمارا بچہ نمازی بن گیا ہے۔ اور بچے خوشی سے مسجد میں دوڑتے پھِرتے کہ اِتنی کھلی جگہ اُنھیں نہ اپنے گھر میں ملتی اور نہ پُورے محلے میں۔ مسجد میں آکر اُن کے ہاتھ پیرکھُل جاتے۔بچے اِس انتظار میں ہوتے کہ بڑے رکعت باندھ کر پابند ہو جائیں اور وہ ۔۔۔آزاد۔پھِر بڑوں کی کیا مجال کہ اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھیں۔اورجب نماز ختم ہوتی تو بڑے اُن بچوں کو ڈانٹنے سے زیادہ اُن کے والدین کو اِس ناقص تربیت پر کوستے اور اُنھیں غائبانہ مشورے بھی دیتے ۔ اُن کے وہ مشورے گھوم پھِر کر اُن تک بھی پہنچتے تھے ۔ کیوں کہ اُن کے اپنے بچے بھی اُس شرارتی ٹولے میں ہوتے جن پر اُن کی نِگاہ نہیں پڑتی تھی۔
یوں تو عام دِنوں میں مغرب کے بعد ہمارے گھر کے دروازے باہر جانے کے لئے ہم پر بند ہو جاتے۔ لیکن رمضان میں تراویح تک ہمیں 'دینی' چھوٹ مل جاتی۔تراویح میں اکثر یہ ہوتا کہ سجدے میں ہماری آنکھ لگ جاتی۔ ہم یہ سوچتے کہ کاش پوری تروایح سجدے میں ہوتیں۔تراویح میں امام صاحب تیزی سے سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد جو کچھ پڑھتے تھے اُس میں ہمیں " یعلموں " اور " تعلمون "کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے امام صاحب سے 'چھوٹی سی 'ہمت کر کے پوچھا بھی کہ وہ اتنی تیزی سے کیوں پڑھتے ہیں؟۔ تواُن کا جواب تھا کہ منتظمین نے آدھے گھنٹے میں تراویح ختم کرنے کی پابندی رکھی ہے۔ ہم نے کہا کہ " لوگوںکی سمجھ میں بھی توکچھ آنا چاہئے"۔
" آہستہ پڑھنے پر بھی لوگوں کی سمجھ میں کیا آنے والا ہے۔ایسا منتظمین کہتے ہیں ۔کاش ۔۔۔!!!منتظمین کو کوئی سمجھائے !"
اِمام صاحب ہمیشہ اِسی طرح سرد آہ بھر کر اپنی بے اِختیاری کا اظہار کرتے۔
رمضان کی اِتنی ساری خوشیوں کے بعد ہمیں عید کی دہری خوشی ملتی۔ ہماری خوشی میں مزید اضافہ اس وقت ہو جاتا جب ہم بڑوں کو یہ کہتے سُنتے کہ" یہ تو بچوں کی عید ہے"۔پھِرہم اُن سے خوب عیدی وصول کرکے اُن کے ' قول و فعل' میں تضاد پیدا ہونے نہیں دیتے۔ ایک مرتبہ پُرجوش پوری نے ہماری مٹھیوں میں ' کَسمَساتے ' نوٹ دیکھے تو اُنھیں بڑا ترس آیا( نوٹوں پر نہیں !۔۔۔ہم پر !)۔ وہ بولے ۔ "نادِر خانوُ ! تُم کب سدھروگے؟۔ تُمہارے ہاتھ میں اِتنے سارے پیسے دیکھ کر کوئی تمھیں ایک روپیہ بھی نہیں دے گا۔ اِن پیسوں کو جلدی سے کہیں ٹھُونسو!۔ اور ایسے بنو جیسے تمھیں کسی نے کچھ بھی نہیں دِیا۔ بڑوں کو بھُولنے کی بیماری ہوتی ہے۔ اِس سے فائدہ اُٹھاؤ! ۔ مجھے دیکھو ! میں نے تمہارے ابو سے دو دو بار عیدی اینٹھی ہے"۔
پُر جوش پُوری کا رمضان اور اُن کی عید اپنی جگہ۔ ہم اُن کا ہر سبق ہَوا میں اُڑا کر ، اپنی پوُری شرارتوں کے ساتھ ۔۔۔ایک نئے چاند ، ایک اور رمضان کے تصور میں گُم ہو جاتے۔
Nadir Khan Sargiroh
نٹ کھٹ روزہ دار
(نادر خان سَر گِروہ ، مقیم : مکہ مکرمہ)
(نادر خان سَر گِروہ ، مقیم : مکہ مکرمہ)
Nadir Khan Sargiroh
