نگاہ خود پہ جو ڈالی تو یہ ہُوا معلوم - سرور عالم راز سرور

کاشفی

محفلین
غزل
(سرور عالم راز سرور)
نگاہ خود پہ جو ڈالی تو یہ ہُوا معلوم
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم!

سوائے اس کے نہیں کچھ بھی باخدا معلوم
ہمیں تو اپنا بھی یارو نہیں پتا معلوم!

مآل شکوہء غم، حاصلِ دُعا معلوم!
غریبِ شہرِ وفا کا علاج، لامعلوم!

خزاں گزیدہ بہاروں نے کیا کہا تجھ سے؟
مآلِ گل نہیں‌کیا تجھ کو اے صبا معلوم؟

اک عمر کٹ گئی امید و نامرادی میں
اب انتظار ہے کل کا، سو وہ بھی کیا معلوم!

بس اتنا جانتے ہیں دل کسی کو دے آئے
بھلے برے کی خبر کیا ہمیں بھلا معلوم؟

نہیں ہے کچھ بھی تلاشِ سکون سے حاصل
مقام عشق کی ہے ہم کو ہر ادا معلوم!

بھلے ہی تم کو نہ ہو اپنے عاشقوں کی خبر!
ہمیں ہے حال تمہارا ذرا ذرا معلوم!

پڑا ہے سوچ میں سرور مقامِ عبرت میں
یہ کیا غضب ہے کہ معلوم بھی ہے نا معلوم؟
 
Top