کاشفی
محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
نہیں ہے اپنا مگر غیربھی نہیں لگتا
وہ اجنبی ہے تو کیوں اجنبی نہیں لگتا
ہے مجھ سے پیار اسے؟ "ہاں'،"نہیں ہے"،"شاید ہے"
کبھی تو لگتا ہے "بالکل"، کبھی نہیں لگتا
تمہارے ہونٹوں پہ آیا ہی کیسے غیر کا نام
تمہارا پیار مجھے دائمی نہیں لگتا
ہر ایک سمت ہے اک قبر کی سی تنہائی
ترے بغیر اب اس گھر میں جی نہیں لگتا
دکھائی دیتا ہوں جنگل کے جانور جیسا
میں آدمی ہوں تو کیوں آدمی نہیں لگتا
مزاجِ گل سے نہیں ہوتی رہبری ناداں!
خمیر خوں کا ترے آہنی نہیں لگتا
جسے بھی دیکھو وہ دل سے فقیر ہے جاوید
عجیب دور ہے کوئی غنی نہیں لگتا
از ڈاکٹر جاوید جمیل
نہیں ہے اپنا مگر غیربھی نہیں لگتا
وہ اجنبی ہے تو کیوں اجنبی نہیں لگتا
ہے مجھ سے پیار اسے؟ "ہاں'،"نہیں ہے"،"شاید ہے"
کبھی تو لگتا ہے "بالکل"، کبھی نہیں لگتا
تمہارے ہونٹوں پہ آیا ہی کیسے غیر کا نام
تمہارا پیار مجھے دائمی نہیں لگتا
ہر ایک سمت ہے اک قبر کی سی تنہائی
ترے بغیر اب اس گھر میں جی نہیں لگتا
دکھائی دیتا ہوں جنگل کے جانور جیسا
میں آدمی ہوں تو کیوں آدمی نہیں لگتا
مزاجِ گل سے نہیں ہوتی رہبری ناداں!
خمیر خوں کا ترے آہنی نہیں لگتا
جسے بھی دیکھو وہ دل سے فقیر ہے جاوید
عجیب دور ہے کوئی غنی نہیں لگتا