نکالے کب تلک کوئی ، بدن کو چیر کے ’’ٹکڑے‘‘ (صاحبزادہ ابو الحسن واحؔد رضوی)

نکالے کب تلک کوئی ، بدن کو چیر کے ’’ٹکڑے‘‘
ہر اِک پہلو میں پیو ستہ ہیں ، اُن کے تیر کے ٹکڑے

انھوں نے جب اُسے پھا ڑا، مری عزت، بچانے کو
ہوا آئی، اڑا کر لے گئی ، تصویر کے ٹکڑے

وہ، دو کاغذ کے ٹکڑوں کو ملا کر ، جب لگے تکنے
مرا دل بن گیا ، جونھی ملے تصویر کے ٹکڑے

غمِ فرقت کے تیروں نے کیا ہے کس قدر زخمی
ذرا آ کر کوئی دیکھے ، دلِ دل گیر کے ٹکڑے

کہیں ہے ذکر دوری کا ، کہیں قربت کی باتیں ہیں
نہیں ملتے یہ آپس میں ، سبھی تحریر کے ٹکڑے

وہ پاس آ کر لگے کہنے ، اِسے پابند رکھنا ہے
ملائے پھر جو ٹوٹے تھے مری زنجیر کے ٹکڑے

مرے غم کی کہانی پڑھ کے اِس درجہ ہوئے غمگیں
نہ ہو جائے کوئی غمگیں ، کیے تحریر کے ٹکڑے

کرم پیرِ مغاں کا ہے وگرنہ کچھ نہیں واحدؔ
اُسی در سے ملے لفظوں کو یہ تاثیر کے ’’ٹکڑے‘‘​
 

mohsin ali razvi

محفلین
10409238_777351755658084_7629054972040331995_n.jpg
 
Top