نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ

با ادب

محفلین
نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ

ہماری اماں کو پھول پودوں کا از حدشوق تھا ۔ کہیں بھی جاتیں کوئی بیل دکھائی دیتی پھول نظر آتا پیڑ ہوتا انھیں اپنے گھر لانے کی پڑ جاتی ۔
ہمیں کبھی سمجھ نہیں آئی کہ انھیں پھول پودوں سے اتنا لگاؤ کیسے ہے ۔ ہماری مٹی دیکھ کے جان جاتی تھی ۔ کون ہاتھ لگائے مٹی کو ۔ مٹی میں تو حشرات الارض ہوتے ہیں ۔
جانے کیا کیا نکل آئے ۔ ہمیں چیونٹی سے بھی ڈر لگتا برساتی کیڑے کو دیکھ کے بھی چیختے چلاتے ۔ تتلی بھونرے سنڈیاں سبھی دیکھ کے الجھن ہوتی ۔
اور پھر ہماری اماں بیمار ہو گئیں ۔ ان کے پودے مرجھانے لگ گئے ۔
وہ کتابوں میں سر دیے بیٹی کو دیکھتیں اور پھر حسرت سے اپنے پودوں کو ۔
پانی دینے کی حد تک تو ہم تعاون کرنے کو تیار تھے لیکن پھر گوڈی کون کرے ۔ بیج کون لگائے اور سب سے بڑھ کر مٹی میں کون ہاتھ لگائے ۔
ہم نے سوچا سب پودے اکھیڑ لیے جائیں ۔ جان ہی چھوٹ جائے گی ۔
ہمیں پودے دیکھ کے بھی ڈر لگا کرتا ۔ رات کو گلاب کا پودا ہمیں جن کا بچہ نظر آتا اور لوکاٹ کا درخت دیو کا بھائی ۔
مالٹا ہمیں چڑیلوں کی نانی اماں لگتا اور آم چڑیل کا سڑا ہو شوہر ۔
املوک کا درخت دیکھ کے لگتا ہم پہ عاشق ہوگیا ہے ۔ اور پھر ہمیں وہ مسکراتا ہوا دکھائی دیتا اور بس خوف سے گھگھی بندھ جاتی ۔

غرض ہم نے آرا منگوا کے آم کی وہ شاخ کٹوا دی جو ہمارے راستے اور آنے جانے میں حائل تھی ۔ہم تو پورا درخت ہی کٹوا دیتے لیکن اماں ہمیں اسی آرے سے چار ٹکڑے کر ڈالتیں ۔

