نہ جانے کیا دل ۔ خانہ خراب چاہتا ہے

غزل - نہ جانے کیا دل ۔ خانہ خراب چاہتا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے جو تصویر دی وہ تو نظر نہیں آ رہی سو بہتر ہے کہ اردو میں ٹائپ کر کے لکھ دیں۔

والسلام
 
غزل

نہ جانے کیا دل ۔ خانہ خراب چاہتا ہے
کہ ہر سوال کا مثبت جواب چاہتا ہے

ہمارے ہاتھ خزا‎ؤں نے باندھ رکھے ہیں
وہ اپنی زلف میں تازہ گلاب چاہتا ہے

گھٹی گھٹی ہی سہی، کچھ صدائیں اٹھتی ہیں
زمانہ جیسے کوئی انقلاب چاہتا ہے

ابھی قرار کی منزل سے دور رہنے دو
یہ دل کچھ اور ابھی اضطراب چاہتا ہے

یہ بات کاش ہماری سمجھ میں آ جائے
ہمارے عہد کا بچہ کتاب چاہتا ہے

عجیب سوچ کا مالک ہے قافلہ سالار
کہ اپنی راہ میں خود ہی سراب چاہتا ہے

فصیح میں اسے تعبیر دے تو سکتا ہوں
مگر وہ شخص تو آنکھوں میں خواب چاہتا ہے

شاہین فصیح ربانی
 

فرخ منظور

لائبریرین
اچھی غزل ہے فصیح صاحب۔ میرے خیال میں عروضی اغلاط بھی نہیں ہیں۔ بہتر طور پر اساتذہ کرام بتائیں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے فصیح صاحب، عمدہ اشعار ہیں۔

صرف یہ کہ چوتھے شعر میں دوسرے مصرعے میں 'ابھی' کی تکرار کھٹکی ہے، اس کو پلیز دیکھ لیں۔
 

فاتح

لائبریرین
خوبصورت غزل پر داد اور مبارک باد قبول کیجیے۔ خصوصاً مقطع لا جواب ہے۔ سبحان اللہ!
 
Top