نہ زباں کر سکے جس کی مدح و ثنا

متلاشی

محفلین
یہ ایک حمد جو کہ (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن) کے وزن پہ لکھی تھی ، آپ کی خدمت میں بصد احترام نغرض اصلاح پیش ہے۔۔۔

نہ زباں کر سکے ، جس کی مدح و ثناء
اور کس کی ہے یہ ، شان تیرے سوا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
توہی مطلوب ہے ، توہی مقصود ہے
مل جائے تو اگر ، چاہئے اور کیا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
عرش تا فرش ہے ، صرف یہی صدا
کہ نہیں ہے کہیں ، کوئی ثانی ترا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
پھر گواہی یہ دیتی ہے ہر اک زباں 
نہ ادا کر سکا، شکر کوئی ترا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
تجھ سے مولا مرے ، ہے یہی التجا
بخش دے تو گناہ ، سب کے روزِ جزا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
مجھ کو مولا مرے ، یوں نہ در در پھرا
رحم سے تو مجھے ، خاص اپنا بنا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
اس خطا کار کی ، اب یہی ہے دُعا
جیسا چاہتا ہے تو، مجھ کو ویسا بنا
اے خدا ، اے خدا، اے خدا، اے خدا
مولا اپنے فضل سے تو ذی شان کو
اپنا بندہ بنا، سیدھے رستے چلا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
16-10-11
متلاشی
 

متلاشی

محفلین
یاددہانی

اس کو بعد میں دیکھتا ہوں ذیشان۔
استاذ گرامی !
السلام علیکم!
شاید آپ بہت زیادہ مصروف ہیں یا پھر شاید آپ فقیر کی اس حمد پر نظر کرم فرمانا بھول گئے ہیں۔
برائے مہربانی فقیر کی اس حمد پر نظرِ کرم فرمائیے۔
شکریہ۔۔۔ اگر مصروف ہوں ۔ تو میں انتظار کر لوں گا۔
متلاشی
 

الف عین

لائبریرین
لو حاضر ہے اصلاح
پہلی بات تو یہ کہ یہ با قاعدہ نظم ہے، جس میں ایک مصرع بار بار دہرایا گیا ہے، اسے اصطلاحاً ’ٹیپ کا مصرع‘ کہتے ہیں، یعنی ’ اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا‘۔ لیکن اس طرح قوافی کا التزام پہلے بند میں تو ممکن بلکہ بہتر ہے، لیکن دوسرے بندوں میں نہیں۔ بند نمبر 2، 3، 4 اور 8 میں محض دوسرے مصرع میں وہ قافیہ ہے جو ٹیپ کے مصرع سے مطابقت رکھتا ہے۔ پہلے مصرع میں ردیف قافیہ کا التزام نہیں۔ لیکن بند نمبر 5، 6 اور 7 میں دونوں میں قوافی ہو گئے ہیں۔ خیر، الفاظ کی ترتیب بدل کر ان کو سدھارا جا سکتا ہے۔

1۔ نہ زباں کر سکے ، جس کی مدح و ثناء
اور کس کی ہے یہ ، شان تیرے سوا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
//’نہ‘ بر وزن ’نا‘ یا ’ناں‘ مجھے ذاتی طور پر پسند نہیں۔ لیکن اسی بات کو ’کیا‘ ’کب‘ یا ‘کیوں‘ سے بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر کہیں ‘بھلا‘ آ سکے تو مطلب بھی واضح ہو جاتا ہے۔ جیسے
کر سکے گا بھلا کون جس /اس کی ثنا
یا
کس سے ممکن ہوئی جس کی مدح و ثنا

2۔ تو ہی مطلوب ہے ، تو ہی مقصود ہے
مل جائے تو اگر ، چاہئے اور کیا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
دوسرا مصرع خارج البحر ہے۔ غالباً تم نے ’جائے‘ کا الف ساقط کر دیا ہے، جو غلط ہے، درمیانی حروف ساقط نہیں کئے جاتے۔
یوں کہہ سکتے ہو۔
مل سکے تو اگر، چاہئے اور کیا