نہ جانے کیسے درختوں کی کاٹا پیٹی میں ہمیں ان سے پیار ہوتا گیا ۔
وہی درخت جن سے ہمیں رات کے اندھیرے میں ڈرتے تھے ان کے پتوں کی کانٹ چھانٹ کرتے ہم نے انکی کوملتا کو محسوس کیا ۔
جب ہوا پتوں کو چھو کے ہم تک پہنچتی تھی تو ہمیں لگتا یہ پتے پھول سب ہم سے باتیں کرتے ہیں ۔اور یوں ہماری دوستی کا آغازہوا ۔
ایک دن ہم نے کھدال اٹھا لی اور پورے باغیچے کی کھدائی کر ڈالی ۔ زمین سے برساتی کیڑے ابل ابل کے باہر آتے اور ہمارے پاؤں پہ رینگ کے دوسری جانب نکل جاتے ۔
کبھی کیڑا ہاتھوں پہ چلتا کبھی پاؤں پہ ۔
کبھی سنڈی ہمارے ہاتھوں قتل ہو جاتی ۔
اور ہوتے ہوتے جانے کب مٹی کی نرمی اور ٹھنڈک اپنے وجود کا حصہ لگنے لگا ۔
پورا پورا دن پوری پوری رات باغیچے میں گزرتی ۔اماں غصے ہوتیں رات کو پودوں میں نہیں رہتے اور پودے مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتے ۔
مالٹے کا پیڑ بڑی اماں بن جاتا اور املوک دادی لگتا ۔ دادی شفقت سے مسکراتی تو مجھے عاشق ہونے والا جن یادآجاتا اور میں دادی کو کہانی سنا دیتی ۔
لوکاٹ سے گلے لگ کے اسے سہیلی سکھی مان لیا ۔ ایک عجب دنیا آباد ہو گئی ۔
اور ایک دن مجھے خیال آیا ۔ کسی دن سمیرا امام مر جائے گی ۔ اسکا وجود مٹی کی ایسی ہی کسی ڈھیری میں مل جائے گا ۔ یہ جو کھال ہے کسی نامیاتی و غیر نامیاتی مادے میں ڈھل جائے گی ۔ ناخن زمین کا جزبن جائیں گے ۔ لوگ اسی مٹی پہ چلیں گے اور کوئی نہیں جانتا ہوگا کہ جس مٹی پہ انھوں نے قدم رکھا یہ کبھی ایک خاتون ہوا کرتی تھی ۔
اب فقط خاک رہ گئیں ۔ خاک نہ گوری نہ کالی بس ایک خاک ۔۔۔۔
میرا جی چاہتا ابھی ہی ساری زمین کھود ڈالوں ۔ اور اس مٹی کا حصہ بن جاؤں ۔
نہ حسد نہ بغض ' نہ کینہ نہ فتنہ ۔۔ یہ مٹی ہر اخلاقی رزائل سے پاک تھی ۔ بس پودوں کو خوراک دیتی اور انسانوں کو سکھ ۔
مجھے مٹی سے عشق ہوگیا ۔اتنا گہرا اتنا گہرا کہ شدتِ جذبات سے میری آنکھیں نم ہوئی جاتیں ۔
مجھے کنکریٹ کے مکانوں سے عجیب الجھن محسوس ہوتی ہے ۔
مجھے یادآتا ہے بہت پہلے سے مجھے مٹی کی کشش اپنی جانب کھینچتی تھی ۔ ہم یونیورسٹی سے گھر آتے تو میں ضد کر کے منڈی موڑ کے پاس کچی آبادی میں بس سے اتر جاتی ۔ میری سہیلی کو میری اس عادت سے انتہائی چڑ تھی لیکن مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اسے بھی ساتھ آنا پڑتا ۔
اور پھر کچی آبادی کے راستوں سے گزر کے ہم گھر جاتے ۔
ہمیشہ میں اس سے کہا کرتی ۔میرا جی چاہتا ہے میراایک ایساگھر ہو ۔ کچی مٹی کا بنا ہوا ۔
اور وہ کہتی باتیں آسان ہوتی ہیں کر لیا کرو ۔۔۔۔۔۔
پھر مجھے علم ہواکہ مٹی مجھے پسند ہے ۔
لوگ کہتے ہیں انھیں قبر سے ڈر لگتا ہے ۔ مجھے حیرت ہوتی ہے انھیں دنیا کے جنجال سے ڈر کیوں نہیں لگتا ؟
زینب مر گئی ۔ اور میں آج تک سو نہیں پاتی کہ اگر میں زینب ہوتی تو ؟؟
مجھے لگتا ہے اللہ میاں اپنے بندوں کو ایسی تکلیف تو قبر میں کبھی بھی نہیں دیتے ہونگے۔۔۔
کہتے ہیں قبر میں سانپ بچھو ہوتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی میراعقیدہ ہے کہ وہ دنیا میں رہنے والے انسان نماسانپوں سے اچھے ہی ہونگے ۔
میری ایک دوست شدید بیمار رہتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کسی دن اسے قتل کر دیا جائے گا ۔ کیونکہ اس نے ان عورتوں کے لیے آوازاٹھانے کی غلطی کر ڈالی تھی جو لاوارث اور بے سہارا ہیں ۔اور جن پہ دن رات جبر ہوتا ہے ۔
جب بھی کوئی لڑکی مر جاتی تو وہ میری سہیلی رو رو کے بیمار پڑ جاتی ہے ۔مجھے لگتا ہے وہ بے وقوف ہے ۔اسے تو خوش ہونا چاہیے وہ بچیاں اب اپنے رب کے پاس مامون ومحفوظ ہیں ۔
دنیا قبر سے زیادہ گندی جگہ ہے ۔ جیسے راستے میں گزرتے ہوئے گندے راستے یا حسین مناظر میں عمر نہیں کاٹی جا سکتی کہ آخر مسافر کو منزل پہ پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے ۔بالکل وہی کیفیت ہے کہ جلدازجلد اپنی منزل پہ پہنچا جائے ۔

سمیرا امام
 

سیما علی

لائبریرین
سمیرا !!!!!
بہت عمدہ ؀
جسم اپنے فانی ہیں جان اپنی فانی ہے فانی ہے یہ دنیا بھی!!!!!
!!!
پھر بھی فانی دنیا میں جاوداں تو میں بھی ہوں جاوداں تو تم بھی ہو
ہماری زندگی ذہنی اور زمانی وفاداریوں سے متعلق بہت سے حوالہ زمین اور مٹی سے وابستہ ہوتے ہیں کہ وہی ہماری زندگی کی ایک بہت بڑی مادّی حقیقت ہے اور زمین ہی کو ہم مٹی سے تعبیر کرتے ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
درختوں کی دنیا اور ان کے کردار میں مسحور کردیا اور پھر اکدم سے اس دنیا سے باہر لاپھینکا. دلجمعی سے پڑھتے پڑھتے ....
 

نور وجدان

لائبریرین
نور بٹیا!!!!!
آپ کا انداز دو سطروں میں بھی دلاویز ہے ۔بہت سارا پیار :inlove::inlove::inlove::inlove::inlove:>

[QUOTE/]
آپ کے دل کی دنیا دلاویز ہے:) :) جو خود حسن نگاہ کے حامل ہوں، انہیں ہر جا و ہر بات اچھی لگتی ہے

QUOTE/]
آپ کے دل کی دنیا دلاویز ہے جو خود حسن نگاہ کے حامل ہوں، انہیں ہر جا و ہر بات اچھی لگتی ہے
 

سیما علی

لائبریرین
درختوں کی دنیا اور ان کے کردار میں مسحور کردیا اور پھر اکدم سے اس دنیا سے باہر لاپھینکا. دلجمعی سے پڑھتے پڑھتے ....
اختر شیرانی کا یہ شعر آپکی نذر؀
ہیں نرگس و گل کس لیے مسحور تماشا۔
گلشن میں کوئی شوخ ادا کھیل رہی ہے
 
Top