محمد ظہیر اقبال
محفلین
تحریر:محمد ظہیر اقبال
محترم وزیراعظم جناب عمران خان صاحب میں کسی بحث میں الجھے بغیر آپ کے سامنے چند گزارشات بیان کرنا چاہتا ہوں جو حقیقت اور سچائی پر مبنی ہے۔ وزیراعظم صاحب ہر دور میں غریب آدمی نے ہی قربانیاں دی ہیں اور آج بھی غریب ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے کے باوجود ہر طرح سے آپ کے لئے دُعا گوہ ہیں۔ ان غریبوں کے پاس مال و دولت تو نہیں ہوتا اسی لئے تو یہ غریب کہلاتے ہیں لیکن ان کے پاس ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو بڑے بڑے مال داروں کے ہاں بھی کم ہی پائی جاتی دیتی ہے اور وہ ہے ان کی خوداری اور عزتِ نفس جسے یہ بہت سنبھال کر رکھتے ہیں۔ اگر خدا نا خواستہ ان کی یہ پونجی لُٹ جائے تو پھر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ جناب وزیراعظم صاحب اس وقت ہمارے ملک پاکستان میں جو لوگ امیر اور خوشحال ہیں ان میں پچاس فیصد وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طرح سے دوسروں کے حق حقوق مارے ہوئے ہیں ۔ یہ ظالم لوگ ہر سطح کے طبقے میں پائے جاتے ہیں میں یہاں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا بلکہ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان امیروں کی دیکھا دیکھی کچھ ناعاقبت اندیشوں نے شادی جیسے پاکیزہ رشتے کو بھی باقائدہ ایک کاروبار اور رسم رواج بنا دیا ہے حالانکہ اسلام اس طرح کی تمام چیزوں کی نفی کرتا ہے لیکن کون سمجھائے اُس عقل کے اندھے امیر کو جو صرف مہندی کی رسم کے نام پر تیس پنتیس لاکھ خرچ کر ڈالتا ہے اور نہیں سوچتا کہ میرا یہ عمل دوسروں کے لئے پہلے مثال اور بعد میں مسئلہ بن جائے گا۔ ایک نوکری پیشہ یا چھوٹا کاروباری کسی طور بھی اتنی رقم صرف مہندی تو درکنارمکمل شادی پر بھی خرچ کرنے کی استعاعت نہیں رکھتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شادی کی عمر کو پہنچی بچیاں احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتی ہیں۔اس سے بھی خطرناک صورتِ حال معاشرے میں بڑھتی بے راہ روی کو دیکھا جا سکتا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کرحوا کی بیٹیوں کو جیتے جی جہنم جیسی زندگی گزرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہر ماں باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی بروقت شادی کر کے اپنا شرعی اور معاشرتی فرض ادا کر کے اپنی زندگی کے آخری آیام کو اپنے لئے پُر سکون بنائیں لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ بیشتر والدین بیٹیوں کی شادی کر کے ابھی کمر بھی سیدھی نہیں کرتے کہ بیٹی والدین کے دروازے پرآنکھوں میں آنسو اور لب پہ جہیز میں یہ نہیں تھا وہ نہیں تھا لئے آ کھڑی ہوتی ہے۔میں نہیں سمجھتا کوئی والدین اپنی بیٹی کی خوشی کے کئے کوئی کسر اُٹھا رکھیں لیکن جہیز کی ہندوانہ رسم ہمارے معاشرے کی پاکیزہ اور خوبصورت روایات کو تباہ و برباد کرتی جا رہی ہے۔ یہ تو اس ظلم کا نسبتاً نرم پہلو ہے ورنہ عام رواج تو پہلے تیل کا چولہہ تھا اور آج کل گیس لیکج،آگ اور کہانی ختم۔۔ جناب وزیراعظم صاحب کون ہے اس ظلم و ستم کے نظام اور رسم و رواج کا ذمہ دار ؟ اسلام نے تو بیٹی کو بھی باپ کی وراثت میں حصہ اور حق دار بنایا ہے لیکن آج کے مسلمان کی نظر میں رسم و روج دین اسلام سے بڑھ کر ہیں ہزاروں لاکھوں بچیاں ہیں جن کی شادی کی عمر گزر جاتی ہے صرف اس لئے کہ کچھ کم ظرفوں نےفضول خرچی کی ایسی ایسی مثالیں قائم کر رکھی ہیں کہ جنہیں ایک عام آدمی پورا نہیں کر سکتا۔ میں وزیراعظم عمران خان سے درخواست اور التجا کرتا ہوں کہ آپ نے ریاستِ مدینہ کی بات کی اچھی بات ہے ضرور بنائیں لیکن اس ریاست مدینہ میں جہیز جیسی ہندوونہ رسم پر پابندی لگائیں اور باپ کی جائداد میں بیٹی کا شرعی حصہ دینے کو یقینی بنائیں۔دین اسلام کو جتنا نقصان ہندوستان کے مُلاں اور مولوی نے پہنچایا ہے اتنا کسی نے نہیں پہنچایا میں اس وقت اتنا ہی کہتا ہوں کہ پاکستان بننے سے لے کر آج دن تک مُلاں اور مولوی نے کسی ایک موقع پر بھی اپنے حقیقی کردار اور منصب کا حق ادا نہیں کیا پاکستان بننے سے پہلے اس کی مخالفت میں یہ طبقہ پیش پیش رہا اور پاکستان بننے کے بعد حالات سب کے سامنے ہیں حضور نبیِ کریم ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ دین میں سب سے آسان کام کیا ہے تو آپؐﷺ نے فرمایا نکاح ۔ لیکن آج نکاح کو مشکل سے مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔ اگر ہم ایک مثالی معاشرے کا قیام چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے بنیادی چیزوں کو درست کرنا ہوگا۔ شادی یا نکاح کا ایک ایسا طریقہ اور قانون واضع کیا جائے جس میں امیری غریبی کسی طور سے رکاوٹ نہ بن سکے۔ میں سمجھتا ہوں کسی ملک قوم یا ریاست کی بنیاد جن اہم ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے ان میں سب سے اہم اور سب سے قیمتی ستون خاندانی نظام ہے۔ اور یاد رہے یہ آخری ستون بچا ہے جسے گرانے اور توڑنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ مشرف دورمیں نام نہاد حقوقِ نسواں بل درحقیقت خاندانی نظام کو توڑنے کی ایک ابتدائی کوشش اور شروعات تھی۔ مغربی معاشرہ آج تبائی کے جس مقام پر پہنچا ہے اس کی وجہ خاندانی نظام کا ٹوٹنا ہے۔ عثمانی دور میں نکاح ریاستی ذمہ داری تھی۔ محترم وزیراعظم صاحب اگر آپ کی حکومت واقعی میں عام آدمی کی حکومت ہے تو ان غریبوں بلکہ اب توسفید پوش درمیانہ طبقہ بھی غریبوں میں شامل ہے کے لئے یہ نیک کام کر کے اپنی دنیا و آخرت کی کامیابی کو یقینی بنانے میں دیر نہ کریں۔ مہنگائی نے ویسے بھی غریب اور سفید پوش کے بھرم کی چادر کو اُڑا کے تار تار کر دیا ہے۔ ایک باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے قیمتی اور بہترین چیز تعلیم ہے۔ بحصیت ایک انسان مرد و عورت کی شخصیت کا معیار اس کا کردار ہونا چاہئے نہ کہ مال و دولت۔یاد رہے خاندانی نظام وہ کڑی ہے جس پر اسلامی معاشرے کی پوری عمارت کھڑی ہے اور اگر یہ کڑی اک بار ٹوٹ گئی تو پوری عمارت زمیں بوس ہوجائے گی۔اللہ تعالیٰ اس ملک و قوم کی حفاظت فرمائے۔امین یا رَبّ العالمین۔۔
