ذوالفقار نقوی
محفلین
نہ کلیوں اور پھولوں کی مہک ہے
مری مٹی ہے، میری ہی مہک ہے
نہ کلیوں اور پھولوں کی مہک ہے
مری مٹی ہے، میری ہی مہک ہے
مرے دشتِ جنوں سے کون گذرا
یہ کس کی اب تلک باقی مہک ہے
کہاں سے آئے ہیں شعلے لپکتے
کہ اِن میں جانی پہچانی مہک ہے
دیے میں خونِ دل ڈالا ذرا کیا
ہواؤں سے الجھنے کی مہک ہے
کسی آہٹ پہ میری سانس اُکھڑی
مگر سانسوں میں البیلی مہک ہے
ہَوا پر غیر کا قبضہ ہے بے شک
رچی اِس میں مگر تیری مہک ہے
ذوالفقار نقوی
مری مٹی ہے، میری ہی مہک ہے
نہ کلیوں اور پھولوں کی مہک ہے
مری مٹی ہے، میری ہی مہک ہے
مرے دشتِ جنوں سے کون گذرا
یہ کس کی اب تلک باقی مہک ہے
کہاں سے آئے ہیں شعلے لپکتے
کہ اِن میں جانی پہچانی مہک ہے
دیے میں خونِ دل ڈالا ذرا کیا
ہواؤں سے الجھنے کی مہک ہے
کسی آہٹ پہ میری سانس اُکھڑی
مگر سانسوں میں البیلی مہک ہے
ہَوا پر غیر کا قبضہ ہے بے شک
رچی اِس میں مگر تیری مہک ہے
ذوالفقار نقوی
مدیر کی آخری تدوین: