غزل
نہ جانے کیا دل ۔ خانہ خراب چاہتا ہے
کہ ہر سوال کا مثبت جواب چاہتا ہے
ہمارے ہاتھ خزاؤں نے باندھ رکھے ہیں
وہ اپنی زلف میں تازہ گلاب چاہتا ہے
گھٹی گھٹی ہی سہی، کچھ صدائیں اٹھتی ہیں
زمانہ جیسے کوئی انقلاب چاہتا ہے
ابھی قرار کی منزل سے دور رہنے دو
یہ دل کچھ اور ابھی اضطراب چاہتا ہے
یہ بات کاش ہماری سمجھ میں آ جائے
ہمارے عہد کا بچہ کتاب چاہتا ہے
عجیب سوچ کا مالک ہے قافلہ سالار
کہ اپنی راہ میں خود ہی سراب چاہتا ہے
فصیح میں اسے تعبیر دے تو سکتا ہوں
مگر وہ شخص تو آنکھوں میں خواب چاہتا ہے
شاہین فصیح ربانی