فراز نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا ۔۔۔احمد فراز

تفسیر

محفلین
[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=3sW24FQ1ySo
[/youtube]

--------------------------------------------------------------------

اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی میرا نصف بدن کاٹ چکی

اُسی بندوق کی نالی ہے میرے سمت کے جو
اس سے پہلے میری شہرت کا لہو چاٹ چکی

پھر وہی یاد در آئی ہے میری گلیوں میں
پھر میرے ذہین میں بارود کی بو پھیلی ہے

پھر سے تو کون ہے ، میں کون ہوں ، آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ منِ تو پھیلی ہے

میری بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا

آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے
میرے سینے میں میرا اپنا ہی خنجر اترا

پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر وہی عام وہ ہی اہل رِیا کی باتیں

نعرہ حبِ وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارضا کی ظرح دین خدا کی باتیں

اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبح وحشت کی طرح شام غریباں کی طرح

اس سے پہلے بھی تو عہد و پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشہِ دل کی طرح آئینہِ جاں کی طرح

پھر کہاں ہیں مری ہونٹوں پہ دعاوں کے دیئے
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی وِداع

صندلی پاؤں سے مستانا روی روٹھ گئ
ململی ہاتھوں پہ جل بجھ گیا گارِحنا

دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لئے زلف کا بادل رویا

مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر

اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا ندیم
نوکِ دشتاں سے کھیچی تھی میری مٹی کی لکیر

آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے میری سوختہ جانوں، میرے پیارے لوگو

اب کےگر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر، میرے درد کے مارے لوگو

کیسی غاصب، کسی ظالم، کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے سارے لوگو

نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
نہیں ایسا نہیں ہونے دینا
ایسا نہیں ہونے دینا
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب تفسیر صاحب، بہت لاجواب انتخاب ہے آپ کا۔

آج کل محفل پر فراز کی "جنوں پیشہ" ہی چھائی ہے ہر طرف، لیکن آپ نے خوب یاد دلایا فراز کا بھولا بسرا کلام۔

بہت شکریہ آپ کا

۔
 

طالوت

محفلین
میرے پیارے لوگو !

اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو !
اس سے پہلے بھی میرا نصف بدن کاٹ چکی ہے
اسی بندوق کی نالی ہے میری سمت کہ جو !
اس سے پہلے بھی میری شہہ رگ کا لہو چاٹ چکی ہے

پھر وہی آگ در آئی ہے میری گلیوں میں !
پھر میرے شہر میں بارود کی بو پھیلی ہے
پھر سے تو کون ، میں کون ہوں ؟ آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میان و من تو پھیلی ہے

میرے بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کسی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے !
میرے سینے میں صدا اپنا ہی خنجر اترا

پھر وہی خوف کی دیوار، تذبذب کی فضاء
پھر ہوئیں عام وہی اہل ریا کی باتیں
نعرہ حب وطن مال تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح خدا کی باتیں

اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبح وحژت کی طرح ، شامِ غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو پیمان وفا ٹوٹے تھے
شیشہء دل کی طرح ، آئینہ جاں کی طرح

پھر کہاں احمریں ہونٹوں پہ دعاؤں کے دئیے
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی روا !
صندلیں پیروں سے مستانہ روی روٹھ گئی
مرمریں ہاتھوں پہ جل بجھ گیا انگارِ حنا

دل نشین آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لیے زلف کا بادل رویا
مثلِ پیراہن گل ، پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر

اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دو نیم
نوک دشنہ سے کھنچی تھی میری دھرتی پہ لکیر
ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا !
میرے سوختہ جانو ، میرے پیارے لوگو !

اب کہ گر زلزلے آئے تو قیامت ہو گی
میرے دلگیر ، میرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو

------------------------------------------​
وسلام
 

عندلیب

محفلین
اب کہ گر زلزلے آئے تو قیامت ہو گی
میرے دلگیر ، میرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو
بہت خوب طالوت ۔۔۔۔
 

خوشی

محفلین
اب کہ گر زلزلے آئے تو قیامت ہو گی
میرے دلگیر ، میرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو


بہت زبردست فراز کی کیا بات ہے
شکریہ طالوت اس شئیرنگ کے لئے
 
"اب مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو"، احمد فراز


اب مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی
اُسی بندوق کی نالی ہے مری سمت کہ جو
اس سے پہلے مری شہہ رگ کا لہو چاٹ چکی
پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر مرے شہر میں بارود کی بو پھیلی ہے
پھر سے ”تو کون ہے؟“ ، ”میں کون ہوں؟“آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ من و توُپھیلی ہے
مری بستی سے پرے بھی مرے دشمن ہوں گے
پر کہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اُترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر مری جانب لپکے
مرے سینے میں سدا اپنا ہی خنجر اُترا
پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر ہوئی عام وہی اہلِ ریا کی باتیں
نعرہ حُب وطن، مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح، دین ِ خدا کی باتیں
دِل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخ بازو کیلئے زلف کا بازو رویا
مثل پیراہن گل، پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دونیم
نوک دشنہ سے کھچی تھی مری دھرتی پہ لکیر
آج ایسا نہیں، ایسا نہیں ہونے دینا
اے میرے سوختہ جانو میرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
مرے دِل گیر مرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب، کسی ظالم، کسی قاتل کیلئے
خود کو تقسیم نہ کرنا، مرے سارے لوگو!!​

آج کے جنگ میں شاہد مسعود صاحب نے اپنے کالم میں یہ نظم پیش کی ہے، لہٰذا یہی میرا مصدر ہے۔ اگر کسی بھی قسم کی کوئی غلطی ہو تو اہل علم و عرفان اصلاح فرما دیں۔
 
محمدوارث ، سخنور اور شاہ صاحب آپ سب کا بھی شکریہ
میں نے بہت ڈرتے ڈرتے یہ پوسٹ کی تھی کہیں کوئی کمی بیشی نہ ہوجائے، الحمدللہ بچ گیا اب کچھ ہمت بندھ گئی ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ مطیع الرحمٰن صاحب شیئر کرنے کیلیے، اور ڈرنے کی کوئی بات نہیں برادرم کہ یہاں سب آپ کے بھائی بند ہی ہیں :)

امید ہے اپنے پسندیدہ کلام سے ہمیں نوازتے رہیں گے!
 

طالوت

محفلین
جناب اس میں معذرت کی کیا بات ہے ۔ دو نہ رہیں اسلئے مطلع کرنا ضروری سمجھا ۔
وسلام
 
Top