غزل قاضی
محفلین
نگر نگر میلے کو گئے کون سُنے گا تیری پُکار
اے دل ، اے دیوانے دل ! دیواروں سے سر دے مار
رُوح کے اس ویرانے میں تیری یاد ہی سب کچھ تھی
آج تو وہ بھی یوں گزری جیسے غریبوں کا تیوہار
اُس کے وار پہ شاید آج تجھ کو یاد آئے ہوں وُہ دِن
اے نادان خلوص کہ جب وہ غافل تھا ہم ہُشیار
پل پل صدیاں بیت گئیں جانے کس دن بدلے گی
ایک تری آہستہ روی ، ایک زمانے کی رفتار
پچھلی فصل میں جتنے بھی اہل ِ جنوں تھے کام آئے
کون سجائے گا تیری مشق کا ساماں اب کی بار ؟
صُبح کے نکلے دیوانے اب کیا لَوٹ کے آئیں گے
ڈوب چلا ہَے شہر میں دن ، پَھیل چلا ہَے سایہؑ دار
مصطفیٰ زیدی
( شہر ِ آذر )
اے دل ، اے دیوانے دل ! دیواروں سے سر دے مار
رُوح کے اس ویرانے میں تیری یاد ہی سب کچھ تھی
آج تو وہ بھی یوں گزری جیسے غریبوں کا تیوہار
اُس کے وار پہ شاید آج تجھ کو یاد آئے ہوں وُہ دِن
اے نادان خلوص کہ جب وہ غافل تھا ہم ہُشیار
پل پل صدیاں بیت گئیں جانے کس دن بدلے گی
ایک تری آہستہ روی ، ایک زمانے کی رفتار
پچھلی فصل میں جتنے بھی اہل ِ جنوں تھے کام آئے
کون سجائے گا تیری مشق کا ساماں اب کی بار ؟
صُبح کے نکلے دیوانے اب کیا لَوٹ کے آئیں گے
ڈوب چلا ہَے شہر میں دن ، پَھیل چلا ہَے سایہؑ دار
مصطفیٰ زیدی
( شہر ِ آذر )