سحرش سحر
محفلین
وہ بس میں بیٹھا کھڑکی میں سے باہر کی افراتفری کا جائزہ لے رہا تھا ۔ ابھی سواریاں پوری نہیں تھیں تو بس کی روانگی میں کچھ دیر تھی ۔ وہ اپنی سوچوں میں گُم بھانت بھانت کے لوگوں کو دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں ان کے بارے میں طرح طرح کی رائے دے رہا تھا ۔ اتنے میں اچانک اس کی کھڑکی کے قریب سے ایک شاندار قدو قامت والی لڑکی اونچی ایڑھی والےسینڈلوں میں مٹکاتی ہوئی گزر گئی ۔ زرق برق لباس میں ملبوس، دوپٹے کو تھورا سا سر پر اڑس کرمفلر کی طرح گلے میں اٹکا یا ہواتھا جس سے شانوں پر بکھرے ہوئے بال نظر آ رہے تھے ، کندھے سے لٹکتا پرس، ماتھےپر سے ایک لٹکتا بالوں کا لٹ بھی اسے نظر آ گیا تھا مگروہ اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا ۔ بس ایک حسرت سی ہی رہ گئی بلکہ ایک چھبن سی رہ گئی ۔ اس نے بند کھڑکی کے شیشیے میں اپنا سر گھسیڑ کر اسے دیکھنے کی سر تھوڑ کوشش کی جس کی بناپر اس کی ناک اور دایاں گال شیشہ کے ساتھ ایسا چپک گیا تھا کہ اس کی دائیں آنکھ بند ہو گئی تھی ۔ کسی اور کے ٹوکنے سے پیشتر ہی وہ اس خوف سے شیشہ سے ہٹ گیا، کہیں شیشہ ٹوٹ ہی نہ جائے ۔ دل ہی دل میںِ اپنی حسرت پر وہ آنسو بہاتے ہوئے بدستور کھڑکی میں سے دیکھ رہا تھا اسے کیا خبر تھی کہ اس کا اصل امتحان تو اب شروع ہونے والا ہے ۔
پوری رفتار سے بس روانہ ہو گئی وہ بھی سیدھا ہو کر اطمینان سے بیٹھ گیا ۔ اس کے ساتھ سیٹ پر دو سواریاں بیٹھ گئ تھیں ۔ اس کے قریب ایک نوجوان بیٹھا تھا اور اس کے پہلو میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی لباس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گود میں پڑا ہوا اس کا وہی بیگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی دوشیزہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مگر وہ چوڑاچکلا نوجوان اس کی اور اس کی خواہش کے بیچ آڑ بن گیا تھا۔ وہ تھوڑا سا آگے جھک کر ایک نگاہ غلط اس پر ڈال سکتا تھا اس کا چہرہ دیکھ سکتا تھا مگر اس کے لیے اس کے پاس ہمت کہاں سے آتی ۔ اس کے دل میں چور تھا اور چور کمینہ، ہمیشہ بزدل ہوتا ہے ۔
خیر سفر تو ابھی شروع ہواتھا ۔ اضطرابی کیفیت کے باوجود وہ من ہی من میں خوش اور مطمئن تھا ۔وہ سوچ رہا تھا کہ ہائے افسوس کیا قبولیت کی گھڑی اس کے ہاتھ لگی تھی کاش وہ کچھ اور بھی مانگ لیتا ۔
اب وہ اس نوجوان کے متعلق بھی سوچنے لگا کہ یہ اس لڑکی کا کیا لگتا ہوگا ....بھائی یا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ استغفر اللہ کہہ کر اس نے اس خیا ل کو ذہن سے جھٹک دیا ۔
