خوشی چاہتے ہیں نہ غم چاہتے ہیں
نگاہِ عنایت صنم چاہتے ہیں
کون چاہتے ہیں؟ آپ یا صنم؟ ۔۔۔۔ دوسرے مصرعے میں الفاظ کی نشست ایسی ہے کہ صنم پر فاعل ہونے کا گمان ہوتا ہے ۔۔۔ جبکہ درحقیقت ایسا ہے نہیں ۔۔۔
تمہیں چاہتے ہیں زیادہ سے زیادہ
یہی تم سے ہم کم سے کم چاہتے ہیں
زیادہ سے زیادہ ۔۔۔زیادہ سے زادہ تقطیع ہو رہا ہے ۔۔۔ جو درست نہیں، زیادہ کی ے مخلوط نہیں، اس کو گرا نہیں سکتے۔
تمنا ہم الجھے ہوئے عاشقوں کی
تیری زلف کے پیچ و خم چاہتے ہیں
مطلق پیچ و خم چاہنا بے معنی بات لگتی ہے ۔۔۔ پہلا مصرع تشنۂ الفاظ بھی ہے ۔۔۔ ہے یا دیکھو وغیرہ جیسے الفاظ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
بتاتے سدا ہو تم ہی اپنی خواہش
کبھی یہ تو پوچھو کیا ہم چاہتے ہیں
خیال اچھا ہے، مگر اس سیاق و سباق میں خواہش بتانے کے بجائے خواہش منوانا قرین محاورہ ہوگا ۔۔۔ مگر دونوں مصرعوں میں الفاظ کی ترتیب غیر فطری ہے ۔۔۔ دوسرے مصرعے کیا کا محض ’’کَ‘‘ تقطیع ہونا بھی اچھا نہیں ۔۔۔ کیا میں یائے مخلوط پہلے ہی ساقط ہوتی ۔۔۔ الف بھی نہیں چھوڑیں گے تو بچے گا کیا ؟
دوسرے مصرعے کواسی خیال کے ساتھ موزوں کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔۔۔ میرے ذہن میں فی الحال کوئی متبادل نہیں آرہا ۔۔۔ پہلے کو یوں کہہ سکتے ہیں
چلاتے ہو تم ہی سدا اپنی مرضی ۔۔۔
ملاقات کا پھر منع کردیا ہے
کیوں آنکھیں ہماری وہ نم چاہتے ہیں
پہلا مصرع بحر میں نہیں ۔۔۔ منع میں ن اور ع دونوں ساکن ہیں۔ کیوں کو محض کُ تقطیع کرنا اچھا نہیں ۔۔۔ اگرچہ کیوں کی واؤ کے آنکھوں کی الف سے وصال کی وجہ سے یہاں اتنا نہیں کھل رہا۔
آنکھیں نم چاہنا بھی کوئی محاورہ نہیں ۔۔۔ یا تو یہ کہنا چاہیے کہ وہ ہماری آنکھوں میں نمی چاہتے ہیں ۔۔۔ یا پھر یہ کہ وہ ہماری آنکھیں نم دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔
تیری زندہ آنکھیں جو اک بار دیکھے
وہ مر کر دوبارہ جنم چاہتے ہیں
کیوں؟ زندگی آنکھوں کا کون سا وصف ہے؟ اور انہیں دیکھنے کے بعد مر کر دوبارہ زندہ ہونے کی خواہش کی وجہِ تسمیہَ؟؟؟
تیر کے بجائے تری کہیں گے تو وزن ٹھیک ہوگا۔
خدا تیری دنیا سے جی بھر گیا ہے
بلالو ہم آنا ارم چاہتے ہیں
شتر گربہ ہے، دوسرے مصرعے میں بلا لو کے بجائے بلا لے کہیں۔
خدایا تمہارے یہ نادار بندے
رحم چاہتے ہیں کرم چاہتے ہیں
خدا کے ساتھ تُو کا صیغہ ہی مناسب لگتاہے ۔۔۔
رحم کا تلفظ درست نہیں کیا آپ نے، اس لیے پہلا مصرع بحر سے خارج ہو رہا ہے۔
ہو انداز ایسا جو دل پر اثر ہو
غزل میں وہ زورِ قلم چاہتے ہیں
پہلے مصرعے میں جو کے بجائے کہ ہونا چاہیے ۔۔۔ لیکن پھر بھی مصرع کچھ خاص جاندار نہیں ہوتا ۔۔۔
یہ عاصی یہ شارؔق خدا تیرے بندے
تیرے نام پر نکلے دم چاہتے ہیں
عاصی اور شارق الگ الگ شخصیات ہیں کیا؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شارق بھائی ۔۔۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ آپ کو خود اپنے کلام کو دشمن کی نظر سے دیکھنے کی عادت اپنانی ہوگی، اگر آپ اچھا شاعر بننا چاہتے ہیں تو!
شاعری صرف الفاظ کو موزوں کرنے کا نام نہیں! آپ کے حالیہ کلام کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اشعار کی بھرمار کے بیچ آپ کبھی کبھی واقعی اچھا شعر نکال لیتے ہیں ۔۔۔ سو میرا مشورہ پھر وہی ہوگا کہ معیار کو مقدار پر ترجیح دیجیے ۔۔۔ اور اپنا مطالعہ بھی بڑھائیے تاکہ روزمرہ اور محاورے کی بنیادی اغلاط سے بچ سکیں ۔۔۔ والسلام۔