بابا مجھے نئے جوتے چاھیں۔ میرے سارے ساتھی نئے جوتے پہن کر سکول آتے ھیں اور میں پرانے اور بھٹے ھوئے جوتے پہن کر۔ مجھے بہت شرم آتی ھے۔ موچی کے لگائے گئے پیوند بھی کھل گئے ھیں اور جو پالش بچانے کے لیے آپ نے کالا رنگ کیا تھا وہ بھی اتر گیا ھے۔
بابا
آپ سن رھے ھیں نہ
ننھے وسیم نے ذرا اونجی آواز میں کہا
غلام حسین نے نہ سننے کی اداکاری کرتے ھوئے کہا
نہیں کیا کہا تم نے، میں نے سننا نہیں
بابا آپ ھیمشہ ایسے ھی کرتے ھیں
میں جب بھی آپ سے کسی چیز کی فرمائش کرتا ھوں، آپ یونہی ٹال دیتے ھیں
آپ بہت گندے ھیں
وسیم نے تقریبا روتے ھوئے کہا
ارے میری جان، کیا ھوا؟
ارے جوتا چاھیے، مجھے پتا ھے۔
تجھے لا دوں گا نئے جوتے
اس مھینے کی تنخواہ تو مل لینے دے
غلام حسین غریب ابنِ غریب تھا اور اسکا باپ بھی غریب ابن غریب ۔وہ شاید ان لوگوں میں سے تھا جو ازل سے مرضِ غربت کا شکارچلے آئے ھیں اور ابد تک اس کا شکار رھیں گے۔ اسکی تمام مرضوں، تمام مشکلوں ،تمام مسئلوں، تمام غموں اور تمام الجھنوں کا حل پیسے میں ھی پنہاں تھا۔ عمر لگ بھگ اڑتیس سال رھی ھوگی، سر اور داڑھی کے بال ملگجے تھے۔ محرومیوں اور مجبوریوں کا بوجھ اتنا تھا کھ اٹھاتے اٹھاتے کمر جھک گئی تھی وقت اور حالات تے چہرے پر ایسی کشیدہ کاری کی تھی۔ کہ ھر محرومی، ہر مجبوری، ھر غم، ھر ستم چہرے سے عیاں تھا، کمر کسی حد تک جھک چکی تھی۔ اپنی عمر سے تقریبا دوگنی عمر کا لگتا تھا۔ اس کا بچپن کیا تھا ، محرومیوں کا سمندر تھا۔ جس چیز کی طرف ھاتھ بڑھایا وہ دور ھوگئی جس چیز کی طرف آنکھ اٹھائی وہ نظروں سے اوجھل ھوگئی۔ تمام خواھشیں بس خواب ھی رھیں۔ تمام حسرتیں بس حسرتیں رھیں۔ تمام آرزویں بس سراب ھی رہیں۔ اسے لگا کے وہ اچا نک بڑا ھو گیا اور ایک غلام کی طرح اپنے آقاوں کے حکم بجا لانے لگا۔ شادی ھوئی تو نئی امنگوں نے سر اٹھایا۔ اولاد ھوئی تو امنگوں کو نئی جہت مل گئی۔ اپنی ساری محرومیاں بھول کر اپنے ننھے پھول کے لیے پھر سے خواب سجانے لگا۔ یہ ننھا پھول وسیم تھا
غلام حسین ایک رنگ وروغن بنانے والے کارخانے میں ملازم تھا بارہ گھنٹے کام اور اپنی مجبوریوں کو گروی رکھنے کے عوض پانچ ھزار روپے ماھوار تنخواہ پاتا تھا۔ جب وسیم پیدا ھوا تو اسے اچھا مستقبل دینے کے لیے اس نے اوور ٹائم بھی لگانا شروع کردیا۔ حالانکھ وہ جانتا تھا کے بیس روپے گھنٹا کے حساب سے اوور ٹائم لگا کر وہ زیادہ کچھ نھیں کرسکتا لیکن یہ انسان بھی عجیب شئے ھے۔ ذرا سی خوشی ملی نھیں کہ خواب دیکھنے لگتا ھے۔ یہ بھی نھیں سوچتا کے جب یہ خواب ٹوٹے تو ان کی کرچیاں روح تک کو زخمی کردیں گی۔ غرض چودہ پندرہ گھنٹے کام کرکے کوئی چھ سات ھزار روپے ماہانہ کماتا تھا۔ بیٹا چار سال کا ھوا تو اسکول کی فکر ھوئی۔ اتنی آمدنی والے شخص کے لیے اپنی اولاد کو سکول بھیجنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا ۔ فیکڑی سے پیشگی تنخواہ لے کر بیٹے کو جیسے کیسے سکول میں داخل کروا دیا۔ اسے کیا پتھ تھا کے سکول میں کتابوں کے علاوہ اور بھی اخراجات ہیں۔ تازہ خرچ نئے جوتے کی فرمائش تھی۔
غلام حسین نے بیٹے کو بہلایا اور دسمبر کی پہلی تاریخ پر نیا جوتا لیے کر دینے کا وعدہ کیا۔ غلام حسین کا بیٹا
دوسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ طبیعت کا ضدی واقع ھوا تھا جس چیز کی ضد باندھ لیتا اسے پورا کر کے ھی چھوڑتا۔ کچھ ایسا ھی نئے جوتے کی فرمائش پر ھوا تھا۔ باپ کو راضی کر کے ھی دم لیا تھا اس نے۔
آج مھینے کی پہلی تاریخ تھی اور وسیم سکول سے واپس آکر بڑی بے چینی سے ٰغلام حسین کا انتظار کر رھا تھا۔ اسی بے چینی میں اس نے دوپہر کا کھانا بھی صیحح طور پر نھیں کھایا تھا۔ شام چھ بجے دروازے پر دستک ھوئی تو ننگے پاوں ھی دروازے پر پہنچا۔
بابا میرے جوتے
وسیم نے بڑی لجاحت سے پوچھا
بیٹا گھر کے اندر تو آ لینے دے۔ غلام حسین نے پچکارتے ھوئے کہا
وسیم دروازے سے ھٹ گیا۔ مگر جیسے ھی باپ دروازے سے اندر داخل ھوا اس نے پھر جوتے کا واویلہ مچا دیا۔
بیٹا میری بات سنو۔ میں مارکیٹ گیا تھا اور ایک جوتا بھی مجھے پسند آگیا تھا لیکن اس خیال سے چھوڑ آیا کہ شاید تمھیں پسند نہ آئے۔ ابھی کھانا کھا کر بازار چلتے ھیں۔ تم اپنی پسند سے جوتا خرید لینا۔ غلام حسین نے جوتا نہ لانے کی وضاحت کرے ھوئے وسیم سے کہا۔
وسیم پہلے تو رویا پھر اس خیال سے کہ چلو اسی بہانے سیر بھی ھو جائے گی اور آئس کریم بھی کھانے کو ملے گی چپ ھو گیا۔
سات بج چکے تھے غلام حسین کھانا کھا کر بازار جانے کے لیے تیار تھا۔ وسیم اس سے پہلے ھی تیار بیٹھا تھا۔ غلام حسین نے اپنی سائیکل نکالی وسیم کو اس پر بیٹھایا اور بازار کی طرف راونہ ھوا۔ چند منٹوں میں دونوں باپ بیٹا بازار پہنچ گئے۔ غلام حسین نے سائیکل محفوظ جگہ پر کھڑی کی اسے تالہ لگایا اور جوتوں کی دوکان کی طرف بڑھے۔
بابا میں نے وہ جوتا لینا ھے۔ نھیں یہ لینا ھے۔ وہ زیادہ اچھا ھے۔ وسیم جوتا پسند کرنے میں بہت دیر لگا رھا تھا۔ وہ بہت سارے جوتے دیکھنے کی وجہ سے فیصلہ نہیں کر پا رھا تھا۔ اس کا دل للچا رھا تھا۔ اسکا بس چلتا تو پوری دوکان ھی گھر اٹھا لاتا۔ بہرحال خدا خدا کرے کے ایک جوتا اسے پسند آیا ۔ غلام حسین نے پیسے ادا کیے اور دونوں خوشی خوشی دوکان سے نکلے۔ جونھی وہ اس جگہ پہنچے جہاں سائیکل کھڑی کی تھی۔ غلام حسین نے دیکھا کہ ایک تیز چمک اسکی طرف لپکی ھے۔ اس چمک کے ساتھ پتھر، لوھے اور آگ کا طوفان ھے۔ اس نے بجلی کی سی رفتار سے وسیم کو اپنی گود میں اٹھایا، اسے اپنے سینے سے چمٹایا اپنے گلے سے لگایا اور اپنی پیٹھ اس آگ پتھر اور لوھے کے طوفان کی طرف کردی۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ موت سینکڑوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اس کی طرف بڑھ رھی ھے۔ ایسے میں وہ اپنی جان پر کھیل کر ھی اپنی جان یعنی اپنے بیٹے کو بچا سکتا ھے۔ ایک زور دار دھماکہ ھوا اور موت سینکڑوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اس کے بدن سے ٹکرا گئی۔ وہ ٹکڑے ٹکڑے ھو گیا۔ مگر اسے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرتے ھوئے بھی اپنی اس ننھی سی جان کی فکر تھی۔
جس بازار میں وہ جوتا خریدنے کے لیے گئے تھے وھاں کسی سستی اور ارزا ں جنت کے طالب نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔ خود وہ واصلِ جھنم ھوا تھا اور کئی معصوم جانوں کو جام شھادت نوش کرا گیا تھا۔ اس اسلام کے نام نھاد خدمت گار، حوروں کے طلب گار نے دینا سے بیس سے زائد دشمنانِ اسلام کو دنیا سے مٹا دیا تھا۔
وسیم کو ھوش آیا تو وہ ایک سفید بستر پر دراز تھا۔ پورا جسم سفید پٹیوں سے اٹا ھوا تھا۔ پاوں بریدہ ٹانگوں کے پاس خون میں لتھڑا ھوا نیا جوتا پڑا تھا
بابا
آپ سن رھے ھیں نہ
ننھے وسیم نے ذرا اونجی آواز میں کہا
غلام حسین نے نہ سننے کی اداکاری کرتے ھوئے کہا
نہیں کیا کہا تم نے، میں نے سننا نہیں
بابا آپ ھیمشہ ایسے ھی کرتے ھیں
میں جب بھی آپ سے کسی چیز کی فرمائش کرتا ھوں، آپ یونہی ٹال دیتے ھیں
آپ بہت گندے ھیں
وسیم نے تقریبا روتے ھوئے کہا
ارے میری جان، کیا ھوا؟
ارے جوتا چاھیے، مجھے پتا ھے۔
تجھے لا دوں گا نئے جوتے
اس مھینے کی تنخواہ تو مل لینے دے
غلام حسین غریب ابنِ غریب تھا اور اسکا باپ بھی غریب ابن غریب ۔وہ شاید ان لوگوں میں سے تھا جو ازل سے مرضِ غربت کا شکارچلے آئے ھیں اور ابد تک اس کا شکار رھیں گے۔ اسکی تمام مرضوں، تمام مشکلوں ،تمام مسئلوں، تمام غموں اور تمام الجھنوں کا حل پیسے میں ھی پنہاں تھا۔ عمر لگ بھگ اڑتیس سال رھی ھوگی، سر اور داڑھی کے بال ملگجے تھے۔ محرومیوں اور مجبوریوں کا بوجھ اتنا تھا کھ اٹھاتے اٹھاتے کمر جھک گئی تھی وقت اور حالات تے چہرے پر ایسی کشیدہ کاری کی تھی۔ کہ ھر محرومی، ہر مجبوری، ھر غم، ھر ستم چہرے سے عیاں تھا، کمر کسی حد تک جھک چکی تھی۔ اپنی عمر سے تقریبا دوگنی عمر کا لگتا تھا۔ اس کا بچپن کیا تھا ، محرومیوں کا سمندر تھا۔ جس چیز کی طرف ھاتھ بڑھایا وہ دور ھوگئی جس چیز کی طرف آنکھ اٹھائی وہ نظروں سے اوجھل ھوگئی۔ تمام خواھشیں بس خواب ھی رھیں۔ تمام حسرتیں بس حسرتیں رھیں۔ تمام آرزویں بس سراب ھی رہیں۔ اسے لگا کے وہ اچا نک بڑا ھو گیا اور ایک غلام کی طرح اپنے آقاوں کے حکم بجا لانے لگا۔ شادی ھوئی تو نئی امنگوں نے سر اٹھایا۔ اولاد ھوئی تو امنگوں کو نئی جہت مل گئی۔ اپنی ساری محرومیاں بھول کر اپنے ننھے پھول کے لیے پھر سے خواب سجانے لگا۔ یہ ننھا پھول وسیم تھا
غلام حسین ایک رنگ وروغن بنانے والے کارخانے میں ملازم تھا بارہ گھنٹے کام اور اپنی مجبوریوں کو گروی رکھنے کے عوض پانچ ھزار روپے ماھوار تنخواہ پاتا تھا۔ جب وسیم پیدا ھوا تو اسے اچھا مستقبل دینے کے لیے اس نے اوور ٹائم بھی لگانا شروع کردیا۔ حالانکھ وہ جانتا تھا کے بیس روپے گھنٹا کے حساب سے اوور ٹائم لگا کر وہ زیادہ کچھ نھیں کرسکتا لیکن یہ انسان بھی عجیب شئے ھے۔ ذرا سی خوشی ملی نھیں کہ خواب دیکھنے لگتا ھے۔ یہ بھی نھیں سوچتا کے جب یہ خواب ٹوٹے تو ان کی کرچیاں روح تک کو زخمی کردیں گی۔ غرض چودہ پندرہ گھنٹے کام کرکے کوئی چھ سات ھزار روپے ماہانہ کماتا تھا۔ بیٹا چار سال کا ھوا تو اسکول کی فکر ھوئی۔ اتنی آمدنی والے شخص کے لیے اپنی اولاد کو سکول بھیجنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا ۔ فیکڑی سے پیشگی تنخواہ لے کر بیٹے کو جیسے کیسے سکول میں داخل کروا دیا۔ اسے کیا پتھ تھا کے سکول میں کتابوں کے علاوہ اور بھی اخراجات ہیں۔ تازہ خرچ نئے جوتے کی فرمائش تھی۔
غلام حسین نے بیٹے کو بہلایا اور دسمبر کی پہلی تاریخ پر نیا جوتا لیے کر دینے کا وعدہ کیا۔ غلام حسین کا بیٹا
دوسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ طبیعت کا ضدی واقع ھوا تھا جس چیز کی ضد باندھ لیتا اسے پورا کر کے ھی چھوڑتا۔ کچھ ایسا ھی نئے جوتے کی فرمائش پر ھوا تھا۔ باپ کو راضی کر کے ھی دم لیا تھا اس نے۔
آج مھینے کی پہلی تاریخ تھی اور وسیم سکول سے واپس آکر بڑی بے چینی سے ٰغلام حسین کا انتظار کر رھا تھا۔ اسی بے چینی میں اس نے دوپہر کا کھانا بھی صیحح طور پر نھیں کھایا تھا۔ شام چھ بجے دروازے پر دستک ھوئی تو ننگے پاوں ھی دروازے پر پہنچا۔
بابا میرے جوتے
وسیم نے بڑی لجاحت سے پوچھا
بیٹا گھر کے اندر تو آ لینے دے۔ غلام حسین نے پچکارتے ھوئے کہا
وسیم دروازے سے ھٹ گیا۔ مگر جیسے ھی باپ دروازے سے اندر داخل ھوا اس نے پھر جوتے کا واویلہ مچا دیا۔
