الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
یاسر علی
ڈاکٹر عظیم سہارنپوری
محمّد احسن سمیع :راحل:
------------
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
----------
نہیں زخم دل کا دکھانے کے قابل
مرا غم نہیں ہے سنانے کے قابل
-------------
خفا مجھ سے جتنے وہ اب ہو گئے ہیں
رہی بات کب ہے بنانے کے قابل
-------------
مری ذات میں جو نقائص نکالے
نہ چھوڑا مجھے منہ دکھانے کے قابل
----------------
محبّت دلوں سے ہوا ہو گئی ہے
رہے اب نہ ملنے ملانے کے قابل
--------------
یہ جھوٹی انا آدمی کی ہے دشمن
نہیں چھوڑتی مان جانے کے قابل
-------------
خطا سے بچو گے اگر اس جہاں میں
رہو گے تبھی سر اٹھانے کے قابل
-----------
لگی آگ نفرت کی جتنی جہاں میں
کہاں اب رہی ہے بجھانے کے قابل
------------
مری بے گناہی کو مانے نہ کوئی
نہیں سامنے سچ کو لانے کے قابل
------------------
جو کرتے ہو باتیں وہ سچی ہیں ارشد
ہیں مشکل مگر مان جانے کے قابل
-----------
 

یاسر علی

محفلین
-------
نہیں زخم دل کا دکھانے کے قابل
مرا غم نہیں ہے سنانے کے قابل
-------------
خفا مجھ سے جتنے وہ اب ہو گئے ہیں
رہی بات کب ہے بنانے کے قابل
-------------

خفا مجھ سے وہ جتنے اب ۔۔ ۔۔۔

مری ذات میں جو نقائص نکالے
نہ چھوڑا مجھے منہ دکھانے کے قابل
----------------

«جو» بھرتی کا ہے


محبّت دلوں سے ہوا ہو گئی ہے
رہے اب نہ ملنے ملانے کے قابل
--------------

کون ملنے کا کے قابل نہ رہا؟؟؟؟
رہے ہم نہ ملنے۔۔۔۔۔

یہ جھوٹی انا آدمی کی ہے دشمن
نہیں چھوڑتی مان جانے کے قابل
-------------
خطا سے بچو گے اگر اس جہاں میں
رہو گے تبھی سر اٹھانے کے قابل
-----------
عیب تعقید
اگر اس جہاں میں خطا سے بچو گے
ویسے دوسرا بھی تعقید کا شکار ہے

لگی آگ نفرت کی جتنی جہاں میں
کہاں اب رہی ہے بجھانے کے قابل
------------
پہلا پھر تعقید
جہاں میں لگی آگ نفرت کی اتنی
دوسرا مصرع بہتر ہو سکتا ہے۔
نہیں اب رہی ہے۔۔۔۔
مری بے گناہی کو مانے نہ کوئی
نہیں سامنے سچ کو لانے کے قابل
------------------
پہلا کی روانی مخدوش ہے
ا

جو کرتے ہو باتیں وہ سچی ہیں ارشد
ہیں مشکل مگر مان جانے کے قابل
---------
کرتے کے ساتھ ہوں آئے گا۔۔مزید
الفاظ کی ترتیب بھی درست نہیں۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
یاسر علی نے کچھ روانی کے مسائل پکڑے ہیں لیکن کچھ صورتوں میں وہ چوک گئے ہیں یا اتنی بڑی خرابی محسوس نہیں ہوتی جتنی ان کو لگی ہے۔ بہر حال اگر ان پر تم بھی غور کر لو تو بہتر ہے

نہیں زخم دل کا دکھانے کے قابل
مرا غم نہیں ہے سنانے کے قابل
------------- غم صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، نہ کسی کو دکھایا جا سکتا ہے، نہ سنایا جا سکتا ہے، اور نہ ہی آپ خود دیکھ یا سن سکتے ہیں۔ ہاں، داستانِ غم سنایا جا سکتا ہے

خفا مجھ سے جتنے وہ اب ہو گئے ہیں
رہی بات کب ہے بنانے کے قابل
------------- مجھے دوسرے مصرعے کی روانی بھی متاثر لگی لیکن متبادل کچھ سوجھ نہیں رہا ہے

