لاریب مرزا
محفلین
نہ تم آئے شبِ وعدہ، پریشاں رات بھر رکھا
دیا امید کا میں نے جلا کر تا سحر رکھا
وہی دل چھوڑ کر مجھ کو کسی کا ہوگیا آخر
جسے نازوں سے پالا جس کو ارمانوں سے گھر رکھا
جبیں کو مل گئی منزل ،مذاقِ بندگی ابھرا
جنوں میں ڈوب کر جس دم تری چوکھٹ پہ سر رکھا
کہاں ہر ایک تیرے درد کی خیرات کے لائق
کرم تیرا کہ تو نے مجھ کو برباد نظر رکھا
غمِ دنیا و ما فیها کو میں نے کر دیا رخصت
ترا غم تھا جسے دل سے لگائے عمر بھر رکھا
سنا ہے کھل گئے تھے انکے گیسو سر گلشن میں
صبا تیرا برا ہو تو نے مجھ کو بےخبر رکھا
کبھی گزریں تو شاید دیکھ لوں میں اک جھلک ان کی
اسی امید پر مدفن قریبِ رہ گزر رکھا
جو خط غیروں کے آئے اس نے دیکھے دیر تک، لیکن
مرا خط ہاتھ میں لے کر ادھر دیکھا ادھر رکھا
یہ اس کے فیصلے ہیں جس کے حق میں بھی جو کر ڈالے
کسی کو در دیا اپنا ،کسی کو دربدر رکھا
بھری محفل میں ناحق رازِ الفت کر دیا افشا
محبت کا بھرم تو نے نہ کچھ اے چشم تر رکھا
کوئی اس طائرِ مجبور کی بے چارگی دیکھے
قفس میں بھی جسے صیاد نے بے بال و پر رکھا
یہ ممکن تھا ہم آ جاتے خردمندوں کی باتوں میں
خوشا قسمت کہ فطرت نے ہمیں آشفتہ سر رکھا
سر آنکھوں پر جسے اپنے بٹھایا عمر بھر ہم نے
اسی ظالم نے نظروں سے گرا کر عمر بھر رکھا
کہاں جا کر بھلا یوں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے
نصیر اچھا کیا تم نے ہمیشہ ایک در رکھا
(سید نصیر الدین نصیر)
دیا امید کا میں نے جلا کر تا سحر رکھا
وہی دل چھوڑ کر مجھ کو کسی کا ہوگیا آخر
جسے نازوں سے پالا جس کو ارمانوں سے گھر رکھا
جبیں کو مل گئی منزل ،مذاقِ بندگی ابھرا
جنوں میں ڈوب کر جس دم تری چوکھٹ پہ سر رکھا
کہاں ہر ایک تیرے درد کی خیرات کے لائق
کرم تیرا کہ تو نے مجھ کو برباد نظر رکھا
غمِ دنیا و ما فیها کو میں نے کر دیا رخصت
ترا غم تھا جسے دل سے لگائے عمر بھر رکھا
سنا ہے کھل گئے تھے انکے گیسو سر گلشن میں
صبا تیرا برا ہو تو نے مجھ کو بےخبر رکھا
کبھی گزریں تو شاید دیکھ لوں میں اک جھلک ان کی
اسی امید پر مدفن قریبِ رہ گزر رکھا
جو خط غیروں کے آئے اس نے دیکھے دیر تک، لیکن
مرا خط ہاتھ میں لے کر ادھر دیکھا ادھر رکھا
یہ اس کے فیصلے ہیں جس کے حق میں بھی جو کر ڈالے
کسی کو در دیا اپنا ،کسی کو دربدر رکھا
بھری محفل میں ناحق رازِ الفت کر دیا افشا
محبت کا بھرم تو نے نہ کچھ اے چشم تر رکھا
کوئی اس طائرِ مجبور کی بے چارگی دیکھے
قفس میں بھی جسے صیاد نے بے بال و پر رکھا
یہ ممکن تھا ہم آ جاتے خردمندوں کی باتوں میں
خوشا قسمت کہ فطرت نے ہمیں آشفتہ سر رکھا
سر آنکھوں پر جسے اپنے بٹھایا عمر بھر ہم نے
اسی ظالم نے نظروں سے گرا کر عمر بھر رکھا
کہاں جا کر بھلا یوں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے
نصیر اچھا کیا تم نے ہمیشہ ایک در رکھا
(سید نصیر الدین نصیر)