ابو المیزاب اویس
محفلین
نکالے کب تلک کوئی ، بدن کو چیر کے ’’ٹکڑے‘‘
ہر اِک پہلو میں پیو ستہ ہیں ، اُن کے تیر کے ٹکڑے
انھوں نے جب اُسے پھا ڑا، مری عزت، بچانے کو
ہوا آئی، اڑا کر لے گئی ، تصویر کے ٹکڑے
وہ، دو کاغذ کے ٹکڑوں کو ملا کر ، جب لگے تکنے
مرا دل بن گیا ، جونھی ملے تصویر کے ٹکڑے
غمِ فرقت کے تیروں نے کیا ہے کس قدر زخمی
ذرا آ کر کوئی دیکھے ، دلِ دل گیر کے ٹکڑے
کہیں ہے ذکر دوری کا ، کہیں قربت کی باتیں ہیں
نہیں ملتے یہ آپس میں ، سبھی تحریر کے ٹکڑے
وہ پاس آ کر لگے کہنے ، اِسے پابند رکھنا ہے
ملائے پھر جو ٹوٹے تھے مری زنجیر کے ٹکڑے
مرے غم کی کہانی پڑھ کے اِس درجہ ہوئے غمگیں
نہ ہو جائے کوئی غمگیں ، کیے تحریر کے ٹکڑے
کرم پیرِ مغاں کا ہے وگرنہ کچھ نہیں واحدؔ
اُسی در سے ملے لفظوں کو یہ تاثیر کے ’’ٹکڑے‘‘
ہر اِک پہلو میں پیو ستہ ہیں ، اُن کے تیر کے ٹکڑے
انھوں نے جب اُسے پھا ڑا، مری عزت، بچانے کو
ہوا آئی، اڑا کر لے گئی ، تصویر کے ٹکڑے
وہ، دو کاغذ کے ٹکڑوں کو ملا کر ، جب لگے تکنے
مرا دل بن گیا ، جونھی ملے تصویر کے ٹکڑے
غمِ فرقت کے تیروں نے کیا ہے کس قدر زخمی
ذرا آ کر کوئی دیکھے ، دلِ دل گیر کے ٹکڑے
کہیں ہے ذکر دوری کا ، کہیں قربت کی باتیں ہیں
نہیں ملتے یہ آپس میں ، سبھی تحریر کے ٹکڑے
وہ پاس آ کر لگے کہنے ، اِسے پابند رکھنا ہے
ملائے پھر جو ٹوٹے تھے مری زنجیر کے ٹکڑے
مرے غم کی کہانی پڑھ کے اِس درجہ ہوئے غمگیں
نہ ہو جائے کوئی غمگیں ، کیے تحریر کے ٹکڑے
کرم پیرِ مغاں کا ہے وگرنہ کچھ نہیں واحدؔ
اُسی در سے ملے لفظوں کو یہ تاثیر کے ’’ٹکڑے‘‘