بیٹا میری بات سنو۔ میں مارکیٹ گیا تھا اور ایک جوتا بھی مجھے پسند آگیا تھا لیکن اس خیال سے چھوڑ آیا کہ شاید تمھیں پسند نہ آئے۔ ابھی کھانا کھا کر بازار چلتے ھیں۔ تم اپنی پسند سے جوتا خرید لینا۔ غلام حسین نے جوتا نہ لانے کی وضاحت کرے ھوئے وسیم سے کہا۔
وسیم پہلے تو رویا پھر اس خیال سے کہ چلو اسی بہانے سیر بھی ھو جائے گی اور آئس کریم بھی کھانے کو ملے گی چپ ھو گیا۔
سات بج چکے تھے غلام حسین کھانا کھا کر بازار جانے کے لیے تیار تھا۔ وسیم اس سے پہلے ھی تیار بیٹھا تھا۔ غلام حسین نے اپنی سائیکل نکالی وسیم کو اس پر بیٹھایا اور بازار کی طرف راونہ ھوا۔ چند منٹوں میں دونوں باپ بیٹا بازار پہنچ گئے۔ غلام حسین نے سائیکل محفوظ جگہ پر کھڑی کی اسے تالہ لگایا اور جوتوں کی دوکان کی طرف بڑھے۔
بابا میں نے وہ جوتا لینا ھے۔ نھیں یہ لینا ھے۔ وہ زیادہ اچھا ھے۔ وسیم جوتا پسند کرنے میں بہت دیر لگا رھا تھا۔ وہ بہت سارے جوتے دیکھنے کی وجہ سے فیصلہ نہیں کر پا رھا تھا۔ اس کا دل للچا رھا تھا۔ اسکا بس چلتا تو پوری دوکان ھی گھر اٹھا لاتا۔ بہرحال خدا خدا کرے کے ایک جوتا اسے پسند آیا ۔ غلام حسین نے پیسے ادا کیے اور دونوں خوشی خوشی دوکان سے نکلے۔ جونھی وہ اس جگہ پہنچے جہاں سائیکل کھڑی کی تھی۔ غلام حسین نے دیکھا کہ ایک تیز چمک اسکی طرف لپکی ھے۔ اس چمک کے ساتھ پتھر، لوھے اور آگ کا طوفان ھے۔ اس نے بجلی کی سی رفتار سے وسیم کو اپنی گود میں اٹھایا، اسے اپنے سینے سے چمٹایا اپنے گلے سے لگایا اور اپنی پیٹھ اس آگ پتھر اور لوھے کے طوفان کی طرف کردی۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ موت سینکڑوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اس کی طرف بڑھ رھی ھے۔ ایسے میں وہ اپنی جان پر کھیل کر ھی اپنی جان یعنی اپنے بیٹے کو بچا سکتا ھے۔ ایک زور دار دھماکہ ھوا اور موت سینکڑوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اس کے بدن سے ٹکرا گئی۔ وہ ٹکڑے ٹکڑے ھو گیا۔ مگر اسے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرتے ھوئے بھی اپنی اس ننھی سی جان کی فکر تھی۔
جس بازار میں وہ جوتا خریدنے کے لیے گئے تھے وھاں کسی سستی اور ارزا ں جنت کے طالب نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔ خود وہ واصلِ جھنم ھوا تھا اور کئی معصوم جانوں کو جام شھادت نوش کرا گیا تھا۔ اس اسلام کے نام نھاد خدمت گار، حوروں کے طلب گار نے دینا سے بیس سے زائد دشمنانِ اسلام کو دنیا سے مٹا دیا تھا۔
وسیم کو ھوش آیا تو وہ ایک سفید بستر پر دراز تھا۔ پورا جسم سفید پٹیوں سے اٹا ھوا تھا۔ پاوں بریدہ ٹانگوں کے پاس خون میں لتھڑا ھوا نیا جوتا پڑا تھا