زبیر مرزا
محفلین
کراچی کے ایک سہ ماہی رسالے مشاھیرمیں یہ غزل پڑھی تھی شاعر کا نام ناصرکاسگنجوی درج تھا
نہیں کہ انجمنِ دوستاں سے لوٹ آئے
جوارحلقہِ سوداگراں سے لوٹ آئے
نہ راس آئی ہمیں شہرِ گل کی آب و ہوا
دیارِ فکر بہاروخزاں سے لوٹ آئے
سوال ہی کا سلیقہ نہ تھا تو کیا کرتے
یہی کہ ہم درِ پیرمغاں سے لوٹ آئے
قفس سے چھوٹ کے آسائش قفس کے اسیر
گئے ضرورمگر آشیاں سے لوٹ آئے
تلاشِ دوست میں دل کیا کہ ہوش وفکرونظر
سبھی تھے ساتھ مگر درمیاں سے لوٹ آئے
وہ حسنِ شعر جو ناصر جگرکے ساتھ گیا
خدا کرے مرے رنگِ بیاں سے لوٹ آئے