کاشفی
محفلین
غزل
(جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی مرحوم و مغفور)
نہیں رازِ ہستی جتانے کے قابل
یہ پردہ نہیں ہے اُٹھانے کے قابل
طلب بوسہ کرتے ہی جھنجلا کے بولے
کہ تو تو نہیں منہ لگانے کے قابل
کیا ضعف نے یہ نکمّا کہ اب ہم
نہ آنے کے قابل نہ جانے کے قابل
اُس آئینہ رو کی بداطواریوں نے
نہ رکھا ہمیں منہ دکھانے کے قابل
زمانہ نے ڈالا جدائی کا پردہ
ہوئے جب وہ جلوہ دکھانے کے قابل
طلب سے مری مُسکرا کر وہ بولے
ہوئے تم بھی ہم کو بلانے کے قابل
جو کیں فرشِ رہ اُن کی آنکھیں تو بولے
یہ فرش اور میرے بچھانے کے قابل
غضب حال عا شق میں لذت بھری ہے
یہ قصہ ہے اُس کے سُنانے کے قابل
ہوا مسئلہ عشق کا حل نہ اُن سے
ہوئے دم بخود یاں زمانے کے قابل
گُل داغ سینہ میں کیا کھل رہے ہیں
یہ ہے باغ اُن کے دکھانے کے قابل
کیا درد کو منتخب اُن کے میں نے
کہ پہلو میں ہے یہ بٹھانے کے قابل
وہ پہلے ہی موہوم ہےنقش دنیا
جسے سمجھے ہیں ہم مٹانے کے قابل
مرے زخمِ دل دیکھ کر یار بولا
کہ مجروح ہے رحم کھانے کے قابل