فرخ منظور
لائبریرین
غزل
نیا آئینِ دوراں ہے ، نظر کعبہ بدل ڈالے
خرد منزل بدل ڈالے، جنوں رستہ بدل ڈالے
نیا آئینِ دوراں ہے ، نظر کعبہ بدل ڈالے
خرد منزل بدل ڈالے، جنوں رستہ بدل ڈالے
پھریں دیر و حرم میں جام و لب تشنہ لیے ساقی
مئے مستی نہیں باقی ، کوئی شیشہ بدل ڈالے
بدلتے وقت نے بدلی ہے فطرت جوئے شیریں کی
کوئی فرہاد سے کہہ دے کہ وہ تیشہ بدل ڈالے
عجب نہ ہو اگر زندہ رہیں یہ زخم ہائے دل
صفاتِ مرہمِ نسیاں غمِ رفتہ بدل ڈالے
کبھی یہ گرمئ محفل گریزاں شوخئ جاں سے
کبھی احوالِ بیزاری دلِ خستہ بدل ڈالے
ذرا ہو جنبشِ اثباتِ ابروئے خمیدہ تن
تو دیوانہ وفا داری کا پیمانہ بدل ڈالے
فسوں کاری نے جس کی زندگی کا رُخ بدل ڈالا
دلِ ناداں کی خواہش ہے وہی لمحہ بدل ڈالے
معین الدین