میں لکھنا چاہتا ہوں وحیدہ شاہ اور اس کے تھپڑ پر۔
اس میں خصوصی تذکرہ چاہتا ہوں عاصمہ جہانگیر کا اور ہر وقت عورتوں کے حقوق کی علمبردار این جی اوز کا جنہیں اس وقت سانپ سونگھا ہوا ہے حالانکہ میڈیا نے اس مسئلہ کو بہت اٹھایا ہوا ہے اور بہت ٹھیک اٹھایا ہوا ہے۔
کل ایک سکھ سے ملاقات کا احوال جسے پنجابی نہیں آتی تھی اور وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ پنجابی کیسے سیکھوں اور بہتر کروں۔
یہ تو عجب بات ہوئی محب، بقول اقبال
خضر کیونکر بتائے، کیا بتائے
اگر ماہی کہے دریا کہاں ہے
دلچسپ روداد ہوگی یہ، ضرور لکھنا
ظاہر ہے جب سردار جی ساری عمر امریکہ میں رہیں گے تو انہیں پنجابی کیسے آئے گی۔
محب یہ پاکستان ہے، یہاں پر ایسی باتوں کا کوئی اثر نہیں لیتا۔ اس سے زیادہ بھی وحیدہ شاہ کے ساتھ میڈیا والے کر لیتے، تب بھی اسے یا اس کی پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
پنجابی کی ایک مثال ہے "شرم آنے جانے والی چیز ہے، بندہ ٹھیٹ ہونا چائیدا اے" تو یہ سب اس پر پورے اترتے ہیں۔
زرداری کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا
گیلانی کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا
وزیر ریلوے کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا
وزیر بجلی پانی کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا
وغیرہ وغیرہ
آج تک کسی نے استغفٰی دیا، آج تک کسی کو کوئی شرم آئی، نہیں ناں تو آئندہ بھی یہی کچھ ہو گا۔
میں لکھنا چاہتا ہوں وحیدہ شاہ اور اس کے تھپڑ پر۔
اس میں خصوصی تذکرہ چاہتا ہوں عاصمہ جہانگیر کا اور ہر وقت عورتوں کے حقوق کی علمبردار این جی اوز کا جنہیں اس وقت سانپ سونگھا ہوا ہے حالانکہ میڈیا نے اس مسئلہ کو بہت اٹھایا ہوا ہے اور بہت ٹھیک اٹھایا ہوا ہے۔