منیب احمد فاتح
محفلین
نہ آج روک مجھے اَے بہار جانے دے
چمن پہ اَور بھی آئے نکھار جانے دے
کسے گمان کروں آشنائے حالِ خراب
اگر نہ کوئی سرِ کوئے یار جانے دے
لہو کو ننگ ہے اِن آبلوں سے پھوٹ بہے
اَے خستہ پائی سوئے خارزار جانے دے
گزارہ شہر میں مشکِل ہے بیچ آ مجھ کو
یہ فکرِ iرفتگئ iکاروبارi جانےi دے
اُٹھا نہ پاؤں مرے سینۂ محبت سے
مبادا جان دلِ بے قرار جانے دے
سنا ہے دَشت میں فاتحؔ تکے ہے تیری راہ
اَے شہر آرا وہاں کچھ غبار جانے دے