امیر مینائی نہ کور باطن ہو، اے برہمن، ذرا تو چشمِ تمیز وا کر - امیر مینائی

کاشفی

محفلین
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)

نہ کور باطن ہو، اے برہمن، ذرا تو چشمِ تمیز وا کر
خدا کا بندہ، بتوں کا سجدہ، خدا خدا کر، خدا خدا کر

جو اُٹھ کے پہلو سے انجمن میں، وہ دور بیٹھے ہیں مجھ سے جاکر
تڑپ نے دردِ جگر کی دل کو پٹک دیا ہے اُٹھا اُٹھا کر

قدم کو لغزش، زبان کو لکنت، ہے رعشہ ہاتھوں کو، سر کو جنبش
کدھر گئی ہائے نوجوانی، اِن آفتوں میں ہمیں پھنسا کر

جو آنکھ کھولی، تو کچھ نہ دیکھا، سحر کو سنسان سب سرا تھی
ہوا نہ ہمراہیوں سے اِتنا کہ ساتھ لیتے مجھے جگا کر

نہ بھول اس زندگی پہ غافل، نہیں ہے کچھ اعتبار اس کا
کہ راہ لے گی یہ اپنی اک دن عدم کا رستہ تجھے بتا کر

بپا ہے طوفانِ بے ثباتی، روا روی میں ہیں گرم موجیں
ہوا میں ناحق بھرا ہوا ہے، حباب دریا میں گھر بنا کر

نہیں ہے کوئی جہاں میں باقی، چلے گی اب تیغِ ناز کس پر
مگر تری قتل گاہ میں لائیں مسیح مُردے جلا جلا کر

یہ ظلم سارے ہیں چند روزہ، ہے ایک دن انتقام کا بھی
امیر حمام گرم کر لیں، فقیر کا جھونپڑا جلا کر

خدا ہی باندھے ہوا کچھ ایسی کہ دل ہو اُس گرم خوں کا پانی
کیا ہے لوگوں نے آگ اُس کو، لگا لگا کر بجھا بجھا کر

امیر، میری رگِ گلو کو یہ تیغِ قاتل کی آرزو تھی،
ملی وہ آکر جو بعد مدت تو خوب روئی گلے لگا کر

امیر ، قسمت میں جو لکھا ہے، اُسی کا ہر روز سامنا ہے
خدا ہے مالک، خدا ہے رازق، کسی سے ہرگز نہ التجا کر
 
Top