نہیں ہے گھر کی فضا اس مکان میں نہیں ہے ۔۔۔

نہیں ہے گھر کی فضا، اس مکان میں نہیں ہے۔
جو آپ اپنے مکیں سے امان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
اسیرِ شوقِ سفر ہے پہ ناخدا سے کہو۔
ہوا کا زور ادھر بادبان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
تُو چھوڑ جائے، یہ زندانئیِ بدن بھی رہے۔
یہ حوصلہ تو مری جان، جان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
لُٹے ہیں صحن میں اپنے تو اپنا غارت گر۔
قریب ہی کا ہے کوئی جو دھیان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
مرے ستارے ہی ایسے مہاجرت خو ہیں۔
مری رضا مری اپنی اُڑان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
مجھے بھی ایسی سہولت عجب لگی تھی مگر۔
مرا خیال تھا کوئی مچان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
یہ ہم شکار ہوئے بھی تو کس شکاری کے۔
کہ تیر تک کوئی جس کی کمان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
ستم تو یہ ہے کہ سانپوں میں جو گھِرا ہوا ہے۔
دئے کی لو بھی اُسی کے مکان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
یہیں چمن میں کہیں زیرِ شاخِ گل ہو گا۔
وہ حادثہ جو کسی کے گمان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
جو میری فصل کا حاصل روا رکھے مجھ پر۔
وہ آفتاب مرے آسمان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
سمجھ سکے جو مسیحائی میرے قاتل کی۔
مری زمین پر، میرے زمان میں نہیں ہے۔
٭٭٭
بتاؤں حال اُسے دل کے بوجھ کا لیکن۔
وہ حوصلہ ہی میرے دھان پان میں نہیں ہے۔
 
بشارت بھائی ! اگر ’’نہیں ہے ‘‘کو ’’بھی نہیں ‘‘کردیں تو کیسا ؟
نہیں ہے گھر کی فضا، اس مکان میں بھی نہیں
جو آپ اپنے مکیں سے امان میں بھی نہیں
٭٭٭
اسیرِ شوقِ سفر ہے پہ ناخدا سے کہو
ہوا کا زور ادھر بادبان میں بھی نہیں
٭٭٭
تُو چھوڑ جائے، یہ زندانئیِ بدن بھی رہے
یہ حوصلہ تو مری جان، جان میں بھی نہیں
٭٭٭
لُٹے ہیں صحن میں اپنے تو اپنا غارت گر
قریب ہی کا ہے کوئی جو دھیان میں بھی نہیں
٭٭٭
مرے ستارے ہی ایسے مہاجرت خو ہیں
مری رضا مری اپنی اُڑان میں بھی نہیں
٭٭٭
مجھے بھی ایسی سہولت عجب لگی تھی مگر
مرا خیال تھا کوئی مچان میں بھی نہیں
٭٭٭
یہ ہم شکار ہوئے بھی تو کس شکاری کے
کہ تیر تک کوئی جس کی کمان میں بھی نہیں
٭٭٭
ستم تو یہ ہے کہ سانپوں میں جو گھِرا ہے ابھی
دئے کی لو تو اُسی کے مکان میں بھی نہیں
٭٭٭
یہیں چمن میں کہیں زیرِ شاخِ گل ہو گا
وہ حادثہ جو کسی کے گمان میں بھی نہیں
٭٭٭
جو میری فصل کا حاصل روا رکھے مجھ پر
وہ آفتاب مرے آسمان میں بھی نہیں
٭٭٭
سمجھ سکے جو مسیحائی میرے قاتل کی
مری زمین پہ، میرے زمان میں بھی نہیں
٭٭٭
بتاؤں حال اُسے دل کے بوجھ کا لیکن
یہ حوصلہ تو میرے دھان پان میں بھی نہیں​
 
شکریہ خلیل بھائی۔ اآپ کا مشورہ وزن رکھتا ہے۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ (بھی نہیں) میں ایک اشارہ کسی اور جگہ کا ہے جہاں کوئی شے نہیں ہے۔
نہیں ہے کویہاں نئیں ہے کی طرح پڑھنے میں مجھے ایک نغمگی سی لگ رہی ہے۔ عروض کے اساتذہ سے تبصرے کی درخواست ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
آج کل جس طرح حروف کے اسقاط کا چلن چل رہا ہے، اس کے مطابق تو ’نہیں ہےُ قبول کیا جانا چاہئے۔ اگر نئیں ہے۔ اگر نئیں ہے کا ارادہ ہو تو اسی طرح لکھا جائے۔ لیکن میرے خیال میں یوں ہی ٹھیک ہے۔ ’بھی نہیں‘ میں روانی تو ضرور بہتر ہو جاتی ہے
 
آج کل جس طرح حروف کے اسقاط کا چلن چل رہا ہے، اس کے مطابق تو ’نہیں ہےُ قبول کیا جانا چاہئے۔ اگر نئیں ہے۔ اگر نئیں ہے کا ارادہ ہو تو اسی طرح لکھا جائے۔ لیکن میرے خیال میں یوں ہی ٹھیک ہے۔ ’بھی نہیں‘ میں روانی تو ضرور بہتر ہو جاتی ہے
حروف کے اسقاط کا یہ چلن زبان کو کہاں پہنچائے گا! محمد خلیل الرحمٰن صاحب کی تجویز بہت مناسب ہے۔ صاحبِ غزل سے میری درخواست ہے کہ نغمگی پیدا کرنے کے متبادل طریقے بھی تو ہیں،صحتِ زبان کو اس پر قربان نہیں کیا جانا چاہئے۔
 
شکریہ خلیل بھائی۔ اآپ کا مشورہ وزن رکھتا ہے۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ (بھی نہیں) میں ایک اشارہ کسی اور جگہ کا ہے جہاں کوئی شے نہیں ہے۔
نہیں ہے کویہاں نئیں ہے کی طرح پڑھنے میں مجھے ایک نغمگی سی لگ رہی ہے۔ عروض کے اساتذہ سے تبصرے کی درخواست ہے۔
عروض کے تقاضے (اوزان وغیرہ) پورے کر لینا شعر کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ شعر میں بہت سی دیگر لطافتیں بھی ملحوظ رکھنی ہوتی ہیں۔ توجہ فرمائیے گا۔
 
رائے کا بہت شکریہ جناب۔
مجھے ایسا لگتا لے جیسے (بھی نہیں) سے کچھ اشعارمعانی کے اعتبار سے مجروح ہوتے ہیں۔
واقعی ایسا ہے! ظاہر ہے شاعر اور قاری دونوں میں کچھ نہ کچھ فرق تو ہے اور ہونا بھی چاہئے، تاہم ان کی تجویز کو کلی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔
 
Top