نہ آج روک مجھے اے بہار جانے دے - منیب احمد فاتحؔ

نہ آج روک مجھے اَے بہار جانے دے​
چمن پہ اَور بھی آئے نکھار جانے دے​
کسے گمان کروں آشنائے حالِ خراب
اگر نہ کوئی سرِ کوئے یار جانے دے​
لہو کو ننگ ہے اِن آبلوں سے پھوٹ بہے​
اَے خستہ پائی سوئے خارزار جانے دے​
گزارہ شہر میں مشکِل ہے بیچ آ مجھ کو​
یہ فکرِ iرفتگئ iکاروبارi جانےi دے
اُٹھا نہ پاؤں مرے سینۂ محبت سے
مبادا جان دلِ بے قرار جانے دے
سنا ہے دَشت میں فاتحؔ تکے ہے تیری راہ​
اَے شہر آرا وہاں کچھ غبار جانے دے
 
واہ خوب کہا آپ نے ماشاءاللہ !
لہو کوننگ ہے اِن آبلوں سے پھوٹ بہے
اَے خستہ پائی سوئے خارزار جانے دے
درج بالا شعر سے ہمیں میر کا یہ شعر یاد آگیا کہ
آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی، پھوٹ بہے
درد مندی میں گئی ساری جوانی اُسکی
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔
 
واہ خوب کہا آپ نے ماشاءاللہ !
لہو کوننگ ہے اِن آبلوں سے پھوٹ بہے
اَے خستہ پائی سوئے خارزار جانے دے
درج بالا شعر سے ہمیں میر کا یہ شعر یاد آگیا کہ
آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی، پھوٹ بہے
درد مندی میں گئی ساری جوانی اُسکی
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔

؎ نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے​
میرے شعر سے آپ کو حضرت میرؔ کا شعر یاد آیا، میرے لئے اعزاز ہے۔ بہت شکریہ۔
 
Top