اس نے ایک چال چلی کہ میں اس نوجوان سے بات چیت کا آغاز کئے دیتا ہوں ایسے میں اس کی جانب رخ کر کے گفتگو کروں گا تو اس لڑکی کو ایک نگاہ بھر دیکھنے کا موقع تو مل ہی جائے گا ۔ آخر اس نے ہمت کر کے لڑکے کی طرف دیکھنے سے قبل آہستہ سے اس سے پوچھا: آپ کہاں جا رہے ہیں؟مگر جواب ندارد ۔ ۔ ۔ ۔کیونکہ اس نے کانوں میں ہینڈز فری لگائے ہوئے تھے ۔ اور وہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر اپنی ترنگ میں مدہوش تھا ۔ چند ہی گھڑیوں کے بعد نوجوان نے لڑکی کی جانب اپنا رخ کیا تو اِس نے بھی موقع غنیمت جان کر اپنا رخ فورا پھیرا اور انھیں دیکھنے لگا مگر وہ لڑکی اپنے بیگ میں کچھ ٹٹول رہی تھی ۔ نوجوان بھی انہماک سے اس کی جانب جھک کر اس کے ٹٹولتے ہاتھوں کے تعاقب میں بیگ کو دیکھتا رہا ۔ اس نوجوان کی آڑ کی بنا پر ، لاکھ کوشش کے باوجود اس کے دل کی خواہش پوری نہ ہو سکی ۔
مگر وہ بھی اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہیں تھا سو دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اب کہ اس نے ایک اور حربہ استعمال کیا ۔ اپنی نشست سے تھوڑا سا اٹھ کر پہلے اس نے اگلی سواریوں کو غور سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر پچھلی سیٹوں پر ایک طائرانہ نگاہ اس انداز سے ڈالی کہ جیسے وہ کسی کی تلاش میں ہے مگر لڑکی سر نیچا کئے، اپنے موبائل فون پر نگا ہیں گاڑے 'علامہ اقبال کی طرح پوز بنائے، ایسی ساکت بیٹھی تھی کہ مجال ہے اس کی ناک تک کا دیدار وہ کر سکا ہو ۔
کئی دفعہ اس نے کنکھیوں سے بھی دیکھنے کی کوشش کی مگر وہ کمبخت نظر کب آ رہی تھی ۔
چلو جی یہ وار بھی خالی گیا ۔ مایوس ہو کراس نے اپنا منہ کھڑکی کی طرف پھیر دیا ۔
اس کےاندر بھی ایک جنگ شروع ہو گئی تھی کہ وہ یہ کیا کر رہا ہے ۔ وہ خود بھی تو بیٹیوں کا باپ ہے ۔ بے شک وہ ابھی چھوٹی ہیں مگر کل کو انھوں نے بڑا بھی ہونا ہے ۔ کیا لوگ ایسے ہی ان پر اپنی غلیظ نگاہوں کی غلاظت ڈالیں گے ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔بالکل نہیں ۔ ۔ ۔ مگر وہ تو کوئی غلیظ نگاہ اس لڑکی پر نہیں ڈالنا چاہتاتھا ۔ ۔ ۔ ۔وہ تو بس اسے ایک بار ۔ ۔ ۔ ۔صرف ایک باردیکھنے کا خواہشمند تھا ۔ کاش یہ لڑکی اسے نظر ہی نہ آتی اور نہ ہی اس کے پاس والی سیٹ پر آ کر بیٹھتی بلکہ گھر سے ہی نہ نکلتی تو بیٹھے بٹھائے اسے یوں یہ روگ نہ لگتا اوراگر یہ لڑکی یہاں نہ بھی بیٹھتی تو کہیں اور جا کر بیٹھ جاتی تو کوئی اور دل پکڑ کر بیٹھ جاتا ۔ تو کیا خواتین کو اپنے گھروں میں مقید کیا جائے......نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ مقید کیوں کیا جائے ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں بالکل نہیں ۔ ۔ ۔ ۔اس جہان رنگ و بو کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے ۔ ان کی اپنی ضروریات و مسائل ہیں ۔ اگر لیڈی ڈاکٹرز اور استانیاں نہیں ہوں گی تو کیا خواتین اپنے علاج معالجے کے لیے یا تعلیم کے حصول کے لیے کسی مرد کے آگے نہیں بیٹھیں گی تو کیا وہ مرد تمہاری طرح ہوسناک نگاہیں اس پر نہیں گاڑے گا اور کسی حسین چہرے کو باربار دیکھنے کامتمنی نہیں ہوگا ۔ کیا وہ تمھاری طرح اضطراب میں مبتلہ نہیں ہوگا ۔ اگر شناختی کارڈیاپاسپورٹ کے دفاتر میں خواتین نہ ہوں گی تو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
