جاوید اختر نیا حکم نامہ

فہد اشرف

محفلین
کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا
چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرناہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سب ہی جانتے ہیں
×××
کسی کا حکم ہے
دریا کی لہریں
ذرا یہ سرکشی کم کرلیں
اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا اور بکھرنا
اور بکھر کر پھر ابھرنا
غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت
بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی
یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا
×××
کسی کا حکم ہے اس گلستاں میں
بس اب اک رنگ کے ہی
پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوں گے
جو یہ طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا
یقیناً پھول یک رنگی تو ہوں گے
مگر یہ رنگ ہوگا
کتنا گہرا، کتنا ہلکا
یہ افسر طے کریں گے
×××
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
گلستاں میں کہیں بھی
پھول یک رنگی نہیں ہوتے
کبھی ہوہی نہیں سکتے
کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر
بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنہوں نے باغ
یک رنگی بنانا چاہے تھے
ان کو ذرا دیکھو
کہ جب اک رنگ میں
سو رنگ ظاہر ہوگئے ہیں تو
وہ اب کتنے پریشاں ہیں
وہ کتنے تنگ رہتے ہیں
×××
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں
کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں
حاکموں کی مٹھیوں میں
ہتھکڑی میں قید خانوں میں
نہیں رکتیں
یہ لہریں
روکی جاتی ہیں
تودریا جتنا بھی ہو پر سکوں
بے تاب ہوتا ہے
اور اس بے تابی کا اگلا قدم
سیلاب ہوتا ہے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
 

فاخر رضا

محفلین
کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا
چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرناہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سب ہی جانتے ہیں
×××
کسی کا حکم ہے
دریا کی لہریں
ذرا یہ سرکشی کم کرلیں
اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا اور بکھرنا
اور بکھر کر پھر ابھرنا
غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت
بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی
یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا
×××
کسی کا حکم ہے اس گلستاں میں
بس اب اک رنگ کے ہی
پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوں گے
جو یہ طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا
یقیناً پھول یک رنگی تو ہوں گے
مگر یہ رنگ ہوگا
کتنا گہرا، کتنا ہلکا
یہ افسر طے کریں گے
×××
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
گلستاں میں کہیں بھی
پھول یک رنگی نہیں ہوتے
کبھی ہوہی نہیں سکتے
کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر
بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنہوں نے باغ
یک رنگی بنانا چاہے تھے
ان کو ذرا دیکھو
کہ جب اک رنگ میں
سو رنگ ظاہر ہوگئے ہیں تو
وہ اب کتنے پریشاں ہیں
وہ کتنے تنگ رہتے ہیں
×××
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں
کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں
حاکموں کی مٹھیوں میں
ہتھکڑی میں قید خانوں میں
نہیں رکتیں
یہ لہریں
روکی جاتی ہیں
تودریا جتنا بھی ہو پر سکوں
بے تاب ہوتا ہے
اور اس بے تابی کا اگلا قدم
سیلاب ہوتا ہے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
یہ بھی وقار اور عظمی' ہی کے متعلق ہے
 

فہد اشرف

محفلین
بہت خوبصورت نظم ہے۔ اعلیٰ
شکریہ نیرنگ بھائی
کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر
زبردست۔ کلام شاعر بہ زبان شاعر سنوانے کے لیے شکریہ۔
انتخاب کی پذیرائی کے لیے شکریہ
یہ بھی وقار اور عظمی' ہی کے متعلق ہے
کوئی ماہرِ وقاریات اور عظمیات ہی بتا سکتا ہے :)
 
کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا
چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرناہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سب ہی جانتے ہیں

کسی کا حکم ہے
دریا کی لہریں
ذرا یہ سرکشی کم کرلیں
اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا اور بکھرنا
اور بکھر کر پھر ابھرنا
غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت
بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی
یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا


کسی کا حکم ہے
اس گلستاں میں بس
اب اک رنگ کے ہی پھول ہوں گے
کچھ افس ہوں گے
جو یہ طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا
یقیناً پھول یک رنگی تو ہوں گے
مگر یہ رنگ ہوگا
کتنا گہرا، کتنا ہلکا
یہ افسر طے کریں گے

کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
گلستاں میں کہیں بھی
پھول یک رنگی نہیں ہوتے
کبھی ہوہی نہیں سکتے
کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر
بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنہوں نے باغ
یک رنگی بنانا چاہے تھے

ان کو ذرا دیکھو
کہ جب اک رنگ میں
سو رنگ ظاہر ہوگئے ہیں تو
وہ اب کتنے پریشاں ہیں
وہ کتنے تنگ رہتے ہیں
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں
کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں
حاکموں کی مٹھیوں میں
ہتھکڑی میں قید خانوں میں
نہیں رکتیں
یہ لہریں
روکی جاتی ہیں
تو دریا جتنا بھی ہو پر سکوں
بے تاب ہوتا ہے
اور اس بے تابی کا اگلا قدم
سیلاب ہوتا ہے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
 

فرخ منظور

لائبریرین
زبردست ۔۔۔! جاوید اختر کے والد جانثار اختر اور دادا مضطر خیر آبادی بھی کمال کے شاعر تھے ۔۔۔! جاوید صاحب علامہ فضل حق خیر آبادی کی لڑی سے ہیں اور یہ مزاحمتی لہجہ اور مزاج تو شاید انہیں ورثے میں ملا ہے ۔۔۔!

ایک دلچسپ بات کہ پہلے جاوید اختر شاعری نہیں کرتے تھے بلکہ سلمان خان کے والد جاوید کے ساتھ مل کر "سلیم، جاوید" کے نام سے فلموں کی کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ یش چوپڑہ کے کہنے پر شاعری شروع کی یش چوپڑہ نے کہا کہ تمھارے باپ دادا سب شاعر تھے تو تم کیوں نہیں شاعری کرتے۔ اور یوں سب سے پہلے یش چوپڑہ کی 1981 میں بنائی فلم "سلسلہ" کے لیے گیت لکھے۔
 
آخری تدوین:
Top