داغ نہ ہوا یوں گنہ ثواب کے ساتھ ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
نہ ہوا یوں گنہ ثواب کے ساتھ
آبِ زم زم نہ تھا شراب کے ساتھ


دن گزرتے ہیں کس عذاب کے ساتھ
وہ زمانہ گیا شباب کے ساتھ


رہ گئی دل کی آرزو دل میں
موت ہی آ گئی جواب کے ساتھ


غیر کو دے کے جام مجھ کو دیا
خونِ دل بھی پیا شراب کے ساتھ


غیر اٹھ جائے کاش دنیا سے
سرِ محفل ترے حجاب کے ساتھ


وصل میں کشمکش سے ان کی قبا
دھجیاں ہو گئی نقاب کے ساتھ


مہر وہ رخ ہے اور مہ جبیں
چاند نکلا ہے آفتاب کے ساتھ


آہِ سوزاں ہے اور دردِ جگر
یہی بجلی ہے اس سحاب کے ساتھ


وعدۂ وصل پر پلائی مجھے
خوب چھینٹا دیا شراب کے ساتھ


یاد آتی ہے جب تری شوخی
لوٹ جاتا ہوں اضطراب کے ساتھ


پہلے وہ نام اپنا لیتے ہیں
سب حسینوں میں انتخاب کے ساتھ


موت کا انتظار آٹھ پہر
زندگی اور اس عذاب کے ساتھ


صبر سے اس کو چین کب آئے
نبھ گئی جس کی اضطراب کے ساتھ


کیا کہیں ہم جنابِ داغؔ کو آہ!
یاد کرتے ہیں کس خطاب کے ساتھ


(داغؔ دہلوی)
 

کاشفی

محفلین
کیا کہیں ہم جنابِ داغؔ کو آہ!
یاد کرتے ہیں کس خطاب کے ساتھ


فرخ منظور صاحب! داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی خوبصورت غزل شیئر کرنے کے لیئے آپ کا بیحد شکریہ۔۔
 
Top