وہ اپنے ضمیر کی عدالت میں ہانپتا کانپتا کھڑا اس کے زبردست براہین سن رہا تھااور یہ آخری دلائل تو براہین قاطع ثابت ہوئیں کہ" آپ علیہ السلا م مومن مردوں سے فرما دیں کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔ " ۔ اور خواتین کے لیے بھی اللہ تعالٰی کے خصوصی احکام ہیں کہ
"لا تبرجن تبرج الجا ہلیت الاولی(سورہ احزاب)
"زما نہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھا کرتی نہ پھرو ۔ "
" اے نبی! اپنی بیبیوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادر کا ایک حصہ منہ پر ڈالی رہیں ۔ "
( سورہ احزاب)
"آپ علیہ السلام مومن عورتوں سے فرما دیں کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں ۔ " (سورہ نور)
مومنوں (مرد و عورت) کو اسلئے اپنی نگاہیں جھکا ئے رکھنے کا حکم ہے تاکہ اس قسم کی بیہودہ خیالات و خواہشات سے اور ان سے پیدا شدہ بے سکونی و اضطراب سے محفوظ رہ سکے ۔
اس کا دل اپنی فضول خواہش پر مبنی یہ لڑائی اپنے ضمیر کی عدالت میں ہار گیا تھا۔ ابھی اس کے ضمیر کی لعنت ملامت جاری ہی تھی کہ اچانک ایک آواز پر وہ چونک پڑا "کچی اسٹیشن والے " اس کی منزل ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا اسٹیشن آ گیا تھا ۔ وہ اٹھنے لگا تو اس کے آگے وہ نوجوان اور وہ لڑکی پہلے ہی سے اترنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ لڑکی نے اپنا موبائل فون کان سے لگایا تھا ۔وہ بھی ان کے پیچھے نگاہ ملامت کے ساتھ اترا اور نظریں جھکائےاپنی راہ لی ۔ وہ اپنے گھر کے دروازہ پر پہنچا ہی تھاکہ ایک محلے دار سے مڈبھیڑ ہو گئی ۔ اس سے ایک دو منٹ بات کی اورجیسے ہی دروازہ میں ںسے داخل ہونے لگا کہ پیچھے سے ایک نسوانی آواز اس کے کانوں میں گونجی "چچا جان "!
اس نے جیسے ہی مڑ کر دیکھا تو اسے وہی لڑکی اور وہ نوجوان نظر آیا ۔ اس کے پیروں تلے زمیں نکل گئی کیونکہ یہ تو اس کی بھتیجی تھی جس کی پچھلے سال شادی ہوئی تھی ۔ اپنی بیوی کی بیماری کی بنا ء پر وہ اس میں شرکت نہ کر سکا تھا ۔ اور ساتھ میں کھڑا نوجوان اسکا شوہر تھا ۔
سحرش سحر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
پوری رفتار سے بس روانہ ہو گئی وہ بھی سیدھا ہو کر اطمینان سے بیٹھ گیا ۔ اس کے ساتھ سیٹ پر دو سواریاں بیٹھ گئ تھیں ۔ اس کے قریب ایک نوجوان بیٹھا تھا اور اس کے پہلو میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی لباس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گود میں پڑا ہوا اس کا وہی بیگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی دوشیزہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مگر وہ چوڑاچکلا نوجوان اس کی اور اس کی خواہش کے بیچ آڑ بن گیا تھا۔ وہ تھوڑا سا آگے جھک کر ایک نگاہ غلط اس پر ڈال سکتا تھا اس کا چہرہ دیکھ سکتا تھا مگر اس کے لیے اس کے پاس ہمت کہاں سے آتی ۔ اس کے دل میں چور تھا اور چور کمینہ، ہمیشہ بزدل ہوتا ہے ۔
