نہ آشیاں مرا تنکوں کا یوں ہوا ہوتا

سر الف عین
یاسر شاہ
محمّد احسن سمیع :راحل:
سید عاطف علی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

اگر نہ وصل کے لمحوں کا تذکرہ ہوتا
بجز غموں کے مری زندگی میں کیا ہوتا

مکینِ عرش ہے وہ جبکہ میں ہوں خاک نشیں
تو وصل میرے مقدر میں کس طرح ہوتا

مرے زوال کے دن بھی گزر چکے ہوتے
جو تُو نے ہاتھ مرے ہاتھ میں دیا ہوتا


مری طرح تجھے پڑتے جو پیٹ کے لالے
تو بھوت عشق کا سر سے اتر گیا ہوتا

کوئی تو راستہ تیرہ شبوں کو مل جاتا
حجاب یار جو پل بھر کہیں ہٹا ہوتا


مرے لبوں پہ ترے لب کا لمس ہوتا اگر
تو گفتگو میں حلاوت کا شائبہ ہوتا


جو رحم حال پہ میرے یہ آندھیاں کرتیں
نہ آشیاں مرا تنکوں کا یوں ہوا ہوتا

نہ کوئی بزمِ طرب تھی نہ کوئی مجلسِ غم
تو کیوں نہ گھر کو یہ آوارہ شب چلا ہوتا

پرانے زخم تو بھر دیتا وقت کا مرہم
نیا جو زخم نہ اس نے مجھے دیا ہوتا

مری طرح نہ وہ ڈرتا صعوبتوں سے اگر
وہ بیچ راہ کے سجاد کیوں جدا ہوتا
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ غزل تو درست لگ رہی ہے مگر
حجاب یار جو پل بھر کہیں ہٹا ہوتا
ہٹا ذرا محاورے کے مطابق نہیں۔ ہٹ گیا بہتر زبان ہے
حجاب یار جو پل بھر کو ہٹ گیا ہوتا
اور اگر اسے قبول کیا جائے تو اس شعر کی پوزیشن بدل دی جائے کہ اس کے اوپر بھی گیا ہی قافیہ ہے
 
ماشاء اللہ غزل تو درست لگ رہی ہے مگر
حجاب یار جو پل بھر کہیں ہٹا ہوتا
ہٹا ذرا محاورے کے مطابق نہیں۔ ہٹ گیا بہتر زبان ہے
حجاب یار جو پل بھر کو ہٹ گیا ہوتا
اور اگر اسے قبول کیا جائے تو اس شعر کی پوزیشن بدل دی جائے کہ اس کے اوپر بھی گیا ہی قافیہ ہے
شکریہ سر آپ کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر سلامت رہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تذکرہ یا شائبہ کو قافیہ بندی کے جبر پر تذکرا شائبا کہنا تو کچھ بجا ہو لیکن ۔ 'طرح' کو اس قافیے کے تحت لانا ، کچھ کلام کی گنجائش پیدا کرتا ہے ۔
الف عین اعجاز بھائی ۔ کیا کہتے ہیں ۔ ؟
 

الف عین

لائبریرین
یقیناً غلط ہے، میں نہ جانے کیسے صرف نظر کر گیا

اگر نہ وصل کے لمحوں کا تذکرہ ہوتا
بجز غموں کے مری زندگی میں کیا ہوتا

مکینِ عرش ہے وہ جبکہ میں ہوں خاک نشیں
تو وصل میرے مقدر میں کیوں بھلا ہوتا

مرے زوال کے دن بھی گزر چکے ہوتے
جو تُو نے ہاتھ مرے ہاتھ میں دیا ہوتا


مری طرح تجھے پڑتے جو پیٹ کے لالے
تو بھوت عشق کا سر سے اتر گیا ہوتا

مرے لبوں پہ ترے لب کا لمس ہوتا اگر
تو گفتگو میں حلاوت کا شائبہ ہوتا

جو رحم حال پہ میرے یہ آندھیاں کرتیں
نہ آشیاں مرا تنکوں کا یوں ہوا ہوتا

نہ کوئی بزمِ طرب تھی نہ کوئی مجلسِ غم
تو کیوں نہ گھر کو یہ آوارہ شب چلا ہوتا

پرانے زخم تو بھر دیتا وقت کا مرہم
نیا جو زخم نہ اس نے مجھے دیا ہوتا

کوئی تو راستہ تیرہ شبوں کو مل جاتا
حجاب یار جو پل بھر کو ہٹ گیا ہوتا


مری طرح نہ وہ ڈرتا صعوبتوں سے اگر
وہ بیچ راہ کے سجاد کیوں جدا ہوتا

سر نظر ثانی کی درخواست ہے
 
Top