محترم وزیراعظم جناب عمران خان صاحب میں کسی بحث میں الجھے بغیر آپ کے سامنے چند گزارشات بیان کرنا چاہتا ہوں جو حقیقت اور سچائی پر مبنی ہے۔ وزیراعظم صاحب ہر دور میں غریب آدمی نے ہی قربانیاں دی ہیں اور آج بھی غریب ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے کے باوجود ہر طرح سے آپ کے لئے دُعا گوہ ہیں۔ ان غریبوں کے پاس مال و دولت تو نہیں ہوتا اسی لئے تو یہ غریب کہلاتے ہیں لیکن ان کے پاس ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو بڑے بڑے مال داروں کے ہاں بھی کم ہی پائی جاتی دیتی ہے اور وہ ہے ان کی خوداری اور عزتِ نفس جسے یہ بہت سنبھال کر رکھتے ہیں۔ اگر خدا نا خواستہ ان کی یہ پونجی لُٹ جائے تو پھر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ جناب وزیراعظم صاحب اس وقت ہمارے ملک پاکستان میں جو لوگ امیر اور خوشحال ہیں ان میں پچاس فیصد وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طرح سے دوسروں کے حق حقوق مارے ہوئے ہیں ۔ یہ ظالم لوگ ہر سطح کے طبقے میں پائے جاتے ہیں میں یہاں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا بلکہ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان امیروں کی دیکھا دیکھی کچھ ناعاقبت اندیشوں نے شادی جیسے پاکیزہ رشتے کو بھی باقائدہ ایک کاروبار اور رسم رواج بنا دیا ہے حالانکہ اسلام اس طرح کی تمام چیزوں کی نفی کرتا ہے لیکن کون سمجھائے اُس عقل کے اندھے امیر کو جو صرف مہندی کی رسم کے نام پر تیس پنتیس لاکھ خرچ کر ڈالتا ہے اور نہیں سوچتا کہ میرا یہ عمل دوسروں کے لئے پہلے مثال اور بعد میں مسئلہ بن جائے گا۔ ایک نوکری پیشہ یا چھوٹا کاروباری کسی طور بھی اتنی رقم صرف مہندی تو درکنارمکمل شادی پر بھی خرچ کرنے کی استعاعت نہیں رکھتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شادی کی عمر کو پہنچی بچیاں احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتی ہیں۔اس سے بھی خطرناک صورتِ حال معاشرے میں بڑھتی بے راہ روی کو دیکھا جا سکتا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کرحوا کی بیٹیوں کو جیتے جی جہنم جیسی زندگی گزرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہر ماں باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی بروقت شادی کر کے اپنا شرعی اور معاشرتی فرض ادا کر کے اپنی زندگی کے آخری آیام کو اپنے لئے پُر سکون بنائیں لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ بیشتر والدین بیٹیوں کی شادی کر کے ابھی کمر بھی سیدھی نہیں کرتے کہ بیٹی والدین کے دروازے پرآنکھوں میں آنسو اور لب پہ جہیز میں یہ نہیں تھا وہ نہیں تھا لئے آ کھڑی ہوتی ہے۔میں نہیں سمجھتا کوئی والدین اپنی بیٹی کی خوشی کے کئے کوئی کسر اُٹھا رکھیں لیکن جہیز کی ہندوانہ رسم ہمارے معاشرے کی پاکیزہ اور خوبصورت روایات کو تباہ و برباد کرتی جا رہی ہے۔ یہ تو اس ظلم کا نسبتاً نرم پہلو ہے ورنہ عام رواج تو پہلے تیل کا چولہہ تھا اور آج کل گیس لیکج،آگ اور کہانی ختم۔۔ جناب وزیراعظم صاحب کون ہے اس ظلم و ستم کے نظام اور رسم و رواج کا ذمہ دار ؟ اسلام نے تو بیٹی کو بھی باپ کی وراثت میں حصہ اور حق دار بنایا ہے لیکن آج کے مسلمان کی نظر میں رسم و روج دین اسلام سے بڑھ کر ہیں ہزاروں لاکھوں بچیاں ہیں جن کی شادی کی عمر گزر جاتی ہے صرف اس لئے کہ کچھ کم ظرفوں نےفضول خرچی کی ایسی ایسی مثالیں قائم کر رکھی ہیں کہ جنہیں ایک عام آدمی پورا نہیں کر سکتا۔ میں وزیراعظم عمران خان سے درخواست اور التجا کرتا ہوں کہ آپ نے ریاستِ مدینہ کی بات کی اچھی بات ہے ضرور بنائیں لیکن اس ریاست مدینہ میں جہیز جیسی ہندوونہ رسم پر پابندی لگائیں اور باپ کی جائداد میں بیٹی کا شرعی حصہ دینے کو یقینی بنائیں۔دین اسلام کو جتنا نقصان ہندوستان کے مُلاں اور مولوی نے پہنچایا ہے اتنا کسی نے نہیں پہنچایا میں اس وقت اتنا ہی کہتا ہوں کہ پاکستان بننے سے لے کر آج دن تک مُلاں اور مولوی نے کسی ایک موقع پر بھی اپنے حقیقی کردار اور منصب کا حق ادا نہیں کیا پاکستان بننے سے پہلے اس کی مخالفت میں یہ طبقہ پیش پیش رہا اور پاکستان بننے کے بعد حالات سب کے سامنے ہیں حضور نبیِ کریم ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ دین میں سب سے آسان کام کیا ہے تو آپؐﷺ نے فرمایا نکاح ۔ لیکن آج نکاح کو مشکل سے مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔ اگر ہم ایک مثالی معاشرے کا قیام چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے بنیادی چیزوں کو درست کرنا ہوگا۔ شادی یا نکاح کا ایک ایسا طریقہ اور قانون واضع کیا جائے جس میں امیری غریبی کسی طور سے رکاوٹ نہ بن سکے۔ میں سمجھتا ہوں کسی ملک قوم یا ریاست کی بنیاد جن اہم ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے ان میں سب سے اہم اور سب سے قیمتی ستون خاندانی نظام ہے۔ اور یاد رہے یہ آخری ستون بچا ہے جسے گرانے اور توڑنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ مشرف دورمیں نام نہاد حقوقِ نسواں بل درحقیقت خاندانی نظام کو توڑنے کی ایک ابتدائی کوشش اور شروعات تھی۔ مغربی معاشرہ آج تبائی کے جس مقام پر پہنچا ہے اس کی وجہ خاندانی نظام کا ٹوٹنا ہے۔ عثمانی دور میں نکاح ریاستی ذمہ داری تھی۔ محترم وزیراعظم صاحب اگر آپ کی حکومت واقعی میں عام آدمی کی حکومت ہے تو ان غریبوں بلکہ اب توسفید پوش درمیانہ طبقہ بھی غریبوں میں شامل ہے کے لئے یہ نیک کام کر کے اپنی دنیا و آخرت کی کامیابی کو یقینی بنانے میں دیر نہ کریں۔ مہنگائی نے ویسے بھی غریب اور سفید پوش کے بھرم کی چادر کو اُڑا کے تار تار کر دیا ہے۔ ایک باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے قیمتی اور بہترین چیز تعلیم ہے۔ بحصیت ایک انسان مرد و عورت کی شخصیت کا معیار اس کا کردار ہونا چاہئے نہ کہ مال و دولت۔یاد رہے خاندانی نظام وہ کڑی ہے جس پر اسلامی معاشرے کی پوری عمارت کھڑی ہے اور اگر یہ کڑی اک بار ٹوٹ گئی تو پوری عمارت زمیں بوس ہوجائے گی۔اللہ تعالیٰ اس ملک و قوم کی حفاظت فرمائے۔امین یا رَبّ العالمین۔۔