بشارت گیلانی
محفلین
نہیں ہے گھر کی فضا، اس مکان میں نہیں ہے۔
جو آپ اپنے مکیں سے امان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
اسیرِ شوقِ سفر ہے پہ ناخدا سے کہو۔
ہوا کا زور ادھر بادبان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
تُو چھوڑ جائے، یہ زندانئیِ بدن بھی رہے۔
یہ حوصلہ تو مری جان، جان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
لُٹے ہیں صحن میں اپنے تو اپنا غارت گر۔
قریب ہی کا ہے کوئی جو دھیان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
مرے ستارے ہی ایسے مہاجرت خو ہیں۔
مری رضا مری اپنی اُڑان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
مجھے بھی ایسی سہولت عجب لگی تھی مگر۔
مرا خیال تھا کوئی مچان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
یہ ہم شکار ہوئے بھی تو کس شکاری کے۔
کہ تیر تک کوئی جس کی کمان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
ستم تو یہ ہے کہ سانپوں میں جو گھِرا ہوا ہے۔
دئے کی لو بھی اُسی کے مکان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
یہیں چمن میں کہیں زیرِ شاخِ گل ہو گا۔
وہ حادثہ جو کسی کے گمان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
جو میری فصل کا حاصل روا رکھے مجھ پر۔
وہ آفتاب مرے آسمان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
سمجھ سکے جو مسیحائی میرے قاتل کی۔
مری زمین پر، میرے زمان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
بتاؤں حال اُسے دل کے بوجھ کا لیکن۔
وہ حوصلہ ہی میرے دھان پان میں نہیں ہے۔
جو آپ اپنے مکیں سے امان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
اسیرِ شوقِ سفر ہے پہ ناخدا سے کہو۔
ہوا کا زور ادھر بادبان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
تُو چھوڑ جائے، یہ زندانئیِ بدن بھی رہے۔
یہ حوصلہ تو مری جان، جان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
لُٹے ہیں صحن میں اپنے تو اپنا غارت گر۔
قریب ہی کا ہے کوئی جو دھیان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
مرے ستارے ہی ایسے مہاجرت خو ہیں۔
مری رضا مری اپنی اُڑان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
مجھے بھی ایسی سہولت عجب لگی تھی مگر۔
مرا خیال تھا کوئی مچان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
یہ ہم شکار ہوئے بھی تو کس شکاری کے۔
کہ تیر تک کوئی جس کی کمان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
ستم تو یہ ہے کہ سانپوں میں جو گھِرا ہوا ہے۔
دئے کی لو بھی اُسی کے مکان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
یہیں چمن میں کہیں زیرِ شاخِ گل ہو گا۔
وہ حادثہ جو کسی کے گمان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
جو میری فصل کا حاصل روا رکھے مجھ پر۔
وہ آفتاب مرے آسمان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
سمجھ سکے جو مسیحائی میرے قاتل کی۔
مری زمین پر، میرے زمان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
بتاؤں حال اُسے دل کے بوجھ کا لیکن۔
وہ حوصلہ ہی میرے دھان پان میں نہیں ہے۔