نیازمند اصلاح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایک غزل کھنے کی کوشش کی ہے۔ ذرا اصلاح فرما دیجیے۔ شکریہ


مرے دل کی تجھے کوئی خبر کیا؟
میں خود بتلاوں تو اس کا اثر کیا؟

نہیں ہے اپنی جاں کی فکر مجھ کو
تو پھر ہو حسرت دینار و زر کیا؟

کیا ہے وعدہ رب سے بندگی کا
نبھائے گر نہیں تو ہے بشر کیا؟

نہیں ہے تجھ کو فکرِ ارتقا گر
تو ہے پہر مقصد شام و سحر کیا؟

عبادت کر رہے ہو جس خدا کی
بنایا دل میں اپنے اس کا گھر کیا؟

جو ہے دعوہ تجھے عشق و جنوں کا
تو یہ شرطیں ہیں کیسی، یہ اگر کیا؟

ہے فاضل گر جنون حق مداری
تو کہہ دو حق، زمانے سے یہ ڈر کا؟

۱۸ شعبان ۱۴۳۰
 

فاتح

لائبریرین
عمدہ کاوش ہے سید محمد نقوی صاحب۔ مبارک باد قبول ہو۔
مقطع کا مصرع اولیٰ سمجھ نہیں پایا۔ نیز اچھے شعر میں "یہ"، "وہ"، تو"، "جو"، "ہے"، وغیرہ کم سے کم ہونے چاہییں۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، لیکن فاتح کی بات کے علاوہ مجھے دو ایک باتیں مزید کھٹک رہی ہیں۔
ایک تو محاورہ ’دینار و زر‘ غلط ہے، درم و دینار‘ ہوتا ہے، یا دینار و در بھی ۔ اس کو ’در‘ ہی کر دیں۔
دوسرے۔۔ محاورہ "اگر مگر" تو ہوتا ہے، لیکن محض "اگر" سے مظلب تو واضح ہو جاتا ہے لیکن بات نہیں بنتی۔
 

مغزل

محفلین
نقوی صاحب ، آداب ، اساتذہ کرام کی رائے آنےبعد غزل کے اچھے ہونے میں کوئی کمی نہیں رہ گئی ، امید ہے آپ سے مراسلت رہے گی اور دیگر خوبصورت کلام بھی لذتِ سمع وبصر کو نصیب ہوگا،اس کاوش پر ناچیز کی طرف سے ہدیہ تحسین قبول کیجے و، والسلام
 
تاخیر کے لیے معذرت، ابھی بھی مردد تھا کہ بھیجوں یا نہیں آخر بھیج دی.
حضرات کی ہدایات کے مطابق اس غزل کو بہتر کرنے کی کوشش تو کی ہے، بہتر ہوئی یا نہیں آپ ہی بتائیں.

مرے دل کی تجھے کوئی خبر کیا؟
میں خود بتلاؤں تو اس کا اثر کیا؟

نہیں جب فکر اپنی جاں کی مجھ کو
بھلا پھر ہو نیازِ سیم و زر کیا؟

نہیں تجھ کو ضرورت ارتقا کی!
بتا، پھر مقصد شام و سحر کیا؟

عبادت میں جھکے ہو جس خدا کی
بنایا اپنے دل میں اس کا گھر کیا؟

سنو اے مدعی عشق و جنوں کے
رہِ مستی میں امّا و اگر کیا؟

ہے فاضل گر جنون حق پرستی
تو کہہ دو حق، زمانے سے یہ ڈر کا؟
 
عمدہ کاوش ہے سید محمد نقوی صاحب۔ مبارک باد قبول ہو۔
مقطع کا مصرع اولیٰ سمجھ نہیں پایا۔ نیز اچھے شعر میں "یہ"، "وہ"، تو"، "جو"، "ہے"، وغیرہ کم سے کم ہونے چاہییں۔

شکریہ فاتح صاحب
مقطع کے مصرع اولی میں تبدیلی کردی ہے.
جو کلمات آپ نے فرمائے ان کو کم کرنے کی کوشش کی ہے. اب آپ کی را کا انتظار ہے.

اچھی غزل ہے، لیکن فاتح کی بات کے علاوہ مجھے دو ایک باتیں مزید کھٹک رہی ہیں۔
ایک تو محاورہ ’دینار و زر‘ غلط ہے، درم و دینار‘ ہوتا ہے، یا دینار و در بھی ۔ اس کو ’در‘ ہی کر دیں۔
دوسرے۔۔ محاورہ "اگر مگر" تو ہوتا ہے، لیکن محض "اگر" سے مظلب تو واضح ہو جاتا ہے لیکن بات نہیں بنتی۔

اعجاز صاحب، شکریہ
دینار و زر والا مصرع بدل دیا ہے، سیم و زر استعمال کیا ہے، اگر اب بھی غلط ہے تو فرمائیے، پھر کوشش کروں گا.
اگر والے مصرع میں بھی اما و اگر سے بہتری کی کوشش کی ہے، یہ فارسی میں تو بہت استعمال ہوتے ہے. آپ کی رای کا منتظر ہوں.