روزے رکھنا ہم نے اُسی وقت سے ہی شروع کر دیا تھا جب ہمیں یہ علم ہوا کہ کھاناپینا ہمارے لئے کتنا ضروری ہے۔بچپن میں ایک رمضان کی تپتی ہوئی دھوپ کا ذکر ہے کہ ہم روزے سے تھے اور اِفطار کی منزل ابھی دُور تھی۔ ہماری والدہ پاس بیٹھی چاول چُن رہی تھیں کہ بے خیالی میں ہم نے چاول کی ایک چُٹکی اُٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ والدہ نے چیخ کر ہمیں یاد دلا یا کہ ہمارا روزہ ہے۔ ہمیں بڑا افسوس ہُوا کہ کہیں ہمارا روزہ تو نہیں ٹوٹ گیا۔ پھِر اُنھوں نے اطمینان دِلایا کہ۔۔۔ "نہیں ! اگر بھُول سے کچھ کھا لِیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا"۔ یہ جان کر ہمیں پہلے سے بھی زیادہ افسوس ہُوا کہ کاش ہم بھُول سے پانی کا ایک بڑا سا گلاس پی گئے ہوتے۔ کوئی فرحت بخش شربت ہی منہ میں اُنڈیل گئے ہوتے۔ اُ س کے بعد ہم نے کئی روزے رکھے اور بہت کوشش کی کہ بھول جائیں۔ ایک لمحہ کے لئے ہی سہی مگربھول جائیںکہ ہمارا روزہ ہے۔ لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔
اُن ہی دِنوں کی بات ہے جب ہمیں لوگ چاند کہتے تھے۔تب ہم یہ سمجھتے تھے کہ چاند صرف سال میں دو مرتبہ ہی نظر آتا ہے۔وہ بھی اِتنا سا۔ ۔۔ ) ۔۔۔ اور ذرا تِرچھا۔اِس کے علاوہ بھی ہم نے کئی بارپُورا پُورا چاند بھی دیکھا لیکن کسی کو اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھتے ہُوے نہیں دیکھا۔ جبکہ رمضان و عید کا چاند نظر نہ بھی آئے تو ہم نے بہت سوں کو بڑے اہتمام کے ساتھ دیکھتے ہوئے دیکھا ہے۔بلکہ شہادت دیتے ہُوئے بھی دیکھا ہے۔ ہم بھی یہ دونوں چاند بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔اپنے چھوٹے چھوٹے قدموں سے دو ۔۔دو سیڑھیاں پھلانگتے ہُوئے مسجد کی چھت پر چڑھ جاتے اور جہاں سَر اُٹھایا وہیں چاند تلاش کر نے لگتے۔وہاں۔۔۔ شام کے دھُندلکے میں ہر بچہ الگ الگ سمت میں چاند ڈھونڈتا نظر آتا۔ گویا ہر بچے کہ لئے الگ الگ چاند نکلنے والا ہو۔ ہماری کیفیت دیکھ کر کوئی بڑا ہمیں اپنی گود میں اُٹھا کر اُنگلی کے اِشارے سے چند درختوں کے پیچھے آپس میں گُتھم گُتھا بجلی اور ٹیلفون کے تار دِکھاتا ۔ پھِرآسمان سے باتیں کرتیں اُونچی اُونچی عمارتیں ۔اور اُن کے بیچ میں سے خالی جگہ تلاش کر کے گھوڑوں ، پہاڑوں اور غباروں کی شکل کے بادل دِکھاتا۔
ہم اِس تمھید پر بے چین ہو جاتے۔وہ اِتنا سب کچھ دِکھانے کے بعد ہمارے ناخن کے برابر کوئی چیز دکھا کر کہتا کہ "دیکھو بیٹا !یہ وہی چاند ہے جس کا تمھیں سال بھر سے انتظار تھا۔ہم سر اُوپر اُٹھائے ایک ہاتھ سے اپنی ٹوپی سنبھالے اوردوسرے ہاتھ میں چپل تھامے وہ نازک سا ، تِرچھا چاند دیکھتے ۔جِسے دیکھ کر ایسا لگتا کہ اب گِرا ۔۔۔اب گِرا۔لیکن چاندسے زیادہ ہمیں اپنی ٹوپی کے گرجانے کا ڈر رہتا۔کیو ں کہ گھر لوٹنے پر ہم سے کوئی یہ نہیں پوچھتا تھاکہ کتنی رکعتیں پڑھیں؟۔ امتحانوں میں کامیابی کے لئے دُعا مانگی یا نہیںِ ؟۔