ناز خیالوی ""نہ ایسے بھی خدایا زہد و تقویٰ کا بھرم نکلے"" نازؔ خیالوی


نہ ایسے بھی خدایا زہد و تقویٰ کا بھرم نکلے
فقیہانِ حرم کی آستینوں سے صنم نکلے

محبت کی بہار آئی مگر خالی گئی آ کر
حصارِ بدگمانی سے نہ تم نکلے نہ ہم نکلے

اتارا میں نے جب اپنا سفینہ بحرِ الفت میں
نجانے کتنے طوفانِ حوادث یم بہ یم نکلے

ترے چہرے کو مہر و ماہ سے تشبیہہ دوں کیونکر
کہ مہر و ماہ سے اونچے ترے نقشِ قدم نکلے

قدم جونہی رکھا اے نازؔ ہم نے شہرِ الفت میں
ہمارے خیر مقدم کو ہزاروں رنج و عم نکلے
نازؔ خیالوی
 
آخری تدوین:
سر محمد تابش صدیقی
سر فرخ منظور
قدم جونہی رکھا اے نازؔ ہم نے شہرِ الفت میں
یا
قدم جونہی رکھا نازؔ ہم نے شہرِ الفت میں
ہو گا
پہلا ہی درست ہے
اتارا میں جب اپنا سفینہ بحرِ الفت میں
اتارا میں نے جب
 
Top