نہ منزلیں ہیں نہ راستے ہیں ملانے والے

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نہ منزلیں ہیں نہ راستے ہیں ملانے والے
کدھر سے گزرے، کہاں گئے ہو، او جانے والے!

ہمیں یہ توفیق ہی نہیں تھی جواب دیتے
بہت سی باتیں سنا گئے ہیں سنانے والے

بہت سے جگنو اندھیر نگری میں اُڑ رہے ہیں
دِکھا رہے ہیں سبھی کو رستہ دکھانے والے

عجب تماشا ہے ڈوریوں کو ہلا ہلا کر
نچاتے جاتے ہیں پتلیوں کو نچانے والے

یہ سوچتے ہیں کہ کل اٹھیں گے تو پھر جئیں گے
ہم اپنے بچوں کو زہر دے کر سلانے والے

چڑھا لو سر پر تو پتھروں سے بھی سخت نکلیں
جلا کے دیکھو تو موم کے ہیں زمانے والے

عجیب کتنی ہیں اب مرے ہاتھ کی لکیریں
ہتھیلیاں دیکھتے ہیں سرسوں جمانے والے

میں چاہتا تھا کہ رُوٹھ کر ان کا پیار دیکھوں
مزید ناراض کر گئے ہیں منانے والے

عجب سی حسرت سے دیکھتا ہوں میں دوستوں کو
نہ جانے والے ہیں میرے اَپنے نہ آنے والے

ہیں اِس طرف مفلسوں کی چیخیں اور اُس طرف سے
وہی بیانات ہیں گھمانے پھرانے والے

بتوں کے آگے کبھی مرا سر جھکا نہیں ہے
تجھی کو پوجا ہے ساری دنیا بنانے والے !

اسی درخواست کے ساتھ جو میں نے ہمیشہ کی ہے :
بخدمت:
محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
خوب۔ لیکن میرا مشورہ وہی ہوگا، کہ خوود احتساب کرں، اور کمزور اشعار کو نکال دیں، درجن بھر اشعار کی جگہ پانچ چھ اشعار کی غزل بہتر تاثر چھوڑتی ہے۔ سرسوں جمانے والا شعر میری ہٹ لسٹ پر ہو گا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میری خود احتسابی بھی آپ کے سامنے ہے،جن اشعار کو نکالنا چاہتا ہوں، وہ سرخ کردئیے ہیں۔۔۔اس پر حتمی رائے ضرور دیجئے:

نہ منزلیں ہیں نہ راستے ہیں ملانے والے
کدھر سے گزرے، کہاں گئے ہو، او جانے والے!

ہمیں یہ توفیق ہی نہیں تھی جواب دیتے
بہت سی باتیں سنا گئے ہیں سنانے والے

بہت سے جگنو اندھیر نگری میں اُڑ رہے ہیں
دِکھا رہے ہیں سبھی کو رستہ دکھانے والے

عجب تماشا ہے ڈوریوں کو ہلا ہلا کر
نچاتے جاتے ہیں پتلیوں کو نچانے والے

یہ سوچتے ہیں کہ کل اٹھیں گے تو پھر جئیں گے
ہم اپنے بچوں کو زہر دے کر سلانے والے


چڑھا لو سر پر تو پتھروں سے بھی سخت نکلیں
جلا کے دیکھو تو موم کے ہیں زمانے والے

عجیب کتنی ہیں اب مرے ہاتھ کی لکیریں
ہتھیلیاں دیکھتے ہیں سرسوں جمانے والے


میں چاہتا تھا کہ رُوٹھ کر ان کا پیار دیکھوں
مزید ناراض کر گئے ہیں منانے والے

عجب سی حسرت سے دیکھتا ہوں میں دوستوں کو
نہ جانے والے ہیں میرے اَپنے نہ آنے والے


ہیں اِس طرف مفلسوں کی چیخیں اور اُس طرف سے
وہی بیانات ہیں گھمانے پھرانے والے


بتوں کے آگے کبھی مرا سر جھکا نہیں ہے
تجھی کو پوجا ہے ساری دنیا بنانے والے !

بخدمت محترم الف عین صاحب۔۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اب وہ شعر بھی نکال دیا ہے۔۔۔ ۔اب تک کا نتیجہ یہ رہا:

نہ منزلیں ہیں نہ راستے ہیں ملانے والے
کدھر سے گزرے، کہاں گئے ہو، او جانے والے!

ہمیں یہ توفیق ہی نہیں تھی جواب دیتے
بہت سی باتیں سنا گئے ہیں سنانے والے

عجب تماشا ہے ڈوریوں کو ہلا ہلا کر
نچاتے جاتے ہیں پتلیوں کو نچانے والے

چڑھا لو سر پر تو پتھروں سے بھی سخت نکلیں
جلا کے دیکھو تو موم کے ہیں زمانے والے

میں چاہتا تھا کہ رُوٹھ کر ان کا پیار دیکھوں
مزید ناراض کر گئے ہیں منانے والے

بتوں کے آگے کبھی مرا سر جھکا نہیں ہے
تجھی کو پوجا ہے ساری دنیا بنانے والے !
 

شیرازخان

محفلین
ویسے یہ شعر رکھا جانا چاہیے۔۔۔آخری کی نسبت۔۔۔!!
عجب سی حسرت سے دیکھتا ہوں میں دوستوں کو
نہ جانے والے ہیں میرے اَپنے نہ آنے والے
 
Top