خیر سفر تو ابھی شروع ہواتھا ۔ اضطرابی کیفیت کے باوجود وہ من ہی من میں خوش اور مطمئن تھا ۔وہ سوچ رہا تھا کہ ہائے افسوس کیا قبولیت کی گھڑی اس کے ہاتھ لگی تھی کاش وہ کچھ اور بھی مانگ لیتا ۔
اب وہ اس نوجوان کے متعلق بھی سوچنے لگا کہ یہ اس لڑکی کا کیا لگتا ہوگا ....بھائی یا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ استغفر اللہ کہہ کر اس نے اس خیا ل کو ذہن سے جھٹک دیا ۔
اس نے ایک چال چلی کہ میں اس نوجوان سے بات چیت کا آغاز کئے دیتا ہوں ایسے میں اس کی جانب رخ کر کے گفتگو کروں گا تو اس لڑکی کو ایک نگاہ بھر دیکھنے کا موقع تو مل ہی جائے گا ۔ آخر اس نے ہمت کر کے لڑکے کی طرف دیکھنے سے قبل آہستہ سے اس سے پوچھا: آپ کہاں جا رہے ہیں؟مگر جواب ندارد ۔ ۔ ۔ ۔کیونکہ اس نے کانوں میں ہینڈز فری لگائے ہوئے تھے ۔ اور وہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر اپنی ترنگ میں مدہوش تھا ۔ چند ہی گھڑیوں کے بعد نوجوان نے لڑکی کی جانب اپنا رخ کیا تو اِس نے بھی موقع غنیمت جان کر اپنا رخ فورا پھیرا اور انھیں دیکھنے لگا مگر وہ لڑکی اپنے بیگ میں کچھ ٹٹول رہی تھی ۔ نوجوان بھی انہماک سے اس کی جانب جھک کر اس کے ٹٹولتے ہاتھوں کے تعاقب میں بیگ کو دیکھتا رہا ۔ اس نوجوان کی آڑ کی بنا پر ، لاکھ کوشش کے باوجود اس کے دل کی خواہش پوری نہ ہو سکی ۔
مگر وہ بھی اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہیں تھا سو دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اب کہ اس نے ایک اور حربہ استعمال کیا ۔ اپنی نشست سے تھوڑا سا اٹھ کر پہلے اس نے اگلی سواریوں کو غور سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر پچھلی سیٹوں پر ایک طائرانہ نگاہ اس انداز سے ڈالی کہ جیسے وہ کسی کی تلاش میں ہے مگر لڑکی سر نیچا کئے، اپنے موبائل فون پر نگا ہیں گاڑے 'علامہ اقبال کی طرح پوز بنائے، ایسی ساکت بیٹھی تھی کہ مجال ہے اس کی ناک تک کا دیدار وہ کر سکا ہو ۔
کئی دفعہ اس نے کنکھیوں سے بھی دیکھنے کی کوشش کی مگر وہ کمبخت نظر کب آ رہی تھی ۔
چلو جی یہ وار بھی خالی گیا ۔ مایوس ہو کراس نے اپنا منہ کھڑکی کی طرف پھیر دیا ۔
اس کےاندر بھی ایک جنگ شروع ہو گئی تھی کہ وہ یہ کیا کر رہا ہے ۔ وہ خود بھی تو بیٹیوں کا باپ ہے ۔ بے شک وہ ابھی چھوٹی ہیں مگر کل کو انھوں نے بڑا بھی ہونا ہے ۔ کیا لوگ ایسے ہی ان پر اپنی غلیظ نگاہوں کی غلاظت ڈالیں گے ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔بالکل نہیں ۔ ۔ ۔ مگر وہ تو کوئی غلیظ نگاہ اس لڑکی پر نہیں ڈالنا چاہتاتھا ۔ ۔ ۔ ۔وہ تو بس اسے ایک بار ۔ ۔ ۔ ۔صرف ایک باردیکھنے کا خواہشمند تھا ۔ کاش یہ لڑکی اسے نظر ہی نہ آتی اور نہ ہی اس کے پاس والی سیٹ پر آ کر بیٹھتی بلکہ گھر سے ہی نہ نکلتی تو بیٹھے بٹھائے اسے یوں یہ روگ نہ لگتا اوراگر یہ لڑکی یہاں نہ بھی بیٹھتی تو کہیں اور جا کر بیٹھ جاتی تو کوئی اور دل پکڑ کر بیٹھ جاتا ۔ تو کیا خواتین کو اپنے گھروں میں مقید کیا جائے......نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ مقید کیوں کیا جائے ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں بالکل نہیں ۔ ۔ ۔ ۔اس جہان رنگ و بو کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے ۔ ان کی اپنی ضروریات و مسائل ہیں ۔ اگر لیڈی ڈاکٹرز اور استانیاں نہیں ہوں گی تو کیا خواتین اپنے علاج معالجے کے لیے یا تعلیم کے حصول کے لیے کسی مرد کے آگے نہیں بیٹھیں گی تو کیا وہ مرد تمہاری طرح ہوسناک نگاہیں اس پر نہیں گاڑے گا اور کسی حسین چہرے کو باربار دیکھنے کامتمنی نہیں ہوگا ۔ کیا وہ تمھاری طرح اضطراب میں مبتلہ نہیں ہوگا ۔ اگر شناختی کارڈیاپاسپورٹ کے دفاتر میں خواتین نہ ہوں گی تو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
وہ اپنے ضمیر کی عدالت میں ہانپتا کانپتا کھڑا اس کے زبردست براہین سن رہا تھااور یہ آخری دلائل تو براہین قاطع ثابت ہوئیں کہ" آپ علیہ السلا م مومن مردوں سے فرما دیں کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔ " ۔ اور خواتین کے لیے بھی اللہ تعالٰی کے خصوصی احکام ہیں کہ
"لا تبرجن تبرج الجا ہلیت الاولی(سورہ احزاب)
"زما نہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھا کرتی نہ پھرو ۔ "
" اے نبی! اپنی بیبیوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادر کا ایک حصہ منہ پر ڈالی رہیں ۔ "
( سورہ احزاب)
"آپ علیہ السلام مومن عورتوں سے فرما دیں کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں ۔ " (سورہ نور)
مومنوں (مرد و عورت) کو اسلئے اپنی نگاہیں جھکا ئے رکھنے کا حکم ہے تاکہ اس قسم کی بیہودہ خیالات و خواہشات سے اور ان سے پیدا شدہ بے سکونی و اضطراب سے محفوظ رہ سکے ۔
اس کا دل اپنی فضول خواہش پر مبنی یہ لڑائی اپنے ضمیر کی عدالت میں ہار گیا تھا۔ ابھی اس کے ضمیر کی لعنت ملامت جاری ہی تھی کہ اچانک ایک آواز پر وہ چونک پڑا "کچی اسٹیشن والے " اس کی منزل ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا اسٹیشن آ گیا تھا ۔ وہ اٹھنے لگا تو اس کے آگے وہ نوجوان اور وہ لڑکی پہلے ہی سے اترنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ لڑکی نے اپنا موبائل فون کان سے لگایا تھا ۔وہ بھی ان کے پیچھے نگاہ ملامت کے ساتھ اترا اور نظریں جھکائےاپنی راہ لی ۔ وہ اپنے گھر کے دروازہ پر پہنچا ہی تھاکہ ایک محلے دار سے مڈبھیڑ ہو گئی ۔ اس سے ایک دو منٹ بات کی اورجیسے ہی دروازہ میں ںسے داخل ہونے لگا کہ پیچھے سے ایک نسوانی آواز اس کے کانوں میں گونجی "چچا جان "!
اس نے جیسے ہی مڑ کر دیکھا تو اسے وہی لڑکی اور وہ نوجوان نظر آیا ۔ اس کے پیروں تلے زمیں نکل گئی کیونکہ یہ تو اس کی بھتیجی تھی جس کی پچھلے سال شادی ہوئی تھی ۔ اپنی بیوی کی بیماری کی بنا ء پر وہ اس میں شرکت نہ کر سکا تھا ۔ اور ساتھ میں کھڑا نوجوان اسکا شوہر تھا ۔
سحرش سحر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
آخری تدوین: