محسن وقار علی
محفلین
حیدرآباد دکن میں مسلم خواتین کے طرح طرح کے مسائل سامنے آتے رہتے ہیں
بھارتی ریاست آندھراپردیش کا دارالحکومت حیدرآباد مقامی مسلمان لڑکیوں کی عمر رسیدہ عرب باشندوں سے شادیوں کے لیے بدنام تو تھا ہی تو اب یہ ’ كنٹریكٹ میرج‘ یا عارضی شادیوں کے لیے سرخیوں میں ہے۔
ان دنوں شہر کی پولیس ایک ایسے معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے جس میں ایک 16 سالہ لڑکی نوشين تبسم نے شکایت کی ہے کہ اس کے والدین سوڈان کے ایک 44 سالہ شخص سے اس کی تیس دن کے لیے شادی کر رہے تھے جو پہلے ہی شادی شدہ ہے۔
حیدرآباد کے مغل پورہ پولیس تھانے کے انسپکٹر وجے كمار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس معاملے میں انہوں نے قاضی بشیرالدین کو گرفتار کر لیا ہے جس نے جان بوجھ کر نہ صرف نابالغ لڑکی کا نکاح پڑھایا بلکہ نکاح کے وقت ہی طلاق نامہ بھی تیار کر دیا جس سے واضح ہے کہ یہ شادی صرف تیس دن کے لیے تھی۔
انسپکٹر کا کہنا تھا ’یہ كنٹریكٹ میرج ہر طرح سے غیر قانونی ہے۔ یہ قانون اور اسلامی شریعت دونوں کے منافی ہے۔‘
پولیس نے اس سلسلے میں ممتاز بیگم نامی ایک خاتون اور ان کے ایک ساتھی کو بھی گرفتار کر لیا ہے جو حیدرآباد کی غریب مسلم لڑکیوں کا غیر ملکی شہریوں خصوصا سوڈاني باشندوں کے ساتھ كنٹریكٹ میرج کروا رہی تھیں۔
بہر حال نوشین کے والدین یوسف اور عائشہ دونوں لاپتہ ہیں اور پولیس ان کو تلاش کر رہی ہے۔
نوشين تبسم کے معاملے نے شہر میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے اور ہر طرف اس پر بحث ہو رہی ہے۔ ویسے حیدرآباد میں یہ اس طرح کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
نسبتا غریب تسلیم کیے جانے والے پرانے شہر کے علاقے میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم كنفڈریشن آف والنٹری ایسوسی ایشن کے ڈائرکٹر مظہر حسین کا کہنا ہے ’یہ مسئلہ 10-15 سال پرانا ہے۔ لیکن یہ اب سامنے اس لیے آ رہا ہے کیونکہ خواتین اور نوجوان لڑکیوں میں اب اپنے حقوق کے تئیں بیداری میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے اندر کھل کر سامنے آنے کی ہمت پیدا ہو گئی ہے۔‘
بیداری
مظہر حسین کا کہنا ہے: ’سچ یہ ہے کی اب ایسے واقعات پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہو گئے ہیں لیکن میڈیا میں اس کا ذکر بڑھ گیا ہے جو ایک اچھی بات ہے۔‘
پولیس کے مطابق نوشين اس وقت اپنے گھر سے بھاگ کر قریبی تھانے پہنچیں جبکہ ان کا خاندان اس پر ایک سوڈاني شہری اسامہ ابراہیم محمد کے ساتھ ہوٹل جانے کے لیے نوشین پر دباؤ ڈال رہا تھا۔
وجے كمار کا کہنا تھا کہ ’اسامہ اپنے دوست سے یہ اطلاع ملنے پر حیدرآباد آیا تھا کہ یہاں کم خرچ پر اسے’عارضی بیوی‘ مل سکتی ہے۔‘
اسی سال 19 فروری کو حیدرآباد پہنچنے کے بعد انہوں نے ممتاز بیگم کی مدد سے چار لڑکیاں دیکھیں اور نوشين کو پسند کیا۔
دو دن بعد شادی کے لیے انہوں نے اس خاتون کو ایک لاکھ روپے دیے جس سے قاضی اور عربی ترجمہ کرنے والے ایک شخص کو پانچ پانچ ہزار روپے دیے گئے جبکہ اس لڑکی کے گھر والوں کو 70 ہزار روپے دیے گئے۔ اس خاتون نے 20 ہزار روپے خود لے لیے۔
نوشين نے بعد میں پولیس کو بتایا کہ انہیں معلوم نہیں تھا کی شادی کس طرح ہوتی ہے۔
لڑکی نے پولیس سے کہا: ’اس دن مجھے سرخ رنگ کی ساڑی پہنائی گئی اور مجھ سے قبول ہے کہنے کے لیے کہا گیا۔ بعد میں جب میرے گھر والوں نے مجھے اس شخص کے کمرے میں بھیجنے کی کوشش کی تو میں ڈر گئی اور میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔‘
پولیس انسپکٹر وجے کمار کا کہنا ہے نوشین کے والدین یوسف اور عائشہ لاپتہ ہیں اور پولیس ان کو تلاش کر رہی ہے
لڑکی کے انکار کے بعد اسامہ ناراض ہو کر ہوٹل واپس چلے آئے۔ لیکن لڑکی کے خاندان اور درمیان والوں نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ دو چار دن میں لڑکی ان کے ہوٹل پر پہنچ جائے گی۔
اس درمیان قاضی نے جعلی دستاویزات کی بنیاد پر لڑکی کا نكاح نامہ تیار کر لیا جس کی عمر بڑھا کر دکھائی گئی ساتھ ہی قاضی نے تیس دن کے بعد کی تاریخ کے ساتھ ایک طلاق نامہ بھی بنا دیا۔
جب گھر والوں کا دباؤ بڑھنے لگا تو نوشين ایک دن صبح چپکے سے گھر سے نکل آئیں اور پولیس سٹیشن پہنچ گئیں۔ ان کی کہانی سنتے ہی پولیس حرکت میں آ گئی اور خواتین پولیس اہلکاروں کے سامنے ان کا بیان لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر گرفتاریاں شروع کر دی۔
وجے كمار کا کہنا تھا کہ حیدرآباد کے پرانے شہر میں یہ ایک بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے اور ہر ماہ کم سے کم پندرہ کنٹریكٹ میرج ہوتی ہیں اور ان دنوں ایسی شادی کرنے والوں میں سوڈان کے لوگ ہی زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ سوڈان کے بہت سارے لوگ یہاں پڑھنے کے لیے آتے ہیں اور ابھی وہاں پٹرول سے ہونے والی دولت میں اضافہ ہوا ہے وہاں اگر کوئی شخص شادی کے دائرے سے باہر کسی عورت سے تعلقات چاہتا ہے تو وہ حرام اور غیر قانونی ہے اس لئے یہ لوگ عارضی شادی کے نام پر جنسی سکون حاصل کرنے کے لیے یہاں آ رہے ہیں۔‘
لیکن ایسی بہت کم شکایات پولیس تھانوں میں درج ہوتی ہیں۔ گزشتہ سال پولیس نے ایسے دو معاملے درج کیے تھے لیکن کسی کو سزا نہیں ہوئی۔
مظہر حسین کا کہنا ہے کہ ’اس چکر میں زیادہ تر ایسے غریب خاندان پھنس جاتے ہیں جو جہیز کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کی شادی نہیں کر پاتے۔ حیدرآباد میں غریب خاندانوں کے لیے لڑکیوں کی شادی آسان نہیں ہے کیونکہ ایک شادی پر تین سے چار لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے۔‘
وجے كمار کا کہنا ہے کہ ایسی باتیں حیدرآباد کے پرانے شہر کے ان علاقوں میں عام ہیں جہاں غریب لوگ اور روزانہ مزدوری کرنے والے لوگ زیادہ رہتے ہیں۔ خود نوشين کے والدین کو پانچ بچے ہیں اور ان میں یہ لڑکی سب سے بڑی تھی۔
نوشين اپنے گھر جانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ بے سہارا لڑکیوں کے لیے بنے سرکاری مرکز میں رہ رہی ہیں۔
اس معاملے نے حکومت کی طرف سے مقرر قاضیوں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ عارضی نکاح پڑھانے والے قاضی بشیرالدین کو معطل تو کر دیا گيا ہے لیکن ایسے ابھی اور کئی قاضی ہیں جو اس طرح کے جعلی نکاح پڑھاتے ہیں۔
حیدرآباد کے پرانے شہر میں یہ ایک بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے اور ہر ماہ کم سے کم 15 كنٹریكٹ میرج ہوتی ہیں
حیدرآباد کے چیف قاضی میر قادر علی کا کہنا ہے: ’ایسے لوگوں کے خلاف سخت کروائی ہونی چاہیے کیونکہ اسلام میں اس طرح کے كنٹریكٹ میرج یا عارضی شادیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ حرام ہے۔ شادی ایک مستقل رشتہ ہوتا ہے۔‘
مظہر حسین نے کہا کہ ’كنٹریكٹ میریج، عصمت فروشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اسلام میں کیونکہ ناجائز تعلقات حرام ہیں اس لیے یہ لوگ شادی کے نام کا استعمال کر رہے ہیں اور لڑکیوں کی زندگی برباد کر رہے ہیں۔‘
نوشين نے جس طرح اس گھناؤنی رسم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اس نے آمنہ بیگم کی یادیں تازہ کر دی جس کی ایک بوڑھے عرب شہری سے شادی نے 1991 میں پورے ملک میں کہرام مچا دیا تھا۔ امینہ کو اس طیارے کی ائیرہوسٹس نے بچایا تھا جس میں وہ اپنے بوڑھے عرب شوہر کے ساتھ روتی ہوئی جا رہی تھی۔`
بہ شکریہ بی بی سی اردو