امین شارق
محفلین
استادِ سُخن داغ صاحب کی اک غزل کی زمین میں ایک غزل کہنے کی گستاخی کی ہے۔
الف عین
ظہیر احمد ظہیر
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
الف عین
ظہیر احمد ظہیر
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
نگاہِ کرم میری جاں جاتے جاتے
سنا عشق کی داستاں جاتے جاتے
بچائے خدا عشق سے ہر جواں کو
دعا دیدے پیرِ مغاں جاتے جاتے
میرے آشیاں میں تھے گنتی کے تنکے
سب ہی لے گئی آندھیاں جاتے جاتے
کہیں مار ڈالے نہ غمِ ہجر ہم کو
بندھی ہیں بہت ہچکیاں جاتے جاتے
تھمے نہ تھمے ان کے جانے سے دل پر
رکے گے نہ آنسو فغاں جاتے جاتے
ہنسایا ہمیں ان بہاروں نے برسوں
رلائے کگی خوں اب خزاں جاتے جاتے
یہیں بھول بیٹھے ہو تم جان و دل کو
بہت جلد کی مہرباں جاتے جاتے
تھی نزدیک منزل مگر ہائے قسمت
رکے ہیں قدم یہ کہاں جاتے جاتے
اصل میں وہ غم ہے خوشی جس کو سمجھے
دِکھے گا یہ منظر دھواں جاتے جاتے
غمِ عشق دل سے بھلایا نہ جائے
بہت وقت لے گا نشاں جاتے جاتے
خدایا مہلت تُو شارؔق کو دے یہ
کمالے ذرا نیکیاں جاتے جاتے
سنا عشق کی داستاں جاتے جاتے
بچائے خدا عشق سے ہر جواں کو
دعا دیدے پیرِ مغاں جاتے جاتے
میرے آشیاں میں تھے گنتی کے تنکے
سب ہی لے گئی آندھیاں جاتے جاتے
کہیں مار ڈالے نہ غمِ ہجر ہم کو
بندھی ہیں بہت ہچکیاں جاتے جاتے
تھمے نہ تھمے ان کے جانے سے دل پر
رکے گے نہ آنسو فغاں جاتے جاتے
ہنسایا ہمیں ان بہاروں نے برسوں
رلائے کگی خوں اب خزاں جاتے جاتے
یہیں بھول بیٹھے ہو تم جان و دل کو
بہت جلد کی مہرباں جاتے جاتے
تھی نزدیک منزل مگر ہائے قسمت
رکے ہیں قدم یہ کہاں جاتے جاتے
اصل میں وہ غم ہے خوشی جس کو سمجھے
دِکھے گا یہ منظر دھواں جاتے جاتے
غمِ عشق دل سے بھلایا نہ جائے
بہت وقت لے گا نشاں جاتے جاتے
خدایا مہلت تُو شارؔق کو دے یہ
کمالے ذرا نیکیاں جاتے جاتے