مری ذات میں جو نقائص نکالے
نہ چھوڑا مجھے منہ دکھانے کے قابل
---------------- درست

محبّت دلوں سے ہوا ہو گئی ہے
رہے اب نہ ملنے ملانے کے قابل
-------------- اب کی جگہ 'ہم' درست مشورہ ہے یاسر کا

یہ جھوٹی انا آدمی کی ہے دشمن
نہیں چھوڑتی مان جانے کے قابل
------------- یہ شعر ہی سمجھ نہیں سکا، اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا

خطا سے بچو گے اگر اس جہاں میں
رہو گے تبھی سر اٹھانے کے قابل
----------- درست

لگی آگ نفرت کی جتنی جہاں میں
کہاں اب رہی ہے بجھانے کے قابل
------------ جتنی کی جگہ 'ایسی' سے شاید بہتری محسوس ہو
مری بے گناہی کو مانے نہ کوئی
نہیں سامنے سچ کو لانے کے قابل
------------------یہ بھی سمجھ نہیں سکا

جو کرتے ہو باتیں وہ سچی ہیں ارشد
ہیں مشکل مگر مان جانے کے قابل
----------- قابل اور مشکل ایک ساتھ؟ جملے کی نثر بنا کر دیکھیں
نہیں ہیں مگر.... کافی ہے با!
 
الف عین
------------
اصلاح کے بعد ایک با پھر )
------------
مرا دل ہی تھا غم اٹھانے کے قابل
مری داستاں ہے سنانے کے قابل
-------یا
نہیں داستاں یہ سنانے کے قابل
-------------
ہوئے مجھ پہ برہم تو میں نے یہ سوچا
رہی بات کیا اب کیا بنانے کے قابل
--------
مری ذات میں وہ نقائص نکالے
نہ چھوڑا مجھے منہ دکھانے کے قابل
----------
محبّت دلوں سے ہوا ہو گئی ہے
رہے ہم نہ ملنے ملانے کے قابل
-----------
یہ جھوٹی انا اور غرور آدمی کو
نہیں چھوڑتا جگمگانے کے قابل
--------------
ہوئے جس طرح سے محبّت میں رسوا
رہا دل نہ اپنا لگانے کے قابل
-----------
خطا سے بچو گے اگر اس جہاں میں
رہو گے تبھی سر اٹھانے کے قابل
-----------
حقیقت پہ مبنی ہیں ارشد کی باتیں
انہیں سن کے دل میں بٹھانے کے قابل
---------------
 

الف عین

لائبریرین
مرا دل ہی تھا غم اٹھانے کے قابل
مری داستاں ہے سنانے کے قابل
-------یا
نہیں داستاں یہ سنانے کے قابل
------------- مطلع اب بھی دو لخت ہے

ہوئے مجھ پہ برہم تو میں نے یہ سوچا
رہی بات کیا اب کیا بنانے کے قابل
-------- میں نے یہ سوچا والا ٹکڑا بے محل لگ رہا ہے
وہ مجھ پر ہوئے اس طرح آج برہم

مری ذات میں وہ نقائص نکالے
نہ چھوڑا مجھے منہ دکھانے کے قابل
---------- درست

محبّت دلوں سے ہوا ہو گئی ہے
رہے ہم نہ ملنے ملانے کے قابل
----------- ٹھیک، اگرچہ ربط زیادہ مضبوط نہیں

یہ جھوٹی انا اور غرور آدمی کو
نہیں چھوڑتا جگمگانے کے قابل
-------------- جگمگاتا ہے آدمی؟

ہوئے جس طرح سے محبّت میں رسوا
رہا دل نہ اپنا لگانے کے قابل
----------- دو لختی محسوس ہوتی ہے

خطا سے بچو گے اگر اس جہاں میں
رہو گے تبھی سر اٹھانے کے قابل
----------- درست

حقیقت پہ مبنی ہیں ارشد کی باتیں
انہیں سن کے دل میں بٹھانے کے قابل
--------------- دوسرے مصرعے میں 'ہیں' کی کمی ہے
یہ ہیں اپنے دل میں....
کیا جا سکتا ہے
 
Top