[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=3sW24FQ1ySo
[/youtube]
--------------------------------------------------------------------
اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی میرا نصف بدن کاٹ چکی
اُسی بندوق کی نالی ہے میرے سمت کے جو
اس سے پہلے میری شہرت کا لہو چاٹ چکی
پھر وہی یاد در آئی ہے میری گلیوں میں
پھر میرے ذہین میں بارود کی بو پھیلی ہے
پھر سے تو کون ہے ، میں کون ہوں ، آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ منِ تو پھیلی ہے
میری بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے
میرے سینے میں میرا اپنا ہی خنجر اترا
پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر وہی عام وہ ہی اہل رِیا کی باتیں
نعرہ حبِ وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارضا کی ظرح دین خدا کی باتیں
اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبح وحشت کی طرح شام غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو عہد و پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشہِ دل کی طرح آئینہِ جاں کی طرح
پھر کہاں ہیں مری ہونٹوں پہ دعاوں کے دیئے
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی وِداع
صندلی پاؤں سے مستانا روی روٹھ گئ
ململی ہاتھوں پہ جل بجھ گیا گارِحنا
دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لئے زلف کا بادل رویا
مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا ندیم
نوکِ دشتاں سے کھیچی تھی میری مٹی کی لکیر
آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے میری سوختہ جانوں، میرے پیارے لوگو
اب کےگر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر، میرے درد کے مارے لوگو
کیسی غاصب، کسی ظالم، کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے سارے لوگو
نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
نہیں ایسا نہیں ہونے دینا
ایسا نہیں ہونے دینا
[/youtube]
--------------------------------------------------------------------
اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی میرا نصف بدن کاٹ چکی
اُسی بندوق کی نالی ہے میرے سمت کے جو
اس سے پہلے میری شہرت کا لہو چاٹ چکی
پھر وہی یاد در آئی ہے میری گلیوں میں
پھر میرے ذہین میں بارود کی بو پھیلی ہے
پھر سے تو کون ہے ، میں کون ہوں ، آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ منِ تو پھیلی ہے
میری بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے
میرے سینے میں میرا اپنا ہی خنجر اترا
پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر وہی عام وہ ہی اہل رِیا کی باتیں
نعرہ حبِ وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارضا کی ظرح دین خدا کی باتیں
اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبح وحشت کی طرح شام غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو عہد و پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشہِ دل کی طرح آئینہِ جاں کی طرح
پھر کہاں ہیں مری ہونٹوں پہ دعاوں کے دیئے
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی وِداع
صندلی پاؤں سے مستانا روی روٹھ گئ
ململی ہاتھوں پہ جل بجھ گیا گارِحنا
دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لئے زلف کا بادل رویا
مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا ندیم
نوکِ دشتاں سے کھیچی تھی میری مٹی کی لکیر
آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے میری سوختہ جانوں، میرے پیارے لوگو
اب کےگر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر، میرے درد کے مارے لوگو
کیسی غاصب، کسی ظالم، کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے سارے لوگو
نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
نہیں ایسا نہیں ہونے دینا
ایسا نہیں ہونے دینا