سعید احمد سجاد
محفلین
سر الف عین
یاسر شاہ
محمّد احسن سمیع :راحل:
سید عاطف علی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
اگر نہ وصل کے لمحوں کا تذکرہ ہوتا
بجز غموں کے مری زندگی میں کیا ہوتا
مکینِ عرش ہے وہ جبکہ میں ہوں خاک نشیں
تو وصل میرے مقدر میں کس طرح ہوتا
مرے زوال کے دن بھی گزر چکے ہوتے
جو تُو نے ہاتھ مرے ہاتھ میں دیا ہوتا
مری طرح تجھے پڑتے جو پیٹ کے لالے
تو بھوت عشق کا سر سے اتر گیا ہوتا
کوئی تو راستہ تیرہ شبوں کو مل جاتا
حجاب یار جو پل بھر کہیں ہٹا ہوتا
مرے لبوں پہ ترے لب کا لمس ہوتا اگر
تو گفتگو میں حلاوت کا شائبہ ہوتا
جو رحم حال پہ میرے یہ آندھیاں کرتیں
نہ آشیاں مرا تنکوں کا یوں ہوا ہوتا
نہ کوئی بزمِ طرب تھی نہ کوئی مجلسِ غم
تو کیوں نہ گھر کو یہ آوارہ شب چلا ہوتا
پرانے زخم تو بھر دیتا وقت کا مرہم
نیا جو زخم نہ اس نے مجھے دیا ہوتا
مری طرح نہ وہ ڈرتا صعوبتوں سے اگر
وہ بیچ راہ کے سجاد کیوں جدا ہوتا
یاسر شاہ
محمّد احسن سمیع :راحل:
سید عاطف علی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
اگر نہ وصل کے لمحوں کا تذکرہ ہوتا
بجز غموں کے مری زندگی میں کیا ہوتا
مکینِ عرش ہے وہ جبکہ میں ہوں خاک نشیں
تو وصل میرے مقدر میں کس طرح ہوتا
مرے زوال کے دن بھی گزر چکے ہوتے
جو تُو نے ہاتھ مرے ہاتھ میں دیا ہوتا
مری طرح تجھے پڑتے جو پیٹ کے لالے
تو بھوت عشق کا سر سے اتر گیا ہوتا
کوئی تو راستہ تیرہ شبوں کو مل جاتا
حجاب یار جو پل بھر کہیں ہٹا ہوتا
مرے لبوں پہ ترے لب کا لمس ہوتا اگر
تو گفتگو میں حلاوت کا شائبہ ہوتا
جو رحم حال پہ میرے یہ آندھیاں کرتیں
نہ آشیاں مرا تنکوں کا یوں ہوا ہوتا
نہ کوئی بزمِ طرب تھی نہ کوئی مجلسِ غم
تو کیوں نہ گھر کو یہ آوارہ شب چلا ہوتا
پرانے زخم تو بھر دیتا وقت کا مرہم
نیا جو زخم نہ اس نے مجھے دیا ہوتا
مری طرح نہ وہ ڈرتا صعوبتوں سے اگر
وہ بیچ راہ کے سجاد کیوں جدا ہوتا