نہانے سے پہلے یہ تحریر ضرور پڑھیں۔۔۔۔۔۔ مرزا یٰسین بیگ

nahane-se-pahle-670.jpg

ہمارے مڈل کلاس بزرگ شیمپو اور بے پردہ میموں کو ایک جیسا سمجھتےتھے۔ —. اللسٹریشن: جمیل خان

نہانا وہ کام ہے جس میں جسم کے تمام عضو اکھٹے ہوکر حصہ لیتے ہیں۔ اگر ایک عضو بھی بھیگنے سے انکار کردے تو نہانے کا لطف جاتا رہتا ہے۔ نہانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کپڑوں کی آلائش سے پاک ہوں۔ غسل خانے میں چٹخنی لگی ہو اور ساتھ چائے یا کافی نہ سہی مگر پانی کافی ہو۔ نہانے کا آغاز آپ اپنی پسند کے کسی بھی عضو سے کرسکتے ہیں۔ پہلے انسان کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر نہاتا تھا مگر نئی ایجادات کی بدولت لیٹ ہی سہی مگر اب وہ نہانے کے لیے لیٹ بھی سکتا ہے۔ نہانے سے جسم، صابن،شیمپو اور تولیہ بنانےوالوں کو راحت ملتی ہے۔ باتھ ٹب نے باتھ روم کو بیڈروم میں تبدیل کردیا ہے۔ اب آپ بیڈروم والا ہر کام باتھ روم میں کرسکتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا ہم سب کے غسل خانوں میں صرف ایک لال صابن نظرآتاتھا، اب دنیا میں صابنوں اور ٹی وی چینلز کی کوئی کمی نہیں۔ صابن نہانے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ نہاتے ہوئے اگر ایک خوشبودار صابن آپ کے ہاتھ میں نہ ہو تو نہانے کا آدھا لُطف جاتا رہتا ہے۔ جسم سے میل اور دیگر چیزیں چھوٹتی ہی نہیں اگر ان پر صابن کا تڑکا نہ لگے۔ شیمپو نے غسل خانوں کو وہی رونق بخش دی ہے جو عورتوں نے مردوں کے جیون کو۔ سنا ہے جب نیا نیا شیمپو آیا تھا ہمارے مڈل کلاس بزرگ شیمپو اور بے پردہ میموں کو ایک جیسا سمجھتےتھے یعنی صرف دیکھنے کی چیز،استعمال سے پرہیز۔
نہانا غریبوں کی ضرورت اور امیروں کی عیاشی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیروں کے باتھ روم غریبوں کے پورے مکان سے بھی زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔ امیروں میں یہ رواج اب عام ہے کہ وہ مردوں کو ڈرائنگ روم میں اور حسیناؤں کو براہ راست باتھ روم میں مدعو کرتے ہیں۔ آدمی لاکھ اکیلا ہو مگر نہانے سے اس کا اکیلاپن دور ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ نہانے سے سخت گھبراتے ہیں۔ انہیں نہانے کہاجائے تو ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے انہیں گوانتاناموبے بھیجاجارہا ہے۔ کچھ لوگ ہر گھڑی نہانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ انہیں نہانے سے روکنا ایسا ہی ہے جیسے چیف جسٹس سے کہا جائے کہ پلیز ایک اور وزیراعظم کو گھر نہ بھیجیں۔ بزرگوں سے سنا ہے دودھوں نہاؤ، پوتوں پھلو، مگر آج تک کسی کو دودھ سے نہاتے نہیں دیکھا گیا۔ نہانے کے لیے پانی ہی کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ نل کا پانی ہو،سمندر دریا ندی نالوں کا یا پھر بارش کا۔
کچھ نوجوان شادی سے پہلے نہانے سے دور بھاگتے ہیں مگر شادی ہوتے ہی روز نہانا شروع کردیتے ہیں۔ اکثر بیویاں ان شوہروں پر شک کرتی ہیں جو دفتر سے آتے ہی نہانے چلے جاتے ہیں۔ انسان زندگی میں کتنے گناہ کرتا ہے اور کتنی بار نہاتا ہے اس کا شمار کوئی نہیں رکھتا۔
سوئمنگ پول نے نہانے کے تمام چھپے پول کھول دیے ہیں۔ اس کی وجہ سے اب نہانے کے لیے باری کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ جب دل چاہا چھلانگ لگادی اور جسم و جذبات کو تر کرلیا۔ سمندر اور دریا میں جاکر نہانا ایک دلچسپ مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسی جگہوں پر شادی شدہ اپنی فیملی اور غیرشادی شدہ دوسروں کی فیملی کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ غیروں کی جتنی تصویریں ساحل پر بنتی ہیں، اتنی اور کہیں نہیں۔
مغربی ممالک میں پانی کے علاوہ سورج کی کرنوں کا غسل بھی عام ہے۔ ہمارے ملک میں اگر کوئ غیرملکی خاتون ’سن باتھ‘ لینے کی کوشش کرے تو سورج سے زیادہ مردوں کی کرنیں اس کے جسم تک پہنچتی ہیں۔
ایک نہانا اور ہے جسے ’غسل صحت‘ کہتے ہیں۔ اس قسم کے غسل کے لیے ڈاکٹر بڑی لمبی رقم اینٹھ لیتے ہیں۔ ایک نہانا ایسا ہے جو ہر جوان عورت پر فرض ہے۔ یہ من جانب اللہ ہے جس کا فیض شوہر اُٹھاتے ہیں۔
نہانا صرف زندگی کے لیے ضروری نہیں، مرنے کے بعد بھی آدمی کو نہلایا جاتاہے جسے آخری غسل کہتے ہیں۔ یہ وہ غسل ہوتا ہے جس کے بعد لوگ آپ کو کندھوں پر اٹھالیتے ہیں جیسے آپ نے کوئ غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہو۔

تحریر: مرزا یٰسین بیگ
بہ شکریہ ڈان اردو
 
تو اور کتنی بار نہائیں ؟ صبح جاتے وقت اور شام کو آتے وقت ۔ کبھی کبھار سارا دن ہی سمندری پانی مین پڑے رہتے ہیں وہ نہانا نہیں
گندہ آدمی اس لیے کہ دن میں دو بار نہانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
اور کچھ اتنے پاک صاف ہوتے ہیں کہ جمعہ کو بھی بس اہتمامِ نماز میں نہا لیتے ہیں ورنہ ضرورت کسے۔
 

عسکری

معطل
گندہ آدمی اس لیے کہ دن میں دو بار نہانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
اور کچھ اتنے پاک صاف ہوتے ہیں کہ جمعہ کو بھی بس اہتمامِ نماز میں نہا لیتے ہیں ورنہ ضرورت کسے۔
بہت گرمی اور پسینہ بھی آتا ہے جناب ہم کسی آفس مین بیٹھ کر حساب کتاب کرنے والے آفیسر نہین ہیں
 
Top