نہ ہووے نغمہ سرا کس طرح سے بلبل زار۔۔۔قصیدہ بہاریہ از مولانا محمد قاسم نانوتوی۔

الشفاء

لائبریرین
بانی دارالعلوم دیو بند مولانا محمد قاسم نانوتوی نے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی مدحت و نعت میں قصیدہ بہاریہ لکھا ہے جو تقریباً ڈیڑہ سو اشعار پر مشتمل ہے۔ ان میں سے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں۔۔۔یہ قصیدہ نعت کے ساتھ ساتھ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ میں استغاثہ بھی ہے اور ان اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اکابر علماء دیو بند کا کیا عقیدہ تھا۔۔۔

نہ ہووے نغمہ سرا کس طرح سے بلبل زار
کہ آئی ہے نئے سر سے چمن چمن میں بہار

الٰہی کس سے بیاں ہو سکے ثنا اس کی
کہ جس پہ ایسا تری ذات خاص کا ہو پیار

جو تو اسے نہ بناتا تو سارے عالم کو
نصیب ہوتی نہ دولت وجود کی زنہار

فلک پہ عیسٰی و ادریس ہیں تو خیر سہی
زمیں پہ جلوہ نما ہیں محمد مختار

فلک پہ سب سہی پر ہے نہ ثانئ احمد
زمیں پہ کچھ نہ ہو پر ہے محمدی سرکار

کرے ہے ذرہء کوئے محمدی سے خجل
فلک کے شمس و قمر کو زمین لیل و نہار

نثار کیا کروں مفلس ہوں نام پر اس کے
فلک سے عقد ثریا لوں دے اگر وہ ادھار

ثنا کر اس کی فقط قاسم اور سب کو چھوڑ
کہاں کا سبزہ کہاں کا چمن کہاں کی بہار

ثنا کر اُس کی اگر حق سے کچھ لیا چاہے
تو اُس سے کہہ اگر اللہ سے ہے کچھ درکار


کہاں وہ رتبہ کہاں عقل نارسا اپنی
کہاں وہ نور خدا اور کہاں یہ دیدہء زار

اگر کرے مری روح القدس مددگاری
تو اس کی مدح میں میں بھی کروں رقم اشعار

جو جبرئیل مدد پر ہو فکر کی میرے
تو آگے بڑھ کے کہوں اے جہان کے سردار

تو فخر کون و مکاں زبدہء زمین و زماں
امیر لشکر پیغمبراں شہہ ابرار

خدا ترا تو خدا کا حبیب اور محبوب
خدا ہے آپ کا عاشق تم اس کے عاشق زار

تو بوئے گل ہے اگر مثل گل ہیں اور نبی
تو نور شمس اگر اور انبیاء ہیں شمس نہار

حیات جان ہے تُو ہیں اگر وہ جان جہاں
تو نور دیدہ ہے گر ہیں وہ دیدہء بیدار

طفیل آپ کے ہے کائنات کی ہستی
بجا ہے کہئے اگر تم کو مبدءالآثار

جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں
ترے کمال کسی میں نہیں مگر دو چار

