فرخ منظور
لائبریرین
نہ ہاتھ اُٹھائے فلک گو ہمارے کینے سے
کسے دماغ کہ ہو دوبدو کمینے سے
نہیں خیال مجھے خاتمِ سلیماں کا
برنگِ نام ہوں بر کندہ دل نگینے میں
بسانِ دانۂ انگور مے پرستوں نے
لیا ہے فیض مرے دل کے آب گینے سے
ترقّی اور تنزّل کو یاں کے کچھ عرصہ
مثالِ ماہ زیادہ نہیں مہینے سے
مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تُو نہ مر جاوے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
مآلِ کار سُجھایا قبُور نے ہم کو
یہ نقد مال لگا ہاتھ اس دفینے سے
بسا ہے کون ترے دل میں گل بدن اے دردؔ
کہ بُو گلاب کی آئی ترے پسینے سے
(خواجہ میر دردؔ)
کسے دماغ کہ ہو دوبدو کمینے سے
نہیں خیال مجھے خاتمِ سلیماں کا
برنگِ نام ہوں بر کندہ دل نگینے میں
بسانِ دانۂ انگور مے پرستوں نے
لیا ہے فیض مرے دل کے آب گینے سے
ترقّی اور تنزّل کو یاں کے کچھ عرصہ
مثالِ ماہ زیادہ نہیں مہینے سے
مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تُو نہ مر جاوے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
مآلِ کار سُجھایا قبُور نے ہم کو
یہ نقد مال لگا ہاتھ اس دفینے سے
بسا ہے کون ترے دل میں گل بدن اے دردؔ
کہ بُو گلاب کی آئی ترے پسینے سے
(خواجہ میر دردؔ)