میم الف
محفلین
حکمت (۱) قال علیہ السلام
کن فی الفتنة کابن اللبون، لا ظھر فیرکب، ولا ضرع فیحلب۔
فتنہ و فساد میں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کیے ہوں کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جا سکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جا سکتا ہے۔حکمت (۲) وقال علیہ السلام
ازری بنفسہ من استشعر الطمع، و رضی بالذل من کشف عن ضرہ، و ھانت علیہ نفسہ من امر علیھا لسانہ۔
جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا اس نے اپنے کو سبک کیا، اور جس نے اپنی پریشان حالی کا اظہار کیا وہ ذلت پر آمادہ ہو گیا، اور جس نے اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھا اس نے خود اپنی بے وقعتی کا سامان کر لیا۔حکمت (۳) وقال علیہ السلام
البخل عار، و الجبن منقصہ، و الفقر یخرس الفطن عن حجتہ، والمقل غریب فی بلدتہ، و العجز اٰفة، و الصبر شجاعة، و الزھد ثروة، و الورع جنة۔
بخل ننگ و عار ہے، اور بزدلی نقص و عیب ہے، اور غربت مرد زیرک و دانا کی زبان کو دلائل کی قوت دکھانے سے عاجز بنا دیتی ہے، اور مفلس اپنے شہر میں رہ کر بھی غریب الوطن ہوتا ہے، اور عجز و درماندگی مصیبت ہے، اور صبر و شکیبائی شجاعت ہے، اور دنیا سے بے تعلقی بڑی دولت ہے، اور پرہیزگاری ایک بڑی سپر ہے۔حکمت (۴) وقال علیہ السلام
نعم القرین الرضیٰ، و العلم وراثة کریمة، و الاٰداب حلل مجددة، و الفکر مراٰة صافیة۔
تسلیم و رضا بہترین مصاحب، اور علم شریف ترین میراث ہے، اور علمی و عملی اوصاف نو بنو خلعت ہیں، اور فکر صاف و شفاف آئینہ ہے۔حکمت (۵) وقال علیہ السلام
صدر العاقل صندوق سرہٖ، و البشاشة حبالة المودة، و الاحتمال قبر العیوب۔
عقل مند کا سینہ اس کے بھیدوں کا مخزن ہوتا ہے، اور کشادہ روئی محبت و دوستی کا پھندا ہے، اور تحمل و بردباری عیبوں کا مدفن ہے۔(یا)
اس فقرہ کے بجائے حضرتؑ نے یہ فرمایا:
المسالمة خبآء العیوب۔
صلح و صفائی عیبوں کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہے۔حکمت (۶) وقال علیہ السلام
من رضی عن نفسہ کثر الساخط علیہ۔ و الصدقة دواء منجح، و اعمال العباد فی عاجلھم نصب اعینھم فی اجلھم۔
جو شخص اپنے کو بہت پسند کرتا ہے وہ دوسروں کو نا پسند ہو جاتا ہے اور صدقہ کامیاب دوا ہے اور دنیا میں بندوں کے جو اعمال ہیں وہ آخرت میں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے۔حکمت (۷) وقال علیہ السلام
اعجبوا لھذا الانسان ینظر بشحمٍ، و یتکلم بلحمٍ، و یسمع بعظمٍ، ویتنفس من خرمٍ۔
یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے، اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے، اور ہڈی سے سنتا ہے، اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے۔حکمت (۸) وقال علیہ السلام
اذا اقبلت الدنیا علیٰ احدٍ اعارتہ محاسن غیرہٖ، و اذا ادبرت عنہ سلبتہ محاسن نفسہٖ۔
جب دنیا (اپنی نعمتوں کو لے کر) کسی کی طرف بڑھتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے عاریت دے دیتی ہے، اور جب اس سے رخ موڑ لیتی ہے تو خود اس کی خوبیاں بھی اس سے چھین لیتی ہے۔حکمت (۹) وقال علیہ السلام
خالطوا الناس مخالطة اِن متم معھا بکوا علیکم، و اِن عشتم حنوا اِلیکم۔
لوگوں سے اس طریقہ سے ملو کہ اگر مر جاؤ تو تم پر روئیں، اور زندہ رہو تو تمھارے مشتاق ہوں۔حکمت (۱۰) وقال علیہ السلام
اذا قدرت علیٰ عدوك فاجعل العفو عنہ شکراً للقدرة علیہ۔
دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو۔(مترجم علامہ مفتی جعفر حسین)