نہیں کہ تجھ سے بچھڑنے کا حوصلہ ہے مجھے ۔۔اور ۔۔۔ عشق ہو زندگی کا گزارہ نہ ہو، برائے اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نہیں کہ تجھ سے بچھڑنے کا حوصلہ ہے مجھے
تو ساتھ رہ نہ سکے گا، یہ بس پتہ ہے مجھے

جنون و عشق ترا دیکھ چکا ہوں کب کا
فریبِ راہِ محبت تری وفا ہے مجھے

بدل کے بھیس ترے ساتھ ساتھ پھرتا ہوں
چراغ لے کے ترا شہر ڈھونڈتا ہے مجھے

جہان بھر میں تو ڈھونڈوں مگر کوئی تجھ سا
ترے ہی شہر میں کوئی نہیں ملا ہے مجھے

یہ میرے چہرے پہ لکھا ہے تیرا نام کہاں
جسے بھی دیکھ لوں، مڑ مڑ کے دیکھتا ہے مجھے

ہے میرا ذہن کہ دنیا ہے تیری یادوں کی
یہ دل بھی ہے کہ یہ سینے میں درد سا ہے مجھے

سند کسی سے محبت کی اور کیا مانگوں
سنا ہے تو نے بھی دیوانہ کہہ دیا ہے مجھے

تجھے تو چاہئے تھا اس سے بڑھ کے کچھ کرتا
برا بھلا تو زمانے نے بھی کہا ہے مجھے
(آخری شعر میں چار بار ایک ہی مسئلہ آرہا ہے یعنی تکرار حرفی)

دوسری غزل
عشق ہو، زندگی کا گزارہ نہ ہو
کوئی اتنا مصیبت کا مارا نہ ہو

ہم پریشان، بے چین، چپ چپ رہیں
بات کیا ہے، کبھی آشکارا نہ ہو

روشنی بھی ہمیں سونی سونی لگے
چاند ہو، آسماں ہو، ستارہ نہ ہو

گاؤں کی جھونپڑی میں کٹے زندگی
شہر میں کوئی بھی گھر ہمارا نہ ہو

تم کہو کیا سنائیں تمہیں حالِ دل
سامنا جب ہمارا تمہارا نہ ہو

خلوتوں میں ہم آنسو بہایا کریں
نامکمل محبت گوارا نہ ہو

آنکھوں آنکھوں میں کردے بیاں داستاں
کچھ بھی کہنے کا شاہد کو یارا نہ ہو

ان دونوں غزلوں میں وزن، تقطیع اور مفہوم کہاں کہاں غلط ہے، نشاندہی کی درخواست ہے۔
محترم الف عین صاحب
محمد یعقوب آسی صاحب
مزمل شیخ بسمل بھائی
فاتح بھائی
 
نہیں کہ تجھ سے بچھڑنے کا حوصلہ ہے مجھے
تو ساتھ رہ نہ سکے گا، یہ بس پتہ ہے مجھے

جنون و عشق ترا دیکھ چکا ہوں کب کا
فریبِ راہِ محبت تری وفا ہے مجھے

بدل کے بھیس ترے ساتھ ساتھ پھرتا ہوں
چراغ لے کے ترا شہر ڈھونڈتا ہے مجھے

جہان بھر میں تو ڈھونڈوں مگر کوئی تجھ سا
ترے ہی شہر میں کوئی نہیں ملا ہے مجھے

یہ میرے چہرے پہ لکھا ہے تیرا نام کہاں
جسے بھی دیکھ لوں، مڑ مڑ کے دیکھتا ہے مجھے

ہے میرا ذہن کہ دنیا ہے تیری یادوں کی
یہ دل بھی ہے کہ یہ سینے میں درد سا ہے مجھے

سند کسی سے محبت کی اور کیا مانگوں
سنا ہے تو نے بھی دیوانہ کہہ دیا ہے مجھے

تجھے تو چاہئے تھا اس سے بڑھ کے کچھ کرتا
برا بھلا تو زمانے نے بھی کہا ہے مجھے
(آخری شعر میں چار بار ایک ہی مسئلہ آرہا ہے یعنی تکرار حرفی)

دوسری غزل
عشق ہو، زندگی کا گزارہ نہ ہو
کوئی اتنا مصیبت کا مارا نہ ہو

ہم پریشان، بے چین، چپ چپ رہیں
بات کیا ہے، کبھی آشکارا نہ ہو

روشنی بھی ہمیں سونی سونی لگے
چاند ہو، آسماں ہو، ستارہ نہ ہو

گاؤں کی جھونپڑی میں کٹے زندگی
شہر میں کوئی بھی گھر ہمارا نہ ہو

تم کہو کیا سنائیں تمہیں حالِ دل
سامنا جب ہمارا تمہارا نہ ہو

خلوتوں میں ہم آنسو بہایا کریں
نامکمل محبت گوارا نہ ہو

آنکھوں آنکھوں میں کردے بیاں داستاں
کچھ بھی کہنے کا شاہد کو یارا نہ ہو

ان دونوں غزلوں میں وزن، تقطیع اور مفہوم کہاں کہاں غلط ہے، نشاندہی کی درخواست ہے۔
محترم الف عین صاحب
محمد یعقوب آسی صاحب
مزمل شیخ بسمل بھائی
فاتح بھائی

بہت خوب۔
سرخ مصرع دیکھ لیں دوبارہ۔
 
جناب مزمل شیخ بسمل کے سرخ رنگ والے مصرعے پر مکمل اتفاق!!

باقی بھائی شاہد شاہنواز صاحب، پختگی آتے آتے آئے گی۔ ہفتے عشرے بعد ان کو پھر دیکھئے گا اور بہتر کرنے کی کوشش کیجئے گا۔ اس میں نہ تو کوئی نمایاں خامی ہے اور نہ کوئی نمایاں خوبی، کہ مشق کی چیز ہے اس کو اپنے طور پر نکھارئیے اور نکھارئیے اور نکھارئیے!

بہت آداب
 

الف عین

لائبریرین
بسمل کی بتائی غلطی کے علاوہ فنی غلطی تو کچھ نہیں۔
مفہوم کے حساب سے پہلی غزل بہتر ہے، جس کی مزید اصلاح کی کوشش کی جا سکتی ہے، لیکن دوسری غزل سمجھ میں نہیں آئی، یہ دعا ہے یا خواہش کا اظہار؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
دوسری غزل سمجھ میں نہیں آئی، یہ دعا ہے یا خواہش کا اظہار؟

یہ مسئلہ ابھی تک میرے لیے بھی حل طلب ہے۔۔۔ اور ایسے حل طلب مسائل میں ادھورے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہوں۔۔۔ سبب یہ ہے کہ پہلے جو لکھا، اس کی اصلاح مشکل کام ہے ، کچھ نیا لکھنا اس کی نسبت آسان ۔۔۔۔ اور بقول اشفاق احمد میں آسانیاں تلاش کرتا ہوں اور آسانیاں تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔ مشکلات سے گھبرانا اچھی بات نہیں ہے لیکن یہاں گھبراہٹ یا بہادری کی کوئی بات نہیں ہے، وقت بے حد کم ہے اور اس کم وقت میں اتنا ہی ممکن ہوسکتا ہے۔۔۔ !
 
Top