وہاں تو سب سے پہلا سوال ٹوپی اور چپل کی سلامتی کے متعلق ہوتا تھا۔ !ہاں تو۔۔۔ بڑوں کے ساتھ جب بھی ہم چاند دیکھتے تو اُن ہی کے طریقے سے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں سُکیڑ کر چاند کی طرف دیکھتے ، پھِر اُن کی طرف دیکھتے۔ وہ اگر آنکھوں کے آگے اپنے ہاتھ سے سائبان بناتے تو ہم بھی تھوڑی دیر کو اپنی ٹوپی چھوڑ کر ا پنا ہاتھ اپنی آنکھوں کے اوپر رکھ کر چھوٹا سا سائبان بناتے۔ لیکن جب ہم بڑے ہوئے تو یہ کھُلا کہ یہ سب دور کی چیزوں کو قریب دیکھنے کا کوئی جدید فارمولا نہیں ہے۔ بلکہ بڑے بوڑھے ؛ اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ آہ۔۔۔! ہم نے بڑوں کی بعض عادتوں کی تقلید میں اپنا بچپن بہت ضائع کیا۔
ہمارے دوست پُرجوش پُوری جو ہم سے ایک دوسال بڑے ہوںگے ، وہ بچپن میں روزے کم ہی رکھتے مگر اکثر روزہ داروں جیسی شکل بنائے پھِرتے۔ اور روزہ دار کو جو مراعات حاصل ہوتیں وہ پوری پوری استعمال میں لاتے۔ ۔۔
~ہم نے اُن کو بھی چُھپ چھُپ کے کھاتے دیکھا ہے گلیوں میں~
ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ اِفطار کے وقت دسترخوان پر وہی سب سے زیادہ کھاتا ہے جو روزے سے نہیں ہوتا۔
اُن دِنوں ہمیں کبھی کبھار محلے کی مسجد میں افطار کرنے کے مواقع بھی مِلتے۔ مسجد کی بالائی منزل پر چھوٹے بڑے تھالوں میں قسم قسم کے پکوان سجائے جاتے۔ افطار شروع ہوتے ہی بچے اُن پکوانوں کو تھالیوں کے باہر بھی سجا دیتے ۔ ہر بچہ پُو را پُورا۔۔۔اُن تھالیوںمیں بیٹھنے کی کوشش میں ہوتا ۔ کبھی کبھار دھکم دھکا میں کسی کی " پانچوں انگلیا ں تھالی میں ہوتیں اور سرلڑائی میں "۔ بڑے بچے جو عام طور پر اِس ہنگامی افطاری میں ماہر و مشاق ہوتے، وہ اپنے لئے جگہ ڈھیلی کرنے کی غرض سے ہمارے سرکی ٹوپی اُٹھا کر دور پھینک دیتے ۔ اور جب تک ٹوپی لے کر ہم واپس آتے تب تک "خالی "جگہ " پُر" ہوچُکی ہوتی اور تھال " پُر"سے" خالی"ہو چُکا ہوتا۔وہ تمام چیزیں ہر بچے کی دونوں مٹھیوں میں ہوتیں اور کچھ اُن کے پھُولے ہُوئے منہ میں ۔ اور ہم یہ سب چھیننے سے تو رہے!۔
بچوں کی 'نوچاکھسوٹی 'کا وہ منظر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آج کے بعد دُنیا سے کھانا پینا اُٹھ جائے گا۔آج موقع ہے ، نیت نہیں تو کم از کم پیٹ ہی بھر لیاجائے۔اس ہنگامے میں کچھ غریب بچے ایسے بھی ہوتے تھے جوافطار کے بعد اِدھر اُدھربکھری ہوئی ، کُچلی ہُوئی اشیاء چُنتے اور اپنی میلی ٹوپیوںمیں ڈال کر گھر لے جاتے۔یہ سب دیکھ کر ہم جب پُرجوش پوری کو سمجھاتے کہ جو خوشی اپنا لقمہ دوسروںکو دے کر ملتی ہے اصل میں وہی سچی خوشی ہوتی ہے۔ وہ کہتے کہ "میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ اپنا چھوٹا لقمہ دوسروں کو دے کر خوش ہوتا ہوں۔ اور دوسروں کا بڑا لقمہ ہتھیا کر اُنھیں بھی خوش ہونے کا موقع دیتا ہوں"۔
رمضان میں ہر بچے کوگھر سے نماز اور افطاری کے لئے تھوڑی چھوٹ ملتی ، اِس خیال سے کہ بچے کا روزہ بہل جائے۔ ماں باپ یہ سوچ کر خوش ہوتے کہ ہمارا بچہ نمازی بن گیا ہے۔ اور بچے خوشی سے مسجد میں دوڑتے پھِرتے کہ اِتنی کھلی جگہ اُنھیں نہ اپنے گھر میں ملتی اور نہ پُورے محلے میں۔ مسجد میں آکر اُن کے ہاتھ پیرکھُل جاتے۔بچے اِس انتظار میں ہوتے کہ بڑے رکعت باندھ کر پابند ہو جائیں اور وہ ۔۔۔آزاد۔پھِر بڑوں کی کیا مجال کہ اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھیں۔اورجب نماز ختم ہوتی تو بڑے اُن بچوں کو ڈانٹنے سے زیادہ اُن کے والدین کو اِس ناقص تربیت پر کوستے اور اُنھیں غائبانہ مشورے بھی دیتے ۔ اُن کے وہ مشورے گھوم پھِر کر اُن تک بھی پہنچتے تھے ۔ کیوں کہ اُن کے اپنے بچے بھی اُس شرارتی ٹولے میں ہوتے جن پر اُن کی نِگاہ نہیں پڑتی تھی۔
یوں تو عام دِنوں میں مغرب کے بعد ہمارے گھر کے دروازے باہر جانے کے لئے ہم پر بند ہو جاتے۔ لیکن رمضان میں تراویح تک ہمیں 'دینی' چھوٹ مل جاتی۔تراویح میں اکثر یہ ہوتا کہ سجدے میں ہماری آنکھ لگ جاتی۔ ہم یہ سوچتے کہ کاش پوری تروایح سجدے میں ہوتیں۔تراویح میں امام صاحب تیزی سے سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد جو کچھ پڑھتے تھے اُس میں ہمیں " یعلموں " اور " تعلمون "کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے امام صاحب سے 'چھوٹی سی 'ہمت کر کے پوچھا بھی کہ وہ اتنی تیزی سے کیوں پڑھتے ہیں؟۔ تواُن کا جواب تھا کہ منتظمین نے آدھے گھنٹے میں تراویح ختم کرنے کی پابندی رکھی ہے۔ ہم نے کہا کہ " لوگوںکی سمجھ میں بھی توکچھ آنا چاہئے"۔
" آہستہ پڑھنے پر بھی لوگوں کی سمجھ میں کیا آنے والا ہے۔ایسا منتظمین کہتے ہیں ۔کاش ۔۔۔!!!منتظمین کو کوئی سمجھائے !"
اِمام صاحب ہمیشہ اِسی طرح سرد آہ بھر کر اپنی بے اِختیاری کا اظہار کرتے۔
رمضان کی اِتنی ساری خوشیوں کے بعد ہمیں عید کی دہری خوشی ملتی۔ ہماری خوشی میں مزید اضافہ اس وقت ہو جاتا جب ہم بڑوں کو یہ کہتے سُنتے کہ" یہ تو بچوں کی عید ہے"۔پھِرہم اُن سے خوب عیدی وصول کرکے اُن کے ' قول و فعل' میں تضاد پیدا ہونے نہیں دیتے۔ ایک مرتبہ پُرجوش پوری نے ہماری مٹھیوں میں ' کَسمَساتے ' نوٹ دیکھے تو اُنھیں بڑا ترس آیا( نوٹوں پر نہیں !۔۔۔ہم پر !)۔ وہ بولے ۔ "نادِر خانوُ ! تُم کب سدھروگے؟۔ تُمہارے ہاتھ میں اِتنے سارے پیسے دیکھ کر کوئی تمھیں ایک روپیہ بھی نہیں دے گا۔ اِن پیسوں کو جلدی سے کہیں ٹھُونسو!۔ اور ایسے بنو جیسے تمھیں کسی نے کچھ بھی نہیں دِیا۔ بڑوں کو بھُولنے کی بیماری ہوتی ہے۔ اِس سے فائدہ اُٹھاؤ! ۔ مجھے دیکھو ! میں نے تمہارے ابو سے دو دو بار عیدی اینٹھی ہے"۔
پُر جوش پُوری کا رمضان اور اُن کی عید اپنی جگہ۔ ہم اُن کا ہر سبق ہَوا میں اُڑا کر ، اپنی پوُری شرارتوں کے ساتھ ۔۔۔ایک نئے چاند ، ایک اور رمضان کے تصور میں گُم ہو جاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
sept-25 -2009 Nadir Khan Sargiroh