اچھی غزل ہے نقوی صاحب!
شکریہ وارث صاحب، اگر آپ بھی اپنے اصلاحی نکات سے نوازتے تو مزید مشکور ہوتا، خاص طور پہ وزن اور عروضی حوالے سے.

نقوی صاحب ، آداب ، اساتذہ کرام کی رائے آنےبعد غزل کے اچھے ہونے میں کوئی کمی نہیں رہ گئی ، امید ہے آپ سے مراسلت رہے گی اور دیگر خوبصورت کلام بھی لذتِ سمع وبصر کو نصیب ہوگا،اس کاوش پر ناچیز کی طرف سے ہدیہ تحسین قبول کیجے و، والسلام
محمود صاحب، آپ کا بھی بہت شکریہ. اگر اس غزل کو اساتید نے پاس فرمایا، تو اور کوشش کروں گا.

بہت خوب جناب سید محمد نقوی صاحب اچھی کاوش ہے ۔
شاہ صاحب آپ کا بھی بے حد مشکور ہوں.

....تیسرے شعر کو کافی بدلنے کی کوشش کی، لیکن آخر کار حذف ہی کردیا.
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! سبحان اللہ! رنگ مزید نکھر گیا ہے۔ مبارک باد قبول کیجیے۔
بندہ فارسی سے بالکل ہی نا بلد ہے جب کہ اردو شاعری کا بھی انتہائی محدود مطالعہ ہے لہٰذا "امَّا و اگر" کی اصطلاح اردو میں نئی نئی لگ رہی ہے مگر اس پر کوئی رائے دینے سے عاری ہے۔
 
سبحان اللہ! سبحان اللہ! رنگ مزید نکھر گیا ہے۔ مبارک باد قبول کیجیے۔
بندہ فارسی سے بالکل ہی نا بلد ہے جب کہ اردو شاعری کا بھی انتہائی محدود مطالعہ ہے لہٰذا "امَّا و اگر" کی اصطلاح اردو میں نئی نئی لگ رہی ہے مگر اس پر کوئی رائے دینے سے عاری ہے۔

حضور بہت شکریہ آپ کا. مجھے بھی یہ اصطلاح اردو میں نئی لگی، لیکن کیونکہ فی الحال اس سے بہتر ترکیب نہیں ملی ہے، سوچا اساتید کی رای معلوم کروں.
 

الف عین

لائبریرین
فاتح کی بات میں بھی دوہراؤں گا۔ اما و اگر‘ سے واقف نہیں، میری کم علمی!!۔ اس لئے اس کا درست استعمال کس طرح ہوتا ہے، کہہ نہیں سکتا۔ بلکہ تلفظ بھی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں یہ ترکیب 'امّا و اگر' نقوی صاحب نے حیل و حجت اور اگر مگر کیلیے وضع کی ہے، ویسے آسانی سے تبدیل بھی ہو سکتی ہے مثال کے طور پر (فقط مثال کہ خاکسار اصلاح دینے کا اہل نہیں ہے)

سنو اے مدعی عشق و جنوں کے
رہِ حق میں اگر کیا اور مگر کیا؟
 
فاتح کی بات میں بھی دوہراؤں گا۔ اما و اگر‘ سے واقف نہیں، میری کم علمی!!۔ اس لئے اس کا درست استعمال کس طرح ہوتا ہے، کہہ نہیں سکتا۔ بلکہ تلفظ بھی۔

میرے خیال میں یہ ترکیب 'امّا و اگر' نقوی صاحب نے حیل و حجت اور اگر مگر کیلیے وضع کی ہے، ویسے آسانی سے تبدیل بھی ہو سکتی ہے مثال کے طور پر (فقط مثال کہ خاکسار اصلاح دینے کا اہل نہیں ہے)

سنو اے مدعی عشق و جنوں کے
رہِ حق میں اگر کیا اور مگر کیا؟

بہت مشکور ہوں، میں نے بھی اس سے ملتا جلتا مصرع لکھا تھا، لیکن سوچا شاید مقبول نہ ہو، اس لیے مٹا دیا. اب وارث صاحب کی اجازت سے، یہی مصرع لکھ دیتا ہوں.

سنو اے مدعی عشق و جنوں کے
رہ حق میں اگر کیا اور مگر کیا
شکریہ
 
Top