3۔عرش تا فرش ہے ، صرف یہی صدا
کہ نہیں ہے کہیں ، کوئی ثانی ترا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
//ایک تو وہی غلطی ہے جس کی نشان دہی شروع میں کر چکا ہوں۔ پہلے مصرع میں قافیہ غلط ہے۔ اس کے علاوہ یہ دونوں مصرعے بحر سے خارج ہو گئے ہیں۔ تقطیع درست ہو سکتی ہے جب ’یہ ہی‘ کہا جائے ’یہی‘ کو۔
اور دوسرے مصرع میں ’کہ‘ کو ’کے‘ کی طرح پڑھا جائے۔ اس غلطی کو عزیزی وارث بھی غلطی ہی مانیں گے، اگر چہ وہ ’نہ‘ بر وزن ’فا گوارا کرتے ہیں۔ اس کو یوں کیا جا سکتا ہے۔
بس یہی اک صدا فرش تا عرش ہے
کوئی بھی تیرا ہمسر نہ ثانی ترا

4۔پھر گواہی یہ دیتی ہے ہر اک زباں
نہ ادا کر سکا، شکر کوئی ترا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
// ’پھر‘ حشو ہے، ’ہے ہر‘ صوتی طور پر اچھا نہیں لگتا، اگرچہ فنی طور پر درست ہے۔ دوسرے مصرع میں وہی ’نہ‘ کا جھگڑا!!
اس کے علاوہ پہلے مصرع کا اختتام بھی ’زباں‘ پر ہو رہا ہے، جو تقریباً ’خدا‘ کا قافیہ ہی لگتا ہے، نون غنہ نکال دینے پر ، بلکہ ہندی شاعری میں ’کہاں‘ اور ’کہا‘ قوافی بھی جائز ہیں!! اس طرح یہ اسقام دور کئے جا سکتے ہیں۔
ہر زباں یہ گواہی ہی دیتی رہی
کس طرح ہو سکے شکر کا حق ادا

5۔تجھ سے مولا مرے ، ہے یہی التجا
بخش دے تو گناہ ، سب کے روزِ جزا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
//اس بند کی غلطی کی طرف پہلے سے اشارہ کر چکا ہوں۔ اس کے علاوہ ’گناہ‘ بھی محض ’گنہ‘ تقطیع ہو گا۔پہلا مصرع یوں کر دو ۔۔
ہے یہی التجا تجھ سے ربِ کریم

6۔مجھ کو مولا مرے ، یوں نہ در در پھرا
رحم سے تو مجھے ، خاص اپنا بنا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
// اس طرح پہلے مصرع کے قوافی کا سقم دور ہو سکتا ہے۔
مجھ کو مولا یوں در در بھٹکنے نہ دے

7۔اس خطا کار کی ، اب یہی ہے دُعا
جیسا چاہتا ہے تو، مجھ کو ویسا بنا
اے خدا ، اے خدا، اے خدا، اے خدا
//پہلا مصرع میں قوافی کا عیب، دوسرے مصرع میں ؔچاہتا‘ کا الف کا اسقاط اچھا نہیں۔ یہاں مصارع الٹ دو تو سقم دور ہو سکتا ہے۔
چاہتا ہے تو جیسا، بنا دے مجھے
اس خطا کار۔۔۔۔۔

8۔مولا اپنے فضل سے تو ذی شان کو
اپنا بندہ بنا، سیدھے رستے چلا
اے خدا، اے خدا، اے خدا، اے خدا
//’فضل‘ میں ض پر جزم ہے، زبر نہیں۔ اس وزن پر ’کرم‘ لایا جا سکتا ہے۔لیکن معنی کے اعتبار سے دوسرے مصرع کی ترتیب غلط ہے۔ پہلے خدا سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے گا، تب ہی تو اس کا خاص بندہ بن سکتا ہے۔
سیدھا رستہ چلا/دکھا، اپنا بندہ بنا
 
Top