کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک عرصے بعد اس لڑی میں ایک غزل پیش کر رہا ہوں۔
احباب کی توجہ چاہونگا۔
احباب کی توجہ چاہونگا۔
نہ در پہ دی کبھی دستک نہ دی صدا میں نے
کچھ ایسے جوڑ کے ناطہ دکھا دیا میں نے
بنا کے شکل تری ایک سادہ کاغذ پر
لگا ہے کر دیے زندہ کئی خدا میں نے
تمھارے حسن کی تعریف اس طرح کی تھی
لکھے تھے شعر ہر اک نقش پر جدا میں نے
وہ میرے چاند کی آغوشِ خود فراموشی
میں تشنہ کام تھا بانہوں میں بھر لیا میں نے
وہاں ہے پیڑ گھنے سائے کا جہاں پہ کبھی
زمیں میں گاڑ دئیے تھے کئی خدا میں نے
نصیحتاً وہ مری شکل ہی دکھائے گیا
رکھی جو سامنے شیشے کے اک خطا میں نے
نشانیاں تری کیں ختم گوشے گوشے سے
اور آسمان میں بھر دی ہے یوں خلا میں نے
تھی روزگار، رفاقت کی پہلی شرط اگر
تو ایسے دورِ تعارف میں کیا جیا میں نے
متاعِ حسنِ رفاقت کی پیشکش کاشف
انا میں چھوڑ کے کر دی ہے انتہا میں نے
سیّد کاشف