کاشفی
محفلین
غزل
(صدف مرزا - کوپن ہیگن، ڈنمارک )
نہ شیشے کا گھر ہے، نہ پتھر کا ڈر ہے
یہ دل تو کھنڈر ہے، اسے کیا خطر ہے
نہ دل میں شرر ہے، نہ ہی چشم تر ہے
الہٰی دعا میری کیوں بے اثر ہے؟
نہ کاٹے سے کٹتی ہے یہ راہ الفت
یہ کیسی ڈگر ہے، یہ کیسا سفر ہے؟
مرا داغِ دل ہے، مری چشمِ نم ہے
یہ رشکِ قمر ہے، وہ فخرِ گہر ہے
عطا دل کو کر دے شہنشاہی پل میں
اسی کا ہنر ہے، جسے سب خبر ہے
مری زندگی اور اس کی رفاقت
یہ جلتی ڈگر ہے، وہ ٹھنڈا شجر ہے
دعا تک نہیں کوئی لب پر شبِِ غم
پہر پچھلا مجھ پر گراں کس قدر ہے!
اسے ناز ہے گر، تو ہم بھی اٹکل ہیں
اُدھر تیرِ غم ہے، اِدھر یہ جگر ہے
(صدف مرزا - کوپن ہیگن، ڈنمارک )
نہ شیشے کا گھر ہے، نہ پتھر کا ڈر ہے
یہ دل تو کھنڈر ہے، اسے کیا خطر ہے
نہ دل میں شرر ہے، نہ ہی چشم تر ہے
الہٰی دعا میری کیوں بے اثر ہے؟
نہ کاٹے سے کٹتی ہے یہ راہ الفت
یہ کیسی ڈگر ہے، یہ کیسا سفر ہے؟
مرا داغِ دل ہے، مری چشمِ نم ہے
یہ رشکِ قمر ہے، وہ فخرِ گہر ہے
عطا دل کو کر دے شہنشاہی پل میں
اسی کا ہنر ہے، جسے سب خبر ہے
مری زندگی اور اس کی رفاقت
یہ جلتی ڈگر ہے، وہ ٹھنڈا شجر ہے
دعا تک نہیں کوئی لب پر شبِِ غم
پہر پچھلا مجھ پر گراں کس قدر ہے!
اسے ناز ہے گر، تو ہم بھی اٹکل ہیں
اُدھر تیرِ غم ہے، اِدھر یہ جگر ہے