تو ہے آئینہ کمالات کبریائی کا
وہ آپ دیکھتے ہیں اپنا جلوہء دیدار

جو انبیاء ہیں وہ آگے تری نبوت کے
کریں ہیں امتی ہونے کا یا نبی اقرار

خدا کے طالب دیدار حضرت موسٰی
تمہارا لیجے خدا آپ طالب دیدار

کہاں بلندی طُور اور کہاں تری معراج
کہیں ہوئے ہیں زمین آسمان بھی ہموار

جمال کو ترے کب پہنچے حسن یوسف کا
وہ دلربائے زلیخا تو شاہد ستّار

رہا جمال پہ تیرے حجاب بشیریت
نہ جانا کون ہے کچھ بھی کسی نے جز ستار

مربی مہ و خور ذرے تیرے کوچہ کے
معلم الملکوت آپ کا سگ دربار


عجب نہیں تری خاطر سے تیری امت کے
گناہ ہوویں قیامت کو طاعتوں میں شمار

کفیل جرم اگر آپ کی شفاعت ہو
تو قاسمی بھی طریقہ ہو صوفیوں میں شمار


یہ سن کے آپ شفیع گناہ گاراں ہیں
کئے ہیں میں نے اکٹھے گناہ کے انبار

ترے لحاظ سے اتنی تو ہو گئی تخفیف
بشر گناہ کریں اور ملائک استغفار

خدا ترا تُو جہاں کا ہے واجب الطاعۃ
جہاں کو تجھ سے تجھے اپنے حق سے ہے سروکار

کروڑوں جرموں کے آگے یہ نام کا اسلام
کرے گا یا نبی اللہ کیا مرے پہ پکار


برا ہوں بد ہوں گنہگار ہوں پہ تیرا ہوں
ترا کہیں ہیں مجھے گو کہ ہوں میں ناہنجار

لگے ہے سگ کو ترے میرے نام سے گو عیب
پہ تیرے نام کا لگنا مجھے ہے عزّ وقار

تو بہترین خلائق میں بد ترین جہاں
تو سرور دو جہاں میں کمینہ خدمت گار

بہت دنوں سے تمنا ہے کیجیے عرض حال
اگر ہو اپنا کسی طرح تیرے در تک بار

وہ آرزوئیں جو ہیں مدتوں سے دل میں بھریں
کروں میں کھول کے دل اور نکالوں دل کا بخار

کشش پہ تیری لئے اپنا بار بیٹھے ہیں
تکے ہے تیری طرف کو یہ اپنا دیدہ زار

مدد کر اے کرم احمدی کہ تیرے سوا
نہیں ہے قاسم بےکس کا کوئی حامئ کار


جو تو ہی ہم کو نہ پوچھے تو کون پوچھے گا
بنے گا کون ہمارا ترے سوا غم خوار

لیا ہے سگ نمط ابلیس نے مرا پیچھا
ہُوا ہے نفس موا سانپ سا گلے کا ہار

رجاء و خوف کی موجوں میں ہے امید کی ناؤ
جو تو ہی ہاتھ لگائے تو ہووے بیڑا پار

امیدیں لاکھوں ہیں لیکن بڑی امید ہے یہ
کہ ہو سگان مدینہ میں میرا نام شمار

جیوں تو ساتھ سگان حرم کے تیرے پھروں
مروں تو کھائیں مدینہ کے مجھ کو مور و مار

جو یہ نصیب نہ ہو اور کہاں نصیب مرے
کہ میں ہوں اور سگان حرم کی تیرے قطار


اڑا کے باد مری مشت خاک کو پس مرگ
کرے حضور کے روضہ کے آس پاس نثار

ولے یہ رتبہ کہاں مشت خاک قاسم کا
کہ جائے کوچئہ اطہر میں تیرے بن کے غبار

ہوس نہیں مجھے اس سے بھی کچھ رہی لیکن
خدا کی اور تری الفت سے میرا سینہ فگار

لگے وہ تیر غم عشق کا مرے دل میں
ہزار پارہ ہو دل خون دل میں ہو سرشار

تمہارے عشق میں رو رو کے ہوں نحیف اتنا
کہ آنکھیں چشمہء آبی سے ہوں درون غبار

ہُوا اشارہ میں دو ٹکڑے جوں قمر کا جگر
کوئی اشارہ ہمارے بھی دل کے ہو جا پار

یہ کیا ہے شور و غل اتنا سمجھ تو کچھ قاسم
نہ کچھ بڑا ترا رتبہ نہ کچھ بلند تبار

تو تھام اپنے تئیں حد سے پا نہ دھر باہر
سنبھال اپنے تئیں اور سنبھل کے کر گفتار

ادب کی جا ہے یہ چپ ہو تُو اور زباں کر بند
وہ جانے چھوڑ اسے پر نہ کر تُو کچھ اصرار

دل شکستہ ضروری ہے جوش رحمت کو
گرے باز کہیں جب تلک نہ دیکھے شکار

وہ آپ رحم کریں گے مگر سنیں تو سہی
شکست شیشہء دل کی ترے کبھی جھنکار

بس اب درود پڑھ اس پر اور اس کی آل پہ تو
جو خوش ہو تجھ سے وہ اور اس کی عترت اطہار

الٰہی اس پہ اور اس کی تمام آل پہ بھیج
وہ رحمتیں کہ عدد کر سکے نہ ان کو شمار


 

نایاب

لائبریرین
ان گنت درود و سلام آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک پر
سبحان اللہ
کیا جذب سے بھرپور قصیدہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ بہت دعائیں شراکت پر
 
Top